غریب عوام کی عذاب زندگی اور صدارتی خطاب۔ چودھری احسن پر یمی



صدرمملکت آصف علی زرداری نے بھارت کے دفاعی بجٹ میں اضافے پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ گیا ہے پاکستان اس حوالے سے پوری طرح آگاہ ہے ۔ ہم قومی دفاع کیلئے ہر ممکن اقدامات کریں گے ۔تاہم اسلحے کی دوڑ میں شامل نہیں ہو ں گے ۔ صدر نے گزشتہ پیر کے روز پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کا پیکج پیش کر کے کسی پر احسان نہیں کیا بلکہ ایک فرض تھا جسے پورا کیا گیا۔ شام کو ہونے والے اس خطاب میں صدر زرداری نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم پیش کر کے پیپلز پارٹی کی حکومت تاریخ رقم کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس مسئلے میں تمام سیاسی جماعتوں نے بالغ نظری کا مظاہرہ کیا۔صدر نے کہا کہ انھوں نے دو سال پہلے کہا تھا کہ سترویں ترمیم پر نظرِ ثانی ہونی چاہیے جبکہ گزشتہ سال انھوں نے کہا تھا کہ آٹھویں ترمیم ختم ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ تیس برسوں میں آئین میں اتنی اہم اور بڑی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔آصف زرداری نے کہا کہ گزشتہ برس نومبر میں انھوں نے بغیر کسی مطالبے یا تقاضے کے، نیشنل کمانڈ اتھارٹی وزیرِ اعظم اور پارلیمان کے حوالے کر دی تھی۔انھوں نے کہا کہ ’آئیے عہد کریں کہ ہم آئین کی بالادستی قائم کریں گیاور اس مقصد کے لیے ریاست کے ہر رکن کو کام کرنا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ حکومت شدت پسندی کا مقابلہ آخری دم تک کریں گے اور اس ملک کو شدت پسندوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سر زمین شدت پسندی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔صدر زرداری نے کہا کہ پاکستان خطے میں اسلحے کی دوڑ کے خلاف ہے اور اپنے ہمسایوں سے مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے چاہتا ہے۔ انھوں نے بھارت کے دفاعی بجٹ پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ شدت پسندی کو ڈائیلاگ کے ذریعے بہتر انداز سے نمٹا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان سارک کے فریم ورک میں تعاون جاری رکھے گا۔صدر زرداری نے کہا کہ ’بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت کمزور ہے۔ حکومت کمزور ہو سکتی ہے مگر غیر ذمہ دار نہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد تاریخی اٹھارہویں ترمیم کو منظور کر کے 1973ءکے آئین کو اس کی روح کے مطابق بحال کرے جس کا عوام بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں ۔۔ صدر نے کہاکہ اٹھارہویں ترمیم سے آئین مکمل جمہوری اور وفاقی شکل اختیار کرے گا اور اس سے ملک کے ادارے مضبوط ہوں گے۔ انہوں نے آج کے دن کو شہید بے نظیر بھٹو کا دن قرار دیا جب سیاسی جماعتیں متفقہ کوششوں سے آئین کو اس کی اصل صورت میں بحال کر رہی ہیں۔ صدر زرداری نے کہاکہ اس ترمیم سے عوام کے بنیادی حقوق بحال اور صوبوں کو خود مختاری ملے گی۔ انہوں نے کہاکہ اٹھارہویں ترمیم ان کے اس وعدے کی تکمیل ہے جو انہوں نے گزشتہ سال پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کیا تھا کہ وہ آئین کی بالادستی اور پارلیمان کی خود مختاری بحال کریں گے ۔انہوں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی اور آج ہم عوام سے کیا ہوا وعدہ پورا کر رہے ہیں۔ صدر زرداری نے کہا کہ شہید بے نظیر بھٹو آئین اور پارلیمان کو بالادست دیکھنا چاہتی تھیں اور آج ہم ان کا وعدہ پورا کر کے ملک کو حقیقی جمہوریت کی جانب گامزن کر رہے ہیں ۔ صدر زرداری نے کہاکہ تمام اداروں کو ملک اور جمہوریت کے استحکام کیلئے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے تاکہ ہم تیزی سے عوام کے مسائل حل کر سکیں ۔ انہوں نے کہاکہ بے شک عوام کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے اور ان کی آمدنی میں کمی ہو رہی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے گی۔حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر نے کہاکہ حکومت نے بلوچستان کی سیاسی اور معاشی محرومیاں دور کرنے کیلئے آغاز حقوق بلوچستان کا اعلان کیا اور گلگت بلتستان کو صوبائی خود مختاری دی ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے غربت کے خاتمے کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا جس سے5لاکھ گھرانے مستفید ہوں گے ۔ صدر نے کہا کہ حکومت عدلیہ کا بہت احترام کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے عوام کو انصاف فراہم کرے ۔انہوں نے کہاکہ عدلیہ کے ارکان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے عوام کو یقین دلایا کہ انہیں جلد انصاف کی فراہمی کیلئے اقدامات کئے جائیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت میڈیاکی آزادی کیلئے پر عزم ہے ۔ صدر زرداری نے کہاکہ حکومت بلا امتیاز احتساب کو یقینی بنائے گی اور کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں ہو گی ۔ انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کا کمیشن بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بارے میں جلد ہی رپورٹ پیش کر دے گا اس حوالے سے قومی سطح پر بھی تحقیقات کی جائیں گی ۔ صدر زرداری نے کہاکہ مسئلہ کشمیر کا کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل چاہتے ہیںہم خطے میں اسلحے کی دوڑ نہیں چاہتے امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہیں پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں ہماری خارجہ پالیسی واضح ہے ۔ صدر نے کہا کہ عالمی برادری ہمیں امداد نہیں ہم سے تجارت کرے ۔ صدر نے کہاکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے اٹھارہویں ترمیم جب منظور ہو جائے گی 2010قومی مفاہمت کا سال ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ انیس سو تہتر کے آئین کو باربار پامال کیا گیا،آئینی اصلاحات پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر فخر ہے،اٹھارہ ویں ترمیم سے پارلیمنٹ کی بالادستی دوبارہ بحال کردی گئی۔انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو تاریخ میں زندہ رہیں گی،انہوں نے دہشت گردوں کے سامنے سر نہیں جھکایا، ان کا فلسفہ جمہوریت بہترین بدلہ ہے، آج صحیح ثابت ہوا۔صدرزرداری نے کہا کہ ہمیں جب حکومت ملی تو معیشت کا برا حال تھا، ہم نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے ملک کو معاشی استحکام کے راستے پر گامزن کیا،بین الاقوامی کریڈٹ کمپنیوں نے پاکستان کی ریٹنگ بہتر کردی۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے سامنے جھکنے کیلئے تیار نہیں،اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض افراد نے رینٹل پاور پراجیکٹس کو متنازع بنا دیا،بجلی اور پانی کے بحران کا احساس ہے، بحران کے حل کیلئے اقدامات کر رہے ہیں،32 چھوٹے اور بڑے ڈیم تعمیر کیے جارہے ہیں،زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے عام آدمی کو فائدہ ہوا،لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کمیشن بنایا گیا۔
پٹرول،ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ سے مہنگائی کی ایک اور تباہ کن لہر شروع ہوگئی ہے جو ثابت کر تی ہے کہ معیشت دن بدن انحطاط کی طرف جا رہی ہے۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ بحالی معیشت کیلئے نہ صرف ٹھوس منصوبہ بندی کرے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کروائے۔بصورت دیگر کمر توڑ مہنگائی ،برداشت سے زائد بجلی کی لوڈ شیڈنگ حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندیوں اورغیر ملکی بڑھتی ہوئی مداخلت کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مسلح ومالیاتی دہشت گردی قوم کوسول نافرمانی پر اکسا رہی ہے جس کے نتیجے میں حکمرانوں کے اقتدار بہہ جائیں گے۔ بڑھتا ہوا مہنگائی کا طوفان ملک کی گرتی ہوئی معیشت کا ثبوت ہے۔عوام الناس خصوصاً غریب اور متوسط طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بلوں میں اضافہ عوام کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ خود واپڈا اورتمام ملکی ادارے اور اشرافیہ بجلی چوری میں ملوث ہیں جس کا بوجھ عوام الناس پر پڑ رہا ہے۔ عوام الناس خصوصاً غریب و متوسط طبقات کی زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے جس سے ان کے مصائب میں روزبروز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بلوں میں اضافہ سے زندگی مفلوج ہو گئی ہے۔اگر واپڈا خود اور تمام ملکی ادارے اور اشرافیہ یعنی5فیصد امراءبجلی کی چوری اور زیاں ختم کردیں تو عوام کو بھی کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔
جبکہ صدر آصف علی زرداری نے 2008 ءاور 2009 ءمیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں سے خطابات میں جن اہم اقدامات کا اعلان کیا تھا ۔ بعض پر عملدرآمد ممکن ہوا بعض اعلانات شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے ۔ صدر آصف علی زرداری نے 20 ستمبر 2008 ءاور 28 مارچ 2009 ءکو پارلیمنٹ کے اجلاسوں سے خطابات کے دوران 17 ویں ترمیم اور 58 ٹو بی کی منسوخی کا عزم کیا تھا ۔ پہلے خطاب میں آئینی ترامیم کے لئے کل جماعتی کمیٹی کی تجویز دی تھی ۔ ایک سال تک کمیٹی تشکیل نہ پانے پر صدر مملکت نے 28 مارچ 2009 ءکو اپنے دوسرے خطاب میں ایک بار پھر سپیکر سے درخواست کی تھی ۔ یہ کمیٹی بقیہ مزید تاخیر کے قائم کر دی جائے ۔ صدر مملکت نے اپنے دونوں خطابات میں 17 ویں ترمیم اور 58 ٹو بی پر ہی نظرثانی کل جماعتی کمیٹی بنانے کی تجویز دی تھی ۔ تاہم 3 ماہ کے بعد جب 23 جون 2009 ءکو پارلیمانی آئینی کمیٹی قائم ہوئی تو مکمل آئینی پیکج کا مسودہ تیار کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا تھا ۔ جس میں وہ کامیاب رہی ہے ۔ اس طرح آئینی ترامیم کے حوالے سے صدر کا اعلان اضافی آئینی پیکج ساتھ شرمندہ تعبیر ہوا ۔ صدر نے بلوچستان اورر شمالی علاقوں کو حقوق دینے کے اعلان کئے تھے ۔ آغاز حقوق بلوچستان آ چکا ہے جبکہ گلگت بلتستان کو داخلی مختاری کے ساتھ آزاد و خود مختار قانون ساز ادارہ گورنر اور وزیر اعلیٰ مل چکے ہیں ۔ صدر نے اپنے دونو ں خطابات میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی عزم کا اظہار کیا تھا ۔ انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں تجویز دی تھی ۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں پارلیمنٹ حکمت عملی طے کرے ۔ تاہم اس حوالے سے صدارتی اعلان میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی ۔ صدر نے دونوں خطابات میں ملکی آزادی و خود مختاری ‘ علاقائی سالمیت کے تحفظ کا عزم بھی کیا تھا ۔ پہلے خطاب میں صدر نے واضح طور پر کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کسی کو پاکستانی حدود کی خلاف ورزی نہیں کرنے دیں گے ۔ ان صدارتی اعلانات کے باوجود فاٹا کے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرونز کے حملوں کا سلسلہ جاری ہے ۔جن میں متعدد قبائلی ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جاں بحق ہو چکے ہیں ۔ اور صدر جبکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے والے ہیں ڈرون حملوں کا سدباب نہیں ہو سکا ہے ۔ پارلیمنٹ سے صدر نے اپنے خطابات میں صوبہ سرحد کو پختونخوا کے نام سے پکارا تھا ۔ پارلیمانی کمیٹی اس جانب پیش رفت کر چکی ہے ۔ صوبے کے لئے خیبر پختونخواہ کے نام سے آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں آ چکی ہے ۔ صدر وزیر اعظم کی ہمیشہ پارلیمنٹ سے رہنمائی لینے کا اعلان بھی کیا تھا ۔ تاہم ان دو سالوں میں اہم فیصلے ایوان صدر ہی میں ہوئے ہیں ۔ حکومت کو اہم ایشوز پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا اعزاز ضرور حاصل ہوا ہے۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کا مسودہ پارلیمان میں پیش کیے جانے کے بعد صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ پیر کے روز اس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔آئین کے آرٹیکل 56کے مطابق ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر مملکت کا خطاب لازم ہوتا ہے ۔ یہ پارلیمان کااکیسواں مشترکہ اجلاس تھاجس سے خطاب کرنے والے آصف علی زرداری ملک کے چھٹے صدر ہیں۔مشترکہ اجلاس کے بعد چھ اپریل کوقومی اسمبلی اور سینٹ کا علیحدہ علیحدہ اجلاس شروعہوگیا ہے جس میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے مسودہ پر بحث شروع ہو گی۔حکومتی عہدیداروں کے مطابق اس ترمیم کا مقصد 1973ءکے آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنا ہے اور فوجی دور حکومت میں کی جانے والی ترامیم کو ختم کرنا ہے ۔گڑھی خدا بخش میں پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو کی برسی کے سلسلے میں منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم ملک میں پائیدار جمہوریت کو یقینی بنائے گی۔ان کا کہنا ہے تھا کہ مجوزہ ترمیم آمریت پر اقتدار کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دے گی۔انھوں نے کہا کہ ”طاقت کا سرچشمہ عوام اور پارلیمان میں اس سے پہلے کہ مجھے کہا جاتا میں نے خود ہی کمانڈاینڈ کنٹرول سسٹم منتقل کر دیا ہے“۔خیال رہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 58-2(B)کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے اور مسلح افواج کے سربراہان کے تقرر کا اختیار صدر سے وزیر اعظم کو منتقل کرنے کی تجویز ہے جس کے بعد اقتدار کا مرکز وزیر اعظم اور صدر کی حیثیت مملکت کے علامتی سربراہ کی ہو گی۔اے پی ایس