بحالی جمہوریت کیلئے نصرت بھٹو کا اہم کردار۔چودھری احسن پریمی



گزشتہ سوموار کوگڑھی خدا بخش میں بیگم نصرت بھٹو کو ذوالفقار بھٹو کے پہلو میں سپردخاک کردیا گیا۔نمازہ جنازہ کے دوران سخت سیکیورٹی انتظامات کئے گئے تھے اور مزار کو عوام کے لئے بند کردیا گیاتھا۔نمازہ جنازہ میں صدر آصف علی زرداری،وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی اور بلاول بھٹو کے علاوہ اہم وفاقی وزراءنے بھی شرکت کی۔ بیگم نصرت بھٹو کی میت دبئی سے گڑھی خدا بخش پہنچی تھی۔بیگم نصرت بھٹو کی میت لے کر دبئی سے خصوصی طیارہ سکھر ائیرپورٹ پہنچا۔ بلاول بھٹو، بختاور، آصفہ اور صنم بھٹو بھی میت کے ہمراہ تھیں۔ اس سے قبل بیگم نصرت بھٹو کی میت بذریعہ ہیلی کاپٹرنوڈیرو لیجائی گئی، بیگم نصرت بھٹو کی نماز جنازہ نوڈیروہاوس میں ادا کی گئی ، بیگم نصرت بھٹو کی نماز جنازہ مفتی عبدالرحیم نے پڑھائی۔ گڑھی خدابخش میں ان کی تدفین کے تمام انتظامات کئے گئے تھے جہاں ان کو ان کے شوہر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔قبل ازیں صدر زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور اور صوبائی وزیر بلدیات آغا سرج درانی نے نماز جنازہ کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے گڑھی خدابخش بھٹومیں مزار کا دورہ بھی کیا۔ بیگم نصرت بھٹو کے انتقال کی خبر ملتے ہی وزیر داخلہ رحمن ملک دبئی چلے گئے وہ مرحومہ کی میت کے ساتھ وطن واپس آئے ۔ رحمن ملک نے کہا کہ بیگم بھٹو آمریت کے خلاف جدوجہد کا ایسا استعارہ تھیں کہ آنے والی نسلیں اس جدوجہد سے حوصلہ پاتی رہیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ بیگم صاحبہ مرحومہ کیلئے نشان امتیاز کا اعزاز بہت چھوٹی بات ہے میں نے صدر کو تجویز کیا ہے کہ بیگم بھٹو کو ” ام پاکستان “ کا خطاب دیا جائے۔پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین و سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ، سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو شہید کی والدہ، صدر پاکستان آصف زرداری کی خوش دامن و پاکستان کی سابق خاتون اول بیگم نصرت بھٹو کے انتقال پر ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا جبکہ سرکاری سطح پر10روزہ سوگ کا اعلان وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے کیا گیا جبکہ پیپلز پارٹی نے 40روزہ سوگ کا اعلان کیا ۔ ملک بھر میں عدالتیں، بینک، دفاتر، اسکول، کالجز اور یونیورسٹیوں سمیت تمام ادارے بند رہے۔انتقال کی خبر پر ملک بھر میں فضا مکمل طور پر سوگوار تھی جبکہ حیدر آباد سمیت سندھ بھر کے مختلف شہروں میں انتقال کے سوگ میں دکانیں، مارکیٹیں اور بازار بند ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دفاتر اور کارکنوں کے گھروں پر سیاہ پرچم لہرا دیئے گئے اور تقریبات منسوخ اور پارٹی سرگرمیاں معطل کردی گئیں، پارٹی کے ضلعی دفاتر میں مرحومہ کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی و فاتحہ خوانی کی گئی۔ انتقال کی خبر کے بعد کراچی سمیت ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد گڑھی خدا بخش پہنچنا شروع ہوگئی ۔سندھ جامعات میں ہونے والے امتحانی پرچے بھی ملتوی کردیئے گئے اور صوبے کے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی بورڈز کے تحت پیر کو ہونے والے پرچے بھی ملتوی کردیئے گئے ۔پاکستان کی سابق خاتون اول بیگم نصرت بھٹو اتوار تئیس اکتوبر کی دوپہر دبئی کے ایک ہسپتال میں بیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔بیگم نصرت بھٹو اعلیٰ پائے کے کسی گھرانے کی شاید ہی کوئی ایسی خاتون ہوں جنہوں نے اپنی زندگی میں شوہر اور تین بچوں کی لاشیں اٹھائیں ہوں۔بیگم نصرت بھٹو انیس سو انتیس میں ایران کے شہر اصفہان میں پیدا ہوئیں ا س ضمن میں مورخین میں تضاد ہیں ان کی پیدائش کے حوالے سے مببئی بھی کہا جاتا ہے جس کی تفصیل قارئین آگے ملاحظہ فرمائیں۔بیگم بھٹو کا ایک امیر خاندان سے تعلق تھا اور ان کے والد کراچی میں مقیم رہے اور بڑی کاروباری شخصیت تھے۔نصرت بھٹو کی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے انیس سو اکیاون میں کراچی میں شادی ہوئی۔ ان کے چار بچے ہوئے۔ جن میں بینظیر بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، صنم بھٹو اور میر شاہنواز بھٹو شامل ہیں۔کردش نسل کی ایرانی نژاد پاکستانی بیگم نصرت بھٹو کے بارے میں ان کے قریبی ساتھی بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے شوہر کو اقتدار کے ایوانوں کی جہاں راہ دکھانے میں مدد کی وہاں سیاست کا ایک اہم ستون بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔نصرت بھٹو کی زندگی میں سکھ کم اور دکھ بہت نظر آتے ہیں۔ ان کے شوہر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اکیاون سال کی عمر میں انیس اناسی کو فوجی صدر ضیاالحق کے دور میں پھانسی ہوئی۔ان کے جواں سال بیٹے شاہنواز بھٹو کی ستائیس برس کی عمر میں فرانس میں مشکوک حالات میں موت وقع ہوئی۔ جب کہ ان کے بڑے صاحبزادے مرتضی بھٹو کی انیس سو چھیانوے میں بیالیس برس کی عمر میں اپنی ہمشیرہ بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں کراچی میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت ہوئی۔بیگم نصرت بھٹو کی بڑی صاحبزادی اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو راولپنڈی میں سنہ دو ہزار سات کو دہشت گردی کے حملے میں چون برس کی عمر میں قتل کیا گیا۔"نصرت بھٹو کی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے انیس سو اکیاون
میں کراچی میں شادی ہوئی۔ ان کے چار بچے ہوئے۔ جن میں بینظیر بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، صنم بھٹو اور میر شاہنواز بھٹو شامل ہیں۔"بعض مبصرین کہتے ہیں کہ بیگم نصرت بھٹو کے پائے کی اعلیٰ شخصیت شاید ہی کوئی ہوگی جس نے جمہوریت کے طویل سفر میں اپنے اتنے پیاروں کی لاشیں اٹھائیں ہوں۔شاہنواز بھٹو کے انیس سو پچاسی میں قتل کے بعد ان کی میت پاکستان لانے کے سوال پر بینظیر بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو میں کچھ تلخی ہوئی تو اس وقت بیگم صاحبہ نے بیٹی کی رائے کو تقویت دی۔ کیونکہ میر مرتضیٰ بضد تھے کہ وہ اپنے بھائی کی میت پاکستان لے جائیں گے۔ جب کہ بینظیر بھٹو کی رائے تھی کہ فوجی ڈکٹیٹر ضیاالحق انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اس لیے وہ ملک سے باہر رہیں۔بیگم نصرت بھٹو اپنے شوہر کی وزارت اعظمیٰ تک سیاست میں سرگرم نہیں رہیں لیکن جیسے ہی ذوالفقار علی بھٹو کو ایک فوجی آمر ضیاالحق نے قید کیا تو ان کا حادثاتی طور پر سیاسی سفر شروع ہوا۔انیس سو اناسی میں جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو وہ پاکستان کی سیاست کا ایک نمایاں کردار بنیں اور فوجی ڈکٹیٹر کو للکارا اور ان کے سامنے ہار نہیں مانی۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی انیس سو اناسی سے انیس سو تراسی تک چیئرپرسن رہیں۔لیکن جب انیس سو بیاسی میں کینسر کی ابتدائی علامات کے بارے میں بتایا گیا تو وہ علاج کے لیے لندن چلی گئیں اور ان کی بڑی صاحبزادی بینظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔بیگم نصرت بھٹو نے فوجی صدر ضیاالحق کے دور میں جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا۔بیگم بھٹو اپنے صاحبزادے میر مرتضی بھٹو کے قتل کے بعد ’الزائمر‘ نامی دماغی بیماری میں مبتلا ہوگئیں۔ طبی ماہرین کے مطابق الزائمر کی وجہ سے انسان کی یاداشت اور سوچنے کی صلاحیت آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔بیگم نصرت بھٹو نے اپنی زندگی کے آخری برس دبئی میں گزارے اور آخری ایام میں وہ کسی کو پہچاننے سے بھی قاصر تھیں۔بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بیگم نصرت بھٹو کی وفات سے پیپلز پارٹی کی سندھ میں سیاست پر شاید اتنے اثرات مرتب نہیں ہوں گے کیونکہ وہ اپنی زندگی میں ہی کئی برسوں سے سیاست سے الگ تھلگ ہوگئیں تھیں۔سکھ کم اور دکھ بہت"نصرت بھٹو کی زندگی میں سکھ کم اور دکھ بہت نظر آتے ہیں۔ ان کے شوہر سابق وزیراعظم تھے"بیگم نصرت بھٹو جس پائے کی شخصیت تھیں ان میں وہ غرور یا تکبر نہیں تھا جو عام طور پر سیاسی خاندانوں کے افراد میں نظر آتا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو اپنے بچوں کی طرح پیار کرتی تھیں۔ لیکن وہ اپنے کٹر سیاسی مخالفین سے سختی سے پیش آتیں تھیں۔میاں نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں جب اکثریت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کو صوبہ سندھ میں حکومت بنانے نہیں دی گئی اور جام صادق علی خان کو وزیراعلیٰ سندھ بنایا گیا تو ایک مرتبہ ہوائی اڈے پر جب دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو جام صادق نے کہا ’ہیلو ممی‘۔۔ جس پر بیگم صاحبہ نے انہیں کہا تھا ‘شٹ اپ باسٹرڈ’۔ایک عورت، ایک ماں جس کا میاں، دو جوان بیٹے اور ایک جوان بیٹی یکے بعد دیگرے اور پاکستان میں حکومت در حکومت یہان تک کہ خود اس کی پارٹی اور بیٹی کی حکومت میں بھی مارے گئے۔وہی قذافی سٹیڈیم لاہور ہے جہاں پاکستان کی اس سابق خاتوِن اوّل نے اپنا سر پولس کی لاٹھیوں سے لہو لہان کروا کر پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک کا پہلا بیج بو دیا تھا۔اصل ایران کے شہر اصفہان سے تعلق رکھنے والے مرزا عبدالطیف نے جب عراق میں نجف اشرف سے تعلیم مکمل کی تو وہ کچھ برسوں بعد اصفہان سے ہندوستان چلے گئے، جہاں تب کی بمبئی میں ’بغداد سوپ فیکٹری‘ صابن کا کارخانہ قائم کیا۔نصرت کی پیدائش بھی بمبئی میں ہوئی تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ انیس سو چالیس کے اواخر تک ذوالفقار علی بھٹو نصرت صبونچی کو پہلی بار بمبئی کے قریب ہل اسٹیشن کھڈالہ کے مقام پر دیکھ چکے تھے لیکن انکی سرسری پہلی ملاقات تب ہوئی تھی جب انہوں نے انہیں اپنی نیوبیاہتا بہن کے گھر پر اسے فوجی وردی میں دیکھا تھا۔اس وقت نصرت صبونچی پاکستان آرمی کے نیشنل گارڈز میں تھیں جہاں انکا عہدہ کیپٹن کے برابر تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اس وقت فوجی وردی میں ملبوس یہ خوبصورت لڑکی اچھی نہیں لگی تھی لیکن انہوں نے بعد میں، جیسے ایک انٹریو میں بیگم نصرت بھٹو سے کہا تھا، کہ انہوں نے امریکہ سے اپنے ایک دوست کے ذریعے محبت کا پیغام کراچی بھجوایا تھا۔خاندان میں بہت سے لوگوں کی ان سے ناراضگی کے باجوود یہ شادی انیس سو اکاون میں ہو گئی تھی۔ بیگم نصرت بھٹو اصل میں ذوالفقار علی بھٹو کی بہن منورالاسلام باالمعروف منا کی پکی سہیلی تھیں. ان کی دوسری دوسری پکی سہیلی بیگم جبیب اللہ تھیں جو کہ ایوب خان کی سمدھن تھیں۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں وہ پی پی پی کے شعبہ خواتین و حلال احمر (ریڈ کراس پاکستان کی سربراہ تھیں۔‘ جب بھٹو حکومت نے انیس سو پچھتر کو خواتین کا سال کہہ کر منایا تو اس میں بھی وہ کافی سرگرم رہی تھیں۔لیکن ان کا تاریخی سیاسی کردار اس وقت ابھرا جب فوجی آمر جنرل ضاءالحق کے ہاتھوں تختہ الٹنے کے بعد انہیں بھٹو نے اپنا سیاسی جانشیں مقرر کرتے ہوئے پی پی پی کی چیرپرسن بنایا تھا۔ بعد میں وہ اپنی بیٹی بینظیربھٹو کے ساتھ ہی پی پی پی کی شریک چیئر پرسن بنیں۔بیگم نصرت بھٹو کا پاکستان میں بحالی جمہورت کے لیے بننے والی تحریک اور اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد ایم آر ڈی میں انتہائی اہم کردار رہا تھا۔ضیاءالحق کے دنوں میں ستر کلفٹن میں کئی خفیہ ایجنسیوں کی نگرانی کے باوجود وہ پی پی پی سندھ کے اس وقت جیالے عبدالستار بچانی کی کار میں چھپ کر ایم آر ڈی کے بنیادی اجلاس میں شرکت کرنے پہنچی تھیں۔اور یہ بیگم نصرت بھٹو کی پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خاتمے میں سنجیدگی اور کمٹمنٹ تھی کہ بھٹو کے سخت مخالفین اصغر خان ، خان اولی خان، نوابزادہ نصراللہ جیسے رہنماو ¿ں یہاں تک کہ محمد خان جونیجو تک کے ساتھ بیٹھنے پر رضامند ہوئی تھیں۔وہ کافی عرصے تک اپنی بیٹی کےساتھ سہالہ ریسٹ ہاو ¿س اور ستر کلفٹن میں نظر بند رہیں۔جب بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں مرتضی بھٹو اور بینظیر بھٹو میں اختلافات کھل کر سامنے آئے تو انہوں نے اپنے بیٹے کا ساتھ دیا جس پر ان کا پی پی پی کی شریک چیئرپرسن کا عہدہ بینظیر بھٹو کے تئیں واپس کرلیا گیا تھا۔بیگم نصرت بھٹو اس وقت المرتضیٰ لاڑکانہ میں موجود تھیں جب مرتضی بھٹو کے کارکنوں کو بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش جانے سے روکنے کے لیے پولیس نے ستر کلفٹن پرگولی چلائی تھی۔ اور شاید ایک کارکن ہلاک بھی ہوا تھا۔سب سے برا وار بیگم نصرت بھٹو پر ان کے بیٹے میر مرتضی بھٹو کی پولیس مقابلے میں بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں ہی ان کے گھر سے چند سو گز کے فاصلے پر ہلاکت تھی جس کے بعد وہ صدمے سے کبھی باہر نہیں آ سکیں۔ایران کے شہر اصفہان کے متمول خاندان سے تعلق رکھنے والی بیگم نصرت بھٹو دوسری ایرانی خاتون تھیں جواس ملک کے معرض وجودمیں آنے کے بعد خاتون اول بنیں ان سے قبل پاکستان کے پہلے صدر اور چوتھے گورنر جنرل سکندر مرزا کی اہلیہ بیگم ناہید مرزا کا نام آتا ہے دونوں ایرانی نژاد پاکستانی خواتین اول کرد تھیں اور اپنے شوہروں کی دوسری بیویاں بنیں اور یہ لوگ پھر ملکی صدر بنے نصرت بھٹو ناہید مرزا کی کزن تھیں اگرچہ نصرت ناہید سے 15 سال چھوٹی تھیں تاہم ناہید سے ان کی شادی پہلے ہوئی تھی دنیا بھر کی خواتین اول میں بیگم نصرت بھٹو کو اس حوالے سے ممتاز مقام حاصل ہے کہ ان کے سسر محمد شاہنواز بھٹو ریاست جوناگڑھ کے وزیراعظم تھے شوہر ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے صدر اور وزیراعظم رہے ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں اور داماد آصف علی زرداری بھی پاکستان کے صدر منتخب ہونے میں کامیاب رہے دوسری جانب صدر سکندر مرزا اور ناہید کی شادی مرزا صاحب کی پہلی بیوی سے بیٹے انور مرزا کے 4 جون 1953 ءکو انگلینڈ میں طیارے کے ایک حادثے میں انتقال کے فوراً بعد یعنی جولائی 1953 میں ہوئی سکندر مرزا کے ہی عہد صدارت میں ذوالفقار علی بھٹو کو 7 اکتوبر 1958 ءکو کابینہ کا وزیر بنایا گیا یہ وہی دن ہے جب ملک میں پہلا مارشل لاءلگا تھا اس کے بعد آنیوالے سالوں میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے پہلے منتخب صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا سکندر مرزا سے شادی سے قبل ناہید لیفٹیننٹ کرنل انفامے کی اہلیہ تھیں جو اس وقت اسلام آباد میں ایرانی سفارتخانے میں فوجی اتاشی تھے بیگم ناہید کی جب سکندر مرزا سے شادی ہوئی اس وقت وہ سیکرٹری وزارت دفاع تھے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی سابق چیئرپرسن نصرت بھٹو پہلی مرتبہ 1988ءکے عام انتخابات میں جنرل سیٹ پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ 16نومبر1988ءکے عام انتخابات میں چار خواتین جنرل سیٹوں پر منتخب ہوئیں جن میں بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بینظیربھٹو، عابدہ حسین اور سینیٹر صفدر عباسی کی والدہ اشرف عباسی شامل تھیں نصرت بھٹو نے چترال اور لاڑکانہ سے کامیابی حاصل کی اس الیکشن کے نتیجہ میں بینظیربھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں جبکہ نصرت بھٹو نے سینئر وفاقی وزیر کا عہدہ سنبھالا تھا۔بھٹو کی اولاد میں سے واحد زندہ شخصیت صنم بھٹو کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے 18 اکتوبر 2007کو بینظیر بھٹو کی وطن واپسی میں وہ ان کے ساتھ وطن واپس آئی تھیں تاہم نومبر میں واپس چلی گئیں۔ صنم بھٹو نے بلاول بھٹو زرداری کی پیپلزپارٹی کا چیئرمین بننے کی حمایت کی تھی دو بچوں کی والدہ صنم بھٹو بینظیر کے تینوں بچوں کیلئے بھی والدہ کا کردار ادا کر رہی ہیں جبکہ اپنی والدہ کے جسد خاکی کے ہمراہ وہ بھی پاکستان آئیں۔پیپلز پارٹی نے گزشتہ برسوں کے دوران بڑے اتار چڑھاو ¿ دیکھے ہیں اور ان میں سے تیس برس تو اس نے حزب مخالف کا کردار ادا کیا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے ’اسلام ہمارا مذہب، سوشلزم ہماری معیشت، جمہوریت ہماری سیاست، اور طاقت کا سرچشمہ عوام‘ کا منشور لے کر تیس نومبر سنہ انیس سو سڑسٹھ کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی بناکر ‘روٹی کپڑا اور مکان’ کا نعرہ لگایا تھا۔ان کے دورِ اقتدار میں پاکستان کا آئین بنایا گیا، جوہری پروگرام شروع ہوا، سٹیل ملز اور ہیوی مکینیکل کمپلیکس جیسی صنعتیں لگیں، مزدوروں کے حقوق کے لیے قانون سازی سمیت متعدد ترقیاتی کام کیے گئے۔ اس کے برعکس ان کے دورِ اقتدار ہی میں بلوچستان میں فوجی آپریشن ہوا، نیپ کی حکومتیں ختم ہوئیں، مفتی محمود اور خان عبدالولی خان سمیت بھٹو کے کئی مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے بھٹو ایک متنازعہ شخصیت بھی بنے۔ لیکن آج بھی ان کے مخالفین مانتے ہیں کہ جتنے کام انہوں نے پانچ برسوں میں کیے اِتنے کام ان کے بعد آنے والے فوجی یا سیاسی لیڈر بھی نہیں کر پائے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو انیس سو ستتر میں مارشل لا لگا کر ہٹانے کے بعد جتنا عرصہ فوجی حکمران اقتدار پر قابض رہے اتنا عرصہ سیاسی جماعتوں کو اقتدار نہیں ملا۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی بیٹی بینظیر بھٹو نے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی اور ضیاءالحق کے مارشل لا کے دوران ان کے والد کے متعدد قریبی رفقاءان کا ساتھ چھوڑ گئے جن میں غلام مصطفیٰ جتوئی، ممتاز بھٹو، غلام مصطفیٰ کھر، ڈاکٹر مبشر حسن، ڈاکٹر غلام حسین، عبدالحفیظ پیرزادہ وغیرہ شامل ہیں۔تاہم ضیاءالحق کے فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد ریاستی سرپرستی میں اسلامی جمہوری اتحاد بنا کر ان کا راستہ روکنے کی کوششیں بری طرح ناکام ہوئی اور پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے جیت گئی اور بینظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔ لیکن ان کی حکومت کو مدت مکمل نہیں کرنے دی گئی۔ انیس سو ترانوے کے انتخابات میں ایک بار پھر ان کی جماعت اکثریت سے جیتی اور وہ دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئی۔ ستائیس دسمبر سنہ دو ہزار سات کو انہیں راولپنڈی میں ایک خود کش حملے میں قتل کر دیا گیا۔ایسے میں پارٹی کی قیادت ان کے شوہر آصف علی زرداری نے سنبھالی اور فروری سنہ دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالا تو ان سے بھی کئی لوگ ناراض ہوئے۔ ابتدا میں تو مخدوم امین فہیم ناخوش تھے لیکن بعد میں انہوں نے وزارت لے لی۔ میاں رضا ربانی سینیٹ چیئرمین نہ بنانے پر ناراض ہوئے لیکن آئین میں ترمیم، پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کی سربراہی سمیت اہم ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے۔ ججوں کی بحالی کے سوال پر اعتزاز احسن پارٹی قیادت سے دور ہوگئے لیکن بعد میں حکومت اور عدلیہ میں پل کا کردار بھی ادا کیا۔لیکن بینظیر بھٹو کی سیاسی سیکریٹری ناہید خان اور ان کے شوہر صفدر عباسی پیپلز پارٹی کی نئی قیادت کا شکار بنے ۔ناہید خان اور صفدر عباسی کی ناراضگی کے بارے میں سندھ کے سابق وزیرِ داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سیاسی نہیں بلکہ جائیداد کے معاملات ہیں۔ بقول ان کے کہ ناہید خان کو وہ جائیداد بینظیر کے بچوں کو دینی پڑے گی جو ان کے پاس ہے۔جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ گورننس، مہنگائی، کرپشن، غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل پر قابو نہیں پا سکے اور عوامی توقعات پر پوری نہیں اتری۔ لیکن پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ضمنی انتخاب میں ایسی نشستیں جیت رہی ہے جو بینظیر کے قتل کے بعد ہونے والے عام انتخاب میں بھی نہیں جیت سکی تھی۔اے پی ایس