معاشی دھچکوں کے چیلنجز ۔چودھری احسن پر یمی




سرمایہ داری نظام اور معاشی عدم استحکام کے خلاف رواں ماہ نیو یارک میں شروع ہونے والا احتجاج چند دنوں میں درجنوں ملکوں کے 900 سے زائد شہروں تک پھیل گیا ہے۔عالمی تحریک کی شکل اختیار کرنے والے اس احتجاج کی ایک جھلک پہلی مرتبہ گزشتہ بدھ کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی نظر آئی جہاں بائیں بازو کی جماعتوں، سول سوسائٹی اور مزدوروں کی نمائندہ تنظیموں نے عالمی بینک کے دفاتر کے سامنے مظاہرہ کیا۔لگ بھگ 100 افراد پر مشتمل نسبتاً ایک چھوٹے مجمعے سے خطاب میں مقررین کا کہنا تھا کہ سرمایہ داری نظام مضبوط ہونے کی وجہ سے کاروباری اداروں کی طاقت میں تو مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان کے ملازمین روز بروز اپنے حقوق سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔مظاہرے میں شریک تنظیموں کے رہنماوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان کے موجود حالات میں ان کے احتجاج سے کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جا سکتی کیوں کہ یہاں سرمایہ دار ناصرف انتہائی با اثر ہیں بلکہ یہی طبقہ بحیثیت مجموعی حکومت کا نظام بھی سنبھالے ہوئے ہے۔ورکرز پارٹی کی ایک رہنما آشا امیرعلی نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ موجودہ سیاست دان خود کو حاصل مراعات میں کمی کرکے مسائل میں گھرے عوام کی بہتری کے لیے کوئی اقدامات کریں۔”ہمارا مطالبہ بالکل واضح ہے، ہم سمجھتے ہیں لوگوں کی اپنی حکومت ہونی چاہیئے یعنی ایک عوامی حکومت ہونی چاہئے لیکن ابھی ہم اس سے بہت دور ہیں۔“انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کو ایک خوش آئند پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ مزید اس جیسی کوششوں کے ذریعے ہی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔”اس تحریک سے ایک نئی سوچ بیدار ہو گی، اس کو پپنپنے کا موقع ملے گا، آپس میں لوگ مل رہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ ان دوستیوں سے مزید لوگ ہماری کوشش میں شامل ہوں گے۔جبکہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے ملک میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان، عوام میں مایوسی اور حکومت کی لاتعلقی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔انسانی حقوق کمیشن نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے حالات سے تنگ آ کر نوشہرو فیروز کے راجہ خان نے اپنی زندگی ختم کرلی جس کے بعد ملک میں اس سال خودکشی کرنے والوں کی تعداد سولہ ہزار تک جا پہنچی ہے۔یہ اعداد و شمار ان آٹھ سو افراد کے علاوہ ہیں جنہوں نے خود کو ختم کرنے کی کوشش تو کی لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے۔کمیشن کا کہنا ہے کہ ایک جانب جرائم پیش افراد کے ہاتھوں لوگوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں تو دوسری جانب لوگ غربت اور مایوسی سے تنگ آ کر اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہیں۔کمیشن کے مطابق ’اس المیہ کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں مکمل لاتعلقی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔‘کمیشن نے کہا کہ’معاشرے میں حکومت کی نااہلی اور لاتعلقی معاشرے میں پرتشدد طرزِ عمل کو جنم دینے کا باعث بن رہی ہے اور لوگ محض اس امید پر پرشور احتجاج کرنے پر تیار رہتے ہیں کہ شاید ان کی حالت زار پر کسی کی نظر پڑ جائے۔‘انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ انتظامیہ سے اپیل کرتا ہے کہ اس ضمن میں وہ اپنی ذمہ داریاں محسوس کرتے ہوئے عوام میں اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے اور عوام کو اس اذیت اور کرب سے نجات دلائے۔انسانی حقوق کمیشن نے کہا ہے کہ حکومت کو عوام کی ضروریات اور ان کے مسائل و مشکلات کا مداوا کرنا چاہیے، اس سے قبل کہ وہ اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پر نکل کھڑے ہوں اور سراپا احتجاج بن جائیں، اسے ان کے مسائل کے حل کے لیے ٹھوس کوششیں اور اقدامات اٹھانے کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ غور و خوض کرنا چاہیے۔جبکہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی سات ارب ہوگئی ہے۔ جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں آبادی سے متعلق اقوام متحدہ کے فنڈ نے بتایا ہے کہ ایک صحتمند، تحفظ پسندانہ اور خوشحال مستقبل کا دارومدار اِس بات پر ہوگا کہ دنیا ماحولیاتی انحطاط پذیری اور معاشی دھچکوں کے چیلنجز سے کس طرح نبرد آزما ہوتی ہے۔The State of World Population 2011نامی رپورٹ کے مطابق، سات ارب کی حد کو مثبت قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ اِس کی وجہ وہ کامیابیاں ہیں جِن کے باعث نوزائد ہ بچوں کی اموات کی شرح میں کمی آئی ہے اورلوگوں کی عمریں طویل ہوتی جارہی ہیں۔تاہم، رپورٹ کے ایک مصنف کا کہنا ہے کہ اِس سے ملکوں کے مابین فرق کی نشاندہی بھی ہوتی ہے، خاص طور پر ترقی پذیر ملکوں میں جہاں حکومتوں کے لیے بڑھتی ہوئی آبادیوں کو ضروری وسائل فراہم کرنے میں دقتیں پیش آرہی ہیں۔رپورٹ میں توجہ دلائی گئی ہے کہ 2011ءمیں دنیا کی آبادی کا 60فی صد ایشیا میں اور 15فی صد افریقہ میں ہے۔لیکن، اِس میں بتایا گیا ہے کہ افریقہ میں آبادی میں اضافے کی رفتار ایشیا کے مقابلے میں دوگنی ہے، جو اسِی سال تین گنا ہوجائے گی، اور اِس سال کی ایک ارب کی آبادی اگلی صدی کے آتے آتے بڑھ کر 3.6ارب ہوجائےگی۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ رواں ماہ کے اختتام پر دنیا کی آبادی سات ارب ہو جائے گی اور عالمی سطح پر تمام افراد کے لیے خوراک اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے یکساں مواقع پیدا کرنا دنیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔بدھ کو اسلام آباد میں اقوام متحدہ نے عالمی آبادی کے بارے میں اپنی رپورٹ جاری کی اور اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی حکام نے تشویش ظاہر کی کہ بڑھتی ہوئی آبادی ملک کی اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے جوائنٹ سیکرٹری چودھری محمد اعظم نے بتایا کہ سرکاری سطح پر ملک میں کئی دہائیوں سے خاندانی منصوبہ بندی کی مہم جاری ہے لیکن اب بھی ملک کی آبادی میں اضافے کی شرح سالانہ 2.3 فیصد ہے۔”اگر آبادی میں اضافہ اسی رفتار سے جاری رہا تو 2050ءمیں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن جائے گا۔“اقوام متحدہ کے پاکستان میں ایک اعلیٰ عہدیدار ٹیموپکالا نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ 1950ءمیں پاکستان کی آبادی چار کروڑ تھی اور آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا 13 واں بڑا ملک تھا لیکن اب یہ چھٹے نمبر پر ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی آبادی کی شرح میں اضافہ اسی رفتار سے جاری رہا تو 2050ءمیں اس کی آبادی 33 کروڑ 50 لاکھ ہو جائے گی۔منصوبہ بندی کمیشن کے جوائنٹ سیکرٹری چودھری اعظم کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے نے بین الاقوامی برادری بشمول امریکہ کے تعاون سے آگاہی کی ایک بھرپور مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔انھوں نے بتایا کہ علمائے اکرام اور مذہبی رہنمائ آبادی میں بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے میں حکومت کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں اس لیے انھیں بھی قومی مہم کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے بلند شرح پیدائش کے علاوہ اپنی رپورٹ میں عالمی آبادی میں اضافے کی دیگر وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ 1950ءکی دہائی میں اوسط زندگی 45 سال تھی جو اس صدی کے پہلے عشرے میں 68 سال کی حد کو چھو رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ 1950ءکی دہائی میں ایک ہزار شیر خوار بچوں میں سے 133 اوائل عمری میں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے تھے لیکن 2005 سے 2010 کے درمیان ایک ہزار نومولود بچوں میں 46 ہلاک ہوتے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق ایشیا اکیسویں صدی میں زیادہ آبادی والا براعظم رہے گا لیکن افریقہ میں بھی آبادی تین گنا ہونے کے امکانات ہیں۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن حالیہ برسوں میں قدرتی آفات اورخوراک کی قیمتوں میں اضافے سے دیگر ترقی پذیر ملکوں کی طرح اس کی آبادی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے اس مرتبہ 16 اکتوبر کو خوراک کے عالمی دن کا عنوان ’خوارک کی قیمتیں - بحران سے استحکام تک‘ رکھا ۔غیر جانب دار تجزیاتی رپورٹوں کے مطابق ملک میں حالیہ برسوں میں توانائی کے بحران اور تباہ کن بارشوں و سیلاب سے زراعت کے شعبےکو ہونے والے نقصانات سے پاکستان میں غذائی عدم تحفظ میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔بعض ماہرین کے اندازوں کے مطابق قیمتوں میں اضافے سے اس وقت ملک کی نصف سے زائد آبادی اپنی ماہانہ آمدن کا تقریباً 75 فیصد خوراک کی ضروریات پوری کرنے پر خرچ کر رہی ہے۔ جبکہ مجموعی آبادی کا 74 فیصد کم خوراکی کا شکار ہے اور مالی مشکلات کا شکار اکثر پاکستانیوں کی یومیہ خوراک میں گوشت، پھل اوردودھ شامل نہیں ہے۔ معاشی مشکلات کا شکار پاکستانی عوام کی قوت خرید عالمی سطح پر کھانے پینے کی اشیاءکی قیمتوں میں اضافے سے مسلسل کمزور ہوتی جا رہی ہے جو ایک تشویش ناک امر ہے۔”سال 10-2009ءمیں گندم کی کھپت میں 10 فیصد کمی ہوئی، یہ ایک ایسی صورتحال ہے جب کہ گندم کی غیر معمولی پیداوار کے بعد بھی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی قوت خرید کو متاثر کیا۔ پاکستان میں گزشتہ چھ سالوں میں غذائی قلت کی شرح میں تقریباً 11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2006ءمیں پاکستان کی 37 فیصد آبادی خوراک کی کمی کا شکار تھی، جبکہ 2009ءمیں یہ شرح بڑھ کر 49 فیصد ہو گئی اور مجموعی طور پر ملک کے 131 اضلاع میں 80 غذائی کمی کا شکار ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ’ایف اے او‘ کے مطابق گزشتہ سال سیلاب سے 34 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی پر کھٹری فصلیں پانی کی نذر ہو گئی تھیں۔ جبکہ رواں سال ملک میں مون سون کی شدید بارشوں کے بعد سندھ میں 20 فیصد رقبے پر گندم کی کاشت میں کمی کا خدشہ ہے۔پاکستان میں قدرتی آفات خصوصاً سیلابی بارشوں اور عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے ملک کی تقریباً 8 کروڑ 30 لاکھ آبادی کو متاثر کیا ہے جس کے باعث غذائی بحران کا شکار ملکوں میں پاکستان کا شمار پانچویں نمبر پرہوتا ہے۔اے پی ایس