افغان مصالحتی مذاکرات بارے پاکستان کا مرکزی کردار۔چودھری احسن پر یمی




پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے دونوں ملکوں کے صدور آصف علی زرداری اور حامد کرزئی نے استنبول میں ملاقات کی ہے۔ترکی کے صدر عبداللہ گل نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تناو کو دور کرنے کے لیے دونوں رہنماوں کی ملاقات کا اہتمام کیا افغانستان کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں تواتر سے پاکستان پر الزام عائد کیا جاتا رہا پاکستان نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہیں۔صدر زرداری اور صدر کرزئی کے درمیان ہونے والی ملاقات افغانستان پر علاقائی کانفرنس سے قبل ہوئی ہے جس میں جنگ سے تباہ حال اس ملک کے 14 ہمسایہ ملکوں کے علاوہ فرانس، جرمنی اور جاپان سمیت کئی ملکوں کے رہنما شرکت کر رہے ہیں۔افغانستان نے حال ہی میں بھارت کے ساتھ تجارتی، ثقافتی اور دفاعی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے اسٹریٹیجک تعاون کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس پر پاکستان نے تحفطات کا اظہار بھی کیا ہے۔لیکن گزشتہ ماہ افغان صدر کرزئی نے کہا تھا کہ امریکہ یا بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملے کی صورت میں ان کا ملک پاکستان کا ساتھ دے گا۔تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستان کے بارے میں صدر کرزئی کا تبصرہ پالیسی بیان نہیں بلکہ پاکستان کی جانب ایک دوستانہ پیغام تھا، کیوں کہ اس کا تعاون افغانستان میں برسوں سے لڑائی کے خاتمے اور استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔امریکہ کی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے اپنی والدہ کے انتقال کے باعث انگلینڈ اور ترکی کے اپنے طے شدہ دورے منسوخ کردیے ۔بانوے سالہ ڈوروتھی راڈھم کی موت کا اعلان 'کلنٹن فاونڈیشن' کی جانب سے گزشتہ منگل کو علی الصباح سامنے آیا۔ اس سے قبل سیکرٹری کلنٹن نے اپنی والدہ کی خرابی صحت کے باعث گزشتہ پیر کی شب دونوں دوروں کی منسوخی کا اعلان کیا تھا جو انہیں رواں ہفتے کرنا تھے۔ گزشتہ پیر کو واشنگٹن میں 'امریکن- ترک کونسل' سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ اگر ترکی معاشی اور عالمی سطح پر اپنی صلاحیت سے بھرپور استفادہ کرنا چاہتا ہے تو اسے ہر صورت جمہوریت کو فروغ دینا ہوگا۔اپنے خطاب میں سیکرٹری کلنٹن نے کہا کہ ایک مستحکم ترک معیشت کا دارومدار خیالات کے آزادانہ تبادلے اور قانون کی بالادستی پر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو امید ہے کہ ترکی میں جاری آئینی اصلاحات کے عمل کے نتیجے میں ایک ایسا آئین وجود میں آئے گا جس میں اقلیتوں کے تحفظ اور مذہبی عبادات کی ادائیگی کی اجازت سمیت تمام انسانی حقوق کے احترام کو فروغ دیا جائے گا۔امریکی وزیرِ خارجہ کے بقول اگر ترکی کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اسے خطے میں امن کو فروغ دینا ہوگا۔ جبکہ نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ ، ہلری کلنٹن نے پاکستان کے اپنے حالیہ دورے میں اپنے میزبانوں کی یقین دہانی کر دی ، کہ افغانستان کے بارے میں مصالحت کے لئے جو مذاکرات ہونگے۔ ان میں ان کا مرکزی کردار ہوگا۔ اخبار نے ایک سرکردہ امریکی عہدہدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستانیوں نے کو اطمینان ہے کہ مصالحت کے امر پر پیش رفت ہوئی ہے اور یہ کہ انہیں ایک کردار ادا کرنا ہے۔اخبار نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حقّانی نیٹ ورک کے ساتھ اگست کے اواخر میں جو مذاکرات شروع ہوئے تھے، انہیں دوبارہ شروع کیا جائےگا۔ ان کا آغاز خفیہ تھا۔ جس میں ایک درمیانی درجے کے امریکی سفارت کار اور اس نیٹ ورک کے سربراہ کے ایک بھائی ابراہیم حقّانی شریک ہوئے تھے، اخبار کے بقول یہ مذاکرات آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی وساطت کے ذریعے ممکن ہوئے تھے۔ امریکی اور پاکستانی عہدہداروں کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ ان مذاکرات میں کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا تھا۔ بلکہ ان کے محض دو ہفتوں کے بعد کابل میں امریکی سفارت خانے پر حملہ ہوا تھا، جو 20گھنٹے جاری رہا ۔اخبار کہتا ہے کہ بعض امریکی قانون سازوں نے حقانی نیٹ ورک کے بارے میں اوباما انتظامیہ کے طرزعمل پر بد گمانی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خارجہ ہلری کلنٹن سے پوچھا تھا کہ اس نیٹ ورک کے ساتھ آپ کی پالیسی کریک ڈاون کی ہے یا مصالحت کی۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا تھا۔ کہ دونوں، ہم بیک وقت لڑنا بھی چاہتے، مذاکرات بھی کرنا چاہتے ہیں اور تعمیر کا کام بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم اس کا امتحان کرنا چاہتے ہیں۔ کہ آیا ان تنظیموں میں نیک نیّتی کے ساتھ مذاکرات کرنے کی خواہش ہے یا نہیں۔ سنہ 2014 میں امریکی اور اتحادی فوجوں کے انخلا ? تک کیا افغانستان کی فوج اس لائق ہو جائے گی کہ ملک کی سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔ اخبار یو ایس ٹوڈے کی ایک رپورٹ میں اس کا جواب اثبات میں ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ افغان فوج اور پولیس اس کی تیاری کر رہی ہے۔ اگرچہ نیٹو کے عہدہ دارو ں کو اعتراف ہے کہ بھگوڑوں کا مسئلہ موجود ہے اور اس کے علاوہ افغانستان کواگلے دو سال کے دوران اپنی افواج کو برقرار رکھنے اور انہیں بہتر تنخواہ دینے کے لئے 4 ارب ڈالر کی بھاری رقم کی ضرورت ہوگی۔ تاکہ 2014 کے بعد سے ، جب صدر اوبامہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا مکمّل انخلا چاہتے ہیں، یہ افواج اپنا فرض نبھا سکیں۔افغان فوجوں کو تربیت دینے کے پروگرام کےلئے امریکی افسر برگیڈئیر ٹموتھی رے کے حوالے سے اخبار کہتا ہے۔ کہ جب تربیت کا یہ کام شروع کیا گیا تھا ۔تو اس وقت یا طالبان تھے یا قبائلی سردار۔لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔افغانستان کے لئے نیٹو کے تربیتی پروگرام کے اعلیٰ بجٹ افسر، میجر جنرل پیٹر فلر کے مطابق اس تربیت میں زور اس پر رہا ہے کہ مضبوط عمارات اور ایسا سازوسامان فراہم کیا جائے ، جو افغانستان کے موسمی حالات اور کلچر کی مطابقت میں ہوں۔فوجی بیرکیں چوڑی دیواروں کی بنائی جائیں گی جن میں ائیر کنڈشننگ کی جگہ پنکھے ہونگے۔افغان فوج کی تربیت اور سازوسامان کے اخراجات کا بوجھ امریکی ٹیکس گذار ادا کر رہے ہیں۔سنہ 2010 میں اس پر اٹھنے والا خرچ 9.2 ارب ڈالر تھا، 2011 میں11.6 ارب اور 2012 میں یہ 11.2 ارب ہوگا۔ اس خرچ کا نصف حصّہ تعمیر اور سازوسامان کے لئے تھا۔ یہ خرچ اگلے سال کم ہو جائےگا ۔ جب بیشتر افغان افواج اپنی بیرکون میں منتقل ہو جائیں گی ، اور وہ سازو سامان سے لیس ہونگی۔ میجر جنرل فلر کہتے ہیں کہ ہم یہ بات یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ افغانوں کے لئے صحیح بنیادی ڈھانچہ قائم ہو۔اخبار نے محکمہئ دفاع کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے۔ کہ اکتوبر سنہ 2012 تک افغان افواج مقرّرہ حدف حاصل کر لیں گی ۔ جب مسلّح افواج کی تعداد ایک لاکھ 95 ہزار اور پولیس کی نفری ایک لاکھ 57 ہزار ہو جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان کو 145 طیّاروں اور 8000 کارندوں پر مشتمل فضائی فوج کی بھی ضرورت ہوگی۔ جو فی الحال افغان اکیلے ہی نہیں چلا سکہیں گے۔اے پی ایس