آبی وسائل میں امریکی تعاون اور بھارت سے تجارت۔چودھری احسن پریمی




پاک امریکہ اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کے تحت دونوں ملکوں کے ورکنگ گروپ کی سطح پر بات چیت کا تازہ دور گزشتہ بدھ کو اسلام آباد میں ہو اہے جس میں آبی وسائل کے موثر استعمال اور پینے کے پانی کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے تجاویز زیر غور آئیں ۔اجلاس میں امریکی وفد کی قیادت جمہوریت اور عالمی امور سے متعلق محکمہ خارجہ کی اعلیٰ عہدے دار ماریہ اوٹیرو نے کی جب کہ پاکستان کی طرف سے اس اجلاس میں مرکزی حکومت اور چاروں صوبوں کے نمائندوں اور تکنیکی ماہرین نے شرکت کی۔ مذاکرات میں زراعت کے شعبے میں پانی کے موثر استعمال، بالخصوص آبپاشی کے نظام میں پائے جانے والے نقائص کو دور کرنے کے لیے امریکی ماہرین کے تجربات سے استفادہ کیاگیا۔پاکستان کے دورے کے دوران ماریہ اوٹیرو نے مرکزی اور صوبائی حکام کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمائندوں اور نوجوان رہنماوں سے بھی ملاقاتیں کیں جن میں پانی، شہریوں کے تحفظ، صحت، قانون کی بالادستی، انسانی حقوق اور معاشرے میں نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے کردار سمیت دوسرے موضوعات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔امریکہ پانی کے ذخائز کی تعمیر سمیت توانائی کی بچت کے کئی منصوبوں میں پاکستان کی اعانت کر رہا ہے جن میں قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں گومل زام ڈیم بھی شامل ہے جو تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔اس منصوبے سے حاصل ہونے والی 17.4 میگا واٹ بجلی سے علاقے کے 25 ہزار گھرانے مستفید ہوں گے جب کہ گومل زام ڈیم میں پانی کے ذخیرے سے ڈیرھ لاکھ ایکٹر زرعی زمین کو سیراب بھی کیا جا سکے گا۔امریکی حکومت تربیلا ڈیم کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے بھی پاکستان کی معاونت کر رہی ہے۔امریکہ نے پاکستان کو آبی وسائل کے موثر استعمال میں تعاون اور متعلقہ پاکستانی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔پاک امریکہ اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کے سلسلے میں پانی کے امور پر بات چیت کے لیے قائم ورکنگ گروپ کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کی اعلیٰ عہدے دار ماریہ اوٹیرو نے پانی کی دستیابی میں کمی کو انتہائی سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ اس سے ہنگامی بنیادوں پر نمٹنا ناگزیر ہے کیوں کہ یہ پاکستان کو زرعی، معاشی اور یہاں تک کہ سیاسی بحران کا بھی شکار کر سکتا ہے۔”ہم (امریکہ) پاکستان کو آبی شعبے سے متعلق چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں مدد دینے کے عزم پر پختگی سے قائم ہیں۔“ انھوں نے کہا کہ اس امریکی عزم کا اعادہ خود وزیر خارجہ ہلری کلنٹن بھی پاکستانی عہدے داروں سے اپنی حالیہ ملاقاتوں میں کر چکی ہیں۔ماریہ اوٹیرو اجلاس میں امریکی وفد کی قیادت کر رہی تھیں، جب کہ پاکستانی وفد کی سربراہی وزیر اعظم کے معاون خصوصی کمال مجید نے کی۔ اجلاس میں پاکستان کے چاروں صوبوں اور اس کے زیر انتظام کشمیر کے نمائندوں نے بھی شرکت کی اور اپنے مسائل سے امریکی وفد کو آگاہ کیا۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کمال مجید نے کہا کہ امریکی ہم منصبوں سے بات چیت کا مقصد مل بیٹھ کر مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا اور دستیاب پانی کے استعمال کو مفید بنانے پر غور کرنا ہے۔”پانی کی طلب میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ہم (پاکستان) بتدریج اس کی قلت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔“کمال مجید نے کہا کہ اگر آبی شعبے میں پاکستان کی فوری مدد کے طور پر امریکہ میں استعمال ہونے والی’ڈرپ اریگیشن‘ نامی ٹیکنالوجی کو پاکستان میں بھی متعارف کرایا جائے تو یہ ایک موثر اور مثبت پیش رفت ہوگی۔انھوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے علاوہ بالواسطہ طور پر بھارت میں زیر تعمیر متنازع ڈیموں کی طرف بھی امریکہ کی توجہ دلانے کی کوشش کی جن کی وجہ سے پاکستان کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں پانی کی کمی کا مسئلہ بحران کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان اپنے 90 فیصد سے زائد آبی وسائل آبپاشی کے لیے استعمال کر رہا ہے لیکن جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دریاوں میں پانی کے بہاو میں کمی آ رہی ہے وہیں عمر رسیدہ نہری نظام کے باعث پانی کا بڑا حصہ کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی سیم کی صورت میں ضائع ہو جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے تجارت کی عالمی تنطیم ڈبلیو ٹی او کے تحت ہمسایہ ملک بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کی تجویز کی متفقہ منظوری دے دی ہے۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت اسلام آباد میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ تمام متعلقہ فریقین کی مشاورت کے بعد کیا گیا۔”یہ فیصلہ ملک کے بہترین مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے کیوں کہ اس اقدام سے نہ صرف پاک بھارت تجارت میں اضافہ ہو گا بلکہ علاقائی تجارت کو بھی فروغ ملے گا۔“فردوس عاشق اعوان نے غیر جانبدار جائزہ رپورٹس کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے پاکستان کو سالانہ 80 کروڑ ڈالر کا فائدہ ہو گا۔ ”بھارتی مصنوعات سے پاکستانی کی مارکٹیں بھری ہوئی ہیں اور اس غیر قانونی تجارت کی وجہ سے محصولات کی مد میں کوئی رقم حاصل نہیں ہوتی۔ اب ہم قانونی طریقے سے بھارتی مصنوعات کو پاکستانی مارکیٹوں میں آنے دیں گے۔“انھوں نے بتایا کہ ڈبلیو ٹی او کے تحت پاکستان پہلے ہی چین سمیت تقریباً 100 ممالک کو ایم ایف این کا درجہ دے چکا ہے۔بھارت نے پاکستان کو 1995ئ میں تجارت کے لیے پسندیدہ ترین ملک یا ایم ایف این کا درجہ دے دیا تھا۔وفاقی وزیر نے پریس کانفرنس سے خطاب میں اس تاثر کو بھی رد کیا کہ اس فیصلے سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان جو کوشیش کر رہا ہے وہ متاثر ہوں گی۔بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، دونوں ممالک کا کلچر اور رہن سہن بھی تقریباً ایک ہی جیسا ہے مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے لئے وہ خوش گوار ماحول اب تک پیدا نہیں ہوسکا جو وقت کا تقاضہ اور ضرورت ہے۔ دونوں ممالک آج بھی واہگہ بارڈر کے ذریعے نہایت محدود پیمانے پر تجارت کرتے ہوئے بھی انتہائی سیکورٹی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ دونوں ممالک کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کچھ ان دیکھا نہ ہوجائے ۔ٹریڈ ڈویویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان ( ٹی ڈی اے پی ) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر طارق اقبال پوری کے مطابق اگر سیکورٹی کا مسئلہ حل ہوجائے تو دونوں ممالک کے درمیان انتہائی اہم تجارتی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر واہگہ بارڈر سے تجارت کے لئے درکار سرٹیفکیشن کا مسئلہ حل ہو جائے تو دو ارب ڈالر کی صرف سیمنٹ کی ایکسپورٹ ہو سکتی ہے ، علاوہ ازیں بھارت کو گندم اور چاول کی برآمد کے عوض وہاں سے تیل کی درآمد کی جاسکتی ہے ۔ اس سلسلے میں دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت سے سڑک کے راستے 108 اشیاءکی نہایت سود مند تجارت ہوسکتی ہے۔ تقسیم ہند سے قبل سامان کی نقل و حمل واہگہ، اٹاری بارڈر سے ہی کی جاتی تھی۔ دونوں ممالک 1955 تک اوپن ٹریڈ کرتے رہے تاہم اس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا ۔اس وقت دونوں ممالک کے دوران صرف دو ارب ڈالر مالیت کی تجارت ہوتی ہے جس میں ایک ارب 55 کروڑ ڈالر مالیت کی پاکستان کی درآمدات ہیں جبکہ 45 کروڑ ڈالر مالیت کی بھارت کو برآمدات ہیں ۔ٹریڈ ڈویویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان ( ٹی ڈی اے پی ) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر طارق اقبال پوری نے کہا کہ بھارت کو پسندیدہ قوم کا درجہ قرار دیئے جانے پر بزنس کمیونٹی مطمئن ہے ۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے اقدام کو سراہتے ہو ئے انہوں نے کہا ہے کہ جہاں پڑوسی کام آ سکتا ہے کوئی اور نہیں ، اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ ملے گا بلکہ عوام میں پائے جانے والے فاصلے بھی سمٹ جائیں گے۔بدھ کو اسلام آباد میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے حوالے سے متعلق طارق پوری کا کہنا تھا کہ حکومت نے انتہائی دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے جس کی ہم بھر پور حمایت کرتے ہیں ۔اس سے دو طرفہ تجارت کو فروغ ملے گا اور
پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو گا ۔طارق پوری نے کہا کہ حکومت کے اس عمل سے ملک میں جو اشیائے خردونوش کا وقتی یا موسمی بحران پیدا ہوتا ہے اس پر بھی بڑی حد تک قابو پانے میں مدد ملے گی ۔ انہوں نے مثال دی کہ اگر کھانا پکاتے وقت پیاز کم ہو جائے تو وہ پڑوسیوں سے فوراً مل سکتی ہے جبکہ دور کے رشتہ داروں اور دوستوں کے پاس جاتے جاتے وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے ، اسی طرح شارٹ نوٹس پربھارت
سے چیزیں درآمد اور برآمد کی جا سکتی ہیں ۔انہوں نے مزید بتایا کہ دو طرفہ تجارت میں پاکستان ایگری کلچر اور انڈسٹری ، کیمیکلز ، اسپیئرپارٹس ، مشینریز ، ٹیکسٹائل اور فائبرز کی صنتعوں کو فائدہ ہو گا۔ خام مال کی دستیابی میں کافی حد تک مدد ملے گی ۔بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھارت کو پسندیدہ قوم کا درجہ قرار دیئے جانے پر تحفظات کے حوالے سے پر ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص اپنی سوچ اور حالات کے مطابق خیالات رکھتا ہے اور وہ اس میں پوری طرح آزاد بھی ہے لیکن جہاں تک بزنس کمیونٹی کا تعلق ہے تو وہ اس اقدام سے مطمئن ہے کچھ ماہ قبل بھارت نے یورپی یونین کی اس سکیم کی حمایت کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے ایکسپورٹ کیے جانے والے کپڑے پر ڈیوٹی کی شرح میں رعایتیں دینے کی تجویز تھی۔بھارت کے وزیر تجارت آنند شرما نے اپنے پاکستانی ہم منصب مخدوم امین فہیم سے دلی میں بات چیت کے بعد یہ اعلان کیا۔ اس سے پہلے بھارت اس سکیم کی مخالفت کرتا رہا ہے۔وزارءنے اپنی بات چیت میں باہمی تجارت کو فروغ دینے پر اتفاق کیا اور اپنی وزارت کے سیکریٹریوں کو یہ ہدایت دی کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان زیادہ ترجیحی بنیادوں پر تجارت کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک نقشہ راہ تیار کریں۔بھارت کافی عرصے سے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ پاکستان اسے تجارت کے معاملے میں خصوصی مراعت یافتہ ملک یعنی ایم ایف این کا درجہ دے لیکن اس بارے میں کوئی واضح اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ اعلامیہ کے مطابق دونوں ملکوں نے ایک مخصوص مدت کے اندر تجارت کی راہ میں وہ تمام رکاوٹیں ختم کرنے کا فیصلہ کیا جن کا محصول یا ڈیوٹی کی شرح سے تعلق نہیں ہے۔میٹنگ کے بعد جاری کیے جانے والے ایک مشترکہ بیان کے مطابق دونوں ملک آئندہ تین برس کے اندر باہمی تجارت کو موجودہ تقریباً پونے تین ارب ڈالر سے دوگنا کر کے چھ ارب ڈالر تک پہچنانے کی کوشش کریں گے۔فی الحال اشیاءکی اس فہرست میں کسی تبدیلی کی خبر نہیں تھی جو بھارت پاکستان کو ایکسپورٹ کر سکتا ہے۔ اس فہرست میں انیس سو چالیس چیزیں شامل تھیں لیکن بھارتی تاجروں کا کہنا ہے کہ ان میں سے آدھی چیزیں ایسی ہیں جو بھارت خود درآمد کرتا ہے۔مسٹر شرما کے مطابق بات چیت بہت سود مند رہی۔ دونوں ملکوں کے وزرائے تجارت کے درمیان پینتیس سال میں یہ پہلی ملاقات تھی۔ پاکستانی وزیر بھارت کے چھ روزہ دورے پرگئے ہوئے تھے جس کا آغاز انہوں نے ممبئی سے کیا تھا۔ ان کے ساتھ ایک بڑا تجارتی وفد بھی تھا۔بات چیت میں اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ویزا کے نظام میں نرمی کی جائے گی اور یہ نظام نومبر سے عمل میں آجائے گا۔وزراءنے کہا کہ باہمی تجارت کو فروغ دینے سے دونوں ملکوں کے دوستانہ تعلقات مضبوط ہوں گے۔ دونوں وزراءنے اپنے سیکریٹریوں سے کہا کہ وہ تجارتی تعلقات کو پوری طرج نارمل کرنے کے لیے اقدامات کریں۔انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جنوبی ایشیاءمیں آزادی کے ساتھ تجارت سے متعلق معاہدے یعنی سافٹا کے دائرے میں تجارت کو بھرپور انداز میں فروغ دیا جائے گا۔وزارتی سطح کے مذاکرات سے قبل مخدوم امین فہیم نے کہا تھا وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانیوں کو بھارت میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دی جائے۔ کیونکہ بقول ان کے پاکستان میں بھارتیوں کی جانب سے سرمایہ کاری پر کوئی پابندی نہیں ہے۔اے پی ایس