سترویں سارک سربراہ اجلاس ۔چودھری احسن پر یمی




وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی حمایت اور تمام افغانیوں سے ان کی نظریاتی، نسلی اور سیاسی وابستگی سے بالا تر ہوکر بات چیت کے ذریعے افغانستان کے مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔یہ بات انہوں نے گزشتہ دنوں شنگھائی تعاون تنظیم کے دسویں سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی جو روس کے شہر سینٹ پیٹرسبرگ میں منعقد ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی حقیقت اور شفافیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ افغانستان کی سلامتی اور خودمختاری کا سب احترام کریں۔ پاکستان، افغانستان میں استحکام اور امن کے لیے کی جانے والی مفاہمتی اور تعمیری کوششوں میں وہاں کی حکومت اور عوام کی حمایت جاری رکھے گا۔یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ دہشت گردی، شدت پسندی، منشیات اور منظم جرائم کا معاشروں، ریاستوں اور خطے کو سامنا ہے جبکہ عالمی کساد بازاری، بے روزگاری اور معاشی دباو کا معاشروں میں سرایت کرجانا صورتحال کو گمبھیر بنارہا ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان تمام چیلنجوں کا مقابلہ عزم اور مشترکہ ردعمل کے ذریعے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔وزیراعظم گیلانی پاکستان کی جانب سے آبزرور کے طور نمائندگی کررہے تھے جبکہ اس تنظیم کے باقاعدہ ارکان روس، چین، تاجکستان، ازبکستان، کرغستان اور قزاقستان ہیں۔ پاکستان کی طرح بھارت اور منگولیا بھی شامل ہیں جبکہ افغانستان مہمانِ خصوصی کے طور پر شرکت کی ہے۔وزیراعظم نے خطے کے ممالک کو زمینی راستوں کے جال بچھانے کی ضرورت پر زور دیا جو خطے کی ترقی میں بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔چین کے وزیراعظم وین جیاباو نے گیلانی کی تجویز کو سراہتے ہوئے اس تجویز کی حمایت کی۔ انہوں نے شنگھائی تعاون کی تنظیم کا دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کردار کا تذکرہ کیا اور کہا کہ تنظیم کو چاہیے کہ وہ عالمی تبدیلیوں کا مقابلہ کرے۔ جبکہ گزشتہ دنوںافغان حکومت نے کہا تھا کہ ترکی کے دارالحکومت استنبول میں پاکستان، افغانستان اور ترکی کے درمیان سہ فریقی کانفرنس میں ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کی فوج افغان فوج کی تربیت کرے گی۔اس ضمن میں افغان حکومت نے کہا ہے اس سہ فریقی معاہدے کی بنیادوں پر ان تینوں ملکوں کی افواج مشترکہ فوجی مشقیں بھی کریں گی۔پاکستان نے ماضی میں متعدد بار افغانستان کو افغان فوجیوں کی تربیت کرنے کی پیش کش کی تھی لیکن افغان حکومت کی طرف سے اسے کبھی مثبت جواب نہیں ملا۔ افغان وزارتِ خارجہ کے ترجمان جانان موسی زئی نے اس معاہدے کی کوئی مزید تفصیل فراہم نہیں کی۔ادھر پاکستان دفترِ خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے بھی ایسے اشارے دیئے ہیں۔ دفتر خارجہ کی ترجمان نے بتایا کہ سہ فریقی کانفرنس کے موقع پر دو یاداشتوں پر دستخط ہوئے جن میں سے ایک مشترکہ فوجی مشقوں کے متعلق اور دوسری افغان پولیس کو تربیت فراہم کرنے کے بارے میں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن، استحکام اور خوشحالی دیکھنا چاہتا ہے اور اس بارے میں ہونے والی تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔جبکہ جنوبی ایشیا کے ملکوں پر مشتمل علاقائی تعاون کی تنظیم سارک کے سربراہان کا 17 واں اجلاس جمعرات سے مالدیپ کے جزائرادو میں شروع ہورہا ہے جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کریں گے۔اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے عہدے داروں نے بتایا کہ دو روزہ اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم گیلانی کی بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ سے ملاقات بھی متوقع ہے جس میں جامع امن مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت اور بھارت کو تجارت کے لیے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کے معاملات زیر بحث آئیں گے۔پاکستانی کابینہ نے گزشتہ ہفتے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کی تجویز متفقہ طورپر منظور کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعدازاں سرکاری عہدے داروں کی طرف سے متضاد بیانات نے اس حوالے سے صورت حال کو مبہم بنا دیا۔وزیر اعظم گیلانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں اس تاثر کی نفی کی ہے کہ بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دینے کے اپنے فیصلے سے ا ±ن کی حکومت پیچھے ہٹ رہی ہے۔ البتہ ا ±ن کا کہنا تھا کہ دو طرفہ تجارت کی بحالی کی کوششوں کا انجام بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینا ہوگا۔توقع ہے کہ وزرائے اعظم کے مابین ملاقات کے بعد اس معاملے پر پاکستان کے موقف کے بارے میں ابہام دور ہو سکے گا۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ممبئی حملوں میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے پاکستان کے اقدامات بھی بات چیت میں زیر بحث آئیں گے۔اقتصادی ماہرین ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کی جانب سے ڈبلیو ٹی او کے تحت بالاخر بھارت کو تجارت کے لیے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کے اعلان کو خطے کی معاشی ترقی کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان باضابطہ تجارت کا سالانہ حجم دو ارب ڈالر سے زائد ہے تاہم اس میں پاکستان کا حصہ صرف چودہ فیصد ہے۔ حال ہی میں دونوں ملکوں کے وزرائے تجارت کے مابین ہونے والی ملاقات میں سالانہ تجارت کو اگلے تین سالوں میں چھ ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق کیا تھا۔پاکستانی وزیر اعظم تنظیم میں شامل افغانستان، بنگلادیش، بھوٹان، مالدیپ، نپیپال،اور سری لنکا کے سربراہان مملکت سے بھی ملاقاتیں کریں گے جس میں ان ملکوں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کا جائزہ لیا جائے گا۔پاکستانی دفتر خارجہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ سربراہ اجلاس کے بعد ”پ ±لوں کی تعمیر“ کے عنوان سے مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا جائے گا جس کا مرکزی نکتہ تجارتی، اقتصادی، مالی اور ماحولیاتی تعاون کو فروغ دینے کے لئے خطے کے ملکوں کے مابین قریبی روابط ہوگا۔ اس موقع پر ’سارک سیکریٹیریٹ ترقیاتی فنڈ‘ کا بھی افتتاح کیا جائےگا۔اجلاس میں وزیر اعظم گیلانی اپنے خطاب میں غربت کے خاتمے، توانائی کے شعبے میں تعاون، زراعت اور دیہی ترقی ، خواتین و بچوں کی فلاح وبہبود اور جنوبی ایشیا کے لوگوں کے لیے صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے جیسے موضوعات پر روشنی ڈالیں گے۔سربراہ اجلاس سے قبل پاکستان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ جنوبی ایشیائی ملکوں کی تنظیم سارک کی زیر نگرانی علاقی تعاون کو فروغ دینے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس عزم کا اعادہ مالدیپ میں جاری سار ک کے خارجہ سیکرٹریوں کی قائمہ کمیٹی کے دو روزہ اجلاس کے موقع پر کیا گیا ہے جس میں پاکستان کی نمائندگی خارجہ سیکرٹری سلمان بشیر نے کی اور جس کا مقصد رکن ملکوں کے سربراہان کے اجلاس کا ایجنڈہ تیار کرنا تھا۔پاکستانی خارجہ سیکرٹری کے بقول ان کے ملک کا ماننا ہے کہ سارک کو جنوبی ایشیا میں سماجی و اقتصادی تبدیلی کے لیے عمل انگیزکردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ خطے میں اقتصادی ترقی کے غیر معمولی امکانات موجود ہیں۔”ایشیا بحیثیت مجموعی اقتصادی طور پر ترقی کی دوڑ میں آگے ہوتا جارہا ہے اورجنوبی ایشیا کی کوشش ہونی چاہییے کہ وہ عالمی اقتصادی ترقی میں ایک اہم ستون بنے۔ یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ علاقائی تعاون کی راہ میں رکاوٹ بننے والے اختلافات اور تنازعات کوحل کیا جائے۔“سلمان بشیر نے کہا کہ سترویں سارک سربراہ اجلاس کا عنوان ’پلوں کی تعمیر“ رکھا گیا ہے جس سے ہم آہنگی، ایک دوسرے کو سمجھنے اور علاقے کے لوگوں کے روشن خیال ذاتی مفادات کی بنیاد پر تعاون کو فروغ دینے میں مدد ملنی چاہییے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا سارک تنظیم میں دلچسپی رکھتی ہے کیونکہ اسے خطے کی صلاحیتوں کا ادراک ہے۔”پاکستان توانائی کے شعبے میں علاقائی تعاون کے تصورسمیت زراعت، غذائی تحفظ، غربت کے خاتمے، موسمیاتی تبدیلی، تجارت اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون کو مضبوط کرنے سے متعلق سارک تنظیم کی پیش قدمی کی حمایت کرتا ہے۔پاکستان کی وفاقی کابینہ نے تجارت کی عالمی تنطیم ڈبلیو ٹی او کے تحت ہمسایہ ملک بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کی تجویز کی متفقہ منظوری دی ہے۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت اسلام آباد میںہونے والے کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ تمام متعلقہ فریقین کی مشاورت کے بعد کیا گیا۔”یہ فیصلہ ملک کے بہترین مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے کیوں کہ اس اقدام سے نہ صرف پاک بھارت تجارت میں اضافہ ہو گا بلکہ علاقائی تجارت کو بھی فروغ ملے گا۔“فردوس عاشق اعوان نے غیر جانبدار جائزہ رپورٹس کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے پاکستان کو سالانہ 80 کروڑ ڈالر کا فائدہ ہو گا۔ ”بھارتی مصنوعات سے پاکستانی کی مارکٹیں بھری ہوئی ہیں اور اس غیر قانونی تجارت کی وجہ سے محصولات کی مد میں کوئی رقم حاصل نہیں ہوتی۔ اب ہم قانونی طریقے سے بھارتی مصنوعات کو پاکستانی مارکیٹوں میں آنے دیں گے۔“انھوں نے بتایا کہ ڈبلیو ٹی او کے تحت پاکستان پہلے ہی چین سمیت تقریباً 100 ممالک کو ایم ایف این کا درجہ دے چکا ہے۔بھارت نے پاکستان کو 1996ءمیں تجارت کے لیے پسندیدہ ترین ملک یا ایم ایف این کا درجہ دے دیا تھا۔وفاقی وزیر نے پریس کانفرنس سے خطاب میں اس تاثر کو بھی رد کیا کہ اس فیصلے سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان جو کوشیش کر رہا ہے وہ متاثر ہوں گی۔بھارت اور پاکستان کے تجارتی و کاروباری حلقوں نے تجارت کےلئے بھارت کو پسندہ ترین ملک قرار دینے کے پاکستان کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے کہ پچھلے 60برس سے زائد عرصے سے دونوں ملکوں کی دو کلیدی بندرگاہوں، یعنی کراچی اور ممبئی کے درمیان تجارت بند رہی ہے، جب کہ یہ علاقائی تجارت کو فروغ دینے کا دور ہے۔ پاکستان کو ایک ارب سے زائد آبادی کی ہمسایہ منڈی تک رسائی مل گئی ہے، جب کہ بھارت کو 18کروڑ کی مارکیٹ میسر آگئی ہے۔ شروع میں پاکستان کے ساتھ تجارت واہگہ کی سرحد سے ہوگی جب کہ بھارت کی طرف سے پاکستانی تجارتی برادری کو طویل عرصے کے ویزے جاری ہوں گے۔مبصرین کا کہناہے کہ اب پاکستان اور بھارت کے حالات میں ’ایک بڑی تبدیلی آئی ہے‘، اور جہاں تک باہمی تجارت کا تعلق ہے ِاسے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور فوج کی حمایت بھی شامل ہے۔ کاروبار تبھی ہوتا ہے جب دونوں اطراف کا فائدہ ہو، اور ’بھارت کے لیے بھی وسطی ایشیا تک پہنچنے کا راستہ پاکستان کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگر وہاں کے توانائی کے ذرائع پر رسائی ہونی ہے تو وہ پاکستان کے ہی معرفت ہوسکتی ہے۔اے پی ایس