منصفانہ معاشرہ کیلئے وال سٹریٹ قبضہ تحریک۔چودھری احسن پر یمی



آکیوپائی وال سٹریٹ کے شرکا ءنیویارک کے اہم مالیاتی مرکز وال سٹریٹ کے قریب ایک پارک میں اپنے خیمے لگا کر ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ملکی معاشی پالیسیوں اور بڑے مالیاتی اداروں پر ان کا غصہ تو مشترک ہے، لیکن ان کا احتجاج کا طریقہ ا یک دوسرے سے کافی مختلف ہے۔دور سے تو آکیو پائے وال سٹریٹ کے مظاہرین بس ایک ہجوم کا حصہ دکھائی دیتے ہیں ۔لیکن قریب سے دیکھیں تو ان میں شامل لوگ کافی دلچسپ نظر آتے ہیں۔ ان میں کوئی صاف ستھرا ہے اور کوئی بد حال اور عجیب و غریب، کوئی خود میں مگن ہے اور کوئی دن رات شور مچا رہا ہے ، کوئی صفائی میں مصروف ہے ، کوئی آرام سے بیٹھا ہے، کوئی سو رہا ہے، کسی نے چہرے پر ماسک پہنا ہے اور کوئی کسی مقصد کے لیئے دوسروں کی حمایت حاصل کر رہا ہے۔ میڈیا یہ مناظر دنیا بھر میں دکھا رہا ہے لیکن میڈیا صرف عجیب و غریب لوگوں پر توجہ دے رہا ہے نہ کہ مظاہرین کے سنجیدہ پیغام پر۔ مطلب عام لوگوں کی بات سنی جائے۔ یہ مختلف انداز سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی کے سکھائے ہوئے نظریے کو آگے نہیں بڑھا رہے بلکہ اپنے دل کی بات کہہ رہے ہیں۔ان مظاہرین کو کوئی ایک موضوع متحد نہیں کر رہا۔یونینوں سے تعلق رکھنے والے کسی بڑے کارپوریشن کی لیبر پالیسیوں کے خلاف بول رہے ہیں۔ کوئی بینک کاروں کو جیل بھیجوانا چاہتے ہیں اور کسی کا کہناہے کہ سیاست دان بڑی کارپوریشنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ مظاہرے میں شامل کچھ خواتین سزائے موت کے خلاف ہیں اور تعلیمی نظام کو ایک کاروبار قرار دے رہی ہیں، جبکہ کچھ نوعمر طالب علم دولت کے غلط استعمال کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے ہیں۔یہ سب ہی مظاہرین وال سٹریٹ کو اپنے احتجاج کا مرکز بنائے ہوئے ہیں لیکن ان کا اصل مسئلہ دولت کا غلط استعمال ہے جو ان کے مطابق ایک فیصد امریکیوں کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ بڑی کارپوریشنیں انتخابی مہم میں چندہ دے کر بعد میں سیاست دانوں سے من مانی پالیسیاں منظور کرواتی ہیں جس کا نقصان دیگر99 فیصد امریکیوں کو ہوتا ہے۔یہاں امریکہ کا جھنڈا لہرایا جا رہا ہے بڑی کارپوریشنوں اور نظام کی تباہی کا پیغام دیتے پرچموں کے ساتھ یہاں امریکہ کا جھنڈا لہراتا بھی دکھائی دے رہاہے ۔ اور یہیں پورٹو ریکو ، اور چین کے پرچم اور نہ جانے کیا کیا کچھ موجود ہے۔ان سب میں مشترک قدر یہ ہے کہ یہ سب ایک منصفانہ معاشرہ چاہتے ہیں۔ جہاں نسل پرستی، جنگ اور امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ کم ہو۔وال سٹریٹ کے مالیاتی اداروں نے اب تک ان مظاہروں کو نظر انداز کیا ہے ۔ اورامریکی حکومت نے بھی ان کے مطالبات کے جواب میں کوئی واضح قدم نہیں اٹھایا۔ اس تحریک کا نہ تو کوئی ایک راہنما ہے اور نہ ایک مشترکہ ایجنڈا، اسی لیے باہر سے دیکھنے والے انہیں اپنے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ کچھ کے لیئے یہ افراتفری کی تصویر ہیں اور کچھ کے لیئے جمہوریت کی۔امریکہ کی معاشی پالیسیوں کے خلاف قبضہ احتجاج جو نیویارک سے شروع ہوا تھا اب امریکہ میں 1400 مختلف مقامات تک پھیل چکا ہے۔ اس تحریک کا کوئی لیڈر یا خاص حکمت عملی نہیں ہے۔تبدیلی لانے کے لیے اس ڈھیلے ڈھالے احتجاج کو ایک باضابطہ تحریک کی شکل دینے کی ضرورت ہے۔امریکی دارلحکومت واشنگٹن ڈی سی میں اس تحریک کے مظاہرے میں دو ہزار نرسوں نے شرکت کی جو وال سٹریٹ میں حصص کے کاروبار پر بھی ٹیکس لگانے اور تعمیری ڈھانچے کے روزگار اور انسانی ضروریات کے لیے محاصل کی آمدن بڑھا نے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔لیکن صدر اوباما نے اس منصوبے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جس کے بعد لوگ سیکرٹری خزانہ ٹموتھی گائنر کی نقل اتارتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس تحریک کا کوئی سیاسی اثر ابھی تک نظر نہیں آیا۔اس تحریک میں شامل لوگ روایتی سیاسی دھارے سے ہٹ کر کام کر رہے ہیں، جس کے بارے میں وہ تبدیلی نہیں لا سکتے۔ وہ براہ راست لوگوں کے پاس جانا چاہتے ہیں۔ وہ ملک میں سیاسی روش کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ کچھ اہم اخبارات اس تحریک کے پیغام کو سمجھ رہے ہیں اور اسے اپنے اخبارات میں فرنٹ صفحات پر جگہ دے رہے ہیں۔ آکیوپائی تحریک کا پیغام ٹی پارٹی کے اس پیغام پر بازی لے رہا ہے کہ بڑی حکومت ملک کو دیوالیہ کر رہی ہے۔ جبکہ’نیویارک ٹائمز‘ میں معر ±وف کالم نویس ٹھامس فریڈمان نے ایک خیال افروزمضمون میں اپنے ضمیر کو ٹٹولنے کے ا ±س عمل کا جائزہ لیا ہے جِس سے، ا ±ن کی دانست میں، دنیا کے دو سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان اور امریکہ اِس وقت گ ±زر رہے ہیں۔دونوں ملکوں میں رشوت ستانی اور زیادتیوں کے خلاف عوامی سطح پرتحریکیں چل رہی ہیں۔ لیکن، مضمون نگار کی دانست میں فرق یہ ہے کہ ہندوستانی جس چیز کےخلاف احتجاج کر رہے ہیں وہ ناجائز اورغیر قانونی ہے، یعنی اس نظا م کےخلاف جس میں کوئی کام کرانے کے لئے آپ کو انتظامیہ کی ہر سطح پر رِشوت دینی پڑتی ہے۔اِس کے برعکس ، امریکہ میں، بقول مضمون نگار کے، یہ نظام جائز ہے جِس میں سپریم کورٹ نے انتخابی مہم کے لئے چندوں کی شکل میں رشوت دینے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ جس کی مدد سے، مالیاتی سروِسز فرہم کرنے والی صنعت موثّر طور پر کانگریس کو اور دونوں سیاسی پارٹیوں کو خرید سکتی ہے اور اِس طرح خطرہ مول لینے پر پابندیوں کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ فریڈمان کا کہنا ہے کہ مماثلت یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ہندوستانیوں کو جو چیزسڑکوں پر لے آئی، اس کا مقصد کرپشن کے خلاف م ±لک گیر تحریک کی حمائت کرنا ہے، اور اِسی چیز نے’وال سٹریٹ قبضہ تحریک‘ کو بھی جنم دیا۔ اور درمیان کی طرف جھکاو رکھنے والی اس تنظیم کو بھی ، جِس کا مقصد انٹرنیٹ کو آزاد صدارتی امّید وار نامزد کرنے کے لئے استعمال کرنا ہے۔ اس سے یہ تاثّر ملتا ہے کہ دونوں ملکوں کی جمہوری طور پر منتخب شدہ حکومتوں نے اپنے آپ کوان خصوصی مفادات کا اِس حد تک دست نِگر بنا رکھا ہے کہ اب اصلاحات نافذ کرنا ان کے بس میں نہیں رہا۔اِس لئے دونوں کو باہر سے شاک تھیریپی Shock Therapy دینے کی ضرورت ہے۔ فریڈمان کہتے ہیں کہ بڑا فرق یہ ہے کہ امریکہ میں ’وال سٹریٹ قبضہ تحریک‘ کا کوئی لیڈر نہیں ہے اور نا ہی کوئی متّفقہ مطالبات۔ اور اگرچہ عوام میں اِس کے لئے جامد حمائت موجود ہے۔ اس کے سرگرم کارندوں کی تعداد کم ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان میں کرپشن کے خلاف تحریک کے لاکھوں کی تعداد میں لوگ حامی ہیں۔اور اسے انّا ہزارے جیسا لیڈرمیسّر ہے، جنہوں نے اپنے تحریک کوہندوستان کی آزادی کی دوسری جِدّوجہد کا نام دیا ہے اور فریڈمان کے نزدیک دونوں ملکوں کی عضوِ معطّل والی جمہوریتوں کو فعال بنانے کی یہ تحریک موجودہ نسل کے لئے اسی اہمیت کی حامل ہیں جو پچھلی نسل کے لئے ہندوستان کی تحریک آزادی اور امریکہ کی شہری آزادیوں کی تحریک کی تھی۔امریکہ کے ’سین فرانسسکو کرانیکل‘ یورپی ممالک کی مالی مشکلات پرایک ادارئے میں کہتا ہے اس میں عبرت کا سبق ہے۔ یورپی ممالک کے حالات اربوں ڈالر کے قرضوں، سربراہانِ حکومت کی اپنے عہدوں سے اچانک رخصتی اور پینشن کی رقوم اور روزگار میں یک لخت کٹوتی سے عبارت ہیں۔ اخبار کہتا ہے، کیا واشنگٹن کی بحراوقیانوس کے اس پار برپا ہونے والے انقلاب پر نظر ہے؟ کیونکہ ابھی تک، جِس بارہ رکنی کمیٹی کے سپرد مالی مسائل کا حل ہے اس میں اب تک سمجھوتے کی جانب پیش رفت کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔یورپ اور امریکہ کے حالات بالکل یکساں تونہیں ہیں۔ یونان اوراٹلی نے اپنی اقتصادی خود مختاری اس برِّاعظم کی مشترکہ کرنسی کے ڈسپلن کے بھینٹ چڑھا دی ہے۔ جب کہ واشنگٹن کا اپنی قسمت پر پورا تصرّف ہے۔ لیکن دونوں بڑی امریکی پارٹیاں ابھی سمجھوتے سے کافی دور ہیں۔ اور یہ سوپر کمیٹی سیاست کے ہاتھوں مجبور ہے۔ ری پبلکنوں کا زور اِس پر ہے کوئی نئے ٹیکس نہ لگائے جائیں جب کہ ڈیموکریٹ اِس پرمصِر ہیں کہ آمدنی کے نئے ذرائع ہوں۔ اور سوشل سیکیورٹی اور صحت کی نگہداشت میں کوئی کٹوتی نہ ہو۔ اخبار کہتا ہے کہ یورپ کا ’سوپ آپرا‘ ایک انتباہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی مشکل فیصلے کرگزرو۔ چاہے اس میں سیاسی کریّر کی قربانی بھی کیوں نہ دینی پڑ جائے۔ چنانچہ، کمیٹی کو یاتو قرض کم کرنے کا کوئی کا منصوبہ دینا ہوگا۔ ورنہ وہ فارمولا خود بخود عمل میں آئے گا، جس کے تحت دفاعی اور غیر دفاعی پروگراموں میں ایک اعشاریہ تین ٹریلین ڈالر کی کمی کی جائے گی۔اے پی ایس