پاک بھارت پیش رفت۔چودھری احسن پر یمی




پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے دونوں ممالک کے عوام کی منزلوں کو 'ایک دوسرے سے منسلک" قرار دیتے ہوئے مذاکراتی عمل کو نئے دور میں داخل کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وزیرِاعظم سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ جمعرات کو مالدیپ میں ہونے والی ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کیا۔دونوں وزرائے اعظم کے درمیان یہ ملاقات جنوبی ایشیائی ملکوں کی تنظیم 'سارک' کے 17ویں سربراہ اجلاس کے موقع پر ہوئی ہے جو مالدیپ کے سیاحتی مقام 'ادو' میں ہوئی ہے۔ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی ملاقات کے بعد دونوں وزرائے اعظم نے صحافیوں کے سامنے پہلے سے تحریر شدہ مختصر بیانات پڑھ کر سنائے جن میں انہوں نے تعلقات کے نئے دور کے آغاز کا عزم ظاہر کیا۔اپنے بیان میں بھارتی وزیرِ اعظم نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان رواں برس کے آغاز میں بحال ہونے والے مذاکراتی عمل کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں، لیکن ان کے بقول، " ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے"۔مسٹر سنگھ کا کہنا تھا کہ ملاقات کے دوران اتفاق کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک پورے خلوص کے ساتھ ان تمام تنازعات پر بات چیت کریں گے جنہوں نے دوطرفہ تعلقات کو متاثر کر رکھا ہے۔بھارتی وزیرِ اعظم کے بقول، "ہم پہلے ہی فضول بحثوں میں بہت وقت برباد کرچکے ہیں"۔ انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کا ایک نیا باب رقم کیا جائے۔بھارتی وزیرِاعظم نے زور دیا کہ مذاکرات کے اگلے دور کو "اس حد تک نتیجہ خیز ہونا چاہیے" جس سے دونوں ممالک پہلے سے زیادہ نزدیک آسکیں۔وزیرِاعظم گیلانی نے اپنے بھارتی ہم منصب کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے اگلے دور کو "مزید تعمیراتی، مثبت اور ایسا ہونا چاہیے جس کے ذریعے دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوسکیں"۔وزیرِاعظم گیلانی نے کہا کہ ان کی بھارتی ہم منصب کے ساتھ ہونے والی ملاقات خوش گوار رہی ہے جس کے دوران، ان کے بقول، تمام متنازعہ معاملات پر کھل کر بات کی گئی۔ وزیرِاعظم گیلانی نے کہا کہ ملاقات کے دوران کشمیر، سر کریک، سیاچن، پانی، دہشت گردی اور باہمی تجارت سمیت تمام معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیرِاعظم گیلانی نے بتایا کہ انہیں من موہن سنگھ نے کہا ہے کہ مذاکرات کی میز پر تمام کارڈز رکھ کر دو طرفہ بات چیت کی جائے تاکہ اسے نتیجہ خیز بنایا جاسکے۔ وزیرِاعظم گیلانی نے کہا کہ دونوں ممالک مثبت سمت میں قدم بڑھا رہے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔پاکستان اور بھارت نے رواں برس فروری میں جامع امن مذاکرات کا دوبارہ آغاز کیا تھا جو نومبر 2008ءمیں ممبئی حملوں کے بعد تقریباً دو برس تک تعطل کا شکار رہے۔دریں اثنا 'سارک' کے سترہویں سربراہ اجلاس کا آغاز ہو١ جو دو رو زجاری رہا ۔ اجلاس میں تنظیم کے تمام آٹھ رکن ممالک (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا اور افغانستان) کے سربراہان کے علاوہ تنظیم کے مبصر ممالک کے وفود نے بھی شرکت کی ہے۔رواں سال سارک اجلاس کا موضوع ”بلڈنگ برجز“ یا علاقائی رابطوں کو فروغ دینا تھا۔ سترویں سارک سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے روانگی سے قبل وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ تھا کہ تنظیم کے رکن ممالک کے ساتھ مواصلات، سمندر اورریل کے ذریعے تجارت کو فروغ دینے پر بات ہو گی۔مالدیپ میں سارک سربراہ اجلاس کے موقعے پر بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم من موہن سنگھ اور یوسف رضا گیلانی کی ملاقات پر نئی دہلی میں ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔بائیں بازو کی جماعتوں نے اِسے دوطرفہ تعلقات کی سمت میں ایک مثبت قدم قرار دیا ہے، جب کہ اصل اپوزیشن جماعت، بھارتیا جنتا پارٹی نے اِس پر نقطہ چینی کی ہے۔بائیں بازو کے راہنما، ڈی راجہ نے کہا ہے کہ دونوں وزرائے اعظم نے باہمی ایشوز پر اچھے پڑوسیوں کی مانند تبادلہ خیال کیا ہے اور یہ ایک مثبت اشارہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ’ دونوں راہنماوں نے جو بات چیت کی ہے، میں اسے مثبت پاتا ہوں‘۔انھوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ دونوں ملکوں کے لیے مفید ہوگا۔دونوں راہنماوں نے ان ایشوز پر تبادلہ خیال کیا ہے جِن پر ان کو تشویش ہے۔انھوں نے زور دے کر کہا کہ ’سی پی آئی‘ کا خیال ہے کہ ’دونوں ممالک مکمل مذاکرات کو آگے بڑھائیں اور متنازعہ مسائل کا حل تلاش کریں۔ دونوں ملکوں کے چاہیئے کہ اچھے پڑوسیوں کی مانند دوستانہ تعلقات کو فروغ دیں اور آپس کے اختلافات کو ختم کریں‘۔ادھر، اصل اپوزیشن جماعت بی جے پی نے اِس ملاقات پر نکتہ چینی کی ہے اور وزیر اعظم کے اِس بیان کو کہ پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی امن کے پیامبر ہیں، ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا ہے۔سینئر بی جے پی لیڈر یشونت سنہا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ من موہن سنگھ کا یہ بیان حقیقت سے پرے ہے اور مالدیپ میں دونوں راہنماوں کی ملاقات ’اسی طرح تباہ کن‘ ہوگی جِس طرح مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں ہونے والی ملاقات تباہ کن ثابت ہوئی تھی۔بی جے پی ترجمان سید شاہنواز حسین نے کہا کہ اتحاد کی حکومت پاکستان کے بارے میں اپنا موقف بدل رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ بھارت میں بھی بہت سے لوگ پاکستان کے ساتھ اچھے رشتے چاہتے ہیں، لیکن یہ رشتے اسی وقت قائم ہوسکتے ہیں جب بہت سی باتیں طے پاجائیں۔جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون یعنی سارک کا 17واں اجلاس مالدیب میں گزشتہ جمعرات سے شروع ہوا ۔ اجلا س کو اس حوالے سے بھی خاصی اہمیت دی جا تی رہی ہے کہ اس میں پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کے درمیان ملاقات ہوگی۔ سارک سربراہ کانفرنس سے قبل پاک بھارت وزراے خارجہ نے دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی ملاقات کا ایجنڈا طے کیا۔پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک بھارت بد اعتمادی کم ہو رہی ہے، دہشت گردی کا معاملہ سربراہ ملاقات میں زیر بحث آے گا۔اس موقع پر بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ اعتماد کی فضا بحال ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے بھارت سے مالدیپ آتے ہوئے جہاز میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایس ایم کرشنا نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو دہشت گردی کیخلاف مشترکہ حکمت عملی اپناناہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی نسبت اب پاکستان کے ساتھ تعلقات مستحکم ہو رہے ہیں۔اجلاس کا موضوع زمینی روابط میں اضافہ ہے ۔ پاکستان‘ بھارت ‘ بنگلہ دیش‘ افغانستان‘ سری لنکا ‘ نیپال ‘ بھوٹان اور مالدیپ سارک کے رکن ممالک ہیں جبکہ امریکہ‘ چین ‘ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ ترکی‘ ایران‘ آسٹریلیا ‘ میانمار اور یورپی برادری مبصر کی حیثیت سے سربراہ کانفرنس میں شرکت کی۔ ایک ارب 60 کروڑ عوام کی نمائندہ تنظیم سارک کے مقاصد اور عوام کی بھلائی معیار زندگی بہتر بنانا ہے ۔اس مقصدکیلئے رکن ممالک کے درمیان ہر سطح پر اقتصادی تاون کو مضبوط بنانے کیلئے تنظیم کے پلیٹ فارم سے مربوط کوششیں کی جاتی ہیں‘۔زراعت ‘ دیہی ترقی‘ بائیوٹیکنالوجی‘ ثقافت ‘ توانائی‘ موحولیات ‘ تجارت اور فنڈز کے انتظام کا طریقہ کار انسانی وسائل کی ترقی ‘غربت کا خاتمہ ‘عوامی روابطہ ‘سماجی ترقی ‘ سائنس و ٹیکنالوجی ‘ مواصلات اور سیاحت کے شعبوں میں سارک ممالک ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرتے ہیں ۔سارک ممالک کے درمیان آزاد تجارت دوہرے ٹیکسوں کا خاتمہ اور کسٹم کے معاملات میں باہمی تعاون کے معاہدے طے پاچکے ہیں جبکہ انسداد دہشت گردی ‘ بچوں اور عورتوں کی اسمگلنگ کے خاتمے ‘ بچوں کی بہبود اور فوجداری ‘ معاملات میں باہمی معاونت کے بارے میں سارک ممالک کے درمیان مفاہمت پائی جاتی ہے۔جبکہ بنگلہ دیش نے پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک عارضی رسائی دینے کے منصوبے کی مخالفت ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔پاکستان میں جولائی 2010ءمیں آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد متاثرہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں تعاون کے طور پر یورپی یونین نے پاکستان میں تیار ہونے والی ٹیکسٹائل مصنوعات کی رکن ممالک کو برآمد میں رعایت دینے کا اعلان کیا تھا، مگر بظاہر دوطرفہ تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی کے تناظر میں بھارت کی طرف سے مخالفت کے باعث اس اقدام پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔حالیہ مہینوں کے دوران دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں بہتری کے بعد بھارت نے پاکستان کو اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے لیکن اب خائف توقع بنگلہ دیش کے اعتراضات تجارت کے مجوزہ رعایتی پیکج میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔جنوبی ایشیا کے آٹھ ملکوں کی علاقائی تعاون کی تنظیم ’سارک‘ کے مالدیپ میں جاری سربراہ اجلاس کے موقع پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے اعلیٰ حکام نے رواں ہفتے اس معاملے پر بھی غیر رسمی طور پر تبادلہ خیال کیا۔بنگلہ دیش کے خارجہ سیکرٹری محمد معراج القیس نے بتایا کہ ان کا ملک تحفظات سے دستبردار ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ”(اس معاملے کا) حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔“تجارت کے عالمی ادارے ’ڈبلیو ٹی او‘ کے قوانین کے تحت کوئی بھی رکن دیگر ممالک کو انفرادی طور پر رعایت نہیں دے سکتا اور ایسے کسی خصوصی اقدام کے لیے تمام ارکان کی رضامندی لازمی ہے۔پاکستان نے بنگلہ دیش کے اعتراضات کو اتفاقیہ قرار دیا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بتایا کہ بنگلہ دیش کی طرف سے کی گئی مخالفت ان کے ملک کے لیے انتہائی تشویش کا باعث بنی ہے۔ ”ان کی طرف سے ہمیں پیغام دیا گیا ہے کہ یہ (مخالفت محض) ایک اتفاق تھا۔“کم ترین ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے بنگلہ دیش کی مصنوعات کو کوٹے یا ڈیوٹی کی پابندی کے بغیر یورپی منڈیوں تک رسائی حاصل ہے۔بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل کی صنعت سے منسلک افراد کو خدشہ ہے کہ پاکستان کو رعایت ملنے سے ان کا کاروبار متاثر ہو گا کیوں کہ پاکستان کپاس پیدا کرنے والا ملک ہے اور خصوصی رعایت سے منڈیوں میں مسابقت کا توازن بگڑ جائے گا۔لیکن پاکستانی صنعت کاروں نے ان خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین کی طرف سے اعلان کردہ رعایت کی مدت محض دو سال ہو گی اور بنگلہ دیش کی مصنوعات بہر حال پاکستانی مصنوعات کی نسبت سستی ہیں۔جون 2011ءمیں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران بنگلہ دیش کی برآمدات کا حجم تقریباً 23 ارب ڈالر رہا، جس میں 80 فیصد سے زائد حصہ تیار شدہ کپڑوں کا تھا۔ کپڑوں کی 56 فیصد برآمدات یورپی منڈیوں میں کی گئیں۔ادھر پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی یورپی یونین کو برآمدات کا حجم محض 2.5 ارب ڈالر رہا۔اے پی ایس