آصف علی زرداری سے منسوب مبینہ خط کا معاملہ۔چودھری احسن پر یمی




پاکستان میں حکام نے صدر آصف علی زرداری سے منسوب اس مبینہ خط کی بظاہر تحقیقات شروع کر دی ہیں جس میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا کی برطرفی کے لیے امریکی صدر براک اوباما سے مدد طلب کی گئی تھی۔وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اے پی ایس نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو حکومت نے اسلام آباد طلب کیا ہے تاکہ وہ سیاسی قیادت کو اصل صورت حال سے آگاہ کر سکیں امریکہ میں پاکستان کے سفیر کو واپس آنے دیں تاکہ وہ ہمیں اپ ڈیٹ کریں اور اپنا نقطہ نظر پیش کریں کہ اس (خط) کے پیچھے کیا حقیقت ہے۔ (ہماری) لیڈر شپ چاہتی ہے کہ وہ پروب (اس کی تحقیقات) کرے اور ان تمام افراد کو بے نقاب کرے جن کی وجہ سے اس قسم کی غلط فہمیوں کو پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔“وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت کا مقصد بالکل واضح ہے کہ تحقیقات کے ذریعے ایسے ”افراد کو بے نقاب کرے جو ملک کے اداروں یا اپنے ذاتی مفاد کے لیے نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔جبکہ یہ بھی اطلاع ہے کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی پیشکش کر دی ہے جس کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کے خلاف امریکہ کی مدد حاصل کرنے کے لیے صدر آصف علی زرداری سے منسوب مبینہ خط کا معاملہ بظاہرایک انتہائی سنجیدہ صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ حکومت اس تمام معاملے کی مفصل تحقیقات کرے گی اور اگر کسی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے تو ایسا کرنے والے کو اس کی وضاحت کرنا ہو گی۔”سوال یہ ہے کہ یہ میمو ( پیغام) کس طرح تیار کیا گیا اوراس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، ان سب کی تحقیقات کی جائیں گی۔ (پاکستانی) سفیر کو پہلے ہی پاکستان طلب کیا جا چکا ہے اور مجھے امید ہے وہ جلد یہاں پہنچنے والے ہیں۔ جہاں تک میری معلومات ہیں تو وہ پہلے ہی قوم کے عظیم مفاد میں صدرِ پاکستان کے نام خط میں مستعفی ہونے کی پیشکش کرچکے ہیں۔“پاکستانی نژاد قادیانی منصور اعجاز جن کی والدہ ڈاکٹر لبنی اعجاز جو فزکس میں پی ایچ ڈی کے علاوہ نوبل انعام یافتہ ہیں اور جو اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس میں رہائش پذیر ہیں۔ان کے بیٹے منصور اعجازنے گزشتہ ماہ برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں الزام لگایا تھا کہ ایک اعلٰی پاکستانی سفارت کار نے ان سے رابطہ کر کے صدر زرداری کا مبینہ خط اس وقت کے امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک ملن کو پہنچانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ منصور اعجاز کے بقول دو مئی کو ایبٹ آباد میں خفیہ امریکی آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی صدر کو خدشہ تھا کہ فوج بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرلے گی اس لیے وہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا کو برطرف کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے انھیں امریکی صدر براک اوباما کی مدد درکار ہوگی۔ایبٹ آباد آپریشن کے بعد ملک میں رونما ہونے والے واقعات نے صدر زرداری کی حکومت اور ملک کی فوجی قیادت کے درمیان سخت کشیدگی کو اجاگر کیا ہے۔پاکستان کے سیاسی حلقوں اور ذرائع ابلاغ کا عمومی تاثر یہ ہے کہ صدر زرداری کے مبینہ خط کا تصور اور اسے امریکی حکام تک پہنچانے میں مرکزی کردار حسین حقانی نے ادا کیا ہے۔پاکستانی سفیر نے بھی واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے پاکستانی قیادت کو اپنے مستعفی ہونے یا پھر ملک کی ”جمہوری حکومت کو بدنام کرنے کی بعض عناصر کی طرف سے شروع کی گئی مہم کا خاتمہ“ کرنے کے لیے ہرطرح کی تحقیقات کا حصہ بننے کی پیشکش کر دی ہے۔حسین حقانی کو 2008ءمیں امریکہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا تھا۔”سوائے اشاروں کنایوں کے تاحال مجھ پر کوئی غلط کام کرنے کا الزام نہیں لگایا گیا ہے۔ میں نے کوئی بھی ایسا پیغام تیار یا ارسال نہیں کیا ہے جس کا تذکرہ ذرائع ابلاغ میں کیا جا رہا ہے۔ میں یہ یاد دہانی بھی کراتا چلوں کہ 2008ءمیں سفیر کی حیثیت سے میری تقرری کے بعد کچھ لوگوں نے مسلسل یہ کہہ کر میری کردار کشی کی کوشش کی کہ میں پاکستان کی مسلح افواج کو بدنام کرنے میں ملوث ہوں جو میں نے کبھی نہیں کیا ہے۔“دریں اثنا سابق ایڈمرل مائیک ملن کے ایک ترجمان نے اپنے تازہ بیان میں تصدیق کی ہے کہ انھیں منصور اعجاز کی طرف سے صدر زرداری کا مبینہ پیغام موصول ہوا تھا۔ ” نہ تو پیغام کے مندرجات اور نہ ہی اس کا وجود ایڈمرل ملن کے جنرل کیانی اور پاکستانی حکومت کے ساتھ تعلقات پر اثرانداز ہوئے۔ انھوں نے اس کو کبھی بھی مستند نہیں سمجھا اور نہ ہی اس پر کوئی توجہ دی۔“پاکستان میں حکومت کے ناقدین اور حزب مخالف کے سیاست دان مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر منصور اعجاز کے الزامات بے بنیاد ہیں تو حکومت وقت اس کے اور برطانوی اخبار کے خلاف قانون چارہ جوئی کرے اور ان میں سچائی ہے تو ملک کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی پاداش میں ان ذمہ داران کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔پاکستان نے کہا کہ واشنگٹن میں متعین پاکستانی سفیر حسین حقانی کی طرف سے استعفے کی پیشکش کے بارے میں ابھی تک کوئی مراسلہ صدر آصف علی زرداری کو موصول نہیں ہوا ہے۔ صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’حسین حقانی صاحب نے کہا ہے کہ انھوں نے ایک خط لکھا ہے لیکن ان کا یہ خط ابھی تک صدر پاکستان کو موصول نہیں ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے انھوں نے خط بھیج دیا ہو لیکن یہاں پر یہ خط باضابطہ طور پر صدر کے نوٹس میں نہیں آیا۔‘فیصلہ یہ ہوا تھا کہ انہیں پاکستان بلایا جائے اور وہ اس واقعے کے بارے میں پاکستان کی قیادت کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کریں کہ ہوا کیا تھا۔‘انھوں نے کہا حسین حقانی چند روز میں کسی وقت بھی اسلام آباد آنے والے ہیں اور جب ان کی ملاقات ملک کی قیادت کے ساتھ ہوجائے اور پھر ان کی جو وضاحت ہوگی اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔صدارتی ترجمان نے کہا کہ اگر اس وقت حسین حقانی نے کوئی خط لکھا بھی ہو تو اس خط پر کوئی فیصلہ نہیں ہوگا اس لیے کہ فی الوقت ان کا انتظار ہے کہ وہ تشریف لائیں اور بات کریں اور اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں صدر کے ترجمان نے کہا کہ ’کارروائی کی بات تو اس وقت ہوگی جب یہ ثابت ہوجائے کہ مسٹر حقانی کسی ایسی چیز کے ذمہ دار ہیں جس سے حکومت کو خفت اٹھانے پڑی ہے۔‘’پہلے تو اس بات کی وضاحت ہوجائے کہ یہ واقعہ کیا تھا، کیا ہوا ہے، اس میں کون کون لوگ ملوث ہیں، اس کی حقیقت کتنی ہے اور کس شخص کی کتنی ذمہ داری ہے اس لیے کارروائی کے بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہے۔‘حسین حقانی نے استعفے کی پیشکش ان کے اوپر لگنے والے اس الزام کے پس منظر میں کی ہے کہ انہوں نے اس سال مئی میں پاکستان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے ایک ہفتے بعد اس وقت کے امریکی افواج کے سربراہ جنرل مائک مولن کو ایک خط بھجوایا تھا جس میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کے کسی ممکنہ فوجی اقدام کے خلاف امریکہ سے مدد طلب کی تھی۔پاکستان کی حکومت، ایوان صدر اور وزارت خارجہ پہلے ہی ان الزامات کی تردید کر چکی ہے۔پاکستانی نژاد امریکی کاروباری شخصیت منصور اعجاز نے گزشتہ ماہ برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں دعویٰ کیا تھا کہ ایک اعلٰی پاکستانی سفارت کار نے ان سے فون کر کے کہا تھا کہ صدر زرداری وائٹ ہاوس تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔منصور اعجاز کے بقول دو مئی کو ایبٹ آباد میں خفیہ امریکی آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی صدر کو خدشہ تھا کہ فوج ان کی حکومت کا تختہ الٹ دے گی اس لیے انہوں نے اوباما انتظامیہ سے مدد طلب کی تھی۔اگرچہ منصور اعجاز نے اپنے مضمون میں سفارت کار کا نام نہیں بتایا ہے لیکن پاکستان کے ذرائع ابلاغ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ صدر زرداری کے مبینہ خط کو امریکی حکام تک پہنچانے میں مرکزی کردار حسین حقانی نے ادا کیا ہے۔پاکستانی سفیر نے بھی واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ وہ پاکستان جا رہے ہیں اور انھوں نے استعفیٰ کی پیشکش کی ہے۔امریکی جریدے فارن پالیسی کے آن لائن بلاگ دی کیبل کے مطابق حسین حقانی نے کہا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے صدر کے نام تحریری مراسلے میں بتایا ہے کہ صدر یا ان کی حکومت میں کسی شخص نے امریکہ کے نام ایسا کوئی پیغام تیار کرنے کا نہیں کہا اور نہ ہی انھوں نے پیغام تیار کیا یا ارسال کیا جیسا کہ ذرائع ابلاغ میں کہا جا رہا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ انھوں نے قومی مفاد میں استعفیٰ کی پیشکش کی ہے اور وہ فیصلہ صدر پر چھوڑتے ہیں۔اے پی ایس