متنازع پیغام پر حسین حقانی کی طلبی۔چودھری احسن پر یمی




پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز کا الزام ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے ان سے جو متنازع پیغام لکھوایا تھا اس کے پیچھے ان کا یہ خواب تھا کہ وہ واپس جا کر پاکستان کے قومی سلامتی کے نئے مشیر کا عہدہ سنبھال لیں اور دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور پاکستان کے درمیان ہونے والی تمام کارروائیوں میں مرکزی کردار ادا کریں۔یہ الزام مسٹر اعجاز نے پاکستانی سفیر پر گزشتہ جمعرات کی رات امریکی ریڈیوکو ایک خصوصی انٹرویو میں لگایا۔ ”حقانی اس کے آرکیٹیکٹ تھے، حقانی اس کے مصنف تھے۔ میں اس روز محض ایک ٹائپسٹ تھا۔“انھوں نے یہ بھی کہا کہ فنانشل ٹائمز میں ان کا کالم چھپنے کے دو منٹ بعد ہی انھیں مسٹر حقانی کی کال آئی جس میں انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ سب لوگ یہ سمجھ جائیں گے کہ کالم میں مذکورہ اہم سفارت کار وہی ہیں۔گزشتہ ماہ برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں مسٹر اعجاز نے الزام لگایا تھا کہ ایک اعلٰی پاکستانی سفارت کار نے فوج اور دفتر خارجہ کی پیٹھ پیچھے ان سے رابطہ کر کے پاکستان کے صدر آصف زرداری کا ایک مبینہ خط ا ±س وقت کے امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک ملن کو پہنچانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔مسٹر اعجاز کے بقول دو مئی کو ایبٹ آباد میں خفیہ امریکی آپریشن میں ا ±سامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی صدر کو خدشہ تھا کہ فوج بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرلے گی اور وہ چاہتے تھے کہ ایڈمرل ملن پاکستانی فوج کے اہم عہدیداروں کو یہ پیغام دیں کہ یہ قدم ناقابل قبول ہوگا۔جواب میں امریکی حکومت سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر ان کی بات مان لی گئی تو پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر اور دیگر عہدیداروں کو تبدیل کر کے ان کی جگہ امریکہ کی پسند کے عہدیدار لگا دیے جائیں گے۔منصور اعجاز کے مطابق ان کے کالم پر اٹھنے والے تنازع کے بعد ان کی کئی دفعہ مسٹر حقانی سے فون پر بات ہو چکی ہے جس میں دونوں ہی فریقوں کا لہجہ دوستانہ ہوتا ہے اور آخری دفعہ جب ان سے بات ہوئی تھی تو مسٹر حقانی نے انھیں بتایا تھا کہ وہ اب کبھی ان پر اعتبار نہیں کریں گے لیکن ہمیشہ ان کے دوست رہیں گے اور مہذب طریقے سے ان سے الگ ہونا چاہیں گے۔دوسری طرف پاکستانی سفیر حسین حقانی کا اصرار ہے کہ انھوں نے ایسا کوئی پیغام ”نہ لکھا، نہ پڑھا، نہ پہنچایا۔“ پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ وہ صدرِ پاکستان کے حکم پر پاکستان پہنچنے والے ہیں اور اس معاملے کی تحقیقات پر انھیں کوئی اعتراض نہیں لیکن انھیں یہ شکایت ضرور ہے کہ پاکستان میں کچھ عناصر پہلے سے ان کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔حسین حقانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جمہوری حکومت کو بچانے میں کسی امریکی فوجی کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا۔منصور اعجاز اور پاکستانی سفیر کے تعلقات بہت پرانے سمجھے جاتے ہیں اور مسٹر اعجاز کے مطابق انھیں ایک دوسرے کا بے نظیر بھٹو کے زمانے سے علم تھا کیونکہ مسٹر حقانی بے نظیر کے بے حد قریب تھے اور مسٹر اعجاز کی اکثر بے نظیر سے ملاقات ہوتی تھی۔ لیکن مسٹر اعجاز اور مسٹر حقانی کے درمیان براہ راست تعلقات گیارہ ستمبر 2011ءکے بعد بڑھنے شروع ہوئے تھے۔مسٹر اعجاز کے مطابق جب انہیں نے اپنا کالم لکھا تو اس کا مقصد اس پیغام کو منظر عام پر لانا نہیں تھا بلکہ یہ کالم پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں پر تنقید تھی۔ ان کے مطابق ایڈمرل مائیک ملن نے جب کانگریس کے سامنے اپنے بیان میں حقّانی نیٹ ورک سے پاکستانی ایجنسیوں کے تعلقات پر تنقید کی اور پاکستان میں ان پر بہت لے دے ہوئی تو انہوں نے ایڈمرل ملن کے دفاع میں یہ کالم لکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ لوگوں پر واضح کریں کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں واقعی ملک کے لیے خطرہ ہو سکتی ہیں۔پاکستانی سفیر حسین حقانی نے اس خیال کو مضحکہ خیز قرار دیا کہ انہیں واشنگٹن میں ہوتے ہوئے امریکی حکومت سے رابطہ کرنے کے لیے کسی تیسرے شخص کی ضرورت تھی۔جبکہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جمعہ کو قومی اسمبلی سےخطاب کرتے ہوئے ایک بار پھرکہا ہے کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو صدر پاکستان سے منسوب مبینہ خط کے بارے میں وضاحت کے لیے اسلام آباد طلب کیا جاچکا ہے اوران کی حکومت اس تمام معاملے کی تحقیقات کر کے اسے منتقی انجام تک پہنچائے گی۔”میں پہلے ہی (اپنے) سفیر کو پاکستان طلب کر چکا ہوں، ذرا انتظار کریں … میں نے انھیں وضاحت کے لیے بلایا ہے اور وہ ملک کی قیادت کے سامنے وضاحت پیش کریں گے۔“وزیر اعظم نے یہ بیان قائد حزب اختلاف چوھدری نثار علی خان اور حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے بعض اراکین کے مطالبات کا جواب دیتے ہوئے دیا کہ صدرِ مملکت کے مبینہ مراسلے کی غیر جانب دار اور مکمل تحقیقات کرائی جائیں۔پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کے خلاف امریکہ کی مدد حاصل کرنے کے لیے صدر آصف علی زرداری سے منسوب خط پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے سابق امریکی چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائک ملن کو ارسال کیا تھا۔جبکہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ وہ واضح طورپرکہتے ہیں کہ صدرآصف زرداری کامیموسے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کاکہناہے کہ حکومت کے مسلح افواج کی قیادت کے ساتھ جتنے اچھے تعلقات اب ہیں ماضی میں کسی کے نہ تھے۔ پارلیمنٹ ہاوس کے باہرمیڈیاسے بات چیت میں رحمان ملک کاکہناتھاکہ عسکری ا ور سول قیادت کے درمیان کوئی اختلافات نہیں بلکہ مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔فوجی اورسول قیادت کے درمیان ملاقاتوں کو سنسنی خیز بنا کر پیش نہ کیا جائے،ممبئی حملوں کے بعد بھی مشاورت کے لئے ایسی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ تمام ادارے اپنی جگہ ٹھیک کام کر رہے ہیں۔ایک سوال پررحمان ملک نے کہاکہ قومی سلامتی پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کرسکتا اور نہ موجودہ حکومت کرے گی۔سیکیورٹی کا کوئی بھی معاملہ ہو اس پر تحقیقات ہونی چاہئیں۔امریکا میں پاکستان کے سفیر کو وضاحت کے لئے طلب کیا گیا ہے اور معاملے کی تحقیقات کر کے عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی جائیں گی۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے تحفظات دور ہو گئے ہیں۔جبکہ وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے جمعہ کو قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ دو برسوں میں کراچی میں انتالیس سو اڑتیس لوگ قتل کیے گئے جس میں آٹھ سو اڑتیس افراد ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے۔یہ بات وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی کے مسلم لیگ (ن) کی رکن خالدہ منصور کے پوچھے گئے سوال کے تحریری جواب میں کہی ہے۔وزیر داخلہ نے ایوان کو مزید بتایا کہ سنہ دو ہزار سات سے سات اکتوبر دو ہزار گیارہ تک بلوچستان میں پانچ برسوں میں تقریباً ساڑھے سولہ سو پرتشدد واقعات میں ساڑھے چودہ سو افراد ہلاک اور بتیس سو سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔یہ وہ اعداد وشمار ہیں جن کے مقدمات درج ہوئے جبکہ انسانی حقوق کمیشن کہتا رہا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ سنہ دو ہزار دس اور گیارہ کے دوران کراچی میں انتالیس سو اڑتیس افراد کے قتل کے واقعات میں سے صرف تین سو پینسٹھ واقعات کا چالان پیش کیا گیا اور دو سو تیس ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔کراچی اور بلوچستان میں بدامنی اور لاقانونیت روکنے کے لیے وزیر کے مطابق حکومت نے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات میں سیکورٹی فورسز کو اسلحہ، گاڑیاں اور دیگر آلات کی فراہمی، چیک پوسٹس کا قیام، سیکورٹی فورسز کے گشت میں اضافہ، بلوچستان اور کراچی کے سیکورٹی حکام کے درمیاں مربوط رابطہ اور معلومات کے تبادلے سمیت متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔وزیر داخلہ نے بتایا کہ بلوچستان کے چھ شہروں میں فرنٹیئر کور کی سترہ پلاٹون تعینات کی گئی ہیں جبکہ کچھی، سبی اور نصیر آباد میں فرنٹیئر کور کی ایک ونگ (سات سو تیس افراد) تعینات ہیں اور مستونگ میں مزید تین پلٹون تعینات کی جا رہی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ تین برسوں میں بلوچستان میں تقریباً نوے کروڑ روپے فوج اور فرنٹیئرکور کو تیل اور معاوضوں کے مد میں ادا کیے گئے ہیں۔ ان کے بقول بلوچستان میں حکومتی اقدامات کی وجہ سے اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔وزیر داخلہ نے بیگم نزہت صادق کے سوال کے جواب میں بتایا کہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے تاحال چوبیس ہزار چار سو اٹھاسی افراد کی سزاوں میں کمی کی ہے۔ ان میں چار ہزار تین سو اڑسٹھ خواتین بھی شامل ہیں۔ ان کے بقول سب سے زیادہ سزائیں پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کی معاف ہوئیں جو اٹھارہ ہزار سے زیادہ ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جن افراد کی سزائیں معاف ہوئی ہیں ان پر منشیات، چوری، فوج چھوڑنے، قتل، ریپ، اسلحہ رکھنے اور دیگر جرائم کے مقدمات درج تھے۔ تاہم ریپ سمیت کسی بھی کیٹیگری کی معاف کردہ سزاوں کی جرم وار تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔وقفہ سوالات کے دوران وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے طاہرہ اورنگزیب کے سوال کے جواب میں بتایا کہ سیلاب زدگاں کی امدا د کے لیے عالمی برادری انیس کروڑ بیاسی لاکھ اسی ہزار ڈالر امداد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے چار ہزار تین سو چراسی ارب سے زائد کا قرضہ حاصل کیا ہے۔وزیر خزانہ نے ایک اور سوال کے جواب میں بتایا کہ پاکستان میں افراط زر کی شرح گزشتہ مالی سال میں پندرہ اعشاریہ تین فیصد رہی جو رواں مالی سال میں گیارہ فیصد ہونے کی توقع ہے۔مولوی آغا محمد کے سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے دور میں ڈالر کی نسبت روپے کی قدر میں اٹھائیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ جس کی بڑی وجہ جاری اخراجات کا بڑھتا ہوا خسارا ہے۔ان کے بقول عالمی منڈی میں تیل سمیت مختلف اشیاءکی قیمتوں اور درآمدات میں اضافہ، پاکستان میں امن و امان اور عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی دیگر اہم وجوہات ہیں۔اے پی ایس