شاہ محمود قریشی کے نئے سیاسی سفر کا اعلان۔چودھری احسن پر یمی



سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری کی موجودگی میں پاکستان کا ایٹمی پلانٹ محفوظ نہیں۔زرداری گیلانی حکومت سے عوام مایوس ہوچکے ہیں انہوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ان کو بھگانے کا وقت آگیا ہے۔انہوں نے بے نظیر بھٹو کے وژن اور بھٹو کے فلسفے کو دفن کردیا ہے۔چار سال بعد بھی بے نظیر بھٹو کے قاتل بے نقاب نہیں ہوئے۔جنھوں نے بے نظیر کی پیٹھ پر چھرا گھونپا تھا وہ آج آصف علی زرداری کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ناکام حکومت عوام کے پاس جاکر نیا مینڈیٹ لے۔یہی جمہوری اقدار اور قدریں ہیں۔انہوں نے ان خیالا ت کا اظہار گھوٹکی میں جلسہ عام میں خطاب اور اپنے نئے سیاسی سفر کے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ حصول اقتدار کیلئے نہیں نکلا بلکہ پاکستان کو بچانے اور اسلام آباد میں بیٹھے غاصب حکمرانوں کو نست و نابود کر نے نکلا ہوں۔میں نے پہلا قدم اس وقت اٹھایا جب لاہور چو برجی میں تین پاکستانیوں کو ریمنڈ ڈیوس نے قتل کیا۔میں نے کہا کہ میں پاکستانیوں کے خون کا سودا نہیں کروں گا۔آج پاکستان کی کشتی ایک بھنور میں پھنسی ہے۔اب قومی اسمبلی کی سوچ عوام پر متوجہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ وہ دھرتی ہے جس نے پاکستان کے حق میں پہلی قرداد منظور کی۔اس موقع پر انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا اور کہا کہ پی ٹی آئی نے حصول انصاف اور تبدیلی کا نعرہ لگا یا ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں جلسہ کرنا آسان نہیں کیو نکہ سندھ میں ایک فرعون رہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج یکم محرم ہے تاریخ اسلام کا اہم دن ہے جس دن حسین کا قافلہ یزدیدیت کو دفنانے نکلا تھا۔قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود کو پی ٹی آئی میں دعوت دیتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود پاکستان کی سیاست میں واحد آدمی ہے جس کا دامن کرپشن سے پاک ہے۔عمران خان نے کہا کہ ہم چودھری نثار کو بتائیں گے کہ ایک گیند سے دو وکٹیں کیسے گرتی ہیں۔عمران خان نے موروثی سیاست پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پی پی پی اور نون لیگ میں قابل ورکر جتنی بھی محنت کر لیں لیکن وزیر اعظم بلاول بھٹو اور شریف خاندان کے بچوں نے بننا ہے انہوں نے چودھری نثار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ جتنی بھی محنت کر لیں وہ وزیر اعظم نامزد نہیں ہوسکتے۔کیو نکہ یہ صرف شریف خاندان کے بچوں کیلئے سب کچھ ہیں اسی طرح انھوں نے پی پی پی میں اعتزاز احسن کی قابلیت کا حوالہ بھی دیا ۔انہوں نے کہا کہ آج جو سونامی چل نکلا ہے اس کا چودھری نثار کو پچیس دسمبر کو کراچی کے جلسہ میں پتہ چلے گا۔انہوں نے حکمرانوں سے کہا کہ تم امریکہ کی جنگ سے نکلو۔اس کا امریکہ اور نہ ہمیں معلوم ہے کہ جیت کس کی ہے دونوں اندھیروں میں گھوم رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نیٹو فورسز کا حملہ پاکستان پر حملہ ہے اس ضمن میں پاکستان اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں جائے۔جبکہ سانگھر،میرپور خاص، سکھر،روہڑی بائی پاس پر ہزاروں کی تعداد میں آنے والے قافلوں کے راستوں میں سندھ حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کیں۔جبکہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ انہوں نے جلسہ کرکے اپنی آئندہ سیاسی حکمت عملی کا اعلان کرنے کے لئے گھوٹکی کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ زرداری لیگ کی سیاست نے پاکستان میں تعصب پھیلا دیا ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’زرداری صاحب نے سندھیوں کو سندھیوں اور مہاجروں سے لڑوایا ہے۔ میں پنجاب اور سرائیکی بیلٹ سے وفاق کی سیاست کا، محبت کا پیغام لے کر سندھ گیا ہوں۔‘ا ن کا کہنا تھا کہ وہ علاقائی سیاست کررہے ہیں اور وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سوچ کے عکاس ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت نے گھوٹکی میں انہیں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ جتنی مشکلات ان کی راہ میں کھڑی کی جاسکتی تھیں کردی گئیں آخر کار انہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو انہیں عدالت نے اجازت دی۔ پھر بھی انہیں جلسے کے لیے چار مقامات تبدیل کرنا پڑے۔انہوں نے الزام لگایا کہ سندھ کے وزیر داخلہ نے وائرلیس پر پولیس کو ہدایات دی ہیں کہ باہر سے لوگوں کو جلسے میں شامل نہ ہونے دیا جائے۔’حکومت جو کرسکتی ہے کرے گی مگر ہم نے اپنے چاہنے والوں کو ہدایات کی کہ تمام رکاوٹیں عبور کرکے بھی جلسے میں پہنچیں۔ میں جمہوری انداز سے، پ ±ر امن انداز سے اپنا پیغام پہنچانا چاہتا ہوں۔‘اس سوال پر کہ آپ کی سیاسی گرفت کمزور تھی اس لئے اب آپ نے اپنی روحانی اور خاندانی حمایت کو سیاسی طاقت میں بدلنے کی کوشش کی ہے شاہ محمود قریشی کا جواب تھا کہ ’اگر میری سیاسی گرفت کمزور ہوتی تو بے نظیر بھٹو ان سے زیادہ ذہین تھیں وہ مجھے پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر نہ بناتیں۔ میں گزشتہ انتخابات میں اتنی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا تھا اور زرداری صاحب وزارت خارجہ اور وزارت عظمٰی کے لیے میرے نام پر غور نہ کرتے۔‘شاہ محمود قریشی کے بقول انہیں علم ہوا ہے کہ مہر قبیلے کے عمائدین سے حکومت نے رابطہ کیا ہے۔ انہیں ہر قسم کی لالچ دی گئی ہے سینیٹ میں انتخابات کے وقت نشست کا وعدہ کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ شاہ محمود کے جلسے میں نہیں جانا۔انہوں نے کہا ’وہ صرف سیاسی جوڑ توڑ کرنا جانتے ہیں اور اسی میں لگے ہیں۔ جب نیٹو پاکستان پر حملہ کررہا تھا تو وزیراعظم اپنے بیٹے کی سیٹ پر جوڑ توڑ کررہے تھے بالکل غافل بیٹھے تھے۔ پاکستان کی خودمختاری پامال کی جارہی تھی تو وہ ناظمین سے ملاقات کرکے جوڑ توڑ کررہے تھے انہیں تو صرف اقتدار کا دوام چاہیے۔‘پاکستانی حکومت کی جانب سے نیٹو کی رسد بند کرنے، امریکی سفیر کی طلبی اور نیٹو سے احتجاج جیسے اقدامات پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’جب فوجی افسران حرکت میں آئے تو سیاسی قیادت نے بھی ک ±چھ کیا۔ پاکستان کی عسکری قیادت حرکت میں آئی تو یہ جاگے۔‘اِس سوال پر کہ فوجیوں کی اس قدر تعریف کے نتیجے میں مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ آپ اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہوگئے ہیں انہی حلقوں کے زیر اثر سیاسی راستہ بدل لیا ہے، شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اگر ان کا اثر ہوتا تو وہ قاف لیگ میں چلے گئے ہوتے یا پیپلز پارٹی پیٹریاٹ میں شمولیت اختیار کرتے۔ ‘پاکستانی چوکیوں پر نیٹو حملے کے وقت وزیرِ خارجہ ہونے کی صورت میں ا ±ن کا ردعمل کیا ہوتا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’میرے دور میں بھی حملہ ہوا تھا، میں برسلز میں تھا، اسی وقت نیٹو کے سیکرٹری جنرل سے ملا انہوں نے باقاعدہ تعزیت اور معذرت کی اور وعدہ کیا تھا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک فاتح کی طرح سندھ میں داخل ہو ئے ہیں ان کا بڑا پڑاو ¿ کراچی میں ہوگا۔لاہور کے تیس اکتوبر کے جلسے کی کامیابی کے بعد وہ جو جلسے کر رہے ہیں اس میں لوگوں کی حیرت انگیز زیادہ تعداد پا رہے ہیں۔ جس شہر سے جلسہ کر کے گذرتے ہیں لگتا ہے کہ انہوں نے وہاں پر دو حکومتی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کا صفایا پھیر دیا ہے۔ وہ لاہور سے نکلے تو چکوال میں جلسہ کیا جو چکوال کی حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ قرار دیا جا رہا ہے۔وہاں کے ضلعی ناظم سمیت چند اہم شخصیات نے ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کی۔وہاں سے خیبر پختونخواہ گئے تو ظفر اقبال جھگڑا کے علاقے میں بڑا جلسہ کیا جہاں مسلم لیگ قاف اور اے این پی کے رہنماو ¿ں نے ان کی پارٹی میں شرکت کی۔ملتان میں جلسہ کر کے جلوس لیکر نکلے تو رحیم یار خان پہنچے جہاں ظفر وڑائچ جیسے اہم سابق مسلم لیگی رہنماوں نے ان کی جماعت میں شمولیت کر لی۔عمران خان کے جلسوں کے بعد مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان ممکنہ انتخابی امیدواروں اور کارکنوں کے لیے کھینچا تانی شروع ہوگئی ہے۔چکوال میں عمران خان نے سابق ناظم کو ساتھ ملایا تو مسلم لیگ نون نے عبدالمجید ملک کو’معافی‘ دیکر اپنے ساتھ ملا لیا۔اسی نوعیت کی کھینچا تانی ہر اس ضلع میں زور پکڑ جاتی ہے جہاں عمران خان جلسہ کرتے ہیں۔ ویسے تو شاہ محمود قریشی نے سب سے طویل ملاقات تو شریف برادران سے کی ہے لیکن عمران خان نے کہا تھا کہ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما نے ایک نجی محفل میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شاہ محمود قریشی نے مسلم لیگ نون سے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی چار نشستوں کی انتخابی ٹکٹ دی جائے۔نواز شریف نے اس مطالبے پر کوئی فوری جواب نہیں دیا اور شاہ محمود قریشی
نے ان کی جماعت میں شمولیت کا کوئی اعلان نہیں کیا۔عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر شاہ محمود قریشی ان کی جماعت میں شامل ہوں گے تو تحریک انصاف کارکنوں سمیت ان کے گھوٹکی جلسے میں شریک ہوں گے۔عمران خان ایک جلوس لیکر شاہ محمود قریشی کے گھوٹکی کے جلسے میں گئے۔شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ وہ عمران خان کو خوش آمدید کہیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف نے گھوٹکی میں سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے ہونے والے جلسہ عام کے لئے 5/ہزار پارٹی پرچم بھیجے جبکہ عمران خان نے بھی گھوٹکی جلسے میں شرکت کے لئے طیارے میں اپنی نشست محفوظ کرالی تھی۔ اس طرح گھوٹکی کی ریلی میں تحریک انصاف کے پرچم چھائے رہے۔ شاہ محمود قریشی کا حکمراں جماعت سے علیحدگی کے بعد گھوٹکی کا جلسہ ان کا پہلا عوامی جلسہ تھا جہاں ان کے پیروکاروں کی اکثریت رہتی ہے۔ تاہم شاہ محمود قریشی نے اپنے آبائی ضلع ملتان میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے سے اجتناب کیا ۔اے پی ایس