کرکٹ کرپشن:ضمیر کا سودا ۔چودھری احسن پر یمی



پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ وہ حکومت سے سفارش کرے گا کہ وہ کھیلوں سے بدعنوانی ختم کرنے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کرے۔ پی سی بی بدعنوان عناصر کا کرکٹ سے خاتمہ چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ آئی سی سی اور تمام بورڈز کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔لندن کی عدالت کی جانب سے پاکستان کے تین کھلاڑیوں کو سزا سنائے جانے کے اعلان کے بعدپاکستان کے لیے ایک افسوaسناک دن ہے کیونکہ کسی بھی کھلاڑی کا اپنے ملک کے لیے کھیلنا فخر کی بات ہوتی ہے لیکن ان تین کھلاڑیوں نے نہ صرف کرکٹ جیسے خوبصورت کھیل کو داغدار کیا بلکہ اپنے چاہنے والوں اور پاکستانی قوم کو بے حد مایوس کیا پاکستان میں ان کے لیے کوئی ہمدردی محسوس نہیں کی جارہی ہے۔ پی سی بی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ کھیل سے کرپشن کو پاک کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور جو پہلے سے اقدامات کیے جارہے ہیں ان میں بہتری لائی جائے۔ پی سی بی کی پہلی ترجیح تو یہ ہے کہ موجودہ کھلاڑی اور آنے والے کھلاڑیوں کے لیے اخلاقی اور تعلیمی کورسز کا سلسلہ جاری رہے اور بین الاقوامی کرکٹ سے ہم آہنگی کے لیے کروائے جانے والے کورسز بھی جاری رہیں بلکہ ان کو مزید بہتر بنایا جائے گا تاکہ کھلاڑی غیر ضروری سرگرمیوں کا حصہ نہ بن سکیں۔ترجمان نے کہا کہ کھلاڑیوں کی نگرانی کے نظام کو مزید سخت کیا جائے گا اور ایسے تمام عناصر کو کھلاڑیوں سے دور رکھنے کے اقدامات کیے جائیں گے تاکہ وہ بدعنوانی میں ملوث عناصر سے محفوظ رہ سکیں۔ ٹیم کا ایجنٹ بننے کے قوانین کا ازسرِ نو جائزہ لے کر انہیں نئے سرے سے مرتب کیا جائے اور انہیں مزید سخت بنایا جائے تاکہ کھلاڑیوں کو غیر منظور شدہ ایجنٹوں سے دور رکھا جاسکے۔ جبکہ پاکستان کے سابق کپتان عمران خان نے کہا ہے کہ تین کھلاڑیوں کو سپاٹ فکسنگ میں ملوث پائے جانے کی خبر سن کر انہیں دلی صدمہ ہوا ہے۔عمران خان نے کہا کہ انہیں سزا پانے والے کھلاڑیوں کے خاندان والوں سے ہمدردی ہے۔’مجھے کھلاڑیوں پر افسوس ہوتا ہے کیونکہ وہ پاکستان سے ہیں جہاں ملک کے صدر کے خلاف کرپشن کے بڑے بڑے مقدمات ہیں اور انہوں (کھلاڑیوں) نے بھی سوچا ہوگا کہ جرم کرنا فائدہ ہوتا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ برطانوی عدالت کا فیصلے سے پاکستانی کرکٹ کی آنکھیں کھل جانی چاہیں اور اب انہیں بہت احتیاط کرنی چاہیے‘عمران خان نے سابقہ کرکٹ بورڈ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کو ختم کرنے کی بجائے دبانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ مجھے نوجوان فاسٹ بولر محمد عامر کا دکھ ہے۔ ’وہ شاید اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوگیا تھا۔‘پاکستان کے ایک اور سابق کپتان رمیز راجہ نے کہا کہ انہیں سزا پانے والے کھلاڑیوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔’میرا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ جب باقی ٹیم میچ جیتنے کی کوشش کر رہی ہو ہے تو ان میں سے کچھ کھلاڑی اپنی ضمیر کا سودا کرنے کی کوشش کر رہے ہوں تو ایسے کھلاڑیوں کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔‘رمیز راجہ نے کہا کہ ان کھلاڑیوں نے پاکستانی کرکٹ اور پاکستان کے شیدائیوں کے اعتماد کو مجروح کیا ہے۔رمیز راجہ کے خیال میں اس فیصلے سے پاکستان کی کرکٹ کو فائدہ ہوگا۔ انہیں ان کھلاڑیوں کے خاندانوں سے ہمدردی ہے لیکن ایسے عناصر سے چھٹکارا ضروری ہے۔ پاکستان کی کرکٹ کو ایسے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے جو اپنے ملک کی باوقار انداز میں نمائندگی کر سکیں۔سابق کپتان اور کوچ وقار یونس نے کہا کہ یہ کرکٹ کا بدنما پہلو ہے۔ وقار یونس اس وقت کرکٹ ٹیم کے کوچ تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ کھلاڑی اس فعل میں مبتلا ہوں گے۔اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا تو ہم ایسا نہ ہونے دیتے ۔‘وقار یونس نے کہا کہ انہیں برطانیہ کے فوجداری نظام کا پتہ نہیں ہے لیکن کرکٹ کے کھلاڑیوں کوجیل بھیجنا کرکٹ اور پاکستان کے لیے افسوس ناک ہے۔لندن کی ایک عدالت سے قید کی سزا پانے والے تینوں پاکستان کھلاڑیوں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو ایجنٹ مظہر مجید سمیت جیل بھیج دیا ہے۔قبل ازیں سپاٹ فکسنگ کے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے سلمان بٹ کو ڈھائی سال، محمد آصف کو ایک سال اور محمد عامر کو چھ ماہ کی سزا سنائی تھی، کھلاڑیوں کے ایجنٹ مظہر مجید کو دو سال آٹھ ماہ قید کا حکم دیا گیا تھا عد الت نے تینوں کھلاڑیوں کو مقدمے پر اٹھنے والے اخراجات ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ان میں سلمان بٹ کو تیس ہزار نو سو سینتیس پاونڈ، آصف کو آٹھ ہزار ایک سو بیس اور محمد عامر کو نو ہزار نواسی پاونڈ ادا کرنا ہونگے۔جج نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر مجرموں نے اچھا برتاو کیا تو ان کی سزا نصف ہو سکتی ہے۔عدالت کے جج جسٹس کک نے کہا کہ اس سکینڈل سے کرکٹ میچز ہمیشہ کے لیے داغدار ہوگئے ہیں۔انہوں نے مقدمہ کا دفاع کرنے والوں سے کہا ’کہنے کی بات تھی کہ یہ کرکٹ نہیں ہے۔ آپ کے اعمال کے پیشہ ورانہ کرکٹ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ان پر بھی جو اس طرح کے جرائم میں ملوث ہیں۔ان کے بقول ’پہلے جو ایک کھیل تھا اور جس کا تاثر اور اہمیت سب کی نظر میں تھی اب وہ ایک کاروبار ہے اور اس کے تاثر کو سب کی نظر میں جن میں نوجوان بھی شامل ہیں دھچکا لگا ہے۔ یہ نوجوان پہلے آپ کو ہیرو سمجھتے تھے۔‘لندن کی عدالت کے جج نے کہا کہ کپتان ہونے کے ناطے سلمان بٹ پر اضافی ذمہ داری تھی لیکن انھوں نے محمد عامر کو بھی گمراہ کیا۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ اور بالر محمد آصف کو دھوکہ دہی اور بدعنوانی کا قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔اس مقدمے کے ایک ملزم سپورٹس ایجنٹ مظہر مجید کے وکیل نے سماعت کے دوران یہ انکشاف بھی کیا کہ سلمان بٹ کے ساتھ ایک اور پاکستانی کرکٹر بھی سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہے۔ تاہم اس کرکٹر کا نام نہیں بتایا گیا۔مقدمے کے دو دیگر ملزمان محمد عامر اور ان کے ایجنٹ مظہر مجید پہلے ہی اپنے جرم کا اعتراف کرچکے ہیں۔ سماعت کے دوران مظہر مجید نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اس نے نو بالز کروانے کے لیے محمد آصف کو پینسٹھ ہزار سلمان بٹ کو دس ہزار اور محمد عامر کو ڈھائی ہزار پاونڈ دیے تھے۔جبکہ محمد عامر نے عدالت کو بتایا کہ وہ صرف ایک میچ میں فکسنگ میں ملوث تھے اور یہ صرف ایک بار کا واقعہ تھا تاہم عدالت نے بعض ثبوتوں کی بنیاد پر ان کا موقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔اس مقدمے میں فیصلے کا اعلان پہلے بدھ کے روز کیا جانا تھا تاہم بعد میں اعلان کیا گیا کہ فیصلہ جمعرات کو سنایا گیا۔قانونی ماہرین کے مطابق تینوں کھلاڑیوں کو اپیل کا حق ہے لیکن برطانیہ میں اپیل صرف پوائنٹس آف فلاز پر ہوتی ہے۔ اگر ان کے وکیل کورٹ آف اپیل میں یہ ثابت کر سکیں کہ جو جج کیس کی سربراہی کر رہا تھا اس نے جیوری کو مس ڈائریکٹ کیا تھا تو اس صورت میں اپیل کا حق ہے یا پھر سزا زیادہ سخت ہے تو وہ اپیل کر سکتے ہیں۔لندن کی عدالت نے سپاٹ فکسنگ کیس میں سلمان بٹ اور محمد آصف کو قصوروار قرار دے کر انہیں دھوکہ دہی اور بدعنوانی کے الزامات میں مجرم قرار دیا تھا۔اس مقدمے میں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے سپورٹس ایجنٹ مظہر مجید کے کہنے پر چھبیس اور ستائیس اگست سنہ دو ہزار دس کو لارڈز ٹیسٹ کے دوران پہلے سے طے شدہ وقت پر نو بالز کروائیں تھیں۔پاکستانی کرکٹ میں پہلی مرتبہ میچ فکسنگ کی تحقیقات کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب آسٹریلوی کرکٹرز شین وارن، مارک وا اور ٹم مے نے سابق کپتان سلیم ملک کے بارے میں یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے ان تینوں کو مبینہ طور خراب کارکردگی کے عوض رشوت کی پیشکش کی تھی۔تینوں آسٹریلوی کرکٹرز کا کہنا تھا کہ سلیم ملک نے مبینہ طور پر یہ پیشکش اس وقت کی تھی جب 95-1994ءمیں آسٹریلوی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تھی اور ان تینوں کے مطابق اس پیشکش کا تعلق کراچی کے ٹیسٹ میچ اور راولپنڈی کے ون ڈے سے تھا۔پاکستان نے انتہائی ڈرامائی انداز میں ٹیسٹ میچ ایک وکٹ سے جیتا تھا۔ آسٹریلوی کرکٹرز کا سلیم ملک کے بارے میں یہ انکشاف پاکستان کے دورے کے بہت بعد سامنے آیا اور خود شین وارن اور مارک وا بھی ایک بک میکر سے رابطے اور اسے میچ کی مختلف معلومات فراہم کرنے کی پاداش میں آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کی جانب سے جرمانے کی زد میں آئے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے سلیم ملک پر الزامات سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپ دی تاہم آسٹریلوی کرکٹرز نے پاکستان آکر انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا اس طرح جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کو ان کے بیانات اور سلیم ملک پر جرح ہی پر اکتفا کرنا پڑا۔انہوں نے اکتوبر1995 میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد رپورٹ پاکستان کرکٹ بورڈ کو دے دی جس میں سلیم ملک پر عائد الزامات ٹھوس شواہد نہ ہونے کی بنیاد پر مسترد کردیے گئے۔بعد ازاں آسٹریلوی کرکٹرز مارک ٹیلر اور مارک وا جسٹس قیوم کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لیے نہ صرف پاکستان آئے بلکہ کمیشن نے اپنی لیگل ٹیم کو شین وارن پر جرح کرنے کے لئے بھی آسٹریلیا بھیجا اور سلیم ملک پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کی پاداش میں تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔پاکستانی کرکٹ میں میچ فکسنگ کی دوسری تحقیقات جسٹس اعجاز یوسف کی سربراہی میں قائم تین رکنی کمیٹی نے کی جس کے دیگر دو ارکان نصرت عظیم اور میاں محمد منیر تھے۔جسٹس اعجاز یوسف نے اپنی تحقیقات کے دوران کرکٹرز اور آفیشلز وغیرہ کے بیانات سننے کے بعد اگست1998 میں اپنی 11 صفحات کی عبوری رپورٹ پاکستان کرکٹ بورڈ کے حوالے کردی جس میں وسیم اکرم ۔ سلیم ملک اور اعجاز احمد کے بارے میں لکھا تھا کہ ان تینوں پر سنگین نوعیت کے الزامات سامنے آئے ہیں لہذا انہیں پاکستانی ٹیم سے فوراً الگ کردیا جائے اور آئندہ بھی ان کے سلیکشن پر غور نہ کیا جائے۔جسٹس اعجاز یوسف نے ان کرکٹرز کے بارے میں حتمی فیصلہ تحقیقات کے مکمل ہونے تک موخر کردیا تھالیکن بعد میں یہ تحقیقات وہیں تک رہیں۔جسٹس اعجاز یوسف کی انکوائری کمیٹی کے بارے میں جسٹس قیوم رپورٹ میں تحریر ہے کہ اس نے کچھ کھلاڑیوں کو معطل کرنے کے بارے میں کہا تھا لیکن یہ انکوائری ختم کردی گئی کیونکہ جج صاحب کے پاس اختیارات نہیں تھے اور اس میں جن کرکٹرز پر الزامات عائد کئے گئے انہیں صفائی کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔جسٹس فخرالدین جی ابراہیم ۔جسٹس اعجاز یوسف اور جسٹس ملک محمد قیوم کے بعد جسٹس کرامت نذیر بھنڈاری میچ فکسنگ کی تحقیقات کرنے والے چوتھے جج تھے۔انہیں آئی سی سی کے کہنے پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے 1999 کے عالمی کپ میں پاکستانی ٹیم پر میچ فکسنگ اور امپائر جاوید اختر کے خلاف الزامات کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی تھی۔بھنڈاری رپورٹ جون 2002 میں جاری کی گئی جس میں پاکستانی ٹیم کو بھارت اور بنگلہ دیش کے خلاف میچز میں میچ فکسنگ کے الزامات سے کلیئر کردیا گیا۔اے پی ایس