عوام نظام کی تبدیلی کیلئے تیار۔چودھری احسن پریمی




گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی جائنٹ سیکریٹری عابدہ راجا سے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈپریس سروس،اے پی ایس نیوز ایجنسی نے ایک خصوصی نشست کا اہتما م کیا۔اس موقع پر ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر سیر حاصل تبا دلہ خیال کیا گیا۔اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی جائنٹ سیکریٹری عابدہ راجا نے پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی تیز رفتار عوامی مقبولیت سے بوکھلا کرفوجی گملوں کے پودے اور اسٹیبلشمنٹ کے کارندے ان پر بے سروپا الزامات لگارہے ہیں قوم اچھی طرح جان چکی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے نمک خوار اور بین الاقوامی طاقتوں کے ایجنٹ کون ہیں اور عوام کے حقیقی نمائندے کون ہیں جو صحیح معنوں میں تبدیلی کی علامت ہیں۔ پاکستان میں پہلی دفعہ کوئی پارٹی مختلف شعبوں کے ماہرین اور استحصال زدہ طبقوں کو باقاعدہ ٹکٹ جاری کرے گی جس میں سب سے زیادہ محنت کشوں کونمائندگی دی جائے گی۔عابدہ راجا نے مزید کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے قیام کے 15 سال بعدعمران خان ایک سرکردہ سیاسی رہنما کے طورپر سامنے آئے ہیں جوکہ ملک کے لئے ناگزیربن چکے ہیں ۔لاہورکے جلسے نے ملکی سیاست پرگہرے اثرات مرتب کئے ہیں ،اس جلسے میں انہوں نے ملک کوکرپشن سے پاک اورایک فلاحی ریاست بنانے کے عزم کااعادہ کیا ہے،لاہورکی ریلی نے یہ ثابت کردیاہے کہ عمران خان پاکستان کی طاقتورسیاست میں تبدیلی کامحرک ثابت ہواہے۔اس جلسے کی مددسے عمران نے ہرچیز کو غلط ثابت کردیاہے جبکہ دیگرے رائے عامہ کے جائزوں میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ سرفہرست ہیں۔عابدہ راجا نے مزید کہا کہ زرداری اور نواز شریف کی منزل پاکستان بچانا نہیں، دونوں ایک بھی ہو جائیں تب بھی تحریک انصاف سے عبرتناک شکست ہوگی، سندھیوں، پنجابیوں کو تحریک انصاف اکٹھا کرے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف میں شامل تو سب ہو سکتے ہیں لیکن ٹکٹ میرٹ کی بنیاد پرصرف ان کو ملے گا جو تمام اثاثے ڈیکلیئر کرے گا ۔ تحریک انصاف خاندانی پارٹی نہیں ہو گی یہ ایک ادارہ ہو گا جو میرٹ پر ٹکٹ دے گا، گمنام اثاثے والوں کو ٹکٹ نہیں ملے گا،پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کے اثاثے باہر ہیں ان سے کبھی نہیں ملا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کنٹرول نہیں کرسکتی لڑائیوں کا مطلب ہے جماعت بڑھ رہی ہے یہ جمہوری عمل ہے آپ دیکھیں گے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی موجودگی میں شفاف الیکشن نہیں ہو سکتے ، سپریم کورٹ سے اپیل کریں گے کہ خود مختار الیکشن کمیشن تشکیل دے ۔عابدہ راجا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ تحریک انصاف کا سیلاب سونامی میں تبدیل ہورہا ہے جسے اب کوئی نہیں روک سکتا، مجرم بڑے عہدوں پر بیٹھے ہیں لوگوں کو سیاسی مافیا کے مقدمات کا خوف ہے، صدر زرداری نے آج تک ایمانداری سے کوئی کام نہیں کیا شفاف انتخابات ان کی موجودگی میں نہیں ہوسکتے۔ لوگوں کے حالات کی بہتری کیلئے نئے صوبے بننے چاہئیں لیکن اس کیلئے یہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو بٹھا کر سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے اس وقت صرف ووٹروں کے بھاگنے کے خوف سے اعلانات کئے جارہے ہیں جن سے عدم استحکام ہوسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ روایتی اور پیشہ ور سیاستدانوں کی تحریک انصاف میں کوئی جگہ نہیں ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جن کا ماضی بے داغ ہو، ملک کے 17 کروڑ عوام ذہنی طور پر نظام کی تبدیلی کیلئے تیار ہو چکے ہیں، اب عام زندگی میں کسی کا استحصال نہیں ہو گا، عام آدمی کو انصاف ملے گا اور تحریک انصاف عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔عابدہ راجا نے حکومتی کا رکردگی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پچھلے تقریباً چار سال کے عرصے میں پاکستان میں بسنے والے ایک عام آدمی کی مشکلات میں خوفناک تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ روزمرہ ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں سے لے کر بجلی، پانی، گیس، لا اینڈ آرڈر، تعلیم، صحت اور روزگار ہر شعبہ زندگی میں لوگوں کی تکلیف روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور ان کے لئے دو وقت کی روٹی سکون سے کمانا بھی محال ہو کر رہ گیا ہے۔ جن چند ہزار افراد کو حکومت نے کسی نہ کسی شکل میں روزگار فراہم کیا انہیں بھی دراصل پبلک سیکٹر کے ایسے اداروں میں ہی کھپایا ہے جو پہلے ہی جان کنی کی حالت میں ہیں اور ملکی معیشت کو ہر سال سیکڑوں ارب روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان اسٹیل، پی آئی اے، ریلوے اور اسی طرح کے دوسرے قومی اداروں کی جو حالت ہے اسے ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لئے رینٹل پاور پلانٹس کا معاملہ بھی ساری قوم کے سامنے ہے۔ بلا سوچے سمجھے اربوں روپے ایڈوانس دینے کے بعد بھی حکومت ان پلانٹس سے 70-60 میگاواٹ سے زیادہ بجلی حاصل نہیں کر سکی۔ ستم یہ کہ لوڈ شیڈنگ نے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ صنعتوں کا بھی پہیہ جام کرکے رکھ دیا ہے۔ ملکی معیشت اس قدر خستہ و خراب حالت میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔عابدہ راجا نے آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ توانائی کے سنگین بحران کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور غربت میں اضافے کا خطرہ شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ خارجہ پالیسی اور ملکی سلامتی سے متعلق مسائل اس کے علاوہ ہیں اور پوری قوم جانتی ہے کہ ان محاذوں پر بھی صورتحال اچھی نہیں ہے۔ یورپی یونین کے لئے پاکستانی مصنوعات کا راستہ بنگلہ دیش جیسے ملک کے کہنے پر روک دیا گیا۔ ہمارا اسٹرٹیجک پارٹنر امریکہ اپنی مارکیٹ کے دروازے ہم پر بند کئے بیٹھا ہے۔ افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات صرف بیانات کی حد تک ہی دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت کوئی بڑا فیصلہ ڈھنگ سے نہیں کر سکتی۔ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کا معاملہ بھی بیچ ہی میں لٹک کر رہ گیا ہے۔ ان دنوں امریکی حکام کو خفیہ طریقے سے پہنچائے جانے والے میمو کا قضیہ گرم ہے جس نے قوم کے ساتھ ساتھ قومی اداروں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت نے ریکارڈ 5091ارب روپے قرضہ لیا ہے جس سے تین سال میں قرضوں کا مجموعی حجم دوگنا ہوگیا ہے۔ مارچ 2008ءتک ملکی اور غیرملکی قرضوں کا بوجھ 5799ملین روپے تھا جو اگست 2011ءمیں بڑھ کر 10890ملین روپے ہوگیا ہے۔ یکم جولائی 2009ءسے اب تک مختلف اشیائے ضرورت کی قیمتیں خاصی حد تک بڑھ گئی ہیں اور عوام کی مشکلات و مصائب میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے۔بجلی اورگیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے صنعتی ترقی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور حکومت کومعیشت کومستحکم رکھنے کے لئے آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ایجنسیوں سے قرضے لینے پر مجبور ہے لیکن اس کے برعکس غیرترقیاتی شاہانہ اخراجات میں کمی نہیں کی گئی۔ایوان صدر، ایوان وزیراعظم، گورنر، وزیروں اورمشیروں کے اخراجات کم کرنے کی بجائے اس میں اضافہ کیا گیا ہے۔وفاق اورصوبوں میں وزیروں، مشیروں کی فوج ظفرموج موجود ہے۔پاکستان کی و فاقی کابینہ کا شمار دنیا کی بڑی وزارتوں میں ہوتا ہے۔ہروزیر ،مشیرکو لگثری کارہی نہیں بلٹ پروف کاریں اورسکیورٹی مہیا کی جاتی ہے۔عابدہ راجا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی طرف سے امریکہ کے سابق فوجی سربراہ مائیک مولن کو دیئے جانے والے مبینہ میمو یا مکتوب سے متعلق تمام تحقیقات کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے ۔ کیونکہ یہ معاملہ ملکی وقار اور قومی سلامتی کے حوالے سے اس قدر اہم ہے کہ جونہی اس کا انکشاف ہوا تو سنجیدہ فکر قومی حلقوں نے اسی وقت اس کی حساسیت کا اندازہ لگا لیا تھا اور وہ اس بارے میں سخت متفکر تھے کہ اگر بات اسی طرح ہے جیسے کہ بیان کی جارہی ہے اور پاکستان میں اہم عہدوں پر فائز بعض شخصیات کی طرف سے ریاست کے انتہائی قابل قدر اہم ترین اور قومی سلامتی کے لئے ناگزیر اداروں کو غیر ملکی تعاون و اشتراک سے زیر دام لانے کی کوئی کوشش کی گئی ہے تو اس کو کسی طرح معمولی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاملہ ہر لحاظ سے انتہائی سنجیدہ اور قومی اہمیت کا حامل ہے ۔ لہٰذا یہ ہمارے ذمہ دار قومی حلقوں اور اداروں کا فرض ہے کہ وہ مذکورہ حوالے سے سامنے آنے والے تمام پہلوو ¿ں کا پوری سنجیدگی سے جائزہ لے کر ایسی حکمت عملی اپنائیں کہ کسی کو ہمارے قومی معاملات میں مداخلت کی ہمت نہ ہوسکے۔عابدہ راجا نے حکومتی کرپشن کے حوالے سے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ جب ملک میں لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوا تو اس وقت کرائے کے بجلی گھر حاصل کرنے کی بات کی گئی اور یہ کہا گیا کہ لوڈ شیڈنگ پر فوری طور پر قابو پانے کیلئے اس کے علاوہ اور کوئی موثر طریقہ نہیں ہے ۔ لیکن ایسا کرنے کے بعد لوڈ شیڈنگ میں تو کوئی کمی نہ ہوئی لیکن بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے ان کمپنیوں نے دباو ڈال کر ایڈوانس کے نام پر اربوں روپے وصول کر لئے ۔ فیصل آباد، لاہور، کراچی اور دوسرے صنعتی شہروں میں ہزاروں فیکٹریاں بجلی نہ ملنے کی وجہ سے بند پڑی ہیں۔ لاکھوں مزدور بیروزگار ہو گئے ہیں ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور گھریلو صارفین آئے دن بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے عذاب سے دوچار ہیں ۔جب موجودہ حکمران برسراقتدار آئے تھے تو اس وقت کے حالات کا اگر موجودہ حالات سے موازنہ کیا جائے تو غربت کی شرح میں تقریباً دگنا اضافہ ہوا ہے گرانی، مہنگائی اور بدامنی اپنے عروج پر ہے۔عابدہ راجا نے ملک میں خواتین کے عدم تحفظ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے معاشرے کے بعض طبقات میں آج بھی خواتین کو مختلف حوالوں سے جبر یا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بہت معمولی سی بات پر ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ہی معاشرے کے بعض حصوں میں خاندان کے مرد ذرا ذرا سی بات پر اپنی بیوی، بیٹی یا ماں تک کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ یہ ساری باتیں نہ صرف عام انسانی معیارات کے خلاف ہیں بلکہ اسلام کے روشن اصولوں کی بھی صریح خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے خواتین کے تحفظ کا قانون پاس کر کے معاشرے کو اس قسم کی خرابیوں اور برائیوں سے پاک کرنے کی قابل کوشش کی ہے۔ تاہم اس قانون کے نافذ العمل ہو جانے کے بعد بھی ہمارے ملک میں بوجوہ قانون کے نفاذ کے عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور اسے بے اثر بنانے کا رجحان پایا جاتا ہے اور اس کی زیادہ تر مثالیں معاشرے کے با اثر اور با اختیار طبقات میں پائی جاتی ہیں۔لہٰذا کسی برائی کے خاتمے کے لئے قانون کا پاس کر دینا یا کتابوں میں اسے نافذ کر دینا ہی مطلوبہ برائی کے خاتمے کی ضمانت نہیں سمجھا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی بیخ کنی کے لئے پاس کئے جانے والے قانون کو اس کے الفاظ اور روح کے عین مطابق اس کے نفاذ کا بھی اہتمام کیا جائے اور اسے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک سب کے خلاف کسی قسم کے امتیاز کے بغیر نافذ کیا جائے۔ کیونکہ مذکورہ بل کے پاس ہو جانے کے بعد صرف یہی ایک ایسی کمزوری محسوس کی جاتی ہے جو اس قابل تعریف قانون کو بے اثر اور بے نتیجہ بنا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے نزدیک اس ضمن میں ہمارے علمائے کرام اور دوسرے اہل الرائے طبقات پر یہ خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہمارے معاشرے کو خواتین کے خلاف ظلم و زیادتی کے رجحان سے پاک کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور لوگوں کو اس حوالے سے عام انسانی اصولوں، اخلاقی ضابطوں اور اسلامی احکامات سے روشناس کرائیں۔ اور انہیں گھریلو تشدد اور دوسرے امتیازی رجحانات سے گریز کرنے کی تلقین کریں۔ اے پی ایس