شیری رحمٰن سفارتکاری میں کامیاب ہو گی؟۔چودھری احسن پر یمی




حکومت پاکستان نے شیری رحمٰن کو حسین حقانی کی جگہ واشنگٹن میں پاکستان کی نئی سفیر مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے شیری رحمٰن کو ہدایت کی ہے کہ وہ واشنگٹن میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ”اقتصادی سفارت کاری پر بھرپور توجہ دیں“۔امریکہ میں بطور پاکستانی سفیر مقرر کیے جانے کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد ایک تقریب کے اختتام پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں شیری رحمٰن نے اس تاثر کو رد کیا کہ واشنگٹن میں اعلیٰ قیادت کو لکھے گئے متنازع خط کے پاک امریکہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔”اس سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر کوئی قدغن نہیں لگی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کا باہمی تعلقات میں بہتری لانے کا وسیع ایجنڈا ہے۔“ا ±نھوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت قومی مفاد اور جمہوری اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ سے اپنے تعلقات میں بہتری کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔شیری رحمٰن کی حکمران پیپلز پارٹی سے پرانی وابستگی ہے اور وہ ہمیشہ سے جمہوری نظام کی حمایت کرتی آئی ہیں۔ اس تقرری سے قبل وہ پاکستان میں حلال احمر کی سربراہ کے عہدے پر فائز تھیں۔ا ±ن کے پیش رو حسین حقانی ایک روز قبل وزیر اعظم گیلانی کی ہدایت پر امریکہ میں بطور پاکستانی سفیر کے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ اس اقدام کی وجہ صدر آصف علی زرداری سے منسوب وہ متنازع خط ہے جس میں فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی کے سربراہان کی برطرفی کے لیے امریکی قیادت سے حمایت طلب کی گئی تھی۔تاہم شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ حسین حقانی کے مستعفی ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ اس معاملے میں ملوث تھے۔”انھوں نے بہت با عزت انداز میں استعفیٰ دیا ہے ... وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی ذات پر جو تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہے اس سے پاکستان کے وقار کو نقصان پہنچے یا کوئی قدغن آئے۔“حسین حقانی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے حکومت کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ مبینہ مکتوب کی تیاری اور امریکی حکام کی طرف سے اس کے موصول ہونے کی تصدیق کے بعد ”قومی مفاد کے پیش نظر اس معاملے کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرکے اصل حقائق کا پتہ لگانا ناگزیر ہوگیا ہے“۔حسین حقانی پر خط کا مصنف ہونے کا الزام پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے عائد کیا ہے جس کا اصرار ہے کہ یہ مکتوب انھوں نے سابق پاکستانی سفیر کے کہنے پر مئی میں اس وقت کے امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک ملن کو پہنچایا تھا۔حقانی نے اس خط سے لاتعلقی اور اپنے اوپر لگائے گئے الزمات کو بنیاد قرار دے کر مسترد کیا ہے لیکن منصور اعجاز کا اصرار ہے کہ ان کے پاس اپنے دعووں کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد ہیں جن کا انھوں نے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا سے بھی تبادلہ کیا ہے۔شیری رحمٰن کی تقرری اکثر مبصرین کے لیے حیرت کا باعث بنی ہے کیوں کہ عمومی طور پر کسی ایسی شخصیت کو یہ ذمہ داریاں سونپی جانے کی پیش گویاں کی جا رہی تھیں جو فوجی قیادت کے زیادہ قریب یا اس کے لیے قابل قبول ہو۔نامزد سفیر پارلیمان کی قومی سلآمتی کی کمیٹی کی رکن ہیں، اس لیے مبصرین کا ماننا ہے کہ وہ سکیورٹی سے متعلق پاکستانی امور کو اچھی طرح سمجھتی ہیں اور فوج کے ادارے کے ساتھ بھی ان کے اچھے تعلقات رہے ہیں۔جبکہ سابق سفیر حسین حقانی سے وزیراعظم نے ان کے اوپر لگنے والے اس الزام کے پس منظر میں استعفٰی طلب کیا تھا کہ انہوں نے اس سال مئی میں پاکستان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے ایک ہفتے بعد اس وقت کے امریکی افواج کے سربراہ جنرل مائیک مولن کو ایک خط بھجوایا تھا جس میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کے کسی ممکنہ فوجی اقدام کے خلاف امریکہ سے مدد طلب کی تھی۔حسین حقانی نے پاکستانی نژاد امریکی کاروباری شخصیت منصور اعجاز کی جانب سے لگائے جانے والے اس الزام کی تردید کی ہے جبکہ ایڈمرل (ر) مائیک مولن نے اس خفیہ خط کے ملنے کی تصدیق کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ نہ تو انہوں نے اس پر توجہ دی اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی کارروائی کی۔حسین حقانی کو اس معاملے پر وضاحت کرنے کے لیے ہفتہ رواں کے آغاز میں پاکستان طلب کیا گیا تھا اور وطن واپسی کے بعد انہوں نے گزشتہ منگل کو سیاسی اور فوجی قیادت سے ملاقاتیں کی تھیں۔وزیراعظم نے اس معاملے کی تفصیلی تحقیقات کا حکم دیا اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی سے کہا کہ وہ مستعفی ہو جائیں تاکہ باقاعدہ تحقیقات کی جا سکیں۔ اس معاملے میں جو بھی ملوث ہے اسے صفائی پیش کرنے کا پورا موقع دیا جائے گا اور تحقیقات صاف، شفاف اور غیر جانبدار طریقے سے کی جائیں گی۔ ’متنازع خط کے تیار کرنے، لکھے جانے اور امریکی حکام تک پہنچانے کے باعث یہ ضروری ہو گیا کہ قومی سلامتی کی خاطر حقائق معلوم کیے جائیں‘۔واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستان کے وزیرِاعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں خطاب سے کہا تھا کہ سفیر حسین حقانی سے وضاحت طلب کر لی گئی ہے اور اپوزیشن کو نتیجے کا انتظار کرنا چاہیے۔سابق سفیر حسین حقانی کے صحافتی حلقہ احباب میں شامل مبصرین کا کہنا ہے کہ حسین حقانی کو ایک ایسی پرعزم شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے جو بسا اوقات پر خطر راہوں پر بھی قدم رکھ دیتے ہیں۔صحافی، سیاست دان اور بیوروکریٹ حسین حقانی سنہ انیس سو چھپن میں کراچی کے علاقے ملیر میں پیدا ہوئے اور انہوں نے تعلیم حبیب پبلک سکول کراچی سے حاصل کی۔ سیاست میں انہیں سکول کے زمانے ہی سے دلچسپی تھی۔ سنہ 1974 میں جب وہ گورنمنٹ نیشنل سائنس کالج، کراچی میں زیر تعلیم تھے تو انہوں نے طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے یونین انتخابات میں حصہ لیا اور نیشنل کالج سٹوڈنٹس یونین کے صدر بنے۔انیس سو ستتر میں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے بی اے اور پھر انیس سو اسّی انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور دورانِ تعلیم ہی انہوں نے صحافت کے میدان میں قدم رکھ دیا تھا۔سنہ انیس سو اسّی سے اٹھاسی تک وہ مختلف صحافتی اداروں سے منسلک رہے۔سیاسی میدان میں حسین حقانی کا نام سنہ انیس سو اٹھاسی میں نواز شریف کی قیادت میں بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کی انتخابی مہم کے اہم کردار کے طور پر سامنے آیا تھا۔انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کے معاونِ خصوصی کے طور پر سنہ انیس سو اٹھاسی سے انیس سو نوے تک ذمہ داری نبھائی اور سنہ انیس سو نوے میں وہ پہلے عبوری وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی اور پھر وزیراعظم بننے والے میاں نواز شریف کے معاونِ خصوصی بن گئے۔سنہ انیس سو بانوے سے ترانوے تک وہ سری لنکا میں پاکستان کے سفیر رہے۔سنہ ترانوے میں حسین حقانی نے ایک مرتبہ پھر ایک انتخابی مہم چلانے میں حصہ لیا تاہم اس مرتبہ یہ مہم نواز شریف کے مخالف اور بینظیر بھٹو کی قیادت میں بننے والے سیاسی اتحاد پی ڈی ایف کی تھی۔انتخابات میں بینظیر بھٹو کی کامیابی کے بعد وہ سنہ انیس سو ترانوے سے پچانوے تک حکومت کے ترجمان رہے اور اس دوران انہیں وزیرِ مملکت کا درجہ حاصل تھا۔ سنہ پچانوے میں انہیں ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا چیئرمین بنا دیا گیا اور وہ تقریباً ایک برس اس عہدے پر فائز رہے۔سیاست کے میدان میں حسین حقانی کا نام سنہ انیس سو اٹھاسی میں نواز شریف کی قیادت میں بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کی انتخابی مہم کے اہم کردار کے طور پر سامنے آیا تھا۔سنہ انیس سو اٹھانوے میں میاں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں وہ ایک مرتبہ پھر ان کے ہمرکاب نظر آئے اور مئی اٹھانوے میں پاکستان کی جانب سے جوہری دھماکے کے تجربے کے بعد حسین حقانی نے امریکی پابندیوں پر امریکی حکام سے وزیراعظم کی نمائندگی کرتے ہوئے مذاکرات کیے۔سنہ دو ہزار میں ان کی شادی فرح ناز اصفہانی سے ہوئی جو امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر مرزا ابولحسن اصفہانی کی پوتی ہیں۔وہ سنہ دو ہزار دو میں امریکہ منتقل ہوگئے اور واشنگٹن ڈی سی کی جان ہاپکنز یونیورسٹی میں سنہ دو ہزار تین سے چار تک بطور لیکچرار اور دو ہزار چار میں امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر منسلک رہے۔ اس کے علاوہ وہ ہڈسن یونیورسٹی کے ایک پراجیکٹ کے شریک چیئرمین بھی ہیں۔مشرف دور کے خاتمے اور سنہ دو ہزار آٹھ میں عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی فتح اور حکومت سازی کے بعد انہیں امریکہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کر دیا گیا تھا۔وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور پاکستانی سفارتخانے کی ویب سائٹ پر موجود حسین حقانی کے شخصی خاکے کے مطابق انہوں نے ملکی اور بین الاقوامی تعلقات اور خطوں کی سیاست کے اتار چڑھاو ¿ پر مختلف ملکی اور بین الاقوامی اخبارات، جرائد اور رسائل میں مضامین بھی لکھے ہیں جو عالمی جرائد اور اخبارات میں شائع ہوئے ہیں۔
سابق سفیر حسین حقانی اور موجودہ سفیر حسین حقانی کے مشترکہ صحافی دوستوں کا کہنا ہے کہ شیری رحمان کاامریکہ میں پاکستان کی نئی سفیر تعیناتی سیاسی حکومت نے اپنے انتظامی استحقاق کا دفاع کیا ہے۔ جنہیں اب تک حسین حقانی انتہائی مہارت سے سلجھا رہے تھے اور اب یہ ذمہ داری شیری رحمان کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ شیری رحمان ایک قطعی مختلف شخصیت کی مالک ہیں۔ وہ جو ہیں، نظر آتی ہیں اور جو نظر آتی ہیں وہی ہیں۔ ان کی نظریاتی سمت بھی واضح اور غیر مبہم ہے۔ لگ بھگ چودہ سال قبل پہلی بار جو سیاسی جماعت اپنائی آج بھی اسی کی ہیں۔ وزارت کے دوران جب یہ محسوس کیا کہ اس میں دوسرے وزراءدخل اندازی کر رہے ہیں اور انہیں روکنا ممکن نہیں تو مستعفی ہو کر پارٹی کی پارلیمانی رکن کے طور پر مصروف کار ہو گئیں۔اپنے نظریات کا کھل کر اظہار کرنے اور ان کے دفاع سے گھبراتی نہیں۔ سیاست میں بھی اپنا رویہ وہی رکھا جو صحافت میں تھا۔معاملہ خواتین کے حقوق کا ہو یا متنازع قوانین کا، جو سمجھا وہی کہا۔کیا ایسی شخصیت سفارتکاری میں کامیاب ہو گی؟ اور وہ بھی ایک ایسی ذمہ داری جسے واشنگٹن میں انتہائی مشکل جاب کہا جاتا ہے؟س وقت یہ تو معلوم نہیں کہ ان کی شخصیت کی شفافیت سفارتکاری کے میدان میں چمک پاتی ہے یا نہیں، لیکن ہر کوئی شیری رحمان سے اس اعتماد سے ضرور ڈیل کر سکتا ہے کہ وہ ڈبل پرسنیلٹی نہیں۔جبکہ پاکستان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز نے امریکی حکام کو لکھے گئے متنازع خط پر سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی ہے اور اس کی فوری سماعت کے لیے استدعا کی گئی ہے۔یہ درخواست پارٹی کے صدر میاں نواز شریف کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ اس درخواست میں صدر آصف علی زرداری، وفاق، آرمی چیف، آئی ایس آئی کے سربراہ کے علاوہ سیکرٹری خارجہ، امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی اور پاکستانی نژاد امریکی شہری منصور اعجاز کو فریق بنایا گیا ہے۔ اس آئینی درخواست میں پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصور اعجاز کے اس اخباری مضمون کا ذکر کیا گیا ہے جس میں یہ الزام لگایا تھا کہ پاکستان کے ایک اعلٰی سفارتکار نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے ایک ہفتے بعد خفیہ ذرائع سے اس وقت کے امریکی فوج کے اعلٰی ترین عہدیدار کو ایک مراسلہ بھجوایا تھا۔ اس مراسلے میں پاکستانی حکومت کا تختہ الٹنے کے ممکنہ فوجی اقدام کے خطرے کے خلاف امریکی حکومت سے مدد طلب کی گئی تھی۔اس درخواست میں اس مضمون کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جو نہ صرف غیر ملکی بلکہ پاکستانی اخبار میں بھی شائع ہوا ہے جس پر نہ تو حسین حقانی اور نہ ہی صدر آصف علی زرداری نے متعلقہ اخبارات کے خلاف ہتک عزت کا دعوٰی کیا۔ ان اخبارات کے مالکان سے اس مضمون کے شائع ہونے سے متعلق حکومت پاکستان کی جانب سے کوئی احتجاج بھی نہیں کیا گیا۔میاں نواز شریف کی طرف سے دائر کی جانے والی اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان کی طرف سے پرزور مطالبے کے باوجود مجاز اتھارٹی نے نہ تو اس میمو سے متعلق کوئی تحقیقات شروع کیں اور نہ ہی کوئی آزاد اور خود مختار کمیشن تشکیل دیا جو اس واقعہ کی تحقیقات کرسکے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے کر جانا چاہتا تھا لیکن وہاں پر پاکستان میں ڈرون حملوں اور دیگر معاملات سے متعلق متفقہ طور پر پاس ہونے والی قرار داد پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ درخواست گزار نے کہا ہے کہ اسی لیے ایک موثر اور خودمختار ادارے سے اس معاملے کی چھان بین کے لیے رخ کیا ہے۔سابق وزیر اعظم کی طرف سے دائر کی جانے والی اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان تمام افراد کو عدالت میں طلب کیا جائے اور ان سے اس مبینہ میمو سے متعلق وضاحت طلب کی جائے اور ذمہ داروں کے کردار کا تعین کیا جائے۔درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی شخص پاکستان سے بےوفائی یا جرم کا مرتکب ہو تو اس کے خلاف ملک سے غداری اوردیگر ملکی قوانین کے تحت سخت کارروائی کی جائے۔اے پی ایس