متنازع خط کی تحقیقات اور شیری رحمن کی تعیناتی کا حکم۔چودھری محمد احسن پر یمی




وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے مائک مولن کو بھیجے جانے والے متنازعہ مراسلے کی تحقیقات کے لیے جلد اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کی تفصیلات انہوں نے نہیں بتائیں۔گزشتہ جمعرات کی شام قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کو کبھی خطرا محسوس ہوا تو وہ فوج کی طرف نہیں دیکھیں گے بلکہ عوام سے رجوع کریں گے اور اپوزیشن سے مدد حاصل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حسین حقانی کو قصور کی بنا پر نہیں ہٹایا بلکہ اس لیے عہدے سے علیحدہ کیا ہے تاکہ تحقیقات پر وہ اثر انداز نہ ہوسکیں۔ وزیراعظم نے یہ بیان قائدِ حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کی اس تنقید کے جواب میں دیا جس میں انہوں نے کہا کہ حکومت پارلیمان کے سامنے خود کو جوابدہ نہیں سمجھتی بلکہ فوج اور امریکہ کے سامنے جوابدہ سمجھتی ہے۔چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اگر سفیر قصور وار نہیں تو انہیں کیوں ہٹایا گیا اور اگر سفیر قصور وار ہیں تو حکومت کیسے قصوروار نہیں ہے؟ انہوں نے کہا اگر سفیر گناہ گار نہیں تو ان سے استعفیٰ کیوں لیا گیا؟ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر دفاع احمد مختار خود کہہ چکے ہیں کہ یہ بات وزیر اعظم تک جائے گی ۔حزب اختلاف کے راہنما نے کہا کہ ان کی اطلاع کے مطابق حسین حقانی واپس امریکہ جانا چاہتے ہیں لیکن انہیں واپس جانے نہیں دیا جا رہا اور حکومت کوئی بات ایوان کو بتانے کے لیے تیار نہیں۔چوہدری نثار علی خان کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت پارلیمان اور عوام کو جوابدہ ہے۔ ان کے بقول انہوں نے فوجی قیادت سے رات کو نہیں بلکہ دن کو ملاقات کی اور یہ ملاقات ایوان صدر میں نہیں بلکہ وزیراعظم ہاو ¿س میں ہوئی۔وزیراعظم نے کہا کہ ‘ہم نے جمہوریت کو بچانے کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ اپوزیشن نے بھی دی ہیں۔ ہماری قائد بینظیر بھٹو نے جمہوریت کے لیے جان دی ہے۔ ہم عوام اور پارلیمان کے سامنے خود کو جوابدہ سمجھتے ہیں اور کسی کے سامنے نہیں۔‘چوہدری نثار علی خان نے وزیراعظم کے بیان کو مسترد کیا اور کہا کہ حکومت کی جانب سے پارلیمان کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہی ان کی جماعت نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔بعد ازاں چوہدری نثار علی خان نے احتجاج کرتے ہوئے واک آوٹ کا اعلان کیا۔ گزشتہ جمعرات کووزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے حسین حقانی کے خلاف الزامات کی تردید کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا ہے کہ امریکی حکومت کو بھیجے گئے متنازع ’میمو‘ یا مراسلے کی اعلٰی سطحی تحقیقات کو شفاف بنانے کے لیے سابق سفیر سے استعفی لیا گیا ہے۔گزشتہ جمعرات کی شب قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف کی طرف سے میمو اسکینڈل کے بارے میں پارلیمان کو اعتماد میں نہ لینے سے متعلق اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے کی سنجیدگی سے آگاہ ہے اور تحقیقات کو شفاف بنانے کے لیے ہی حسین حقانی سے استعفی لیا گیا۔”کوئی بھی سفیر( ہو)، اس کے اتنے تعلقات ضرور ہو سکتے ہیں کہ کسی خط کو پہنچانے کے لیے اس کو کسی تیسرے شخص کی ضرورت نہیں ہے۔ اوراگرہمیں کوئی پیغام دینا ہوتا تو ہمارے بھی (امریکہ کے ساتھ) اتنے اچھے تعلقات ہیں کہ ہم بھی دے سکتے تھے۔ خواہ آئی ایس آئی ہو، فوج ہو یا سیاسی حکومت ہو جب تینوں کی سوچ ایک ہے تو ہمیں کیا ضرورت پڑی تھی کہ ہم (امریکہ سے) کہتے کہ جی ہمیں ان (فوج) سے خطرہ ہے اورآپ ہمیں بچا لیں۔اگر ہمیں کبھی خطرہ ہوا تومیں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم فوج کی طرف دیکھنے کی بجائے پاکستانی عوام کی طرف دیکھیں گے۔“پاکستانی نژاد امریکی کاروباری شخصیت منصور اعجاز کا الزام ہے کہ صدرآصف علی زرداری سے منسوب اس خفیہ مکتوب کے مصنف حسین حقانی تھے جس میں فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہان کی برطرفی کے سلسلے میں امریکہ سے مدد طلب کی گئی تھی۔ دس مئی کو امریکی حکومت کو بھیجے گئے اس مکتوب میں صدر زرداری کی طرف سے اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی آپریشن پرپاکستانی فوج غصے میں ہے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کی تیاریاں کررہی ہے۔سابق سفیر حسین حقانی خط سے لاتعلقی اوراپنے اوپر لگائے گئے الزامات کومن گھڑت قرار دے کر مسترد کرچکے ہیں اور گزشتہ جمعرات کو وزیر اعظم گیلانی کا پارلیمان میں بیان ان کے موقف کی تائید کے مترادف ہے۔قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل دارالحکومت میں ایک تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ مبینہ خط سے جنم لینے والے اسکینڈل سے ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور آئندہ عام انتخابات منصفانہ، شفاف اور وقت مقررہ پر ہی ہوں گے جن میں فتح پیپلز پارٹی کی ہوگی۔اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے متنبہ کیا ہے کہ اگر آئندہ انتخابات شفاف نہ ہوئے تو” پاکستان کی سڑکوں پہ خون ہوگا کیونکہ عوام فراڈ الیکشن کو قبول نہیں کرے گی“۔”وہ جو حکومت کے جانے کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتے آرہے ہیں ان کو اس (میمو اسکینڈل کے معاملے) پر بھی شرمندگی ہوگی۔“وزیر اعظم گیلانی کا اشارہ حزب مخالف کی جماعتوں اور نجی ٹی وی چینلز پر ہونے والے سیاسی مذاکروں کی طرف تھا جن میں الزام لگایا جارہا ہے کہ امریکی حکومت کو بھیجے گئے مبینہ صدارتی مراسلے پر حسین حقانی کے مستعفی ہونے کے بعد یہ معاملہ اب یہاں ختم نہیں ہوگا بلکہ صدر زرداری بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔وزیراعظم کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کے ڈھانچے کے بارے میں تفصیلات جلد سب کو معلوم ہوجائیں گی لیکن اپوزیشن کی مطالبات کے باوجود انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کمیٹی کب تشکیل دی جائے گی اور تحقیقات کتنی مدت میں مکمل کی جائیں گی۔ شیری رحمن کو امریکہ میں پاکستان کا نیا سفیر بنانے کا دفاع کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ انھوں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے اور ایسا کرنے کے لیے فوج کی رضا مندی لینے کے وہ پابند نہیں۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی کی رکن اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات شیری رحمن کو حسین حقانی کی جگہ امریکا میں پاکستان کا سفیر مقرر کر دیا ہے۔ شیری رحمن نے گزشتہ روز وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی اور ہدایات حاصل کیں۔ وزیراعظم گیلانی نے انہیں امریکہ میں بطور سفیر تقرری پر مبارکباد دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ پاک امریکا تعلقات کو مزید فروغ دینے اور مستحکم بنانے پر توجہ مرکوز کریں بالخصوص دو طرفہ تجارتی اور اسٹرٹیجک تعلقات کو وسعت دینے کیلئے کام کریں۔شیری رحمن نے بطور سفیر تقرری پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یقین دلایا کہ ان پر جس اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے وہ اس پر پورا اترنے کی پوری کوشش کریں گی۔علاوہ ازیں اسلام آبادمیں میڈیا سے گفتگو کرتے امریکا میں پاکستان کی نئی سفیر شیری رحمن نے کہا کہ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لوں گی اپنی بات ضرور کہوں گی۔حسین حقانی نے ملکی وقار کی خاطرعزت کے ساتھ استعفیٰ دیا ۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔ سونپی گئی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کروں گی ۔انہوں نے کہا کہ میمو اسکینڈل سے پاک امریکہ تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑا میمو گیٹ پاکستان کااندرونی معاملہ ہے حقانی کے استعفیٰ سے پاکستان کے وقارمیں اضافہ ہوگا۔حکومت پاکستان نے شیری رحمٰن کو امریکہ میں سفیر کے منصب پر فائز کردیا ہے۔ میڈیا پرپابندی کے معاملے پر صدر آصف علی زرداری سے اختلافات کے باعث وزارت اطلاعات سے مستعفی ہونے والی شیری رحمٰن کو 2سال 8ماہ اور 14دن بعدکوئی اہم منصب ملا ہے۔ میمو اسکینڈل پر امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی کے مستعفی ہونے کے بعد پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر امریکی سفیر کے لئے مختلف نام لئے جارہے تھے ۔یہاں تک کہ ان ناموں میں سے ایک نام کو اس عہدے کیلئے انتہائی موزوں سمجھا گیا ۔ یہ نام تھا سکریٹری خارجہ سلمان بشیرکا جنھیں سب سے مضبوط امیدوار تصور کیا جارہا تھا ۔مذکورہ ناموں کے علاوہ بیجنگ میں پاکستانی سفیر مسعود خان ، یورپی یونین کیلئے جلیل عباس جیلانی ، جنرل (ر) جہانگیر کرامت ، سابق سفیر ملیحہ لودھی ، فرح ناز اصفہانی اور سلمان فاروقی کے نام بھی لیے گئے۔شیری دس سال تک کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز یعنی سی پی این ای کی رکن بھی رہیں ۔ شیری رحمٰن قومی اسمبلی کی رکن ہیں اور پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کی چیئرپرسن کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہی تھیں۔ وہ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کی اہم رکن اور جناح انسٹی ٹیوٹ آف اسلام آباد کی بانی صدر بھی ہیں جو ایک خود مختار پبلک پالیسی انسٹی ٹیوٹ ہے اور اس کا مقصد علاقائی امن اور پاکستان میں جمہوریت کا دوام ہے۔شیری رحمٰن اس سے قبل بھارت کے ساتھ متعدد ٹریک ٹوا سٹریٹجک ڈائیلاگ میں شریک رہی ہیں ۔ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ادارہ جاتی مذاکراتی عمل کی کنونیئر بھی ہیں۔ انھوں نے پاکستان کو درپیش کئی اسٹریٹجک سیکورٹی چیلنجوں پر جامع لیکچرز دیئے۔ وہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی لیجیسلیٹیو کونسلوں کی بھی اہم رکن ہیں۔ شیری رحمٰن نے مارچ 2008ءسے مارچ 2009ءتک وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ وفاقی وزیر کی حیثیت سے انھوں نے 2008ءمیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کیلئے پہلی ان کیمرہ نیشنل سیکورٹی بریفنگ تیار کی اور اسے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا۔ اس بریفنگ کے نتیجے میں دہشت گردی کے خلاف پہلی باضابطہ اور متفقہ قرارداد کی منظوری دی گئی۔ شیری رحمٰن نے 20 سالہ سینئرپیشہ ور صحافی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف قانون ساز کے طور پر عوامی آواز بلند کی۔ انھوں نے کئی اعزازات حاصل کئے جن میں انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جمہوری ہیرو کا اعزاز اور 2011ءمیں خواتین کیلئے جن کرپیٹرک ایوارڈ نمایاں ہیں۔ معروف جریدے نیوز پاکستان نے مارچ 2011ءکے شمارے میں ان کی تصویر صفحہ اول پر شائع کرتے ہوئے انھیں پاکستان کی انتہائی اہم خاتون قرار دیا تھا جبکہ فارن پالیسی میگزین نے انھیں 2011ءکے معروف عالمی مفکرین میں شمار کیا ہے۔ انھیں برطانیہ کے ہاو ¿س آف لارڈز سے آزادی صحافت کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے ۔انھوں نے سنہ 2008ءکے عام انتخابات میں سندھ سے خواتین کی مخصوص نشست پر انتخابات میں حصہ لیا اور31 مارچ 2008ءکو وفاقی وزارت اطلاعات کے منصب پر فائز ہو گئیں۔ تاہم، ایک سال اور 14 دن بعد14 مارچ 2009ءکو وہ اپنی وزارت میں دیگر لوگوں کی مداخلت اور میڈیا پر قدغن سے متعلق صدر آصف علی زرداری سے اختلافات کے باعث مستعفی ہو گئیں۔29نومبر 2010ءکو رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے شیری رحمن نے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کیلئے قومی اسمبلی میں ایک بل جمع کروایا ۔ اس قانون کے تحت ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو سزائے موت دی گئی تھی ۔ان کے اس اقدام پر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے انھیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ،جبکہ آسیہ بی بی کی حمایت کرنے والے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور شیری رحمن کے خلاف ریلیاں بھی نکالی گئیں ۔چار جنوری2011ءکو سلمان تاثیر کے اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں قتل اور دو مارچ دو ہزار گیارہ کو اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کے قتل کے بعد ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے توہین رسالت میں ترمیم کیلئے قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے پردہشت گردوں کا اگلا ہدف شیری رحمٰن کو قرار دیاجس کے بعد انہیں ملک چھوڑنے کے مشورے بھی دیئے جانے لگے تاہم وہ ملک میں ہی رہیں ۔ شدید دباو ¿ کے باعث دو مارچ کوشیری رحمٰن نے توہین رسالت میں قانون کا ترمیمی بل قومی اسمبلی سے واپس لے لیا ۔ نومبر 2010کے آخری عشرے میں صدر آصف علی زرداری سے اختلافات کے باعث شیری رحمٰن کی کلفٹن میں رہائش گاہ کے باہر ان کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے۔جبکہ گزشتہ جمعرات کو صدر آصف علی زرداری نے امریکا کے لئے مقرر نئی سفیر شیری رحمان کو مبارک باد دی ہے اور انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ پاک امریکا تعلقات میں فروغ کے ساتھ پاکستان میں جمہوری اداروں کے استحکام کی خاطر ہرممکن بہترین صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔شیری رحمان نے اسلام آباد میں صدر آصف زرداری سے ملاقات کی۔اس موقع پر شیری رحمان نے صدر کو یقین دلایاکہ وہ پاک امریکا تعلقات میں مزید بہتری کی ہرممکن کوشش کریں گی اور وہ عالمی فورمز پر ملکی مفاد کے لئے کوشاں رہیں گی، صدر نے انہیں ہدایت کی کہ وہ مضبوط پاک امریکا تجارتی اور اقتصادی روابط کیلئے کوشاں رہیں۔ اے پی ایس