خواتین دشمن روایات کے خلاف قانون سازی۔چودھری احسن پر یمی




پاکستان میں حالیہ برسوں میں خواتین پر تشدد اور ان کے بنیادی حقوق کی پامالی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ حالات بد تر ہوتے جارہے ہیں جمہوری حکومت میں بھی خواتین قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کی فرسودہ روایات کا شکار ہورہی ہیں چاہے وہ ونی ہویا کاروکاری، عورتوں پر بدستور ظلم کیا جارہا ہے۔ قانون سازی سے زیادہ ان قوانین پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے قبائلی نظام میں موجود ان روایات کو ختم کرنا ہوگا، لینڈ رفامرز کرنا ہوں گی،عورتو ں کے حقوق کے راستے میں جو بھی دیگر رکاوٹیں ہیں جب تک انھیں دور نہیں کیا جاتا تو نہ صرف یہ مسائل جوں کے توں رہیں بلکہ بڑھتے جائیں گے۔ جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے خواتین کے حقوق کے حوالے سے صورتحال پہلے جیسی نہیں ہے خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون سازی ہوئی ہے اور گھریلو سطح پر تشدد کے خلاف بھی بل بننے جارہا ہے، تو صورتحال میں کچھ بہتری آئی ہے۔تاہم قانون سازی اور اس کا نفاذ دو مختلف چیزیں ہیں اور دیگر قوانین کی طرح خواتین کے حوالے سے بننے والے قوانین پر عمل درآمد ایک مسئلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ تعلیمی نظام میں بہتری لا کر بھی خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکتا ہے ۔ ان کے بقول ایسا روشن خیالی پر مبنی نظام تعلیم جس سے لوگوں کے ذہن کھلیں رائج کرنے کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف خواتین بلکہ معاشرے کے ہرطبقے کی صورتحال بہتر ہوگی۔پاکستان میں خواتین کو شادی پر مجبور کرنے اور جائداد سے انھیں محروم رکھنے کے لیے قرآن مجید سے شادی جیسی دیگر روایات کے خلاف قومی اسمبلی نے ایک نئے قانون کی اتفاق رائے سے منظوری دی ہے۔ایوان زیریں نے گزشتہ منگل کو ہونے والے اجلاس میں خواتین کے تحفظ کے حوالے سے اس قانون میں ان روایات کو قابل سزا قرار دیا گیا ہے۔اسمبلی کے اجلاس میں نجی کارروائی کے دن کے موقع پر مسلم لیگ (ق) کی رکن ڈاکٹر دونیا عزیز نے اس قانون کا مسودہ پیش کیا، یہ بل اس سے پہلے تین بار التوا کا شکار ہوا تھا۔اس قانون کے تحت بدل صلح، ونی، جبری یا قرآن مجید سے شادی جیسے جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کو 10 برس تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکے گا، اور یہ جرائم نا قابل ضمانت ہوں گے۔پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں ونی یعنی لڑائی میں صلح کے بدلے خواتین دینے جیسی روایات موجود ہیں۔ اس خواتین دشمن روایات کے خلاف قانون کے تحت اگر کوئی شخص کسی بھی جھگڑے میں صلح یا تصفیہ کے لیے خواتین سے شادی کرتا ہے یا انھیں شادی کے لیے مجبور کرتا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ سات سال اور کم سے کم تین سال کی سزا اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔قانون میں خواتین کو دھوکہ دہی یا غیر قانونی ذرائع سے وراثت سے محروم رکھنے پر سزا کی حد 5 سال سے 10 سال اور 10 لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔خواتین کو جائیداد سے محروم رکھنے کے لیے قرآن مجید سے نکاح پڑھوانے کو بھی قابل جرم قراد دیا گیا ہے اور اس جرم کے مرتکب افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا سات سال اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ مقرر کی گئی ہے۔قومی اسمبلی میں منظور کیے گئے قانون کے مطابق کسی بھی خاتون کو جبری طور یا کسی بھی طریقے سے شادی کے لیے مجبور کرنے والے کے لیے زیادہ سے زیادہ 10 سال اور کم سے کم تین سال کی سزا کا تعین کیا گیا ہے جبکہ جرمانے کے طور پر پانچ لاکھ روپے کی بھی منظوری دی گئی ہے۔قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل ایوان بالا یعنی سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا، جس کے بعد خواتین دشمن روایات کے خلاف بنایا گیا قانون صدر کی حتمی منظوری کے بعد نافذ العمل ہو گا۔پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم کی حوصلہ شکنی اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے نئی قانون سازی میں تاخیر پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔خواتین کی ایک تہائی نمائندگی پر مشتمل پارلیمان نے حالیہ برسوں میں جہاں عوامی مقامات اور دفتروں میں خواتین کو ہراساں کیے جانے اور کارو کاری جیسی فرسودہ رسومات کے خلاف موثر قانون سازی کی ہے وہیں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے واقعات کی حوصلہ شکنی کے لیے تاحال کوئی قانون نہیں بن سکا ۔ خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور سول سوسائٹی زبردستی کی شادی اور وراثت میں خواتین کو حصہ نہ دینے کے لیے قرآن سے نکاح جیسی فرسودہ روایات کے خاتمے کے لیے آواز اٹھا تی رہی ہیں اور ان ہی جرائم کے سد باب کے لیے ایک مجوزہ قانون منظوری کے لیے قومی اسمبلی کے گزشتہ اجلاسوں میں دو مرتبہ پیش کیا گیا لیکن ایوان میں اس پر مختلف وجوہات کی بنا پر رائے شماری نہ ہو سکی۔قومی اسمبلی کے اجلاس کے آخری روز خواتین کے خلاف جرائم کے قانون پر رائے شماری جاری تھی کہ رکن اسمبلی شاہ محمود قریشی نے ترمیمی مسودہ کی کاپی نہ ہونے پر رائے شماری میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ لیکن جب بل کی کاپی انھیں فراہم کر دی گئی تو انھوں نے اچانک ایوان میں اراکین اسمبلی کی دوہری قومیت پر بحث شروع کر کے اجلاس کا موضوع ہی بدل دیا اور یوں خواتین کے خلاف جرائم کا بل منظوری کے بغیر ہی اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا۔انسانی حقوق کی تنظیموں اور غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں اراکین کی اکثریت جاگیرداروں اور قبیلے کے سرداروں کی نمائندگی کرتی ہے جن کے ہاں خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے جیسی روایات عام ہیں اس لیے خواتین کے خلاف ایسے قوانین کی منظوری میں ا ±ن کی مبینہ عدم دلچسپی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ 2008 ءمیں خواتین پر گھریلو تشدد کا قانون قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینٹ میں قدامت پسند سیاسی جماعتوں کے رویوں کے باعث تاخیر کا شکار ہو کر غیر موثر ہوگیا تھا۔لاعلمی اور تعلیم نہ ہونے کی بنیاد پر برسوں سے جو روایات چلی آ رہی ہیں۔ یہ وہی رویے ہیں جو سوسائٹی میں موجود ہیں اور ہر جگہ نظر اتے ہیں “ رویوں میں تبدیلی کے لیے ہر طبقے کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ گھریلو تشدد کو خواتین کا ایک اہم مسئلہ سمھجا جاتا ہے۔ خواتین اراکین پارلیمان اور سول سوسائٹی کی کوشش ہے کہ خواتین کے لیے نہ صرف خصوصی قوانین بنائیں جائیں بلکہ ان پر عمل درآمد کا طریقہ بھی وضع کیا جائے“۔خواتین کے خلاف جرائم کے مجوزہ قانون کا جو مسودہ گزشتہ اجلاسوں میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اس کے تحت کم عمر خواتین سے زبردستی کی شادی میں معاونت فراہم کرنے والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا کی حد 7 سال تجویز کی گئی۔بل میں خواتین کی قران سے نکاح پڑھوانے کے جرم کی بھی سزا کا تعین کیا گیا جب کہ خواتین کو وراثت میں حصہ سے محروم رکھنے پر سزا کی زیادہ سے زیادہ حد 10 سال تجویز کی گئی ہے۔اس بل کی منظوری میں تاخیر کی وجہ بیان کرتے ہوئے اراکین اسمبلی کا کہنا تھا کہ مجوزہ مسودے میں تحریر کی غلطیاں اور بعض شقوں کا آئینی تقاضوں سے متصادم ہونا تھا اور جوں ہی ان معاملات کو درست کرلیا گیا قانون بلا تاخیر منظور ہو گیا۔حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی خواتین اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ حکومت عورتوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے پرعزم ہے اور ملک کی نصف سے زائد آبادی کے حقوق کے تحفظ اور اسے بااختیار بنانے کے لیے جلدہی مزید ٹھوس اقدامات اور قانون سازی کی جائے گی۔ وفاقی سطح پر خواتین کے لیے محتسب کاایک الگ ادارہ قائم کیاجائے گا تاکہ وہ خواتین جو پولیس اور دیگر اداروں میں اپنے خلاف تشدد کی شکایات درج کرانے سے کتراتی ہیں اس ادارے میں بلا خوف خطر اپنے مسائل کے ازالے کے لیے رجوع کر سکیں گی۔ جبکہ عنقریب قومی اسمبلی میں ایک بل بھی پیش کیا جائے گا جس کا مقصد ذیلی عدالتوں کے انتظامی ڈھانچے میں خواتین کو نمائندگی دینا ہے تاکہ انصاف کی متلاشی عورتیں عدالتوں میں کم سے کم مشکلات سے دو چار ہوں۔ ” عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عزم کا واضح ثبوت گذشتہ تین سالوں میں کی جانے والی قانون سازی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ کئی اہم سیاسی عہدوں پر عورتوں ہی کو تعینات کیا گیا ہے تاکہ پسی ہوئی عورتوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کر سکیں“۔دوسری طرف شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے جو بھی قوانین بنائے جاتے ہیں اس کا موثر نفاذ نا ہونے کی وجہ سے خواتین کے مسائل جوں کے توں ہیں اور حال ہے میں عورت فاونڈیشن کے جاری کردہ سالانہ جائزے کے مطابق 2010 میں تقریبا آٹھ ہزار خواتین کو مختلف نوعیت کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو کسی بھی طرح گذشتہ سالوں کی نسبت ایسے واقعات میں کمی کو ظاہر نہیں کرتا۔رپورٹ کے مطابق تشدد کی سب سے زیادہ شرح پنجاب میں سامنے آئی جہاں تقریبا ساڑھے پانچ ہزار واقعات ہوئے جبکہ کل واقعات میں سب سے زیادہ شرح اغواءکی رہی۔ عورت فاونڈیشن کا کہنا ہے کہ اس کا جائزہ صرف میڈیا میں رپورٹ شدہ واقعات کو ترتیب دے کر بنایا جاتا ہے اور سامنے نہ آنے والے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ تنظیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں واقعات کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ بھی درج نہیں کرائی گئی جو تنظیم کے بقول پولیس پر عوام کے عدم اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ اس تمام صورتحال کے ذمے دار صرف ریاستی ادارے ہی نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے میں رائج بہت سے فرسودہ رسم ورواج بھی ہیں جن کی وجہ سے خواتین تشددکا نشانہ بننے کے باوجود آواز بلند کرنے سے گھبراتی ہیں۔”یہ دو ہزار خواتین جو مری ہیں انہیں ریاست نے تو نہیں مارا ، کسی کو بھائی نے خاوند اور کسی کو باپ نے یا پھر خاندان کے کسی اور فرد نے مارا ہے لہذا ہمیں اپنے اجتماعی رویے بھے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے“ ۔اے پی ایس