ملک و قوم عدم تحفظ کا شکار۔چودھری محمد احسن پر یمی




حکومتوں میں جب تک سامراجی طاقتوں کے ایجنٹوں کی اولاد اور اسٹیبلشمنٹ میں بیرونی طاقتوں کے غدار موجود رہیں گے ملک و قوم عدم تحفظ کا شکار رہے گی۔غیر ملکی جارحیت اور ڈرون حملوں کے خلاف پارلیمنٹ سے متفقہ قرادادوں پر عملدرآمد کردیا جاتا تو شاید نیٹو فورسز کے ہیلی کاپٹرز فائرنگ کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچتے۔جبکہ اس سے قبل بھی اس طرح کے کئی ایک واقعات ہوچکے ہیں اس ضمن میں بھی یہی کہا جاتا رہا کہ آئندہ ایسا ہوا تو منہ توڑ جواب دیا جائے گالیکن ایسا نہیں ہوا جس کے بارے میں عوام کا یہی کہنا ہے کہ یہ بے غیرتی و بے شرمی کی انتہاءہے۔عوام کا یہی کہنا ہے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے سربراہ جو ملک کے تمام وسائل پر قابض ہونے کے ساتھ ساتھ ایوانوں پر بھی قابض ہیں اور ان کا بے داغ کردار کی بجائے ان کی اپنی کمزوریوں سے ان کا کردار داغ داغ ہے لہذا اس ضمن میں ان میں سے کو ئی بھی پاکستان کی قومی سلامتی پر دوٹوک بات کر نے کی جرات نہیں رکھتا۔جب تک بدعنوان قیادت عوام پر مسلط رہے گی ملک کی خود مختاری بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں پامال ہوتے رہے گی۔اس ضمن میں اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی سوچ تبدیل کرنا ہوگی کہ وہ اپنا فائدہ نہ دیکھے کہ دو نمبر لوگوں کی حوصلہ افزائی کر کے ایوانوں تک پہنچتے رہیں جو ان کے اشاروں پر ناچتے رہیں یہ اب سب ناقابل قبول بات ہے۔عوام کا خون نچوڑ کر ٹیکس اکٹھا کر کے ملک کا نظام چلایا جارہا ہے اس ملک کے عوام کوتحفظ فراہم کر کے ان کے عدم تحفظ کے احساس کو ختم کر نا ہوگا۔ اس وقت عوام مایوسی کا شکار ہیں۔ان کے پاس کو ئی بھی سیاسی آپشن نہیں جس پر وہ اعتبار کر یں عوام کا اب اعتبار اٹھ چکا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی روایات کو توڑنا ہوگا اور انتخابی عمل میں عوام کی شراکت کو یقینی بنا نا ہوگا جن کیلئے قیام پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔ایسا کرنے ہی سے ملک و قوم کی ترقی و استحکام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔جبکہ نیٹو ہیلی کاپٹرز کی فائرنگ سے سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادتوں پر افسوس ہے۔اور یہ پاکستان پر حملہ کیا گیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا سنگین واقعہ ہے،اس پر صرف روایتی احتجاج کرکے خاموش نہیں ہو جانا چاہیے بلکہ عملی اقدامات بھی کیے جانے چاہئیں۔ نیٹو کی سپلائی لائن اگرچہ فوری طورپر بند کر دی گئی ہے لیکن یہ اب ضروری ہوگیا ہے کہ امریکیوں سے ہوائی اڈے خالی کرائے جائیں اور امریکی جنگ سے علیحدگی کا اعلان کیا جائے۔ حکومت حملوں کو برداشت کرتی رہی تو کل کو ایٹمی اثاثوں کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر امریکی سفیر کو دفترِ خارجہ طلب کیا جہاں ان سے اس بلااشتعال حملے پر شدید احتجاج کیا گیا صدرِ پاکستان، وزیراعظم اور حکومتِ پاکستان نے بھی ان حملوں کی شدید مذمت کی ہے ۔ جس بارے انہوں نے بھی اسے نہ صرف ناقابلِ قبول بلکہ پاکستان کی سالمیت اور بلکہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس واقعے پر وزیراعظم نے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا۔دوسری جانب پاکستانی فوج کے سربراہ نے بھی ایساف کی اس دانستہ اور ناقابلِ قبول حرکت کی مذمت کی جس میں پاکستانی فوجیوں کی جانیں گئیں۔اس ضمن میں پاکستانی فوج کے سربراہ نے ہدایت کی اس غیرذمہ دارانہ قدم کے موثر جواب کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں جبکہ نیٹو اور ایساف سے اس معاملے پر شدید احتجاج کیا جس میں اس جارحیت کے ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ نیٹو افواج کے حملے کا ہدف مہمند ایجنسی کی بائیزئی تحصیل میں دو سرحدی چوکیاں تھیں جن پر گن شپ ہیلی کاپٹروں اور لڑاکا طیاروں نے صبح سویرے بلا اشتعال اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اس حملے کے نتیجے میں 24 فوجی ہلاک اور 13 زخمی ہو گئے۔دور افتادہ علاقے سلالہ میں سرحدی چیک پوسٹوں پر ہونے والے اس حملے میں میجر اور کپٹن رینک کے دو افسران بھی شہید ہوئے ۔ زخمیوں کو فوری طور پر مہمند ایجنسی کے انتظامی مرکز غلنئی میں منتقل کردیا گیا۔ پاکستانی حکام نے اس حملے کے ردعمل میں احتجاجاً خیبر اور چمن کے راستے افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے تیل و دیگر اشیا کی سپلائی روک دی ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس حملے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی۔ ”انھوں نے اپنے دفاع میں فوجیوں کی طرف سے دستیاب ہتھیاروں سے کی جانے والی موثر کارروائی کو بھی سراہااسلام آباد میں امریکی سفیر کیمرون منٹر کو دفتر خارجہ طلب کر کے حکومت پاکستان نے اس واقعے پر امریکہ سے شدید احتجاج کیا جب کہ برسلز میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی نے بھی نیٹو ہیڈ کوارٹرز میں اپنے ملک کا شدید احتجاج ریکارڈ کرایا۔پاکستانی سرحدی چوکیوں پر نیٹو افواج کی طرف سے پہلے بھی اس طرح کے حملے کیے جا چکے ہیں لیکن ان کی وجوہات طالبان عسکریت پسندوں کا پیچھا کرتے وقت غلطی سے پاکستانی اہداف پر حملے بتائی گئیں۔دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد پاکستان کی کسی سرحدی چوکی پر کی جانے والے کارروائی مہلک ترین ہے۔اس سے قبل 30 ستمبر 2009ءکو بھی نیٹو کے ایسے ہی ایک حملے میں دو فوجی شہید ہوگئے تھے جس پر پاکستان نے احتجاجاً دس روز تک نیٹو کی سپلائی لائن بند کر دی تھی جو بعد میں امریکہ اور بین الاقوامی افواج کی طرف سے باضابطہ معافی کے بعد کھول دی گئی۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے نیٹو حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اسی روز سیاسی و فوجی قائدین پر مشتمل کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا جبکہ افغانستان میں نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل جان ایلن نے کہا کہ اس واقعے کی مفصل تحقیقات کی جائیں گی اور وہ ان فوجیوں کے خاندانوں کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہیں جو اس میں ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملے سے ایک روز قبل نیٹو کے کمانڈر جنرل ایلن نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا اور راولپنڈی میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی سے ملاقات میں نیٹو اور پاکستانی افواج کے درمیان کوآرڈینیشن کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ خیبر پختون خواہ کے گورنر مسعود کوثر نے اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔”پاکستانی قوم کے جذبات اس وقت جتنے مشتعل ہو چکے ہیں ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس قسم کی کارروائیوں کا ضرور ردعمل ہونا چاہیئے۔ جیسے کہ پاکستان کے عوام، حکومت اور تمام اداروں کی طرف سے یہ بات واضح طور پر بتا دی جائے گی کہ اس قسم کے واقعات کو ناصرف یہ کہ آئندہ کے لیے برداشت نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔“وفاقی وزیراطلاعات فردوس عاشق نے کہا کہ اس طرح کے حملوں سے دہشت گردی کے خلاف حکومت کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ایسے واقعات اسی وقت رونما ہوتے ہیں جب امن مذاکرات کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ان کے اشارہ بظاہر کل جماعتی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ کی جانب تھا جس میں کہا گیا تھا کہ قبائلی علاقوں میں اپنے لوگوں سے امن کے لیے مذاکرات شروع کیے جائیں۔”محاذ پر لڑنے والی ہماری فوج پاکستان کی زمینی سرحدوں ہی کی نہیں بلکہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے بھی محافظ ہیں۔ تو ان پر حملہ پاکستان پر حملہ ہے اور کوئی بھی حکومت اپنے محافظوں کے خلاف اس طرح کی کارروائیوں کو برداشت نہیں کر سکتی۔ متعلقہ فورم پر اس ایشو کو فوری طور پر لے جا کر ہم نا صرف احتجاج کر کے بلکہ اپنے اقدامات سے یہ ثابت کریں کہ اس قسم کے ایکشن پاکستانی سوسائٹی اور حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔“ جبکہ سابق وزیرداخلہ آفتاب شیرپاو نے کہا کہ نیٹو کے حملے سے دوطرفہ تعلقات مزید کشیدہ ہوں گے اس لیے حکومت کو چاہیئے کہ وہ فوری طور پر پارلیمان کو اس واقعے پر اعتماد میں لے اور مستقبل کا لائحہ عمل وضع کرے۔”اس حملے کے خلاف نیٹو سپلائی بند کرنا اپنی جگہ ہے ۔لیکن حکومت کو ابھی کچھ ایسے اقدامات لینے چاہیں کہ وہ اپنی عسکری قیادت پر یہ واضح کر دے کہ آئندہ اگر کوئی ایسا واقعہ ہوا تو بغیر پوچھے اس وقت ردعمل کی ضرورت ہے۔ اس کو اقوام متحدہ میں بھی لے جانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کے ایک طرف تو ہمیں اتحادی کہتے ہیں اور دوسری طرف ہم پر ہی حملے تو یہ واقعہ بڑا سنگین ہے۔“اسلام آباد میں امریکی سفیر کمیرون منٹر نے بھی پاکستانی فوجیوں کی
ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس واقعہ کی تحقیقات میں پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا۔ پاکستانی وزرات خارجہ نے امریکی سفیر کو طلب کر کے نیٹو کے حملے پر احتجاج بھی کیا ہے۔سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے ہیلی کاپٹرز کے حملے کے بعد پاکستان میں زمینی راستے سے نیٹو افواج کو فوجی ساز و سامان اور تیل کی فراہمی کا سلسلہ معطل کر دیا گیا ہے۔پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا میں طورخم اور صوبہ بلوچستان میں چمن کے راستے افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کو رسد بھیجی جاتی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے رسد کی فراہمی کا سلسلہ معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ صوبے کی حدود میں داخل ہونے والے ٹرکوں اور ٹینکرز کو آگے نہ جانے دیا جائے اور واپس پنجاب کی حدود میں بھیج دیا جائے۔اس سے قبل نیٹو کو رسد کی فراہمی کے مرکزی راستے پر واقع قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے بتایا کہ اگرچہ انہیں حکومت کی جانب سے سپلائی روکنے کا کوئی حکم نہیں ملا ہے لیکن اس واقعے کے بعد سے رسد لے جانے والا کوئی بھی ٹرک ایجنسی کی حدود سے گزر کر افغان سرحد کی جانب نہیں گیا ہے۔ادھر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں اس حملے کے بعد چمن کے راستے نیٹو کو فوجی سامان اور تیل کی فراہمی کا سلسلہ بھی روک دیا گیا ۔ صوبے میں مختلف مقامات پر رکے ہوئے کنٹینرز اور آئل ٹینکرز کی حفاظت کے لیے مزید سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان کی جانب سے نیٹو کو رسد کی فراہمی کا سلسلہ معطل کیا گیا ہو۔گزشتہ برس بھی پاکستان نے یہ سپلائی دس دن کے لیے اس وقت بند کر دی تھی جب نیٹو افواج کی جانب سے پاکستان کے سرحدی علاقے کرم ایجنسی میں ایک سکیورٹی چوکی اور دیگر مقامات پر فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حملے کیے گئے تھے۔ان حملوں کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں نیٹو افواج کو تیل فراہم کرنے والے ٹینکروں پر حملوں میں بھی اضافہ ہوا تھا اور ملک کے مختلف حصوں میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ٹینکروں کو جلا دیا گیا تھا۔اے پی ایس