شاہ محمود قریشی کی فکر انگیز گفتگو ۔چودھری احسن پر یمی




سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ خدا کی قسم صدر زرداری کی موجودگی میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ نہیں ،زرداری ملک کیلئے سیکیورٹی رسک بن گئے، حکمرانوں نے بھٹو اور بینظیر کے وڑن کو دفن کر دیا ہے، بینظیر بھٹو کے قاتل گیلانی کی کابینہ میں شامل ہیں،عوام حکمرانوں سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں، کراچی سے خیبر تک تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے، اسلام آباد کے فرعون کو نیست و نابود کرکے دم لیں گے، ملک میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے، مفاہمت کی پالیسی کرسی بچانے کیلئے استعمال ہو رہی ہے، ناکام حکومت کو رخصت کرنے کا وقت آگیا ہے، نوجوان تبدیلی کیلئے عمران خان کی طرف دیکھ رہے ہیں،جلسے کیلئے سندھ اور گھوٹکی انتخاب اسلئے کیا کہ سندھ اسمبلی نے پاکستان کے حق میں قرارداد پاس کی، سندھ والوں سے کہنے آیا ہوں کہ پاکستان بچائیں، بلدیاتی نظام پر سندھ کے عوام کو تقسیم کیا گیا، سندھ میں جلسہ کرنا آسان نہ تھا، صدر کی اس پر نظر تھی، میں یہاں غزنوی کی طرح سومنات گرانے آیا ہوں، سندھ میرا ہے، سندھیوں کا ہے، زرداری کا نہیں،تاریخی جلسے نے یہاں موجود جمود توڑ دیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گھوٹکی کے قریب قادر پور روڈ پر ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وقت بتائے گا کہ شاہ محمود قریشی کا فیصلہ ملک کیلئے بہتر تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نیٹو فوج کے حملے کیخلاف اقوام متحدہ جائے۔ حکمراں فوری طور پر امریکا کی جنگ سے باہر نکلیں اور نئی پالیسی بنائیں، پاکستانی سرزمین پر قائم امریکی اڈوں کو بند اور سی آئی اے کے آپریٹرز کو ملک سے نکالا جائے۔ شاہ محمود پیپلزپارٹی میں کچھ بھی کر لیتے قیادت بلاول بھٹو کو ملنی تھی، چوہدری نثار شریف برادران کی جتنی خدمت کرلیں قیادت شریف برادران کے بچوں کو ملے گی، چوہدری نثار کراچی کے جلسے میں سمجھ جائیں گے کہ ایک بال سے دو وکٹیں کیسے گرتی ہیں۔ آج گھوٹکی کے اس تاریخی جلسہ عام میں شاہ محمود سندھ کے غیورقافلوں کو خوش آمدید کہتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ آج اس عالم میں، سندھ میں جلسہ کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہاں ایک فرعون بستا ہے۔ شاہ محمود ، محمود غزنوی کی طرح اس سومنات کے مندر کو گرانے نکلا ہے۔ آج گھوٹکی والوں تم نے سندھ میں جو جمود طاری تھا، اس کو توڑ دیا ہے۔ آج کا یہ تاریخی جلسہ، آج کا یہ جم غفیر بارش کا پہلا قطرہ ہے اور میں آج کہہ رہا ہوں، سن لو،انشائ اللہ یہ بارش اور یہ ابر کرم اتنا برسے گا، اتنا برسے گا کہ وہ کہیں گے اے ابرِ کرم آج اتنا برس اتنا برس کہ وہ جا نہ سکے، گھر آیا ہے اک مہمان حسیں، وہ جا نہ سکے۔میں یہ بھی کہہ دوں کہ آج کے اس جلسے پر، سن لو میرے بیٹوں، سن لو میری بات، میں آج بڑی اہم باتیں کرنے آیا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ اس جلسے پر نظر ہے۔کس کی نظر ہے؟ اس جلسے پر اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے آصف زرداری کی نظر ہے۔ اس نے کہا کہ یہ جلسہ نہیں ہورہا، شاہ محمود کو سندھ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا، سندھ میرا ہے، اس میں کوئی جلسہ نہیں کرسکتا۔تو آج تم نے اس کو بتادیا کہ سندھ اس کا نہیں سندھیوں کا ہے۔ آج دن کیا ہے؟ جس پر جلسے کے شرکائ نے کہا کہ اتوار ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج یکم محرم ہے، مت بھولیں تاریخ اسلام میں یہ بڑا اہم دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جس دن حسین کا قافلہ یزیدیت کو دفن کرنے کیلئے نکلا تھا۔ یہ وہ قافلہ تھا جو مدینے سے نکلا اور کربلا کے میدان میں اس نے نانا کے دین کو بچانے کیلئے سر قلم کروادیا، جھکایا نہیں۔ ہم اس حسین کے پیغام کی تقلید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ کل شاہ محمود اور عمران خان دونوں ملتان سے چلے۔ کون سا ملتان؟ مدینة الاولیائ ملتان۔ جس کے بارے میں کہا گیا ”ملتان مآب جنت اعلیٰ برابر است آہستہ پا کہ ملک سجدہ بی کنند“ یہ وہ ملتان ہے۔ وہاں سے یہ قافلہ نکلا ہے اور یہ قافلہ حصول اقتدار کیلئے نہیں نکلا، یہ قافلہ کرسی کے لئے نہیں نکلا، یہ قافلہ پاکستان میں تبدیلی کیلئے نکلا ہے۔ حسین کا قافلہ یزید کو پامال کرنے کے لئے نکلا تھا اور یہ قافلہ اسلام آباد کے فرعون کو نیست و نابود کرنے کیلئے نکلا ہے۔ یہ میں کہتا چلوں دوستو! نعرے نہیں لگاو، میری بات سنو، نعروں کا بھی وقت آئے گا، میں بات کرنے آیا ہوں، میں اپنا دل تمہارے سامنے رکھنے آیا ہوں، میں اپنا مافی الضمیر تمہارے قدموں پر نچھاور کرنے آیا ہوں۔ ایک نئے سفر کا آج میں آغاز کررہا ہوں۔ ساتھیو، اس سفر کا پہلا قدم میں نے تب اٹھایا تھا جب لاہور کی سڑک پر میرے تین پاکستانیوں کو ریمنڈ ڈیوس امریکی نے قتل کیا تھا اور شاہ محمود نے کہا تھا کہ امریکا کے دباو کے باوجود میں پاکستانیوں کے خون کا سودا نہیں کروں گا۔ میں ریمنڈ ڈیوس کو استثنیٰ نہیں دوں گا۔ 27جنوری کا وہ افسوسناک واقعہ اور 30جنوری کو میں نے ایوان صدر میں زرداری صاحب اور گیلانی صاحب کی موجودگی میں کہا کہ یہ پڑی تمہاری وزارت اور یہ رہا میرا استعفیٰ۔ اور دوسرا قدم میں نے پھر اٹھایا ، دوسرا قدم میں نے اس دن اٹھایا اور بہت سوچ کر اٹھایا، لوگ مجھے کہتے رہے کہ شاہ محمود فیصلہ کرو، ہم تمہارے فیصلے کے منتظر ہیں، ہم سننا چاہتے ہیں کہ تمہاری سیاسی سمت کیا ہوگی۔ تمہارا سیاسی قبلہ کیا ہوگا؟ اور میں کہتا رہا کہ نہیں یار سوچنے دو۔ برسوں کی رفاقت ہے، ذرا سوچنے دو۔ کیونکہ شاہ محمود نہ جلدی رشتہ بنانے کا قائل ہے اور نہ جلدی رشتہ توڑنے کا قائل ہے۔ میں نے بہت سوچا اور دس بار میں نے سوچا، ترازو میں رکھ کر تولا، تول کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ آج پاکستان کی کیفیت یہ ہے کہ ہمیں اپنی ذات سے بالاتر ہونا ہوگا۔ آج پاکستان کی کشتی ایک بھنور میں ایسی پھنسی ہے کہ ہم اگر اپنے ذاتی مفادات اور لالچوں سے نہیں نکلیں گے تو پاکستان کو نقصان ہوسکتا ہے ، تو ساتھیو! محبت کرنے والے عقیدت مندوں! میں نے فیصلہ کیا کہ اس قومی اسمبلی میں اب وہ سکت نہیں رہی اور یہ قومی اسمبلی اب عوام کی بات کی طرف اور عوام کی سوچ کی طرف متوجہ نہیں ہے۔ عوام آگے نکل چکی، اسمبلی پیچھے رک چکی اور تبھی میں نے کہا تھا ”شاہ جی کوچ کرو، اس ایوان میں جی کو لگانا کیا“ اور میں نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا اور فیصلہ کر کے نکلا اور کہا کہ آج پاکستان کی عوام کے سامنے عوام کی کچہری میں پیش ہونے کا وقت آگیا ہے۔ میں تمہاری کچہری میں حاضر ہوگیا ہوں۔ کیونکہ یہ دھرتی ہے سندھ کی، اور سندھ کا بیٹا تھا شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بھٹو نے کہا تھا ”طاقت کا سرچشمہ عوام ہے“ تو میں جو اسمبلی نہیں سنتی اس کو خیرباد کر کے عوام کے سامنے آگیا۔ لوگوں نے فیصلہ کرلیا ہے اور انشائ اللہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں تبدیلی کی ہوا ، چل پڑی ہے اللہ کے فضل و کرم سے۔ خیبر سے لے کر کراچی تک کی ہوا چلے گی۔ گوادر سے لے کر مظفر آباد تک یہ ہوا چلے گی اور پورے پاکستان کو تبدیلی کی ہوا چلے گی۔ نظام کی تبدیلی، شہروں کی تبدیلی، سوچ کی تبدیلی اب مجھے چلتی دکھائی دے رہی ہے۔ مجھے لوگوں نے کہا کہ شاہ محمود تم نے گھوٹکی کا انتخاب کیوں کیا، تم ملتان کے رہنے والے ہو، تم نے گھوٹکی کا انتخاب کیوں کیا؟ میں بتاتا ہوں میں نے گھوٹکی اور سندھ کا انتخاب کیوں کیا؟ کیونکہ سندھ وہ دھرتی ہے ، سندھی وہ لوگ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے سندھ اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرارداد پاس کی تھی۔ سندھ وہ دھرتی ہے جہاں قائد اعظم محمد علی جناح کے حکم پر میرے دادا اور جی ایم سید کا خاندان بستا ہے، انہوں نے سندھ کے ریگستانوں میں صحراوں میں تحریک پاکستان کی جدوجہد کی تھی۔ ہاں، اگر تحریک پاکستان اور پہلا پاکستان کے ساتھ محبت کا رشتہ سندھ نے جوڑا تو میں آج سندھ والوں سے کہنے آیا ہوں کہ خدارا پاکستان بچانے کا بیڑہ بھی تمہیں اٹھانا ہوگا۔ پاکستان پر جو میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے والے ہیں ان کا مقابلہ تمہیں کرنا ہوگا، کرو گے؟ ساتھیو! سندھ میں اس لئے آیا کیونکہ سندھ کو کچھ سیاستدانوں نے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کیلئے سندھ کو تقسیم کیا۔ لسانیت میں تقسیم کیا، جھگڑے کرائے۔ بلدیاتی قانون پر قوم کو تقسیم کیا گیا، کراچی کی ٹارگٹ کلنگ سندھیوں نے برداشت کی چاہے وہ سندھی بولنے والا سندھی تھا یا اردو بولنے والا سندھی تھا یا پشتو بولنے والا سندھی تھا، تھا تو سندھی۔ اس لئے میں نے سندھ کا رخ کیا ہے۔ میں اس لئے سندھ آیا کہ آج سے ساڑھے سات سو سال پہلے میرے جدامجد شیخ الاسلام حضرت غوث بہائ الدین ذکریا نے سندھ کے ریگستانوں کا رخ کیا، اونٹوں پر سفر کیا، کس لئے؟ کرسی کیلئے؟ نہیں۔ مال کے لئے ؟ نہیں۔ تجارت کے لئے؟ نہیں۔ کھیتی باڑی کیلئے؟ نہیں۔ کس کیلئے کیا؟ شمع رسالت کو جلانے کے لئے سفر کیا۔ وہ دیا ساڑھے سات سو سال پہلے جلایا اور اس نے وِردکیا ، اس نے لکھ دیا لا الٰہ الا اللہ۔ میرے ساتھ مل کر بولو لا الٰہ الا اللہ۔اور پھر کیا ہوا؟ پھر اس ورد کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح? کی ولولہ انگیز قیادت نے کہا بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان۔ پاکستان کا مطلب کیا… (عوام: لا الٰہ الا اللہ) اسلئے میں نے سندھ کا رخ کیا۔ اسلئے میں یہاں آیا ہوں اور اس لئے میں تمہیں جگانے آیا ہوں۔ اسمبلی سے مستعفی ہونے کا میں نے فیصلہ کیا، کیوں کیا؟ میں آج کہہ رہا ہوں کہ وقت آگیا ہے کہ یہ ناکام حکومت رخصت کی جائے اور عوام کے پاس جاکر نیا مینڈیٹ حاصل کیا جائے۔ جب حکومت لوگوں کو مایوس کرتی ہے تو پھر عوام سے رجوع کیا جاتا ہے۔ یہی جمہوری اقدار ہیں، یہی جمہوری قدریں ہیں اور تبھی میں کہتا ہوں کہ آج وقت آگیا ہے کہ ہم عوام سے رجوع کریں کیونکہ یہ حکومت ہر میدان میں ناکام ہوچکی ہے۔ آو ¿ معاشی حالات کو دیکھیں، آج مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ آج اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں میں سے تقریباً آٹھ کروڑ پاکستانی ایسا ہے جو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ آج پاکستان کا نوجوان متفکر ہے، آج وہ اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہے۔ آج وہ پڑھا لکھا نوجوان روزگار کیلئے فکرمند ہے تبھی تو وہ نوجوان آج عمران خان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ کیوں دیکھ رہا ہے؟ اس لئے دیکھ رہا ہے کہ وہ مایوس ہے اور تلاش کررہا ہے کہ خدارا میرا ہاتھ تھامو، خدارا مجھے سمت دکھاو ¿، خدارا میری قیادت سنبھالو۔ خدارا مجھے رہنمائی دو۔ میں پاکستان سے محبت کرتا ہوں۔ میں پاکستان کو بچانا چاہتا ہوں، میری قیادت کرو۔ آج حالت یہ ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کار سرمایہ کاری نہیں کررہا۔ جب سرمایہ کاری نہیں ہوگی تو روزگار کیسے ہوگا۔ آج کیفیت یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ شہروں میں تو کہیں آٹھ گھنٹے ہوگی، یہاں گھوٹکی جیسے علاقوں میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہے۔ آج تم پھٹی کی فصل اگاتے ہواور اپنی سال کی روزی کماتے ہو۔ پچھلے سال پانچ ہزار روپے من پھٹی بکی۔ آج میرے گھوٹکی کے کاشتکار، میرے سندھ کے کاشتکار، میرے سرائیکی پنجاب کے کاشتکار کی پھٹی کی نہ قیمت مل رہی ہے نہ خریدار۔ دھکے کھاتا پھر رہا ہے اور اسلام آباد میں کوئی سننے والا نہیں ہے۔ آج کھاد کی فیکٹریاں بند پڑی ہیں کیونکہ ان کو گیس نہیں مل رہی۔ گیس کہیں اور دی جارہی ہے جہاں مال لگا ہوا ہے گیس وہیں۔ آج کھاد کی قلت ہے، پاکستان میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ ہمیں ایک بوری باہر سے منگانے کی ضرورت نہیں لیکن آج کیفیت یہ ہے کہ دو ہزار روپے کی یوریا کی بوری بک رہی ہے۔ کمیشن کھائے جارہے ہیں۔ آج تبدیلی کی بات اس لئے ہورہی ہے دوستو کہ پاکستان کے عوام زرداری اور گیلانی کی حکومت سے مایوس ہوچکے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر یہ جوڑا اپنی ساکھ گنوا چکا ہے۔ کیوں گنوائی ہے یہ ساکھ؟ اس لئے ساکھ گنوائی ہے کہ آج پوری انٹرنیشنل کمیونٹی کہتی ہے کہ انہوں نے اچھی حکمرانی نہیں کی اور انہوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے اور آج پاکستان کی غربت میں، پاکستان کی مایوسی میں ان کی لوٹ مار کا بے پناہ حصہ ہے۔ میں آج تم سے پوچھنے آیا ہوں، کیا ان چوروں کو بھگانے کا وقت آگیا ہے؟ کیا ان کا مقابلہ کرنے کا وقت آگیا ہے؟ اور اگر ہم اس مقابلے کیلئے نکلیں گے تو تم ساتھ دو گے؟ میں کہنا چاہتا ہوں ،میں بیس سال پاکستان پیپلز پارٹی میں رہا۔ میری بہن بینظیر بھٹو نے مجھے عزت دی، مجھے پنجاب کا صدر بنایا۔ 2002ئ میں جب ملک میں آمریت تھی، مشرف کا راج تھا، اس نے مجھے وزیراعظم کا امیدوار نامزد کیا اور کہا کہ شاہ محمود مجھے معلوم ہے کہ تم ہار جاو گے لیکن جمہوریت کی بقا کیلئے جمہوریت کے پرچم کو لہرانے کیلئے ان قوتوں کا مقابلہ کرو۔ کیا شاہ محمود نے مقابلہ کر کے دکھایا یا نہیں دکھایا؟کیا شاہ محمود پاکستان کا واحد ضلع ناظم نہیں تھا جس نے ریفرنڈم کی مخالفت کی تھی۔ جس نے مشرف کا استقبال نہیں کیا تھا۔ یہ تاریخ گواہ ہے کہ ملتان کا ناظم تھا جس نے کہا نہیں مانتا، میں ظلم کے ضابطے نہیں مانتا۔ لیکن 27 دسمبر کی وہ شام لیاقت باغ کا وہ میدان، ہم سے بینظیر چھن گئی۔ دختر مشرق کو شہید کردیا گیا۔ وہ آج بھی میرے لئے محترم ہے اور پورے پاکستان میں اس کی صف ماتم بچھی، سسکیوں کے ساتھ لوگوں نے اس کو دفنایا۔ یہ لوگوں کا خراج تھا لیکن بدقسمتی سے جنہوں نے اس کی باگ ڈور سنبھالی انہوں نے صرف بینظیر نہیں بینظیر کے ساتھ بینظیر کے وڑن کو اور ذوالفقار علی بھٹو کے فلسفے کو بھی دفن کردیا۔ یہ ہے ستم ظریفی، یہ ہے دکھ، اسلئے ہر نظریاتی کارکن خون کے آنسو بہارہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ چار سال ہوگئے، سن لو سندھیوں، چار سال ہوگئے، محترمہ کو شہید کئے ہوئے لیکن آج بھی اس کے قاتل بے نقاب نہیں ہوئے۔ کیسے ہوں اس کے قاتل بے نقاب؟جس پر وہ شک کرتی تھی زرداری نے ان طبقوں کو تو کابینہ میں جگہ دیدی ہے۔ جنہوں نے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اس سے بے وفائی کی آج وہ حکومت کی اگلی صفوں پر، وہ گیلانی کے دائیں اور بائیں بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔ بتاو ¿ بینظیر بھٹو زندہ ہوتی تو کیا ایسا کرنے کی اجازت دیتی؟ بتاو ، دیتی؟ تو پھر دوستو! یہ ہوا۔ کہتے ہیں ہم نے مفاہمت کی سیاست کی ہے۔ اس نے تو مفاہمت کا پیغام دیا تھا جمہوری ایوانوں کو مضبوط کرنے کیلئے، جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے، اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے نہیں۔ انہوں نے تو مفاہمت کے فلسفے کو اپنی کرسی بچاو پروگرام بنادیا ہے۔ میں آپ کو ایک اور تاریخی بات بتانا چاہتا ہوں، پورے پاکستان کا میڈیا موجود ہے اور خدا کو حاضر ناظر کر کے کہہ رہا ہوں۔ 2000ئ کے انتخابات کے بعد جب ہم جیت کر آئے تو مجھ سے رابطہ کیا، اور کہا گیا کہ پیپلز پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے اتنے ممبران ہیں، ق لیگ کے اتنے ممبران ہیں، ان کو جوڑ دیا جائے تو پنجاب میں اکثریت بنتی ہے اور شاہ محمود تم پنجاب کے وزیراعلیٰ بن سکتے ہو۔ میں نے کہا یہ فیصلہ میں نہیں کرسکتا۔ یہ پالیسی فیصلہ ہے ، یہ پارٹی نے کرنا ہے، چنانچہ میں زرداری کے پاس گیا۔ میں زرداری صاحب کے پاس گیا، میں نے زرداری سے کہا یہ پیغام آیا ہے۔ اس نے کہا شاہ محمود ہم تو چاہتے ہیں کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہو لیکن یہ بتاو کہ میں قاف قاتل کے ساتھ الحاق کیسے کرلوں۔ وہ جو کل قاتل تھے، کل جو قاتل لیگ تھی آج آپ نے اپنی صفوں میں ان کو بٹھالیا۔ آج پیپلز پارٹی کا نظریاتی کارکن یہ سوال اٹھارہا ہے اور پوچھنا چاہتا ہے کہ کس نے کیا؟ کیوں کیا اور اس کے پیچھے کیا مصلحت تھی؟ ساتھیو! میں آج عوام کی کچہری میں آیا ہوں۔ تم سے پوچھنے آیا ہوں، میں عوامی انسان ہوں، میں نے ہمیشہ جمہوری سوچ رکھی ہے اور انتخابات کے ذریعے آگے بڑھا ہوں۔ بلدیات سے لے کر صوبے اور صوبے سے لے کر مرکز تک میں آج عوام کی کچہری میں تم سے پوچھنے آیا ہوں کہ میں کیا کروں؟ مجھے کیا کرنا ہے؟ میرا مستقبل کا فیصلہ کیا ہونا ہے؟ میں آپ سے چاہتا ہوں، تم سے اجازت مانگنے آیا ہوں، تم سے رہنمائی حاصل کرنے آیا ہوں، تمہارے دروازے پر دستک دینے آیا ہوں، مجھے بتاو، میری رہنمائی کرو، میری سمت کا تعین کرو ۔ کیونکہ دوستوں سیاست میں فرض ہے نہ سنت ہے۔ یہ تو ایک والنٹیری عمل ہے اور ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے کرنی ہے کہ نہیں کرنی۔ میں آج آپ سے یہ پوچھنے آیا ہوں کہ بتاو، حکم کرو، پاکستان کے غیور شہریوں حکم کرو کہ میں ، اگر تم کہتے ہو تو خاموشی سے گھر بیٹھنے کیلئے تیار ہوں۔ کیا میں گھر بیٹھ جاوں یا پاکستان بچانے کیلئے باہر نکلوں؟ کیا گھر بیٹھ جاوں؟ کیا باہر نکلوں؟ پاکستان بچانے کے قافلے میں شامل ہوجاوں؟ تمہاری اجازت ہے؟ تو پھر اگر تم کہتے ہو کہ شاہ محمود گھر نہ بیٹھو تو میں تم سے سوال کرنے آیا ہوں، کیا تم میرے ساتھ کھڑے ہوگے؟ کیا میرے ساتھ لڑو گے؟ کیا میرے ساتھ مرو گے؟ کیا میرے ساتھ جدوجہد کرو گے؟ عمران خان صاحب میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں جلد بازی میں فیصلہ نہیں کروں گا۔ میں نے آپ سے کہا تھا میں عوام کی تائید سے فیصلہ کروں گا۔ آج عوام کی کچہری نے مجھے اجازت دیدی ہے کہ میں آج آپ کی اجازت سے اس تحریک میں شامل ہورہا ہوں۔ میں اس تحریک میں شامل ہورہا ہوں جو حصول انصاف کیلئے نکل رہی ہے۔ میں آج اپنے آپ کو اس تحریک سے منسلک کررہا ہوں جو تحریک تبدیلی کا عہد کررہی ہے۔ میں آج اس تحریک کا ، خدا کی قسم سندھ کی دھرتی پر یہ کہنے آیا ہوں کہ میں آج تم سے وعدہ کرتا ہوں میں غوث کا بیٹا ہو کر تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں سندھ میں جاگیردارانہ ذہنیت کا مقابلہ کرنے کیلئے نکلا ہوں۔ جاگیردارانہ نظام زمین کا ٹکڑا نہیں، یہ ایک ذہنی کیفیت ہے اور ہم نے اس ملک کو ان غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروانا ہے۔ کیا ان زنجیروں کو توڑو گے؟ تو پھر عمران خان صاحب آج شاہ محمود تمہاری ٹیم کا حصہ ہے۔ ایک بڑی اہم بات سن لو، مغرب کا وقت قریب ہے، میں بات لمبی نہیں کرنا چاہتا۔ عمران خان صاحب نے کہا ہے کہ اگلا تحریک انصاف کا جلسہ کراچی میں ہوگا۔ کیا کراچی کے جلسے میں جہاں کراچی کے باسی ہوں گے ، کیا مجھے وہاں ہزاروں کی تعداد میں سندھی ٹوپی اور اجرک نظر آئے گی۔ کیا اندرون سندھ اس میں شامل ہوگا۔ تو پھر شاہ محمود کا پیغام لے کر سندھ کے تعلقے تعلقے میں پھیل جاو ¿ اور کہو کہ پاکستان بچانے والا قافلہ مزار قائد پر بانی پاکستان کے در پر حاضر ہونے والا ہے اور آخر میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں، سن لو میری بات، جو میں کراچی میں بتاو ¿ں گا، آج نہیں، ٹائم نہیں ہے۔ خدا کی قسم میں اس ملک کا وزیر خارجہ رہا ہوں اور میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ آصف زرداری کی موجودگی میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ نہیں ہے۔ کیوں نہیں ہے، یہ میں کراچی میں بتاوں گا۔ میں کراچی میں بتاوں گا کہ آنے والے دنوں میں ہم پر کیا دباو آنے والا ہے۔ میں اس کا ذکر کروں گا۔ اب ایک نعرہ ہمیں لگانا ہے، ہم مسلمان ہیں، ہم کلمہ گو ہیں، ایک نعرہ تم نے میرے ساتھ لگانا ہے جس کی آواز اسلام آباد کے ایوانوں کو ہلادے اور یہ نعرہ ایمان کی قوت سے لگانا ہے۔ نعرئہ تکبیر۔ اور دوسرا نعرہ تم نے لگانا ہے جس کی آواز نیٹو کے جرنیلوں تک پہنچ جائے، جنہوں نے مظلوم پاکستانیوں کا خون کیا ہے۔ نعرئہ رسالت۔ ایک نعرہ تم نے لگانا ہے باطل کی قوتوں کو پاش پاش کرنے کے لئے، نعرئہ حیدری۔ ایک نعرہ تم نے لگانا ہے میری نئی سیاسی صف بندی کا۔ تحریک انصاف (زندہ باد) عمران خان (زندہ باد) اور آخری نعرہ لگانا ہے، زندہ ہے وہ زندہ ہے۔ پاکستان زندہ باد۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود قریشی کا دامن صاف ہے اور کوئی بھی اس پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری جماعت میں ہر کام میرٹ پر ہو گا اور سفارتی کلچر نہیں چلنے دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیٹو نے ہمارے فوجی جوانوں کو شہید کر دیا اور امریکا کی جنگ میں 40/ہزار جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں اسلئے امریکی جنگ سے نکلنا چاہیے اور نئی پالیسی بنانی چاہیے، غیرت ، خودداری کی پالیسی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو نیٹو فوج کے حملہ پر یو این اے میں جانا چاہیے کیونکہ یہ ملک پر حملہ ہے، سی آئی اے کو باہر نکال کر بیس بند کر دینے چاہئیں انہوں نے کہاکہ ہم پیسہ ملک کے لیے اکٹھا کریں گے، کرپشن کو ختم کر کے ٹیکس بڑھاکر پیسہ لائیں گے، اب وقت آ گیا ہے کہ ملک میں نیا نظام، نیا پاکستان خودداری کا بنائیں جبکہ پاکستان میں اٹھنے والے سیاسی سونامی کو کوئی سیاسی پارٹی روک نہیں سکتی اور اس کی اگلی منزل کراچی ہے انہوں نے کہا کہ میں چوہدری نثار کو بتاو?ں گا کہ ایک گیند پر دو وکٹیں کیسے گرتی ہیں۔ اس موقع پر سابق ایم این اے ماروی میمن بھی جلسہ عام میں موجود تھیں لیکن انہوں نے پارٹی میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا جبکہ جلسہ میں سردار حاجی خان چاچڑ، ڈاکٹر رب نواز کلوڑ، محمد شریف بلیدی اور دیگر بھی موجود تھے۔ جلسہ میں ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی سیاسی رہنما، عمائدین اور کارکن نے تحریک انصاف میں شامل ہونے کا اعلان نہیں کیا جبکہ جلسہ کی حفاظت کیلئے پولیس کی نفری اور غوثیہ جماعت کے کارکنوں کی بڑی تعداد مقرر کی گئی تھی۔اے پی ایس