انصاف کا تقاضا ۔چودھری محمد احسن پر یمی




وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حسین حقانی کو واپس بلایا ہے، انہیں سنے بغیر کوئی فیصلہ کرنا درست نہیں۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار پشاور میں گورنرخیبرپختون خوا مسعود کوثر کے بیٹے کی شادی میں شرکت کے موقع پرمیڈیا سے گفتگو میں کیا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں بہترین تعلقات ہیں۔ کسی قسم کی غیرآئینی اقدام قبول نہیں کیا جائے گا۔ آئینی اور قانونی طریقے سے جو بھی آئے وہ آسکتا ہے۔ وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ حکومت پر بے شمار آزمائشیں آئیں۔ امریکا کی طرف سے حملے کی دھمکی آئی، تو پوری قوم کو اے پی سی کے ذریعے اکٹھا کیا۔جبکہ مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ میمو کے واقعے کی تحقیقات ہونی چاہییں، معاملے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے انکوائری کمیشن بنایا جائے اور اگر ایسا نہ ہوا تو معاملہ لے کر سپریم کورٹ جائیں گے۔ راولپنڈی کے نواحی علاقے مندرہ میں میڈیا سے گفت گو کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ میمو کے معاملے کا فیصلہ ضرور ہو گا، اس معاملے کی انکوائری بہت جلد کی جانی چاہیے،پوری قومی اسمبلی بھی انکوائری کر سکتی ہے ، ریٹائرڈ ججوں اور فخر الدین جی ابراہیم جیسے لوگوں پر مشتمل کمیشن بھی بنایا جاسکتا ہے اورتحقیقات کے نتائج 10روز میں سامنے آجانے چاہییں۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے دور میں کبھی ملکی مفاد پر سودے بازی نہیں کی ، پاکستان کی خود مختاری داو پر نہیں لگنی چاہیے۔جبکہ میمو اسکینڈل نے صدر آصف علی زرداری پر دباو بڑھا دیا ہے، آصف علی زرداری کو خطرہ لاحق ہے کہ ان کے حریف میمو کو ثبوت کے طور پر پیش کرسکتے ہیں کہ ان کی حکومت امریکی مدد سے غداری کی مرتکب ہوئی، امریکا میمو تنازع کی ہنگامہ خیزی کو بغور دیکھ رہا ہے۔ برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز ‘ کے مطابق زرداری پاک ملٹری کو کنٹرول کرنے کیلئے امریکی مدد کے الزامات کی وجہ سے اپنے مخالفین کی جانب سے شدید دباو ¾ کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان کے صدر زرداری نے امریکا میں پاکستانی سفیر کو یہ اتھارٹی دی تھی کہ اعلیٰ امریکی حکام سے پاکستانی فوج کو بغاوت سے روکنے میں مدد کریں، اس دعوے نے پاکستانی سیاسی منظر نامے کو شدید متاثر کیا ہے۔میمو کی تصدیق کے بعد پاکستان میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا ہے ، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زرداری کو خطرہ ہے کہ ن کے مخالفین اس میمو کو ثبوت کے طور پیش کرسکتے ہیں کہ ان کی حکومت امریکا کی مدد سے سرحدوں پر غداری کی مرتکب ہوئی۔ منصور اعجاز نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ا مریکامیں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے انہیں پیغام پہنچانے کیلئے کہا تھا۔ حسین حقانی کے ساتھ اس کی دس سال سے شناسائی ہے، ان پورے ہنگامہ خیز حالات کو واشنگٹن غور سے دیکھ رہا ہے۔ جبکہ صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ جمعہ کو حکمران پیپلز پارٹی کی اعلیٰ سطحی مشاورتی کور کمیٹی اور بعض وفاقی وزراء کے اجلاس کی قیادت کی، جس میں شرکاءکو بتایا گیا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو متنازع مراسلے کے بارے میں ملک کی قیادت کو اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کرنے کے لیے اسلام آباد طلب کیا گیا ہے۔اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ”انصاف کا تقاضا ہے کہ سفیر (حسین حقانی) کو اس معاملے پر اپنا موقف پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔“پاکستانی سفیر پر الزام ہے کہ انھوں نے ہی صدر زرداری سے منسوب وہ مبینہ خط سابق امریکی فوجی کمانڈر ایڈمرل مائیک ملن کو بھیجا تھا جس میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائیریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا کو برطرف کرنے کے لیے امریکی قیادت سے مدد مانگی گئی تھی۔ادھر گزشتہ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزب مخالف نے فوج کے خلاف کارروائی کے لیے امریکی مدد طلب کرنے کے معاملے پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا اور مطالبہ کیا کہ اس میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنے کےلیے فوری طور پر غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کرائیں جائیں۔قائد حزب اختلاف چودھری نثارعلی خان نے ایوان میں اپنی تقریر میں مبینہ خط کے معاملے پر صدر مملکت اور حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔”یا زرداری صاحب اپنے آپ کو علیحدہ کریں سارے معاملے میں، جو لوگ ذمہ دار ہیں ان کو انصاف کے کٹہرے میں لے کر آئیں، اور میں یہ بھی واضح کر دوں یہ مسئلہ کسی کے استعفے سے نہیں رکے گا، یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ میرے سے غلطی ہو گئی یہ پاکستان سے غداری کے مترادف ہے جو کچھ ہو رہا ہے اور ہم آئین اور قانون کے مطابق اس کا حل چاہیئں گے۔“واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی مبینہ خط کے بارے میں ان پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید اور اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی پیشکش کر چکے ہیں، جب کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ تمام معاملے پرحکومت کو وضاحت پیش کرنے کے لیے حسین حقانی حکومت کے طلب کرنے پر جلد وطن پہنچ رہے ہیں۔وزیر اعظم گیلانی نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کے مطالبات کا جواب دیتے ہوئے اس موقف کو دہرایا۔”ہمیں سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا چاہیئے، اور ذرا انتظار کریں۔ ان (حسین حقانی) کو آنے دیں، میں پہلے ہی یقین دہانی کرا چکا ہوں کہ انھیں وضاحت پیش کرنے کے لیے بلایا جا رہا ہے اور وہ ملک کی قیادت کے سامنے یہ وضاحت پیش کریں گے۔ (اور) اگر پھر اگر آپ کے ذہن میں کوئی چیر ہو گی آپ ضرور (مطالبہ) کریں، مگر میں آپ کو بتا دوں یہ ایشو بھی حل ہو جائے گا۔“لیکن حکومت کی تمام تر وضاحتوں کے باوجود سیاسی مخالفین کے مطالبات جاری ہیں جب کہ مقامی میڈیا میں صدر زرداری ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں۔سابق امریکی فوجی کمانڈر مائیک ملن کو بھیچے گئے مراسلے کی جمعہ کو مزید تفصیلات مقامی اور غیر ملکی میڈیا میں سامنے آئی ہیں۔ پاکستانی صدر سے منسوب اس مبینہ خط میں امریکی حکومت سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اسے اجازت ہو گی کہ وہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کے ذمہ دار پاکستانی فوجی حکام کا نام تجویز کرے اور اگر وہ القاعدہ کے نئے لیڈر ایمن الزاوہری اور طالبان کے مفرور لیڈر ملا عمر کے خلاف پاکستانی سرزمین پر کارروائی کرے گی تو پاکستان اس میں مدد کرے گا۔ جب کہ اس مبینہ مراسلہ میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پرورگرام کی نگرانی کے لیے بھی امریکہ کو رسائی دینے کے وعدہ کیا گیا ہے۔جبکہ مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے کہا ہے کہ سیاست جاتی ہے تو جائے،ملکی خود مختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ،کسی بھی غیرآئینی اقدام کی حمایت نہ کرنے کی قسم اٹھارکھی ہے ،مائیک مولن کو لکھے گئے خط پر انکوائری کمیٹی بنائی جائے، اگرحکومت ایسا نہیں کرتی تو پھر دال میں ضرورکچھ کالا ہے۔نواز شریف نے کہا کہ سانحہ ایبٹ آباد پر کمیشن کھو کھاتے میں چلا گیا ،قوم کو نتیجے کا کچھ پتہ نہیں چلا، اب میمو پر کمیشن ٹالنے والی بات ہے، سول سوسائٹی، ارکان اسمبلی، صاحب کردار وکلاءاور ججوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ اسمبلیوں سے استعفوں سمیت دیگر آپشنز پر پارٹی میں مشاورت کریں گے ،انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں شروع کی گئی کسی کوشش اور غیر آئینی اقدام کی حمایت نہ کرنے کی قسم اٹھاررکھی ہے۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ خفیہ کھیل کھیلنے والے اپنا کھیل بند کردیں ،سپریم کورٹ کسی فرد یا ایجنسی کے کہنے پر ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کرنے کا فیصلہ نہیں کرے گی ۔مسلم لیگ نون کے صدر نے مزید کہا کہ پتے ان کے ہاتھ میں نہیں ، سٹے بازوں کے ہاتھ میں ہیں، انہیں تو دو سال سے زائد باری نہیں ملی، شاہ محمود قریشی کو 22 نومبر کو خوش آمدید کہوں گا اور سفر وہیں سے شروع ہوگا جہاں ختم ہواتھا۔مسلم لیگ ن نے ایڈمرل مائیک مولن کو بھیجے گئے مبینہ میمو کو قومی سلامتی کے معاملے پرحکومت کے خلاف سب سے بڑی چارج شیٹ قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کا مشترکا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں اپوزیشن صبر کرے،اس معاملے سے بھی نمٹ لیں گے اورملک میں غیر آئینی طریقے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کاکہناتھاکہ راستوں کے کانٹے چن کر امریکا سے تعلقات برابری کی بنیاد پراستوار کیے جائیں گے۔اپوزیشن سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہرمعاملے کوملک کیلئے خطرہ قرارنہیں دیناچاہیے۔وزیراعظم نے کہاکہ آئی ایس آئی ہمارا ادارہ ہے اور انہوں نے ہمیشہ اپنے اداروں کا دفاع کیا ہے،ان کا کہنا تھا کہ میمو کے معاملے پر پاکستانی سفیر حسین حقانی کو طلب کیا ہے، یہ مسئلہ بھی حل کرلیا جائے گا ، اپوزیشن صبر سے کام لے۔قائد حزب ختلاف چوہدری نثار علی خان نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ میمو کے
معاملے پر حکومت نے ڈیڑہ ماہ تک خاموشی اختیار کی اور اب بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے،جو کچھ ہوا وہ ملک سے غداری کے مترادف ہے۔ ن لیگ ہی کے ایاز صادق، ایاز امیر ،خواجہ آصف اور مہتاب عباسی نے اس معاملے پر پارلے منٹ کا مشترکا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔ ایاز صادق کاکہناتھاکہ حسین حقانی نے واشنگٹن میں دیئے گئے عشائیے میں چند لوگوں کو بتایاتھاکہ امریکی فوج نے پاکستان میں 362 مقامات کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے، ایک شخص پاکستان میں ہے اور وقت آنے پر گواہی بھی دے گا۔وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہاکہ میمو کے بارے خبریں بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔جبکہ مائیک مولن کو لکھے گئے مبینہ خفیہ میمو کا متن بھی قارئین کی نذر ہے۔صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد 72 گھنٹوں کے دوران پاکستان میں سیاسی صورتحال بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ حکومت میں موجود مختلف ایجنسیوں اور گروپوں کی طرف سے آئی ایس آئی، فوج یا سول حکومت پر اسامہ بن لادن کیخلاف آپریشن کے الزامات عائد کرنے کی بڑھتی ہوئی بھرپور کوششیں فوج اور سویلین شعبے کے درمیان رسہ کشی پر چھائی ہوئی ہیں۔نتیجتاً ادلے کے بدلے کی صورت میں آئی ایس آئی حکام کی طرف سے اسلام آباد میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف کا نام افشا کیا گیا جو اسلام آباد میں جہاں کوئی مرکزی کنٹرول نظر نہیں آتا زمینی صورتحال خطرناک ہونے کا مظہر ہے۔ سول حکومت آرمی کی طرف سے بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کیلئے دباو کی تاب نہیں لا سکتی۔ اگر سول حکومت کو بزور ختم کردیا گیا تو پاکستان اسامہ بن لادن کی باقیات کا مسکن بن جائے گا اور القاعدہ طرزکی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو مزید تیزی سے پھیلاو کا پلیٹ فارم بن جائے گا۔ اسامہ بن لادن کے معاملے میں اعانت کی بنا پر آرمی اور انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹس پر سول حکومت کا برتری حاصل کرنے کا ایک منفرد موقع ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ جنرل کیانی کو سخت، فوری اور براہ راست پیغام دیاجائے جس میں ان سے اور جنرل پاشا سے کہا جائے کہ پاکستان کی تاریخ کے ایک اور 1971ءجیسے لمحے پر سول نظام کو ختم کرنے کی کوششوں کو بند کیاجائے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو واشنگٹن کی سیاسی و ملٹری حمایت کے نتیجے میں سول حکومت کی تنظیم نو ہوگی، جو اب سٹرٹیجک حوالے سے اعلیٰ سطح پر کمزور ہے (اگرچہ انہیں ملکی سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل ہے) یہ تبدیلی بڑی سطح کی ہوگی جس میں قومی سلامتی مشیر اور دیگر قومی سلامتی کے حکام کی جگہ ایسے لوگوں اور بااعتماد مشیروں کی تعیناتی شامل ہے جو سابق فوجی یا سول لوگ ہوں گے جو واشنگٹن کی نظر میں ان کے حمایتی ہوں گے ان میں سے ہر کسی امریکی امریکی، سیاسی اور انٹیلی طبقے کے ساتھ طویل اور تاریخ تعلقات ہوں گے۔ ان لوگوں کے نام یہ پیغام پہنچانے والی شخصیت کے ذریعے براہ راست ملاقات میں پہنچا دیئے جائیں گے۔ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو رام کرنے کیلئے اگرچہ آپ کے کیانی کے ساتھ براہ راست رابطے (کیونکہ اس وقت وہ صرف آپ ہی کی بات سنیں گے) کی صورت میں پس پردہ امریکی مداخلت ہوئی ہے تو نئی قومی سلامتی کی ٹیم سول حکومت کی مکمل حمایت کے ساتھ درج ذیل امور سرانجام دینے کو تیار ہے۔(1 صدر مملکت پاکستان کی طرف سے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر سینئر ارکان کی معاونت کرنے اور پناہ دینے کے الزامات کی آزادانہ انکوائری کا حکم دیں گے۔ وائٹ ہاوس پینل میں شامل کرنے کیلئے دو پارٹی نائن الیون کمیشن طرز پر آزاد / خود مختار تفتیش کاروں کا نام دے سکتا ہے۔(2 یہ انکوائری قابل احتساب اور آزاد ہوگی اور اس کے نتائج امریکی حکومت اور عوام کیلئے قابل قبول ہوں گے اور پاکستانی حکومت (سول، انٹیلی جنس اور فوج) کے زیراثر حلقے جو اسامہ کو پناہ دینے اور مدد دینے کے ذمہ دار ہوں گے، ان کی صحیح اور مفصل تفصیلات دے گی۔ یہ بات یقینی ہے کہ اسامہ بن لادن کمیشن متعلقہ حکومتی دفاتر اور ایجنسیوں میں موجود ایسے سرگرم افسران جو اسامہ بن لادن کی حمایت یا اعانت کے ذمہ دار ہوں گے ان کو فوری برطرف کرے گا۔(3 نئی نیشنل سکیورٹی ٹیم پاکستانی سرزمین پر باقی رہ جانے والی القاعدہ قیادت بشمول ایمن الظواہری، ملا عمر اور سراج حقانی یا القاعدہ سے منسلک گروپوں کی قیادت کو حوالے کرنے کی پالیسی پر عملدرآمد کرے گی یا امریکی ملٹری فورسز کو ان افراد کو پاکستانی سرزمین سے پکڑنا یا ہلاک کرنے کے آپریشن کا گرین سگنل دے گی۔ یہ کھلی اجازت سیاسی لحاظ سے خالی ازخطرہ نہیں ہے مگر یہ نئے گروپ کا ہماری سرزمین سے برے عناصر کے خاتمے کا عزم ظاہر کرتی ہے۔ اس عزم کو ہماری اعلیٰ سول قیادت کی حمایت حاصل ہے اور ضروری مدد کی بھی یقین کرائی جاتی ہے۔(4 ملٹری انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کو سب سے زیادہ خدشہ یا خوف یہ ہے کہ آپ کی سٹیلتھ ٹیکنالوجی کے باعث پاکستان کی فضائی حدود میں آزادانہ آنے جانے کی صلاحیت کے باعث پاکستان کے جوہری اثاثے اب اصل ہدف ہیں، نئی سکیورٹی ٹیم پاکستانی حکومت (ابتداءمیں سول بعد ازا ں طاقت کے تینوں مراکز کے ساتھ) کی مکمل حمایت کے ساتھ جوہری پروگرام کیلئے ایک قابل قبول فریم ورک تیار کرنے کیلئے تیار ہے۔ اس کوشش کی ابتداءسابقہ فوجی دور میں کی گئی تھی جس کے نتائج بھی قابل قبول تھے۔ ہم اس آئیڈیا پر کام شروع کرنے کیلئے تیار ہیں اور اس انداز میں کہ پاکستانی جوہری اثاثے مزید شفاف اور ٹھوس طریقہ کار میں آجائیں۔ (5 نئی قومی سکیورٹی ٹیم آئی ایس آئی کے سیکشن ”ایس“ کو ختم کردے گی، جس پر طالبان اور حقانی نیٹ ورک وغیرہ سے تعلقات کا الزام ہے۔ اس سے افغانستان کے ساتھ تعلقات ڈرامائی طور پر بہتر ہو جائیں گے۔(6 ہم نئی سکیورٹی ٹیم کی زیر رہنمائی ممبئی حملوں کے پاکستانی ذمہ داران کیخلاف کارروائی کیلئے بھارت کی حکومت سے تعاون کیلئے تیار ہیں، یہ ذمہ داران چاہے غیر سرکاری ہوں یا سرکاری ہوں، بشمول انٹیلی جنس ایجنسیوں کے۔ اس تعاون میں ان لوگوں کو جن کیخلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں کو بھارتی سکیورٹی فورسز کے حوالے کرنا بھی شامل ہے۔پاکستان کو انتہائی غیر معمول صورتحال کا سامنا ہے۔ ہم جو جمہوری نظام حکومت اور خطے میں بھارت اور افغانستان کے ساتھ بہتر ڈھانچہ جاتی تعلقات بنانے پر یقین رکھتے ہیں کو آپ کے اور ہمارے مفادات کیخلاف صف بند قوتوں کو ان کی حدود میں رکھنے کیلئے امریکی مدد کی ضرورت ہے۔ہم آپ کو یہ میمورنڈم آپ کی حمایت کے ساتھ صدر پاکستان کی طرف سے تشکیل دی جانے والی نئی سکیورٹی
ٹیم کے ارکان کے طور پر اجتماعی طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اے پی ایس