سائبر فضا لندن کانفرنس ۔چودھری احسن پر یمی



برطانوی سکریٹری خارجہ ولیم ہیگ نے گزشتہ دنوں کوئین الزبتھ دوئم سینٹر لندن میں منعقدہ سائبر فضا کانفرنس لندن میں انٹرنیٹ کی اہمیت کا اظہار یہ کہہ کر کیاکہ" لوگ اس کے بغیر کبھی نہیں مل پاتے یا اپنی آواز سامعین کی لامحدود تعداد تک نہیں پہنچا پاتے، نئے رابطے پیدا نہیں کر سکتے اور اپنے نظریات کو تحریک نہیں دے پاتے، مقامی مسائل کو حل نہیں کرپاتے یا حکومتوں اور تاریخ کا راستا تبدیل نہیں کرپاتے"انہوں نے سوشل میڈیا کی اہمیت کا ذکر کیا جس نے'' سیاستدانوں اور شہریوں کے درمیان فاصلوں کو ڈرامائی اور زبردست انداز میں مثبت درجے تک محدودکردیا ہے۔لہذا انٹرنیٹ حکومتوں کو عوام کے لئے مزید شفاف اورجوابدہ بننے میں مدد دے رہا ہے۔ اب انسانی حقوق کی پامالی ایک لمحے میں سامنے آجاتی ہے۔آپ صرف یہ دیکھ لیں کہ سابق یوگو سلاویہ میں مظالم کا انکشاف ہونے میں کتنا طویل عرصہ لگا جبکہ ایران میں ایک نوجوان طالبہ ندا سلطان پر شوٹنگ کا واقعہ یا لیبیا کے واقعات کتنی تیزی سے ہمارے سامنے آئے۔اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دیگر شعبہ ہائے حیات کی طرح خارجہ پالیسی میں بھی آج سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کتنی بڑی طاقت ہے"۔تاہم ولیم ہیگ نے یہ بھی حوالہ دیا کہ سائبرفضا کو کس طرح سیاسی مخالفین کو دبانے یاپابند کرنے اور ان کو سزائیں دینے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔" انٹرنیٹ پر آزادئی اظہار کو حقیقی خطرات لاحق ہیں۔ ایک اور بڑھتا ہوا مسئلہ یہ ہے کہ کئی ملک اس بات پر ہم سے اتفاق نہیں کرتے کہ انٹرنیٹ آزاد اور ہر ایک کی دسترس میں ہو اور اس کی بنیادنظریات اور معلومات کے آزادانہ تبادلے پر ہو۔ چند حکومتیں آن لائن سروس اور مواد بلاک کردیتی ہیں اوران پر پابندیاں عائد کردیتی ہیں یا اپنے انٹرنیٹ کے انفرااسٹرکچر میں نگرانی کے آلات شامل کردیتی ہیں تاکہ وہ فعال اور نقاد افراد کی شناخت کر سکیں۔ اس قسم کے اقدامات سے یا تو آزادئی اظہار کو براہ راست پابند کردیا جاتا ہے یا سیاسی مباحثے میں رکاوٹ ڈالنا مقصود ہوتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کی صحت اور حرکت کے لئے آزادی اظہار کے جوشیلے پن، مزاح اور مسابقت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔انہوں نے سائبر فضا کے مستقبل کے باب میں برطانیہ کے انداز فکر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ" جو رویہ 'حقیقی' دنیا میں ناقابل قبول ہے وہی سائبر فضا میں ناقابل قبول ہوگا۔اس میں انسانی حقوق پر قدغن بہ اصرار شامل ہوگی''۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاستوں کو ان حقوق کے معاملے میں صرف استثنائی حالات میں دخل دینا چاہئیے اور وہ بھی تب کہ یہ مناسب، موثر اور بین الاقوامی قانونی ذمے داریوں کے مطابق ہو۔ ہم نے تیونس، مصر اور لیبیا میں دیکھا کہ انٹرنیٹ منقطع کردینے، فیس بک بلاک کردینے، الجزیرہ کی نشریات جام کردینے، صحافیوں کو ہراساں کرنے اور بلاگرز کو جیلوں میں بند کردینے سے استحکام نہیں آتا نہ ہی شکایات دور ہوتی ہیں۔"انہوں نے زور دیا کہ برطانیہ ہمیشہ انٹرنیٹ پرآزادئی اظہارکا چیمپئن رہے گا جیساکہ وہ دوسرے معاملات میں ہے۔" یہ موضوع یہاں سائبر کانفرنس میں مباحثے کا مرکز ہے اور میں آپ کے خیالات سننے کا منتظر ہوں۔ ''یہ حکومتوں کے مابین کوئی روایتی کانفرنس نہیں، ہم نے یہاں صنعتوں اور کمپنیوں کے جو بین الاقوامی ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر کی مالک ہیں اور انہیں چلا رہی ہیں،اور شہری معاشرے اور بڑی عالمی تنظیموں کے نمائندوں کو یہاں جمع کیا ہے۔دنیا بھر میں ہم معلومات تک رسائی، تعلیم اور کاروبار کے نئے طریقوں کی بھرماردیکھ رہے ہیں۔ وہ خواہ یہاں برطانیہ میں انٹرنیٹ بنکنگ ہو، یا افریقہ میں موبائل بنکنگ ہو، لوگ ٹیکنالوجی کو مقامی حالات کے مطابق بنا رہے ہیں اور اسے ہر لحظہ بہتر بھی بناتے جارہے ہیں۔۔انٹرنیٹ معاشرے سے علیحدہ نہیں ہے، یہ معاشرے کا حصہ ہے اور اس کی عکاسی کرتا ہے۔آن لائن انسانی رویوں کے بہترین اور بدترین مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں۔اور ٹیکنالوجی خود کو عظیم فوائد کے ساتھ استحصال کے لئے بھی پیش کر رہی ہے۔خاص طورپر یہ آن لائن جرائم پر صادق آتا ہے، جو بے تحاشا بڑھ رہے ہیں۔دنیا بھر میں ایسے لوگ اور گروہ ہیں جو ہماری ذاتی معلومات کو کیش کررہے ہیں یا سیاسی چپقلش کے اظہار کے لئے نیٹ پرقیامت ڈھارہے ہیں۔اس کے علاوہ یہ بھی مزید واضح ہوتا جارہا ہے کہ کمزور سائبر دفاع والے ملک آگے چل کر خود کو غیر محفوظ پائیں گے، ریاست کے پروردہ حملوں کے آگے وہ شدیدتزویری نقصان کی زد میں ہونگے۔ انٹرنیٹ کوآزادہی رہنا چاہئیے اور مختلف علاقوں اورخطوں میں مختلف اصولوں کا پابندنہیں کیا جانا چاہئیے جو تجارت، معلومات کی ترسیل پرریاستوں کی نافذ کردہ رکاوٹوں یا الگ الگ پابندیوں کا نتیجہ ہوں۔ڈیجیٹل دنیا میں ان تجارتی رکاوٹوں کا دخل غیر مفید ہوگا، ہم یوں بھی کئی سال سے ان رکاوٹوں کے دنیا سے خاتمے کی کوششیں کر رہے ہیں۔آج کی سب کے لئے فری سائبر دنیا میں ہمیں قواعد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔برطانیہ نے ریاستوں، کاروباری اداروں اور تنظیموں کے مابین مزید موثر تعاون کی بنیاد تشکیل دینے کے لئے سات اصولوں کے ایک مجموعے کی تجویز پیش کی ہے۔ وہ یہ ہیں: سائبرفضا میں حکومتوں کے متناسب رویے کی ضرورت جو عالمی قوانین کے مطابق ہوں؛ ہر ایک شخص میں سائبر فضاتک دسترس کی اہلیت، جس میں مہارت، ٹیکنالوجی، اعتماد اور استعمال کے مواقع شامل ہیں سائبر فضا کے صارفین کو زبان، ثقافت اور نظریات کے باب میں تحمل اوراحترام کے مظاہرے کی ضرورت ۔ یہ یقین دہانی کہ سائبرفضااختراعات، نظریات، معلومات اور اظہار کے آزادانہ بہاو کے لئے کھلی رہے ۔ پرائیویسی کے انفرادی حقوق کا احترام اور دانشورانہ ملکیت کے تحفظ کی ضرورت ۔ آن لائن موجود مجرموں سے لاحق خطرات کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ۔ اور ایک مسابقتی ماحول کے فروغ کی ضرورت جس سےنیٹ ورکوں ، سروسز اور مواد میں سرمایہ کاری پر منصفانہ منافع کی ضمانت ہو۔ ہم نے یہ اصول ان کوششوں کے نقطہ آغاز کے طور پر پیش کئے ہیں جو سائبر فضا میں رویوں کے بارے میں ایک وسیع ترمعاہدے پرپہنچنے کے لئے کی جارہی ہیں۔ہم سب کواپنی معیشتوں میں انٹرنیٹ کو نمو اوراختراعات کے محرک کی حیثیت میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مصارف کم ہوں اورملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں۔ہم جس ملک سے بھی تعلق رکھتے ہوں ہمارا مفاد اس میں ہے کہ ہمارے بچے آن لائن غیر محفوظ نہ ہوں دہشت گردوں کو ویب پر محفوظ مقام نہ مل سکے اور ہمارے مالیاتی نظام کا تحفظ رہے''۔
60ملکوں کے 700سے زیادہ نمائندوں نے کانفرنس میں حصہ لیا، جن میں وزرا، صنعتوں کے رہنما، انٹرنیٹ ٹیکنیکل کمیونٹی، شہری معاشرے اور ہمارے یوتھ فرم کے نمائندے شامل تھے۔ میں آپ سب کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے اس میں حصہ لیا۔ ہم نے دنیا بھر کے شہریوں کے خیالات بھی سنے۔ ہمارے پینل شرکا نے انٹرنیٹ کے ذریعے عوام سے براہ راست سوالات لئے، کانفرنس چین، پاکستان، بھارت اور مشرق وسطی میں سوشل میڈیا پر لائیو پیش ہوئی اور اس پر بحث بھی ہوتی رہی۔ہم نے پانچ موضوعات پرتوجہ دی جن میں اقتصادی نمو اورترقی، سائبرفضا کے سماجی فوائد ، محفوظ اور بااعتمادرسائی، عالمی تحفظ اور سائبر جرائم شامل تھے۔اقتصادی نمواورترقی ، تمام شرکا نے اتفاق کیا کہ انٹرنیٹ اقتصادی ترقی کا ایک اہم انجن ہے خاص طور پر ترقی پزیر دنیا میں، یہ تعلیم، طبی دیکھ بھال تک رسائی کو بہتر بنانے، غربت میں کمی اور ملینئیم ترقیاتی اہداف کی پیش رفت میں مددگار ہے۔ نمو میں سائبرفضاکے وسیع ترین اور عمیق ترین ممکنہ فوائد کے حصول کے لئے میں ترقی پزیر ملکوں میں براڈبینڈ کمیونی کیشن تک رسائی میں اضافہ کرنا ہوگا اور ہائی اسپیڈ نیٹ ورک اور سروسز پر عالمی سرمایہ کاری اور مسابقت کا فروغ جاری رکھنا ہوگا۔ محفوظ اوربااعتمادرسائی ، تاکہ وہ کاروبار کرنے کا قابل اعتمادذریعہ بن سکے اور اختراع کارحضرات کو یہ اعتماد ہو کہ ان کی دریافتوں کو مناسب تحفظ مل سکے گا۔ کئی مقررین نے مطالبہ کیا کہ سائبرفضا کو سرکاری اور تجارتی سنسر شپ سے آزاد رکھا جائے، وہ عالمی قانونی ذمے داریوں سے مطابقت رکھتی ہو تاکہ معلومات کا آزادانہ حصول احتساب اور قومی حکومت سازی کے اعلی ترین معیار کے لئے پر کشش ہو۔سماجی فوائداور محفوظ و بااعتمادرسائی، تمام شرکا نے انٹرنیٹ کے زبردست مثبت اور انقلاب انگیزفوائد کی تصدیق کی۔ کئی شرکا نے ا زادی اظہار اور اجتماع میں انٹرنیٹ کے کرداراور انسانی حقوق کی پامالی کے فوری افشا کی اہلیت کو سراہا۔انٹرنیٹ شہریوں کو بااختیاربنانے اور حکومتوں کو جوابدہ بنانے کاایک طاقتورذریعہ ہے۔ کانفرنس نے اتفاق کیا کہ
سائبر تحفظ کو بہتر بنانے کے لئے انسانی حقوق کی قربانی نہیں دی جاسکتی۔سائبرفضامیں متنوع زبانوں، ثقافت اور نظریات کے باب میں صارفین کوتحمل اوراحترام کے اصولکی پابندی کے لئے زبردست تعاون کا اظہار کیا گیا لیکن کہا گیا کہ اس اصول کے تحفظ کا یہ مطلب نہیں کہ اسے آزادی اظہار اور اجتماع کے حق کو دبانے کے لئے آڑ بنایا جائے۔بین الاقوامی سلامتی ، تمام شرکا نے اس اصول سے اتفاق کیاکہ حکومتیں بھی سائبر فضا میں متناسب رویے کامظاہرہ کریں اور ریاستوں کو موجودہ عالمی قانون اور ان روایتی اصولوں کی پابندی جاری رکھنی چاہئیے جو بین الریاستی تعلقات، قوت کے استعمال اور مسلح تنازعات کے لئے مروج ہیں۔، ریاستیں اپنے بین الاقومی تنازع پر امن ذرائع سے اس انداز میں حل کریں کہ عالمی امن، سلامتی اور انصاف کو نقصان نہ پہنچے۔ سائبر جرائم ، کانفرنس نے سائبر جرائم کو اقتصادی اورسماجی صحت کے لئے خطرہ قرار دیااور ایسا خطرہ جس سے نمٹنے کے لئے اجتماعی اورفوری عالمی کوشش کی ضرورت ہے۔ تمام شرکا نے اس اصول کی زبردست حمایت کی کہ ہمیں سائبر جرائم سے لاحق خطرے کا مل جل کر مقابلہ کرنا چاہیے اور یقین دہانی کرنی چاہئیے کہ سائبر مجرموں کے لئے پناہ گاہ نہ رہے۔ اس رہنما اصول کے لئے بھی مستحکم حمایت کا اظہار کیا گیا کہ آف لائن جو ناقابل قبول ہے وہی آن لائن بھی ناقابل قبول ہے۔ جیسا کہ ہم نے یوتھ سیشنز میں نشاندہی کی تھی ، نوجوانوں کے لئے آن لائن اور آف لائن دنیا ایک ہی ہے۔کئی ملک اور علاقائی ادارے پہلے ہی سائبر جرائم کے قوانین پر عملدرآمد کے لئے مثبت اقدامات کر رہے ہیں، لیکن یہ تسلیم کیا گیا کہ ان قوانین کا بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ قوانین کے علاوہ، ملکوں کی حوصلہ فزائی بھی کی گئی کہ وہ فورنسک ذرائع، طریقہ کار اور بوقت ضرورت تعاون کے لئے آمادگی کو یقینی بنائیں۔کئی شرکا نے ملکوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ یہ دیکھیں کہ کیا وہ بوڈا پسٹ کنونشن کواس شعبے میں بہترین معاہدہ گردان کے اس پردستخط کر سکتے ہیں۔شرکا نے سائبرفضا کے لئے بہتر انٹرنیٹ سیکورٹی مصنوعات، نظام، سروسز اور معیار کی ترقی کے لئے اور صارفین کو نقل و حرکت کے لئے مارکیٹ میں آسانی پیدا کرنے کے لئے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی۔اے پی ایس