نیٹو افواج کا گھناونا اقدام ۔چودھری احسن پر یمی



وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ نیٹو کی فراہمی معطل کر کے اسے مستقل طور پر روک دیا گیا ہے. گزشتہ دنوں وزارت داخلہ کی قومی بحران مینجمنٹ سیل پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے پاکستانی فورسز پر نیٹو حملے کی مذمت کی اور کہا کہ نیٹو فورس کو پاکستانی قوم کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے ۔ مہمند ایجنسی میں سلالہ چوکی پر نیٹو کی جارحیت کے نتیجے میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کے 24 حکام کی شہادت ہوئی ہے. انہوں نے کہا کہ نیٹو فورسزکا پاکستان کے اندر حملے کو دفاعی کابینہ کمیٹی (DCC) کے فیصلے کی روح کے ساتھ عمل کیا جائے گا. "DCC کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں اور انہیں لاگو کیا جائے گا۔ نیٹو کے کنٹینرز جو روکے گئے ہیںان کو پاک افغان سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں ہوگی. وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ پاکستان کی جمہوری حکومت کسی سے ڈکٹیشن نہیں لے گی۔جبکہ دفاعی تجزیہ کاروں نے نیٹو افواج کے حملے کو ’گھناونا اقدام‘ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مہمند ایجنسی پر پاکستان کی فوج کا مکمل کنٹرول ہے، لہذا یہاں ایسے حملے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا‘۔نہ طالبان اِس علاقے میں موجود تھے اور نہ ہی یہاں کسی طرح کی دہشتگردی ہو رہی تھی‘۔لہٰذااِس ضمن میں یہ استدلال قابلِ قبول نہیں ہو گا کہ طالبان کے ہدف کو نشانہ بنانے میں کسی طرح کی کوئی غلطی ہو گئی۔ 2 مئی کے واقعے کے بعد پاکستان کی فوج کے لیے’یہ ایک انتہائی ناخوشگوار پیش رفت ہے‘۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کی جمہوری قیادت ایک واضح سمت کا تعین کرے کہ اِس طرح کے واقعات پر فوج کس طرح کی کارروائی کی مجاز ہے۔ اِس طرح کے حملے بظاہرنیٹو کی انٹیلی جنس کی بہت بڑی ناکامی ہے اور یہ کہ تحقیقات کے بعد ہی اِس بات کا تعین کیا جا سکے گا آیا پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اگرچہ پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت نے اس واقعے کا سخت نوٹس لے لیا ہے اور عوام الناس بھی اس واقعے پرسڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ پاکستان اپنے اتحادی ملک کا دوست سمجھ کر احترام کرتا ہے، جس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کمزور ہے۔پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اِس بارے میں کسی کوکسی مغالطے میں نہیں رہنا چاہیئے۔دوسری جانب، افغانستان میں انٹرنیشل سکیورٹی اسسٹنس فورس کے ترجمان لفٹیننٹ جنرل گریگ کیلی نے اِس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور پاکستانی فوج کے شہید اور زخمی ہونے والے سپاہیوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ واقعے کی اعلی سطحی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نیٹو کی قیادت پاکستان کے ساتھ سکیورٹی معاملات پر تعاون میں بہتری لانے کا عزم رکھتی ہے۔ جبکہ تجزیہ کاروں کے مطابق اس واقعے کے سیاسی اثرات کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی عسکری اور سول قیادت اپنے ردعمل میں یک زبان ہے۔پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقےمہمند ایجنسی میں پاکستان کی دو سرحدی چوکیوں پر نیٹو فوج کے حملے میں پچیس پاکستانی فوجیوں کی شہادت اور اسکے خلاف پاکستان کے ردعمل کے متعلق خبریں امریکی میڈیا کے اہم اخبارات میں صفحہ اوّل پر نمایاں اور تفصیلی طور پر شائع ہوئیں ۔امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ لکھتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے دہائیوں سے قائم لیکن پہلے سے ہی نہایت کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں اگر یہ نیٹو فوج کی طرف سے ’فرینڈلی فائر‘ تھا تو یہ سب سے زیادہ ’مہلک ترین فرینڈلی‘ فائر ہے۔اخبار آگے لکھتا ہے کہ پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد امریکہ کی جانب سے افغانستان میں عسکریت پسندوں سے مذاکرات میں مطلوب پاکستانی کی حمایت کے امکانات اور معدوم ہوگئے ہیں۔نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ حملے کے ردعمل میں پاکستان کی جانب سے افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے جانے والی رسد کو طورخم سرحد سے بند کیے جانے کے بعد امریکی فوجیوں کے لیے بے حد مشکل پیدا ہوجائے گی۔اخبار نے لکھا ہے کہ اگرچہ امریکہ اور نیٹو فوجیوں کو افغانستان میں رسد پہنچانے کا متبادل راستہ وسطی ایشیا سے ہے لیکن وہ اتنا موثر نہیں اور انتہائی مہنگا اور دشوار راستہ ہے۔طور خم اور چمن کی سرحدی چیک پوسٹوں پر مقرر کسٹم حکام کے حوالے سے اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ کہ انہیں دونوں اطراف سے نیٹو کے لیے آنے جانے والی رسد کے ٹرکوں کو روکنے کے احکامات موصول ہوچکے ہیں۔ادھر اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے صفحہ اول پر ایک امریکی سینئیر اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر باراک اوبامہ کو تمام صورتحال سے آگاہ رکھا جا رہا ہے اور امریکہ واقعے کی سنگینی کا قریب سے جائزہ لے رہا ہے۔اخبار کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ اس واقع کو نظر انداز کرے اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔اخبار کے مطابق امریکی انتظامیہ کے نزدیک نیٹو کی حملے میں چوبیس پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے واقعے کی وجوہات ابھی واضح نہیں ہے۔ جبکہ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کی سرحدی فوجی چوکیوں پر بین الاقوامی اتحادی فوجوں کے فضائی حملے کی جامع تحقیقات کا عزم کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور وزیر دفاع لیئون پنیٹا نے ایک مشترکہ بیان میں واقعے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ نیٹو کی طرف سے اس واقعے کی تفصیل سے جانچ کرنے کے اعلان کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن، امریکی مسلح افواج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسے اور افغانستان میں نیٹو کی اتحادی فوجوں کے کمانڈر جنرل جان ایلن تینوں نے اس سلسلے میں اپنے پاکستانی ہم منصبوں سے ٹیلی فون پر بات بھی کی ہے اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ انہوں نے حملے کے اسباب کا جائزہ لینے کے وعدے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور امریکہ کی شراکت داری کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ ان تمام رہنماوں نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ اس کڑے وقت میں مشترکہ پیش رفت کے دوران اپنے پاکستانی ہم منصبوں سے قریبی رابطے میں رہیں گے۔اس سے پہلے امریکی سفیر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انہیں پاکستانی اہلکاروں کی ہلاکت پر افسوس ہے اور وہ وعدہ کرتے ہیں کہ امریکہ اس واقعے کی تحقیقات کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ادھر افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل جان ایلن نے بھی اس واقعے کی مکمل تحقیقات کا وعدہ کرتے ہوئے فوجیوں کی ہلاکت پر تعزیت کی ہے۔نیٹو کے سربراہ آندرے راسموسن نے پاکستان کی سرحدی چوکی پر نیٹو کے حملے میں چوبیس پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک ’غیر ارادی فعل‘ قرار دیا ہے۔آندرے راسموسن نے پاکستان کے وزیر اعظم کو ایک خط تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت ہے’ ناقابل قبول اور افسوسناک ‘ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس واقع کی نیٹو کی طرف سے تحقیقات کی وہ بھرپور تائید کرتے ہیں۔ جبکہ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں افغان سرحد کے نزدیک قائم سکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر نیٹو طیاروں کے مہلک حملے پر پاکستان کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور حکومت نے بین الاقوامی برادری، خصوصاً امریکہ، پر واضح کیا کہ اس واقعہ میں فوجی اہلکاروں کی ہلاکت پر ملک بھر میں لوگ شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اپنی امریکی ہم منصب ہلری کلنٹن سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے ان پر واضح کیا کہ اس قسم کے حملے پاکستان کے لیے ہر صورت ”ناقابل قبول“ ہیں۔پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سرحد پار سے کیے جانے والے اس نوعیت کے حملے نا صرف بین الاقوامی قوانین اور انسانی جان بلکہ ملک کی خودمختاری کی بھی خلاف ورزی ہیں۔حنا ربانی کھر کے بقول مہمند ایجنسی میں ہونے والا حملہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کے سلسلے میں کی گئی پیش رفت کی نفی کرتا ہے اور اس کارروائی نے پاکستان کو دوطرفہ روابط کی شرائط کا از سر نو جائزہ لینے پر مجبور کر دیا ہے۔انھوں نے امریکی ہم منصب کو کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے بھی آگاہ کیا جن میں افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کے لیے پاکستان کے راستے رسد کی ترسیل فی الفور بند کرنے اور صوبہ بلوچستان میں قائم شمسی ایئربیس کو 15 روز میں امریکہ سے خالی کروانے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ ہلری کلنٹن نے اس واقعے میں پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت اس معاملے کا حل تلاش کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہاں ہے۔مزید برآں اسلام آباد نے اس واقعہ پر افغانستان کی حکومت سے بھی احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیٹو کی جانب سے افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال اتحادی افواج کو کارروائیوں کے لیے دیے گئے مینڈیٹ کی بھی خلاف ورزی ہے۔پاکستانی دفتر خارجہ نے یہ بھی کہا ہے کہ افغان حکومت کو وہ تمام ضروری اقدامات کرنے چاہیئں جن کی بدولت مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اپنے برطانوی ہم منصب ولیم ہیگ سے بھی رابطہ کر کے ا ±نھیں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے فیصلوں سے آگاہ کیا ہے۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں پاکستان کے نیٹو اور امریکہ کے ساتھ سفارتی سیاسی ، فوجی اور خفیہ معلومات کے تبادلے سے متعلق تمام منصوبوں، سرگرمیوں اور تعاون کے معاہدوں کا مکمل طور پر ازسر نو جائزہ لینے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔مزید برآں وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ افغانستان کے بارے میں آئندہ ماہ جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی اہم بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کا معاملہ زیر غور ہے اور اس حوالے سے تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔اس سے قبل مقامی ذرائع ابلاغ نے خبر دی تھی کہ مہمند ایجنسی میں نیٹو حملے کے خلاف پاکستان نے احتجاجاً اس بین الاقوامی اجلاس میں شرکت نا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔مہمند ایجنسی کے دور افتادہ علاقے سلالہ میں قائم سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے فضائی حملے میں شہید ہونے والے پاکستانی فوجیوں کی نماز جنازہ پشاور میں ادا کی گئی جس میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں کے علاوہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے گورنر مسعود کوثر اور وزیر اعلی امیر حیدر خان ہوتی نے بھی شرکت کی ۔نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد میجر اور کیپٹن رینک کے دوافسران سمیت ان 24 اہلکاروں کی میتیں تدفین کے لیے ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کر دی گئیں۔حکام نے بتایا ہے کہ فوج کے سربراہ نے پشاور کے کمبائنڈ ملٹری اسپتال میں زیر علاج ان ایک درجن سے زائد اہلکاروں کی عیادت بھی کی جو اس کارروائی میں زخمی ہو گئے تھے۔دفاعی مبصرین کا کہنا ہے کہ ہلاک اہلکاروں کے جنازے میں جنرل کیانی کی شرکت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ فوج اس واقعے کو انتہائی اہمیت دے رہی ہے۔ جنرل کیانی نے نیٹو حملے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اس میں ہونے والے جانی نقصانات کی شدید مذمت کی تھی۔انھوں نے پاکستانی فوجیوں کی طرف سے اپنے دفاع میں کی جانے والی موثر کارروائی کو بھی سراہا تھا جب کہ نیٹو سے اس حملے میں ملوث افراد کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔افغانستان میں غیر ملکی افواج کی طرف سے پاکستانی سرزمین پر سکیورٹی فورسز پر حملوں کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اور گزشتہ سال ستمبر میں بھی نیٹو کی ایسی ہی ایک کارروائی میں 2 پاکستانی سیکورٹی اہلکار شہید ہو گئے تھے جس پر پاکستان کے شدید احتجاج کے بعد امریکہ اور اتحادی افواج کی جانب سے معذرت بھی گئی تھی۔جبکہ پاکستان نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ پندرہ دن کے اندر بلوچستان کے ضلع واشک میں واقع شمسی ائیربیس کو خالی کردے۔یہ ائیر بیس سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں امریکہ کے حوالے کیاگیا تھا۔ امریکہ نے افغانستان میں طالبان پر حملوں کا آغاز شمسی ائیربیس سے کیا تھا۔ شمسی ائیربیس صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سے تین سو بیس کلومیٹردور، جنوب مغربی ضلع واشک میں واقع ہے۔ یہ ائیرپورٹ تقریبا تیس سال قبل سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک کے حکمرانوں نے تعمیر کروایا تھا اور ہر سال گرمیوں کے مو سم میں عرب شیوخ تلور کا شکار کرنے یہاں آیا کرتے تھے۔ لیکن سال دو ہزار ایک میں افغانستان میں طالبان حکومت کو گرانے اور القاعدہ کے خلاف آپریشن شروع کرنے کے لیے پہلی بار امریکی فوج نے شمسی ائیربیس کا استعمال شروع کیا۔ جبکہ سال دو ہزار دو میں شمسی ائیربیس کے قریب ایک امریکی فوجی طیارہ فنی خرابی کے باعث گرکرتباہ ہوا۔ اس طیارے میں سوار عملے کے تمام اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ سال دوہزار ایک سے سال دوہزار چھ تک امریکی اور نیٹو افواج نے شمسی ائیربیس کو باقاعدگی سے افغانی طالبان اور القاعدہ کے خلاف استعمال کیا۔امریکہ نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پاکستانی طالبان کے خلاف ڈرون حملوں کے لیے بھی شمسی ائیربیس کا استعمال کیا۔اس بات کا انکشاف فروری سال دوہزار نو میں لندن ٹائم میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے ہوا جس میں ایک تصویر میں تین ڈرون طیاروں کو شمسی ائیربیس کے رن وے پرکھڑے ہوئے دکھایا گیا۔سال دوہزار ایک میں جب اس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے افغانستان میں طالبان کے خلاف شمسی ائیربیس اور جیکب آباد ائیربیس امریکہ کے حوالے کیا تھا تومختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے بلوچستان اور سندھ میں شدید احتجاج بھی ہوا۔ حتی کہ ضلع خاران میں ہونے والی ایک تقریب پر لوگوں کی جانب سے پھتراو بھی کیاگیا جس کے مہمان خصوصی اس وقت کے کورکمانڈر بلوچستان جنرل عبدالقادر قادر بلوچ تھے۔موجودہ حکومت نے ہمیشہ ڈرو ن حملوں کے لیے شمسی ائیربیس کے استعمال کی مخالفت کی ہے ۔اس سال اپریل میں پاکستان اور امریکہ نے مشترکہ طور پر اعلان کیا تھا کہ شمسی ائیربیس سے ڈرون پروازوں کو بند کردیاگیا ہے۔جبکہ اگلے ماہ یعنی تیرہ مئی کو پارلیمنٹ کے بند اجلاس میں عسکری قیادت نے انکشا ف کیا کہ شمسی ائیربیس اس وقت پاکستان کے نہیں بلکہ عرب امارات کے کنٹرول میں ہے۔یہاں دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ جب سال دوہزار ایک میں پاکستان نے شمسی ائیربیس کو امریکہ کے حوالے کیا تھا تواس وقت حکومت نے ائیربیس کے قریب مقامی آبادی کو وہاں سے دوسرے مقامات پر منتقل کیا اور وہاں کسی کو جانے کی بھی اجازت نہیں دی جس پر مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں نے کئی بار شدید احتجاج بھی کیا ہے۔اے پی ایس