اہم ایشو دب کر رہ جانے کا خدشہ۔چودھری احسن پر یمی




اس وقت ملک کو درپیش کئی ایک چیلنجز ہیں لیکن لمحہ فکریہ ہے کہ اس ملک کے عوام کو سب سے زیادہ مہنگائی ،بےروزگاری اور نا انصافی کا سامنا چلا آرہا ہے لیکن کسی نے آج تک اس پر کبھی احتجاج،دھرنا اور نہ ہی کسی میڈیا چینل نے مہم چلائی ہے۔اگرچہ حالیہ نیٹو فورسز کے گھناونے اقدام سے قومی اسلامتی کے حوالے سے سنگین چیلنج کا سامنا ہے لیکن اس سے قبل جتنے بھی بحران آئے ہیں ان کے بارے میں مبصرین کا یہی کہنا ہے کہ ملک و قوم کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے مصنوعی ایشو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ عوام کو مصروف رکھا جائے۔بہرحال یہ امرخوش آئند ہے کہ پاکستان میں بعض سرکاری اداروں میں بدعنوانی کے رجحان میں کمی آئی ہے اور بدعنوان ترین ممالک کی نئی فہرست میں ملک کا نمبر 42 دکھایا گیا جو 2010ء کے مقابلے میں آٹھ درجے بہتری کو ظاہر کرتا ہے۔پاکستان میں بدعنوانی کے مسئلے کا اعتراف ایک اچھی علامت ہے، اب سرکاری اداروں کو عوام کے سامنے جوابدہ بنانے کے لیے مزید موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پارلیمان کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کی اچھی کارکردگی کی بدولت 2008ءسے 2011ءکے دوران بدعنوانی کی نظر ہونے والے 115 ارب روپے کی قومی خزانے میں واپسی ممکن ہوئی۔مزید برآں 2009ءمیں قومی عدالتی پالیسی کے تحت عدلیہ میں بدعنوانی کو بالکل ناقابل برداشت قرار دینے، وزارت دفاع کی طرف سے فوجی محکموں میں خریداری کے قوائد و ضوابط کا نفاذ اور وفاقی محتسب کے دفتر کو شفاف ترین قراد دیا جانا بھی شامل ہے۔ ان تمام تر کوششوں کے باوجود کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبے اور حج انتظامات میں کرپشن کے اسکینڈلز کے باعث ملک میں بدعنوانی میں کمی جیسی مثبت پیش رفت دب کر رہ گئی ہے۔جبکہ سرکاری محکموں میں بدعنوانی کے بارے میں سپریم کورٹ میں چلائے جانے والے مقدمات میں عدالت نے کارروائی کرتے ہوئے اربوں روپے وصول کروائے ہیں۔جبکہ صدر آصف علی زرداری نے کہاہے کہ وہ ہرقسم کے حالات کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں اور آئندہ بھی ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے کچھ رہنماوں نے اسلام آباد میں صدرمملکت اور پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری سے ملاقات کی ، ان سے ملاقات میں صدر آصف زرداری کا یہی کہناتھاکہ وہ شہید ذوالفقار بھٹو کے روحانی فرزند ہیں اور بینظیر بھٹو کو بھی ان پر مکمل اعتماد تھا، صدر زرداری کا کہناتھاکہ قوم بینظیر بھٹو کے اعتماد پر اعتبار کرے۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بابر اعوان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں متنازع میمو کی سماعت حکومت کے خلاف سازش ہے اور میاں نواز شریف ملک کے منتخب صدر آصف علی زرداری پر غداری کا مقدمہ بنوانا چاہتے ہیں۔جبکہ سپریم کورٹ نے متنازع میمو مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ایک ریٹائرڈ پولیس کو شواہد اکھٹے کرنے کا کام سونپا تھا اور حسین حقانی کے بیرونی ملک سفر پر پابندی کا حکم دیا تھا۔ اس مقدمے کی ابتدائی سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے خود دلائل دیئے تھے۔ پی آئی ڈی میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر خورشید شاہ، فردوس عاشق اعوان اور بابر اعوان نے کہا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ پیپلز پارٹی کو کبھی انصاف نہیں ملا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے وفاق پاکستان کے نمائندے کو سنے بغیر فیصلہ دیا ہے اور ایسے شخص کو شواہد اکٹھے کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے، جن کے ایک بھائی پنجاب کے چیف سیکرٹری ہیں اور دوسرے سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج ہیں اور جن کے سسر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیے جانے کا حکم جاری کرنے والے بینچ کا حصہ تھے۔بابر اعوان نے کہا کہ پارلیمان کی قومی سلامتی کے بارے میں سترہ رکنی نمائندہ کمیٹی میمو معاملے کی جانچ کر رہی ہے اور وزیراعظم اس میں پیش ہوکر بریفنگ دیں گے۔انہوں نے یہ تاثر دیا کہ پارلیمان کی بالادستی متاثر ہو رہی ہے اور جب تک وہ حکومت میں ہیں پارلیمان یا حکومت کا اختیار ‘سرینڈر’ نہیں کریں گے۔بابر اعوان نے کہا کہ میاں نواز شریف بنگال جیسا کھیل کھیل رہے ہیں اور اگر تلہ سازش کیس کی طرح پاکستان میں منتخب صدر پر بغاوت کا مقدمہ بنوانا چاہتے ہیں۔اس سے قبل سپریم کورٹ میں امریکی افواج کی اعلیٰ کمان کو لکھے گئے متنازعہ خط سے متعلق دائر کی جانے والی درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت کا کہنا ہے کہ اس خط کا متن ملکی سالمیت کے منافی ہے۔عدالت نے اپنے حکم نامے میں صدر آصف علی زرداری سمیت اس درخواست میں بنائے جانے والے فریقین کو پندرہ روز میں جواب داخل کروانے اورایک تحقیقاتی کمیشن بنانے کا حکم دیا ہے جو تین ہفتے میں اس میمو سے متعلق شواہد اکٹھے کرے گا۔عدالت نے سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق محمود کھوسہ کو اس خط سے متعلق شواہد اکھٹے کرنے کا کام سونپا ہے۔عدالت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی تحقیقاتی کمیشن سے مکمل تعاون کریں۔ عدالت نے ان کا نام ان درخواستوں پر فیصلہ ہونے تک ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالنے کا حکم بھی دیا اور مزید کہا کہ اگر حسین حقانی ملک سے باہر جاتے ہیں تو اس کے ذمہ دار سیکرٹری خارجہ اور داخلہ ہوں گے۔پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں نواز شریف کی طرف سے دائر کی جانے والی اس درخواست میں وفاق سمیت صدر آصف علی زرداری، بری فوج کے سربراہ، ڈی جی آئی ایس آئی، امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیرحسین حقانی اور اعجاز منصور کو فریق بنایا گیا ہے۔گزشتہ جمعرات کو ان درخواستوں کی ابتدائی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی طرف سے امریکی کی اعلیٰ فوجی قیادت کو لکھے گئے متنازعہ خط کا مستند ہونا سب سے اہم معاملہ ہے جبکہ اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس خط کا معاملہ پارلیمان کی دفاعی کمیٹی کو بھجوا دیا گیا ہے اور وہ جو بھی فیصلہ کرے گی ا س سے عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ معاملہ فوج سے متعلق ہے اس لیے آرمی ایکٹ کے تحت بھی اس کی تحقیقات کی جا سکتی ہیں۔اس سے قبل میاں نواز شریف نے اپنی درخواست کے حق میں خود ابتدائی دلائل دیے۔ ا ±نہوں نے کہا کہ ا ±ن کے وکیل فخرالدین جی ابراہیم کی طبیعت ناساز ہے اس لیے وہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکے اس لیے وہ دلائل دیں گے۔سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ ایک جمہوری آدمی ہیں اور چونکہ پارلیمنٹ میں پاس کی گئی متفقہ قراردادوں پر بھی ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا اس لیے وہ اس اہم معاملے کی چھان بین کروانے کے لیے سپریم کورٹ آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عدالتی احکامات کے بعد ہی اس متنازعہ میمو سے متعلق حقائق اور ثبوت سامنے لائے جاسکتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے نواز شریف سے استفسار کیا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ میمو کا معاملہ قومی سلامتی کے منافی ہے۔سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ملک کی فوج کے خلاف دوسرے ملک کی فوج سے مدد طلب کرنا نہ صرف قومی سلامتی کے منافی ہے بلکہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا امریکی افواج کے سابق سربراہ مائیک مولن نے پہلے تو اس خط کی تردید کی بعدازاں انہوں نے اس کی تصدیق کی تھی۔میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ایک سفیر محض اپنی مرضی سے اتنا بڑا قدم نہیں ا ±ٹھا سکتا اس لیے ضروری ہے کہ اس درخواست میں بنائے گئے فریقین کو عدالت میں طلب کیا جائے۔بینچ میں شامل جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اس واقعہ کی تحقیقات کر رہی ہے جس پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ اقدام عدالت پر اثرانداز ہونے کی مصنوعی کوشش ہے۔ ادھر سابق سفیر حسین حقانی نے ان کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی عائد کیے جانے پر کہا ہے کہ وہ پاکستان اس لیے نہیں آئے کہ خود پر لگنے والے الزام کی تفتیش کے بغیر وطن سے چلے جائیں۔خیال رہے کہ وزیراعظم پاکستان نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی سے یہ الزامات سامنے آنے کے بعد استعفٰی لے لیا تھا کہ انہوں نے اس سال مئی میں پاکستان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے ایک ہفتے بعد اس وقت کے امریکی افواج کے سربراہ جنرل مائیک مولن کو پاکستانی نژاد امریکی کاروباری شخصیت منصور اعجاز کے ہاتھوں ایک خط بھجوایا تھا جس میں پاکستانی حکومت کا تختہ الٹنے کے کسی ممکنہ فوجی اقدام کے خلاف امریکہ سے مدد طلب کی گئی تھی۔اے پی ایس