حل طلب سنگین مسائل اور بون کا نفرنس۔چودھری احسن پر یمی




پاکستان کے ”مسائل اور نقطہ نظر کو صحیح معنوں میں خاطر میں“ نہیں لایا جانا تھا اس لئے بون کانفرنس سمیت افغانستان میں امن کے لیے کی جانے والی کوششوں میں شامل رہنا اس کے لیے مشکل تھا۔ بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ مہمند ایجنسی میں فوجی چوکیوں پر نیٹو کے حملے کے بعد پیدا ہونے والے حالات اس طرح کے اقدامات کا تقاضا کر رہے تھے۔ اگرچہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں یقیناً امن ہو لیکن جو حالات 26 نومبر کے واقعے کے بعد پیدا ہوئے ہیں اس میں پاکستان کی شمولیت کسی طور بھی مناسب نہ تھی اس لیے پاکستان نے شرکت نہیں کی۔ پاکستان کی خودمختاری کی براہ راست خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اگر یہی صورت برقرار رہے گی تو پاکستان کے لیے یقیناً اس صورتحال میں کسی طریقے سے (افغانستان میں امن کے عمل کو) آسان بنانا یا اپنے وعدوں کو پورا کرنا بڑا مشکل ہوگا۔“جبکہ پاکستانی ترجمان عبدلباسط نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ محض بون کانفرنس میں ان کے ملک کی عدم شرکت کے فیصلے سے افغانستان میں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔”ان کے نزدیک پاکستان اور دنیا کے تمام ممالک، خصوصاً جو بڑی طاقتیں ہیں، اس چیز کا پورا ادراک رکھتے ہیں کہ افغانستان میں امن کس قدر ضروری ہے، نہ صرف اس خطے میں امن کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے۔ اس لیے پاکستان کی کوشش تو ہمیشہ یہی رہی ہے اور رہے گی کہ کسی طور افغانستان میں مصالحتی عمل کو تیز کیا جائے۔جبکہ بین الاقوامی بون کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر حامد کرزئی نے متنبہ کیا ہے کہ افغانستان کی حدود سے باہر عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں سمیت دہشت گردی کے خطرات سے متعلق علاقائی عوامل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔افغان صدر نے کانفرنس کے شرکا کو بتایا کہ ا ±ن کے ملک اور خطے کی سلامتی کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ”ایک مستحکم، خود انحصار اور جمہوری افغانستان کے مشترکہ ہدف کا حصول ابھی بہت دور ہے۔ درحقیقت باقی ماندہ حل طلب مسائل اس قدر سنگین ہیں کہ وہ اب تک کی جانے والی پیش رفت کو پٹڑی سے اتار کر کامیابیوں کا رخ موڑ سکتے ہیں۔“حامد کرزئی کے بقول کامیابیوں اور پیش رفت کو اٹل بنانے کے لیے افغانستان کو کم از کم آئندہ ایک دہائی تک بین الاقوامی برادری کی بھرپور حمایت درکار ہو گی۔جبکہ امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں افغانستان کو یقین دلایا ہے کہ وہ 2014ء میں غیر ملکی لڑاکا افواج کے انخلا کے بعد بھی امریکہ کی حمایت پر تکیہ کر سکتا ہے۔ ”امریکہ ایک طویل عرصے تک افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کے لیے تیار ہے۔“لیکن انھوں نے کہا کہ اس کے بدلے افغانوں کو اصلاحات، انسداد بدعنوانی اور ملک میں قانون کی بالادستی کے لیے اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا۔ہلری کلنٹن نے متنبہ کیا کہ اگر افغانستان ایک مرتبہ پھر دہشت گردی اور عدم استحکام کا ذریعہ بنتا ہے تو بین الاقوامی برادری کو اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ انھوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ افغانستان کے لیے عالمی بینک کی زیر نگرانی قائم فنڈ میں امریکہ اپنا حصہ دوبارہ ڈالنا شروع کر دے گا۔ امریکی حکام کے مطابق اس اقدام سے افغانستان کو مزید تقریباً 70 کروڑ ڈالر دستیاب ہو سکیں گے۔کانفرنس سے خطاب میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں میں بڑے چیلنجوں کا سامنا رہے گا لیکن ان سے عالمی برادری کا عزم متزلزل نہیں ہوگا۔انھوں نے کہا کہ دہشت گردی، سلامتی کے خدشات اور منشیات جیسے مسائل سے نمٹنے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا کردار کلیدی ہے۔ ایران، پاکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ”افغانستان میں سیاسی مفاہمت (کی کوششوں) میں صرف اس صورت پیش رفت کی جا سکتی ہے کہ اگر ہمسایہ ممالک اس کی حمایت کریں۔“بان کی مون نے شرکاءکو اس پیش رفت کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا جو گزشتہ 10 برسوں میں افغانستان میں بین الاقوامی برادری کے تعاون سے کی گئی ہے۔ ”ہم نے مل کر 46 لاکھ افغان مہاجرین کی واپسی ممکن بنائی ہے، 76 لاکھ اضافی بچوں کا اسکولوں میں اندراج ہوا ہے، اور صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کی ہیں، ملک کا 80 فیصد حصہ پولیو سے پاک ہو چکا ہے، پہلے سے زیادہ خواتین کو اختیارات ملے ہیں اور وہ اپنے علاقوں کی نمائندگی کر رہی ہیں۔“بون کانفرنس میں 80 سے زائد ملکوں کے نمائندوں نے 2014ءتک افغانستان سے تمام اتحادی افواج کی واپسی کے بعد کے لائحہ عمل پر غور کیا ہے۔ جرمنی کے سابقہ دارالحکومت میں منعقدہ کانفرنس میں زیر بحث آنے والے موضوعات میں افغان سکیورٹی فورسز کو سلامتی کی ذمہ داریوں کی منتقلی، طالبان شدت پسندوں سے مفاہمت، اور طویل المدتی بین الاقوامی امداد نمایاں رہی۔لیکن افغانستان میں استحکام کے لیے ناگزیر سمجھا جانے والا ملک پاکستان نے اس بین الاقوامی اجلاس میں احتجاجاً شرکت نہیں کی ۔ جس کی وجہ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں 26 نومبر کو نیٹو حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی شہادت ہے۔مبصرین کے مطابق نیٹو حملے کے بعد احتجاجاً پاکستانی قیادت کا بون کانفرنس میں شرکت نا کرنے کا فیصلہ درست ہے، لیکن اپنے موقف کا دفاع کرنے کے لیے اسلام آباد کو اپنا کوئی مندوب اس اجلاس میں بھیجنا چاہیئے تھا۔ ”کہیں وہ کوئی ایسی قرارداد منظور نا کریں جو کہ (ہمارے) قومی مفاد میں نا ہو تو کسی نا کسی کو بھیجنا اچھی چیز تھی۔“سیاسی و عسکری قیادت پر مشتمل کابینہ کی دفاعی کمیٹی اور خود وفاقی کابینہ نے افغانستان کے مستقبل پر ہونے والی عالمی کانفرنس میں شرکت نا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حکومت کے اس اقدام کی توثیق پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے بھی کی ۔ایک روز قبل افغان صدر نے پاکستان کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ وہ مصالحتی عمل کے اہداف کے حصول میں افغانستان کی مدد نہیں کر رہا ہے۔ جرمن ہفت روزہ جریدے ”اشپیگل“ کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ”تاحال وہ (پاکستان) طالبان کی قیادت کے ساتھ بات چیت میں مدد سے انکاری ہے۔“مسٹر بان نے بھی بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت پر اظہار افسوس کیا۔امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے پاکستان کے فیصلے کو ”افسوس ناک“ قرار دیا لیکن کہا کہ یہ کانفرنس کے نتائج پر اثر انداز نہیں ہو گا۔دس برس قبل بون ہی میں منعقد کی گئی ایک کانفرنس میں افغانستان کے لیے عبوری حکومت کی منظوری دی گئی تھی۔بون کانفرنس میں جن معاملات پر غور کیا گیا ان میں آئندہ تین برس میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں بین الاقوامی فوجوں سے افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کیے جانا، ایک طویل عرصے تک افغانستان کے لیے بیرونی امداد جاری رہنے اور طالبان سے سیاسی مفاہمت شامل ہیں۔گیڈو واسٹاویلا نے کہا کہ ’ہمارا مقصد ایک پرامن افغانستان ہے جو کہ آئندہ کبھی بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بن پائے۔‘ بون کانفرنس کے اعلامیے میں ان اصولوں اور حدود کا تعین بھی کیا گیا جن کی بنیادوں پر طالبان سے مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانا ہے اور ایک ایسا منصوبہ تیار کرنا جو بہت سے شرکاءکے مطابق، دو ہزار چودہ میں نیٹو کی افواج کے انخلاءکے بعد بھی مشعل راہ ثابت ہو۔گزشتہ ہفتہ کو بون کی سڑکوں پر پانچ ہزار کے قریب لوگوں نے افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے حق میں مظاہرہ بھی کیا۔ اس وقت انچاس ملکوں پر مشتمل نیٹو اتحاد کے ایک لاکھ تیس ہزار فوجی افغانستان کی سر زمین پر موجود ہیں جن میں بہتر ہزار امریکی فوجی شامل ہیں۔ لیکن افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں یا دفاعی ماہرین کی کل تعداد ایک لاکھ سولہ ہزار بتائی جاتی ہے۔ان غیر ملکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد اگلے تین برس میں افغانستان سے واپسی بلا لی جائے گی اور صرف وہ غیر ملکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے جو افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت یا انسداد دہشت گردی کے لیے ضروری سمجھے جائیں گے۔صدر براک اوباما نے اس سال کے وسط میں اعلان کیا تھا کہ دس ہزار امریکی فوجی اس سال کے آخر تک امریکہ واپس بلالیے جائیں گے۔افغانستان کو اس سال پندرہ اعشاریہ سات ارب ڈالر کی امداد دی گئی۔ کانفرس سے قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ بیرونی امداد مہیا کرنے والوں کو سنہ دو ہزار پندرہ میں دس ارب ڈالر دینے ہوں گے۔سنہ دو ہزار چودہ تک افغان سیکورٹی فورسز کی کل تعداد تین لاکھ باون ہزار تک پہنچ جانے کی توقع ہے لیکن افغان حکومت اپنے وسائل سے ان کے لیے مالی اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ سنہ دو ہزار اکیس تک اخراجات میں اضافے کی وجہ سے ہر سال سات اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی کمی درپیش ہو گی۔اے پی ایس