بون کانفرنس: سارے عمل میں پاکستان کااہم کردار ۔چودھری احسن پر یمی




پاکستان کے لیے افغانستان کا مسئلہ کلیدی حیثیت کا حامل ہے اور پاکستان چاہتا ہے کہ یہ مسئلہ خوش اسلوبی کے ساتھ طے ہو، کیونکہ، اسی میںپاکستان کااپنا امن اور اپنی ترقی کا راز پنہا ں ہے۔ بون کانفرنس یقیناً ایک اہم اجلاس تھا، لیکن یہ کہنا درست نہ ہوگاکہ پاکستان کی طرف سے بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے سے افغانستان کے حوالے سے مصالحت کی تمام کاوشیں اورمعاملات رک جائیں گی۔ آنے والے دنوں میں معلوم ہوگا کہ پاکستان کےاتحادی اور خاص طور پر امریکہ، کس طرح پاکستان کے تحفظات پر غور کرتے ہیں، اور کس طرح پاکستان آگے چلنے کا لائحہ عمل تیار کرتا ہے ۔ پاکستان بون کانفرنس میں بھرپور طریقے سے شرکت کا ارادہ رکھتا تھا، لیکن 26نومبر کے’بلا اشتعال‘ واقعے کے پیشِ نظر، ’پاکستانی حکومت نے شرکت کرنے کے حوالے سے غور کیا اور اِس فیصلے پر پہنچے کہ اِن حالات میں ہماری شمولیت سودمند ثابت نہیں ہوگی۔بون کانفرنس میں اگرچہ پاکستان نے شرکت نہیں کی لیکن اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بین کی مون نے کہا تھا کہ بون کانفرنس میں جو بھی لائحہ عمل طے ہوگا پاکستان اس پر عمل درآمد کا پابند ہوگا۔پاکستان نے حالیہ بون کانفرنس میں شرکت نہ کر نے کا بائیکاٹ کیا حکومت کے اس اقدام کو عوام کی جانب سے پذیرائی ملی ہے کہ پاکستان کی خود مختاری پر کو ئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔جبکہ امریکہ میں دو بااثر قانون سازوں نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات بشمول فوجی و اقتصادی امداد پر ”مکمل نظرِ ثانی“ کا مطالبہ کیا ہے۔ریپبلیکن جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز جان مکین اور لِنڈسی گراہم نے کہا ہے کہ پاکستان سے متعلق معاملات میں امریکہ ”حیرت انگیز ضبط“ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔جان مکین اور لِنڈسی گراہم نے پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ نیٹو اور امریکی افواج کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات سے ”اس المناک سانحہ“ کے محرکات واضح ہو جائیں گے۔جبکہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کاخواہاں ہے اور ’ان کے خیال میں اس میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔یوسف رضا گیلانی نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہیں لیکن یہ تعلقات باہمی احترام پر مبنی ہونا چاہیے اور اس کی حدود بالکل واضح ہونی چاہیں۔ وزیر اعظم نے کہا امریکہ کے ساتھ بات چیت ہو رہی ہے جس میں اس بات کو یقینی بنایا جائےگا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی خود مختاری کی ’سرخ لیک‘ کو عبور نہ کریں اور دہشتگردی کی جنگ میں تعاون کے اصولوں کو پامال نہ کیا جائے۔انہوں نے کہا: ’ہم امریکہ کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں اور امریکہ کے ساتھ اپنی سٹراٹیجک پارٹنرشپ کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ ہم امریکہ، نیٹو، ایساف کے ساتھ اپنے تعاون کا نئے سرے سے جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے یہ معاملہ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کو سونپ دیا ہے۔‘ وزیر اعظم گیلانی نے امریکی صدر براک اوباما کی صدر آصف علی زرداری کے ساتھ فون پر ہونے والی بات چیت کے ایک روز بعد اپنے انٹرویو میں کہا ” ہم امریکہ مخالف نہیں ہیں، ہم نظام کا حصہ ہیں اور ہمیں عالمی برادری کے ساتھ کام کرنا ہے۔‘افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا کردار نبھائے گا۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے سب سے زیادہ قیمت پاکستان نے دی ہے۔ ’پاکستان کے تیس ہزار عام شہری اور پانچ ہزار فوجی دہشتگردی کی جنگ میں شہید ہو چکے ہیں۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ’میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ایک طریقہ کار وضح کر لیا ہے اور ہم تعاون کے لیے تیار ہیں۔‘ باوجود اس کے ہم بون میں ہونے والی کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے لیکن ہم افغانستان میں مصالحت کے لیے ہونی والی کوششوں کے حامی ہیں اور ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان جوہری توانائی کے حوالے سے پاکستان کےساتھ بھی ایسا ہی تعاون کرے جیسا کہ وہ بھارت کے ساتھ کر رہا ہے۔ جبکہ افغان امن کونسل کے اہم رکن حبیب اللہ فوزی نے امریکہ کی طرف سے دیے جانے والے اس تاثر کو غلط قرار دیا تھا کہ پاکستان کی عدم شرکت سے بون کانفرنس کے نتائج پر اثر نہیں پڑے گا۔انہوں نے کہا ’ہم اور عالمی برادری اس کانفرنس سے جو نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ پاکستان کی شرکت کے بغیر اب ±اس پیمانے پر حاصل نہیں ہو سکتے۔‘اس سے قبل ایک انٹرویو میں افغانستان میں تعینات امریکی سفیر رائن سی کروکر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت اس کے اپنے لیے نقصان دہ ہوگی کیونکہ کانفرنس کے نتائج پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ پاکستان نے جرمنی کے شہر بون میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ چھبیس نومبر کوپاکستان کے قبائلی علاقے میں واقع سلالہ چیک پوسٹ پر سرحد پار سے ہونے والے نیٹو کے حملے میں پاکستان کے چوبیس فوجیوں کی ہلاکت کے بعد حکومت پاکستان نے یہ فیصلہ کیا تھا۔طالبان کے دورِ حکومت میں سعودی عرب میں طالبان کے سابق قائم مقام سفیر حبیب اللہ فوزی نے کہا کہ ’ہم امریکہ سے اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ پاکستان کی شرکت غیر ضروری ہے کیونکہ ہر معاملہ طاقت کے زور پر حل نہیں کیا جا سکتا اور امریکہ کو چاہیے تھا کہ وہ کانفرنس میں پاکستان کی شمولیت کو ممکن بناتا۔‘دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو فون کر کے بون کانفرنس میں شرکت کا کہا امریکی وزیر خارجہ نے وزیر اعظم کو بتایا کہ مہمند ایجنسی میں پاکستانی چیک پوسٹ پر حملہ غیر ارادی تھا۔ اس حملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور اس حملے کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات خراب نہیں ہو نے چاہیے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکی وزیر خارجہ کو بتایا کہ بون کانفرنس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کابینہ کی دفاعی امور کی کمیٹی اور پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں کیا گیا ہے۔ حبیب اللہ فوزی نے کہا ’اگر امریکہ کا اس پر عقیدہ ہے کہ پاکستان کی شرکت بون کانفرنس میں اہم نہیں تو پھر اس نے پاکستان سے شرکت کے لیے درخواست کیوں کی ہے؟‘ ان کے مطابق درخواست کرنے کا مطلب یہی ہے کہ پاکستان اس سارے عمل میں اہم ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’خطے میں امن کے لیے سیاسی بیان بازی نہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان کی دوستی اہم ہے اور پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کے بغیر امن کے لیے راہ ہموار کرنا ممکن نہیں ہے۔‘منعقدہ بون کانفرنس میں تقریباً نوے کے قریب ممالک کے وزراءخارجہ اور داخلہ نے شرکت کی کانفرنس میں افعانستان کی نمائندگی وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ کے علاوہ افغان امن کونسل کے جنرل سیکریٹری معصوم ستناکزی نے بھی کی۔ کانفرنس میں افعانستان میں تعینات بین الاقومی افواج کے آئندہ کے لائحہ عمل سمیت خطے کی امن و امان کی صورت حال اور اقتصادی امور میں تعاون پر بھی بات چیت کی ہے۔جرمنی کے شہر بون میں افغانستان کے مستقبل پر ہونے والی کانفرنس کے اختتام پر کہا گیا ہے کہ سنہ 2014 میں بین الاقوامی فوج کے انخلا کے بعد بھی کم سے کم ایک دہائی تک افغانستان کو عالمی برادری کی مدد درکار ہوگی۔یہ عرصہ ’تبدیلی کی دہائی ہوگی اس دہائی میں افغانستان اپنی خود مختاری کو مستحکم کر سکے گا۔اعلامیے میں افغانستان سے مہاجروں کے حوالے سے پڑوسی ممالک ایران اور پاکستان پر پڑنے والے دباو ¿ کا بھی خاص ذکر کیا گیا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا ہے ’ہم افغانستان کے پڑوسیوں پر پڑنے والے بوجھ کو پہچانتے ہیں، خصوصاً پاکستان اور ایران پر، جنہوں نے لاکھوں افغانوں کو پناہ دی ہے اورجو مشکل حالات اور کشیدہ تعلقات کے باجود ان کی حفاظت اور واپسی کے لیے کام کر رہے ہیں۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دس سال پہلے ہونے والے بون کانفرنس کے بعد سے اب تک کئی کامیابیاں ہوئی ہیں جن میں القاعدہ کی کارروائیاں کم کرنا، اور سکیورٹی اداروں کو مضبوط بنانا شامل ہے۔ تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ دہشت گردی اور منشیات کے کاروبار کے خلاف جنگ ابھی بھی جاری ہے۔اے پی ایس