نیٹو کا حملہ کیوں ہوا،نیو یارک ٹائمز‘ کا موقف۔چودھری احسن پر یمی




اخبار’نیویارک ٹائمز‘ ایک اداریے میں لکھتا ہے کہ پاکستان عوامی غم وغصّے کوٹھنڈا کرنے سے انکار کر رہا ہے اور نہ یہ معلوم کرنے میں مدد دینے کے لئے تیار ہے کہ نیٹو کا وہ حملہ کیوں ہوا جس کے نتیجے میں 24 پاکستای فوجی ہلاک ہو گئے۔ پاکستان نے ایک مشترکہ تحقیقات میں شرکت کے لئے امریکی التجاوں کو ٹھکرا دیا ہے اور بون کی اس بین الاقوامی کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہے ۔جس میں افغانستان کے مستقبل کے بارے میں منصوبے وضع کئے گئے۔ اخبار کی نظر میں دونوں حرکتیں اپنے آپ پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ اگرتعلقات بحال کرنے کا کوئی امکان ہے، تو اخبار کے خیال میں واشنگٹن اور اسلام آباد کو یہ طے کرنا پڑے گا کہ سرحد پر کیا غلطی ہوئی اورانہیں یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ اس کا اعادہ نہ ہو۔ پینٹا گان نے شفاف تحقیقات کا یقین دلایا ہے اوراس نے پاکستان کے عدم تعاون کی تلافی کے لئے ٹیلیفونوں پر ہونے والی گفتگو، ای میل کے تبادلوں اور دیکھ بھال کی تصاویرسے استفادہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکں اخبار کہتا ہے کہ اسلام آباد کی شرکت کے بغیر پاکستانی عوام اس تحقیقات کے نتائج کوقابل اعتبار نہیں مانیں گے۔اخبار کہتا ہے کہ طالباں تربیتی مرکز کے خلاف امریکی اور افغان کاروائی کے دوران کیا گھپلا ہوا، اس پر دونوں کے موقّف ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ ان پر حملہ پہلے ہوا اور انہوں نے پاکستان کے فوجی افسروں سے اس کی کلئیرنس لی تھی ۔ لیکن پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ نیٹو نے انہیں حملوں کے لئے غلط ’کوآرڈی نیٹ‘ فراہم کئے اوران کی فوجوں نے صرف اس وقت فائر کھول دیا جب یہ حملے شروع ہو گئے تھے ۔’نیو یارک ٹائمز‘ کا موقف ہے کہ امریکہ کو پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے چاہے اس میں ہچکچاہٹ اور دوغلہ پن رہا ہے۔ افغانستان میں امریکی فوجوں کے لئے رسد کے راستے پر اسلام آباد کا کنٹرول ہے اور اس حملے کے انتقا م میں یہ راستہ پہلے ہی بند ہو چکا ہے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے پاکستان اہم ہے۔ صدر اوباما صدر آصف زرداری کو ٹیلیفون کر کے پاکستانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کر چکے ہیں، لیکن اخبار کی دانست میں اس میں آٹھ دن کی تاخیر سے بحرا ن کو اور ہوا لگی ہے۔ آگے چل کر اخبار کہتا ہے کہ اگرچہ کوئی پاکستانی لیڈر اس بات کا اعتراف کرنے کی جرا ت نہیں کرتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو امریکی امداد کی اور انتہا پسندوں سے نمٹنے کے لئے بھی مدد کی ضرورت ہے اور اخبار کی دانست میں پاکستانی فوج کے سربراہ نے یہ حکم دے کر حالات کو اور بھی خطرناک بنا دیا ہے کہ سرحد پر متعیّن فوجیں پہلے سے اجازت لئے بغیر جوابی فائر کر سکتی ہیں۔اخبار نے بون کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کے پاکستانی فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کر کے اس نے اپنے موقّف کی وضاحت کرنے کا موقع کھو دیا اور اپنے آپ کو مزید الگ تھلگ کر دیا ہے۔ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں بین الاقوامی کانفرنس جرمنی کے شہر بون میں ختم ہوگئی ہے ایسی ہی ایک کانفرنس دس سال قبل افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمہ کے چند ہفتوں بعد اسی شہر میں منعقد ہوئی تھی۔تاہم پاکستان نے اپنے شمالی علاقے میں نیٹو کے ایک حملے میں چوبیس فوجیوں کی ہلاکت کے بعد احتجاج کے طور پر اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا ۔امریکہ کے صدر براک اوباما نے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کو فون کرکے امریکہ کا یہ موقف دہرایا کہ گزشتہ ماہ ہونے والا نیٹو کا فضائی حملہ ارادی طور پر نہیں کیا گیا۔مہمند ایجنسی میں افغان سرحد پر سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے فضائی حملے میں چوبیس پاکستانی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔وائٹ ہاوس کا کہنا ہے کہ صدر اوباما نے پاکستانی صدر کو ٹیلی فون کر کے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ حادثے کی جامع تحقیقات کی جائیں گی۔پاکستان نے اس حملے کو اپنی سلامتی اور آزادی پر حملہ قرار دیتے ہوئے بون کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے جرمنی کے شہر بون میں افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ہونے والی ایک روزہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے پاکستان کے فیصلے کو افسوس ناک تو قرار دیا لیکن ان کے بقول پاکستان کا یہ فیصلہ خودمختاری پر مبنی ہے۔ بان کی مون نے کہا ’پاکستان خطے کا ایک اہم ترین ملک ہے جو افغانستان میں قیام امن اور استحکام کے لیے مدد کر سکتا ہے اور کیا ہی بہتر ہوتا کہ اگر اس کانفرنس میں پاکستان شرکت کرتا۔ پاکستان کا شرکت نہ کرنا ایک افسوس ناک امر ہے لیکن یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے اور خودمختاری پر مبنی ہے۔‘ پاکستان کی یقین دہانی جرمنی کے وزیر خارجہ گیڈو ویسٹاویلا نے کہا ہے کہ انھیں پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے یقین دہانی کرائی ہے کہ بون کانفرنس میں پاکستان کے شرکت نہ کرنے کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ پاکستان افغانستان میں سیاسی عمل کی حمایت نہیں کرتا۔گیڈو ویسٹا ویلا نے کہا کہ وہ پاکستان کی حکومت کے اس بیان پر یقین کرتے ہیں اور انہیں پاکستان کی حمایت پر بھروسہ ہے۔افغان صدر حامد کرزئی، جرمن چانسلر اینجلا مرکل اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اس ایک روزہ کانفرنس کا مشترکہ طور پر افتتاح کیا جس میں ایک سو کے قریب ملکوں اور بین الاقوامی اداروں کے ایک ہزار کے قریب مندوبین نے شرکت کی۔ افغانستان کے مغربی ہمسایہ ملک ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صلاحی اور امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن سمیت ساٹھ کے قریب دیگر ممالک کے وزراءخارجہ بھی اس کانفرنس میںشامل تھے۔بون کانفرنس میں جن معاملات پر غور کیا گیا ان میں آئندہ تین برس میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں بین الاقوامی فوجوں سے افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کیے جانا، ایک طویل عرصے تک افغانستان کے لیے بیرونی امداد جاری رہنے اور طالبان سے سیاسی مفاہمت کے امکانات پر غور شامل ہیں۔گیڈو واسٹاویلا نے کہا کہ ’ہمارا مقصد ایک پرامن افغانستان ہے جو کہ آئندہ کبھی بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بن پائے بون کانفرنس کے اعلامیے میں ان اصولوں اور حدود کا تعین بھی کیا گیا جن کی بنیادوں پر طالبان سے مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانا ہے اور ایک ایسا منصوبہ تیار کرنا جو بہت سے شرکاءکے مطابق، دو ہزار چودہ میں نیٹو کی افواج کے انخلاءکے بعد بھی مشعل راہ ثابت ہو۔ بون کی سڑکوں پر پانچ ہزار کے قریب لوگوں نے افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے حق میں مظاہرہ کیا۔ اس وقت انچاس ملکوں پر مشتمل نیٹو اتحاد کے ایک لاکھ تیس ہزار فوجی افغانستان کی سر زمین پر موجود ہیں جن میں بہتر ہزار امریکی فوجی شامل ہیں۔ لیکن افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں یا دفاعی ماہرین کی کل تعداد ایک لاکھ سولہ ہزار بتائی جاتی ہے۔ ان غیر ملکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد اگلے تین برس میں افغانستان سے واپسی بلا لی جائے گی اور صرف وہ غیر ملکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے جو افغان سیکیورٹی فورسز کی تربیت یا انسداد دہشت گردی کے لیے ضروری سمجھے جائیں گے۔صدر براک اوباما نے اس سال کے وسط میں اعلان کیا تھا کہ دس ہزار امریکی فوجی اس سال کے آخر تک امریکہ واپس بلالیے جائیں گے۔افغانستان کو اس سال پندرہ اعشاریہ سات ارب ڈالر کی امداد دی گئی۔ کانفرس سے قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے بیرونی امداد مہیا کرنے والوں کو سنہ دو ہزار پندرہ میں دس ارب ڈالر دینے ہوں گے۔سنہ دو ہزار چودہ تک افغان سیکورٹی فورسز کی کل تعداد تین لاکھ باون ہزار تک پہنچ جانے کی توقع ہے لیکن افغان حکومت اپنے وسائل سے ان کے لیے مالی اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ سنہ دو ہزار اکیس تک اخراجات میں اضافے کی وجہ سے ہر سال سات اعشارہ آٹھ ارب ڈالر کی کمی درپیش ہو گی۔اے پی ایس