قوم کسی بھی غیر آئینی و غیر جمہوری اقدام کی متحمل نہیں ہوسکتی۔چودھری احسن پر یمی




گزشتہ جمعہ کے روزوزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کو ٹیلیفون کیا اور صدر زرداری کی جلد صحتیابی کیلئے دعا گو ہونے پر ان کا شکریہ ادا کیا جبکہ نوازشریف نے کہا کہ ملک افواہوں کی آماجگاہ بن چکا ہے قوم مارشل لاءکیخلاف متحد ہوجائے، کسی غیر آئینی اقدام کا حصہ نہیں بنیں گے،امریکا جب تک معافی نہ مانگے نیٹو سپلائی بحال نہیں کی جانی چاہیے۔ وزیراعظم نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بھی نوازشریف کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مارشل لاءکا راستہ روکنے اور کسی غیر جمہوری اقدام کا حصہ نہ بننے کا اعلان خوش آئند ہے جو جمہوری نظام کے استحکام میں مددگار ثابت ہوگا جبکہ دونوں رہنماوں نے قومی معاملات پر رابطے جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ ٹیلیفونک رابطے میں نیٹو حملے کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال، میمو گیٹ اسکینڈل اور بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے سے پیدا ہونیوالی صورتحال کے حوالے سے بھی دونوں رہنماوں کے درمیان تبادلہ خیال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت جمہوری نظام کو مزید مستحکم کرنے کیلئے سیاسی قوتوں کا تعاون چاہتی ہے اور مسلم لیگ ن ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے جس کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں جبکہ نواز شریف نے کسی غیر آئینی اقدام کا حصہ نہ بننے کی وزیراعظم کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ملکی دفاع اور سالمیت کیلئے حکومت ٹھوس اقدامات کرے اور ملکی خود مختاری کو یقینی بنانے کیلئے ن لیگ حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریگی جبکہ نیٹو حملے کے بعد شمسی ایئر بیس خالی کرانے سمیت نیٹو کی سپلائی لائن بند کرنے کا فیصلہ درست ہے جس کی مسلم لیگ ن بھی تائید کرتی ہے ۔ (ن) لیگ کاملک میں کسی بھی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہ کرنا ایک اصولی اور جمہوری موقف خوش آئند ہے جو کہ ایک صحت مند سیاسی ذہن و وژن کی علامت ہے۔ماضی میں غیر جمہوری سوچ کے حامل افراد کی سازشوں کا خمیازہ عوام بھگت چکے ہیں اور ان کے اثرات اب بھی دھل نہیں سکے۔ اور اس ملک کو سب سے زیادہ فوجی مارشل لاءنے نقصان پہنچایا اور اب ملک کسی مارشل لاءاور غیر آئینی اقدام کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اب وقت آگیا ہے کہ قوم متحد ہو جائے تاکہ کسی کو ملک میں غیر آئینی اقدام اور مارشل لاءکی جرات نہ ہوسکے کیو نکہ مارشل لاءسے ملک کو تباہی کے سواکچھ نہیں ملتا۔ پاکستان نے بون کانفرنس میں شرکت نہ کر کے اور نٹیوفورسز کی سپلائی بند کر کے اچھا کیا جب تک امر یکا معافی نہ مانگے نٹیو فورسز کی سپلائی کسی بھی صورت بحال نہیں ہو نی چاہیے ۔ جبکہ پاکستان کی حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کیلئے دسمبر کا مہینہ بہت سی مشکلات لے کر آیا ہے۔رواں ہفتے اس کے راہنما اور پاکستان کے صدر آصف علی زرداری علیل ہوگئے جس کے بعد افواہوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ صدر ان افواہوں سے نکل بھی گئے تب بھی اس پورے مہینے انہیں کئی امتحانات سے گزرنا ہوگا۔ موجودہ سیاسی صورتحال کا بغور جائزہ لینے اور پیپلز پارٹی کو فی الفور درپیش حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد جونتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے اس کے مطابق رواں ماہ پیپلز پارٹی کو سیاسی اور عدالتی دونوں قسم کے امتحانات درپیش ہوں گے۔ سیاسی میدان میں پیپلزپارٹی کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے نفاذ کا ہے۔ اس معاملے پر مشاورت طویل سے طویل تر ہو رہی ہے۔ ایک جانب ایم کیو ایم کا موقف ہے تو دوسری جانب مسلم لیگ فنکشنل اور اے این پی کھڑی ہیں۔ تاہم، حالات میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ ایم کیو ایم کے موقف کی تائید ،پیپلزپارٹی کے اندربھی پھوٹ ڈال سکتی ہے ۔‘دوسری جانب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق میں سندھ کی وزارتوں سے متعلق بھی اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں ۔ق لیگ کے جنرل سیکریٹری حلیم عادل شیخ کے مطابق ق لیگ سندھ نے 18 دسمبر کو مسلم لیگ سندھ کونسل کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کی صدارت ق لیگ سندھ کے صدر غوث بخش مہر کریں گے۔ صوبے سے 115 ممبران کی شرکت بھی متوقع ہے۔ اجلاس میں کارکنوں میں پائی جانے والی بے چینی اور پیپلزپارٹی کے معاملات پر غور کیا جائے گا۔ اتحادیوں کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کی سب سے بڑی حریف جماعت مسلم لیگ ن بھی لاڑکانہ میں 10 دسمبر کو عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے جا رہی ہے اور بہت سے دیگر جماعتوں کے عہدیدار اس جلسے کیلئے ن لیگ کا بھر پور ساتھ دے رہے ہیں ۔ اسی ماہ کی 25 تاریخ کو تحریک انصاف مزار قائد پر کراچی کوفتح کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے، اس موقع پر سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر آصف علی زرداری سے متعلق اہم انکشافات کا اعلان کر رکھا ہے ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جس طرح پنجاب میں مسلم لیگ ن کو ’ٹف ٹائم‘ دیا اسی طرح شاہ محمود قریشی اب سندھ میں پیپلزپارٹی کو ’ٹف ٹائم‘ دیں گے جس کی ایک جھلک 27 نومبر کو گھوٹکی میں بھی دیکھی گئی ۔ ماہرین کے مطابق ملک میں پیپلزپارٹی کے لئے حالات دسمبر میں یکسر تبدیل ہو چکے ہیں ۔ پی پی کے مخالفین کی جانب سے میڈیا پر صدر آصف علی زرداری پر لگائے جانے والے مبینہ الزامات کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے سندھ کارڈ کو کمزور کرنے کی کوشش جاری ہے ۔ سرفہرست الزامات میں صدر زرداری اور حسین حقانی کی ایبٹ آباد آپریشن سے آگاہی اور میمو گیٹ اسکینڈل سر فہرست ہیں ۔ میمو گیٹ اسکینڈل‘ پر مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کی درخواست پر سپریم کورٹ نے صدر آصف علی زرداری سے بھی سولہ دسمبر تک جواب طلب کر رکھا ہے جس میں سے سات دن گزر چکے ہیں آٹھ دن باقی ہیں ۔ 25 نومبرکو سپریم کورٹ کی جانب سے این آر او فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست مسترد ہونے کے بعد حکم دیا گیا تھا کہ سولہ نومبر 2009 کے فیصلے پر بغیر کسی تاخیر کے عملدرآمد کیا جائے لیکن 13 دن گزر جانے کے بعد تاحال حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ۔ اس کے علاوہ بھی متعدد مقدمات پر یہ تاثرعام ہے کہ حکومت عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کر رہی جو آنے والے چند ہفتوں میں پیپلزپارٹی کو مزید مشکلات کا شکار کر سکتے ہیں ۔ دو مئی کو ایبٹ آباد واقعہ کی تحقیقات کیلئے قائم کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) جاویداقبال نے انکشاف کیا ہے کہ صدر زرداری کو بھی ایک سوال نامہ بھیج دیا گیا ہے ، اگر چہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے۔ تاہم، انہیں پارٹی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے سوالنامہ بھجوایا ہے جس سے اب صدر کیلئے پارٹی عہدہ بھی چیلنج بن سکتا ہے ۔ ادھر لاہور ہائی کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدبابر اعوان کی پریس کانفرنس پر لاہور ہائی کورٹ نے بابراعوان سے بھی بیس دسمبر کو جواب طلب کر لیا ہے ۔’میمو گیٹ اسکینڈل‘ پر ملکی اور غیر ملکی میڈیا پر یہ تاثرملتا ہے کہ حکومت اورفوج میں دوریاں پیدا ہو چکی ہیں ۔ امریکی جریدے فارن پالیسی کے اس دعوے کے بعد کہ صدر آصف علی زرداری طبی بنیادوں پر مستعفی ہو سکتے ہیں ، ایک نئی ہلچل مچی ہوئی ہے ۔بعض حلقوں کاخیال ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد سے ہی حکومت اورعسکری اختلافات جنم لے چکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ایکس مین سروس کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھا کہ’ ایٹ لیسٹ ‘ پاک فوج دو مئی کے واقعہ سے آگاہ نہیں تھی ، جس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ فوج آگاہ نہیں تھی سیاسی قیادت کا معلوم نہیں ۔ اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ حسین حقانی سے استعفیٰ فوج ہی کے کہنے پر لیا گیا ہے اور اس معاملے پر صرف حسین حقانی ہی نہیں بلکہ دیگر حکومت کے بڑے بڑے عہدیدار بھی لپیٹ میں آئیں گے۔اے پی ایس