انسانی حقوق: عدم تحفظ کا شکار عوام۔چودھری احسن پر یمی




استبدادی اور آمرانہ ریاستوں میں انسانی حقوق کا کام کرنا خطرناک ہوتا ہے ایسی ریاست جو اپنے معاملات صیغہ راز میں رکھتی ہو اور بند دروازوں کے پیچھے اس کے معاملات طے ہوتے ہوں وہ ان افراد کو پسند نہیں کرتی جو ریاست کے اندر کے حالات کی اصل تصویر کو جاننے اور اسے عام کر نے کی کوشش کر تے ہیں۔انسانی حقوق کا کلچر تشکیل دینے سے انسانی حرمت و عزت بحال کر نے میں مدد ملتی ہے اس سے ایک اچھا احساس بحال ہوتا ہے جو کبھی اتھل پتھل ہوگیا تھا ظلم و تشدد کے اس چکر کو توڑنے کیلئے ماضی کی طرف رجوع کر نے کی ضرورت ہے۔عدل و انصاف اور مفاہمت کی فضا قائم کر نے کیلئے ضروری ہے کہ ایسے افراد کے خلاف صف آراءہوں جو دوسروں کے حقوق سلب کر تے ہیں۔رفتہ رفتہ مگر یقینا حکومتیں ایک اچھے انسانی حقوق کے ریکارڈ سے با خبر ہوتی جارہی ہیں۔انسانی حقوق کا برا ریکارڈ اکثر اوقات حکومتوں کیلئے بہت شرمندگی کا باعث ہوتا ہے۔اس سے کسی ملک کی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے۔یہ تجارت کیلئے بھی برا تصور ہوتا ہے۔وہ اس میںجزوی طور پر اس لئے کامیاب ہو جاتی ہے کہ لوگ قانون میں فراہم اپنے حقوق بارے نہیں جانتے۔ قانون کی حکمرانی ایک ایسی اصطلاح ہے جو ایک ایسی ریاست کی طرف نشاندہی کرتی ہے جس میں لوگوں پر عدل و انصاف پر مبنی قوانین کے ذریعے حکومت کی جاتی ہے اور جن کا یکساں اطلاق ہوتا ہے اور یہ حکومت کا حکم یا ترنگ میں کہی ہو ئی ایسی بات نہیں ہوتی جسے قانون کا روپ دے کر پیش کیا جارہا ہو۔ریاست کا اقدام قانون کے نفاذ کی ضرورتوں سے بڑھنا نہیں چاہیے۔یہ حقیقت کہ صاحبان اختیار کی طرف سے کیا گیا اقدام ملکی قانون کے تحت قانونی ہوسکتا ہے لیکن ممکن ہے کہ وہ عالمی انسانی حقوق کے تحت یک طرفہ فیصلہ قرار پائے۔زندگی کے حق کی زیادہ تنگ نظری سے تشریح نہیں کی جانی چاہیے۔ریاست کو مثبت اقدام کر نے چاہیے۔ریاست کو چاہیے کہ وہ معصوم انسانوں کو ظلم سے بچانے کیلئے قانون کی حکمرانی پر سختی سے کاربند رہے۔ عالمی کانفرنس برائے انسانی حقوق جنرل اسمبلی کی طرف سے جبری گمشدگیوں سے تمام انسانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے اعلان کی منظوری کو خوش آمدید کہتے ہوئے تمام ریاستوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ جبری گمشدگیوں کو روکنے ،ختم کرنے اور جبری گمشدگیوں کاروائیوں پر سزا دینے کیلئے موثر قانونی،انتظامی عدالتی یا دوسرے اقدامات کر ے۔عالمی کانفرنس برائے انسانی حقوق اس بات کی تجدید نو کر تی ہے کہ تمام ریاستوں کا یہ فرض ہے کہ چاہے جو بھی حالات ہوں اس بات کی تفتیش کر یں ،جب کبھی اس بات پر یقین کرنے کا سبب موجود ہو کہ کسی ایسے علاقے میں جبری گمشدی کا واقعہ پیش آیا ہے جو ان کی حدود میں واقع ہے اور اگر الزامات کی تصدیق ہوجائے تو اس کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔جبکہ حقوق انسانی کے عالمی دن کے موقع پر گزشتہ ہفتہ کو پاکستان میں انسانی حقوق کی سرگرم تنظیموں کے زیر اہتمام ملک کے مخلتف شہروں میں ہونے والی تقاریب میں حالیہ برسوں میں اقلیتوں کے خلاف سامنے آنے والے تشدد کے واقعات، نسلی اور سیاسی بنیادوں پر ہدف بنا کر کی جانے والی ہلاکتوں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی کے لیے بھر پور اقدامات کئے جائیں۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اس برس بلوچستان کی صورتحال پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مختلف شہروں میں بلوچستان کے عوام سے یکجہتی کے لیے شمعیں روشن کیں۔وفاقی حکومت کا کہنا ہے بلوچستان میں قیام امن کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر بلوچ عوام کے احساس محرومی کو دور کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں بلوچستان میں قیام امن کی کوششیں اور مقامی نوجوانوں کو روزگار کے وسائل بھی فراہمی نمایاں ہے۔صدر آصف علی زرداری نے حقوق انسانی کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں حکومت کے اس عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسندی کا مقابلہ کیا جائے گا اور غربت میں کمی لائے جائے گی تاکہ امن اور آزادی کی فضا قائم ہو اور انسانی حقوق محفوظ ہو سکیں۔جبکہ گزشتہ دس دسمبر کو عالمی حقوق کے عالمی دن کے موقع پرپاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف نے کہا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ سیاسی مقدموں کو انسانی حقوق سے متعلق مقدمات پر فوقیت دے رہی ہے جو ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال خراب کرنے میں ایک اہم عنصر ہے۔ عدالت کے سامنے انسانی حقوق کے بارے میں کئی مقدمات زیر التوا ہیں لیکن عدالت کا زیادہ وقت روزانہ کی بنیاد پر دائر ہونے والے سیاسی مقدمات پر صرف ہو جاتا ہے۔زہرہ یوسف کا یہ بھی کہنا تھا کہ جہاں تک انسانی حقوق کا تعلق ہے تو لگتا ہے کہ حکومت اور عدلیہ کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ان کی ترجیح روزانہ تبدیل ہوتی سیاسی صورتحال ہے۔ اس صورت میں انسانی حقوق کے معاملات مکمل طور پر نظرانداز ہو رہے ہیں اور ان پر کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن نے چار برس قبل بلوچستان میں گمشدگیوں اور ہلاکتوں کے بارے میں ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا جو مختلف کمیشنوں کے سپرد ہوتا رہا اور ابھی تک زیر التوا ہے۔ ملکی سیاسی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام کے باعث انسانی حقوق کے معاملات حکومتی سطح پر بھی نظر انداز ہورہے ہیں۔’اس صورت میں کچھ ایشوز ہیں جنہیں عدلیہ کو اہمیت دینا چاہئے۔ خاص طور پر لاپتہ افراد کا معاملہ ہے جن کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔زہرہ یوسف نے کہا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ایبٹ آباد کمیشن کی سربراہی سنبھالنے کے بعد وہ لاپتہ افراد کے کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے اس معاملے کو زیادہ وقت نہیں دے پا رہے ہیں اس لیے یہ کمیشن از سر نو تشکیل پانا چاہیئے۔زہرہ یوسف نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں اور عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کر کے اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو تحفظ فراہم کر کے انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنائی جا سکتی ہے۔زہرہ یوسف کا یہ کہنا کہ" جہاں تک انسانی حقوق کا تعلق ہے تو لگتا ہے کہ حکومت اور عدلیہ کی ترجیحات کچھ اور ہیں" اس ضمن میں انسانی حقوق کی سربراہ زہرہ یوسف سے گزارش ہے کہ حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہوسکتیں ہیں لیکن عدلیہ کی ترجیح ایک ہی ہے قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی۔اس ضمن میں ملک بھر میں عدلیہ کو انتظامی امور کے حوالے سے سہولتیں فراہم کرنا حکومت کا کام ہے جو وہ نہیں کر پا رہی۔اچھی طرز حکمرانی ہوگی تو انسانی حقوق کا تحفظ اور فروغ بھی ممکن ہوگا اگر ایسا نہیں ہو گا تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو تیں رہیں گی۔ موجودہ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی قانون کا عدم نفاذ اور امن وامان برقرار نہ رکھنا ہے تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ سپریم کورٹ ہر وہ نوٹس لے رہی ہے جو ملکی ترقی ،استحکام اور اس کی سلامتی سے متعلق ہے ۔ موجودہ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہی ہے کہ وہ اپنی اولین ذمہ داری امن وامان قائم کرنے اور لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی بنیادی وجہ قانون کا نفاذ نہ کرنا ہے۔ ہمیں ملک کے مستقبل اور آئندہ نسل کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، پارلیمنٹ سے وہ نتائج حاصل نہ ہوسکے جو ملنے چاہیے تھے کر پشن کو ختم کئے بغیر ملک سے مہنگائی‘ بیروز گاری جیسے مسائل کا خاتمہ ممکن نہیں۔ آئین اعلیٰ عدلیہ کو قانون سازی اور انتظامی کاموں میں عدالتی نظرثانی کا بھی اختیار دیتا ہے اور جو قانون، آئین کے برخلاف بنایا جائے، عدالت اس کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر فیصلہ دینے کا اختیار رکھتی ہے ، عدالت کو قوم کے بہترین مفاد میں اپنا یہ اختیار استعمال کرنا ہوگا کیونکہ قانون کی حکمرانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا آئین عدلیہ کو بنیادی حقوق کی فراہمی کا اختیار دیتا ہے۔ عدالت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری اور اس کے عوام کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔اے پی ایس