پاک امریکا کشیدگی۔چودھری محمد احسن پر یمی




صدر آصف علی زرداری کے دوبئی میں علالت کی وجہ سے مزید دو ہفتے کے قیام پر ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا مسٹر زرداری کی موجودہ علالت دل کے ایک سابقہ دورے کا شاخسانہ ہے یا وہ ادویات ہیں جو انہیں اپنے دل کے عارضے کی وجہ سے کھانی پڑی ہیں۔ اور پاکستان سے ان کی یہ غیر حاضری ایک کڑے وقت میں آئی ہے۔ کیونکہ اس ہفتے انہیں پارلیمنٹ کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنا تھا تا کہ اس نیٹو فضائی حملے کو زیر بحث لایا جائے، جس میں 24 پاکستانی فوجی شہیدہوئے تھے اس میںمسٹر زرداری امریکہ کے ساتھ پاکستان کے بگڑتے ہوئے تعلقات پر اپنی رائے کا اظہار کر نے والے تھے۔ لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ سال رواں میں یہ پارلیمانی اجلاس منعقد ہونے کا امکان نہیں ہے۔جبکہ حزب اختلاف نے اس سال مبیّنہ کرپشن کے لئے مسٹر زرداری پر کڑی تنقید کی ہے ۔ حالیہ دنوں میں ملک میں امریکہ کے خلاف جذبات بھڑک اٹھے ہیں او ر حزب اختلاف نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کر نے کے الزام پر مسٹر زرداری پر اپنی تنقید مزید بڑھا دی ہے۔نیٹو حملے کے بعد حزب اختلاف کے بعض سیاست دانوں کا یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ امریکہ کی سولین اور فوجی امداد پرتکیہ کم کر دیا جائے۔انہوں نے امریکہ پر جان بوجھ کر یہ فضائی حملہ کرنے کاکہاہے۔چنانچہ زرداری حکومت نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے نیٹو کی رسد کا راستہ بند کردیا ہے ۔ جو بقول وزیر اعظم گیلانی کے ابھی ہفتوں جاری رہ سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے امریکہ سے ایک ہوائی اڈّہ بھی خالی کرا لیا ہے۔ مشترکہ اجلاس میں مسٹر زرداری یہ بتانے والے تھے کہ پاک امریکی تعلقات کس سمت جارہے ہیں۔ اس عدم اطمینان کے باوجودغالب یہی ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے مضطرب تعلقات برقرار رکھے گا۔ پاکستان کو امدادی رقم کی ضرورت ہے ۔ جب کہ امریکہ ، افغانستان کی جنگ کو اختتام تک پہنچانے کے عمل میں پاکستان کی مدد کو کلیدی تصوّر کرتا ہے۔جبکہ امریکی کانگریس کے ایک با اثر رکن نے نیٹو افواج کے لیے رسد کی لائن کاٹنے کے پاکستانی فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ اس اقدام سے امریکہ کو افغانستان میں فوجی و سویلین دونوں ہی شعبوں میں اپنا کام ”بہت مہنگا“ پڑ رہا ہے۔ امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے رکن اور پاکستان کے لیے اقتصادی امداد کے ’کیری لوگر‘ نامی بل کے ایک سپانسر رچرڈ لوگر نے صورت حال کو ”خاصی نازک“ قرار د یتے ہوئے امید ظاہر کی کہ پاکستان سپلائی جلد بحال کر دے گا۔انھوں نے کہا کہ مہمند ایجنسی میں 26 نومبر کو پاکستانی چوکیوں پر نیٹو کے حملے میں 24 فوجیوں کی ہلاکت پر امریکہ کو پاکستانیوں کی تکلیف اورغصے کا احساس ہے اور امریکی رہنماوں نے اس کا اعترف بھی کیا ہے۔”لیکن اب آگے کا سوچنے کی ضرورت ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ کہنا ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے، اب ہم نے اپنا پیغام پہنچا دیا، اب ایک نئی اننگز شروع کی جائے ۔اس لیے اب ایک دوسرے پر تنقید کو پسِ پشت ڈال کر دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔“کانگریس کے بعض اراکین کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر نظرِ ثانی کرنے اور امریکی امداد کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج کی کارکردگی سے مشروط کرنے کے زور پکڑتے مطالبات پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر لوگر نے کہا کہ واشنگٹن میں بہت سے لوگوں کو اس بات پر غصہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی کامیابی کی راہ میں پاکستان کی وجہ سے مشکلات آ رہی ہیں۔”لیکن میں دونوں ممالک کے تعلقات کی تاریخ سے بھی بخوبی واقف ہوں، اس لیے دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف اقدامات کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے قریب آنے کی ضرورت ہے۔“سینیٹر لوگر نے کہا کہ تمام تر اختلافات کے باوجود پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی اہمیت کے پیش نظر انھیں بہتر بنانا ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر انھوں نے ’کیری لوگر‘ بل کانگریس میں پیش کیا تھا۔جبکہ امریکہ کی سینٹ اور کانگریس کے ایک پینل نے پاکستان کو دی جانے والی 70 کروڑ ڈالر کی امداد منجمد کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔پاکستان امریکہ سے امداد حاصل کرنے والا ایک بڑا ملک ہے اور پینل کے تازہ فیصلہ کے تحت روکی جانے والی امداد ہرسال فراہم کی جانے والی سول اور فوجی اعانت کا محض کچھ حصہ بنتی ہے۔ یہ تازہ اقدام امریکی امداد میں مزید کٹوتیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔امریکی امداد کا یہ انجماد اس دفاعی بل کا حصہ ہے جو رواں ہفتے منظور کیے جانے کی توقع ہے۔ادھر پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین سلیم سیف اللہ نے اس اقدام پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے دونوں ملکوں کے پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید بگڑ سکتے ہیں۔امریکہ میں اراکینِ پارلیمان کے پینل نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی ستّر کروڑ ڈالر کی امداد روک دی جائے۔یہ اتفاقِ رائے ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے اراکین پر مشتمل مذاکراتی پینل کے اجلاس میں ہوا جو امریکہ کے چھ سو باسٹھ ارب ڈالر کے دفاعی بجٹ پر بحث کررہا ہے۔پاکستان کو دی جانے والی امداد پر قدغن لگانے کا مقصد اس پر دباوبڑھانا ہے۔ ایوانِ نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین بک مک کیون کا کہنا ہے ’ہمارے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں اب بدگمانی آچکی ہے۔ (تاہم) ہمیں ان کی ضرورت ہے اور انہیں ہماری۔ لیکن ایک بات جو مجھے افغانستان کی اِس جنگ میں سب سے زیادہ مضطرب کرتی ہے وہ زندگیوں اور انسانی اعضاءکا زیاں ہے ۔ریپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جان مک کین نے کہاامریکہ نے سنہ دو ہزار ایک سے اب تک پاکستان کو معاشی اور سکیورٹی کی امداد کی مد میں بیس ارب ڈالر مختص کیے ہیں جن میں سے زیادہ تر ادائیگی پاکستان کی جانب سے خرچہ کے کھاتے دکھانے کی بعد کی گئی ہے۔تاہم امریکی قانون دانوں نے حالیہ دنوں میں پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے کردار پر جھنجلاہٹ کا اظہار کیا ہے۔جبکہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی کے خد و خال کے از سر نو تعین کا مقصد”جارحانہ“ حکمت عملی اختیار کرنا یا امریکہ سے تعلقات ختم کرنا نہیں بلکہ انھیں پاکستان کے قومی مفادات سے ہم آہنگ کرنا ہے۔”ہم نے اس وقت کسی سے تعلقات توڑنے کی بات نہیں کی، صرف اتنا کہا ہے کہ ہم نے اپنے قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے تعاون کی شرائط کا از سر نو جائزہ لینا ہے (اور) یہ ہمارا بنیادی حق ہے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ عالمی تناظر میں ”بنیادی مقاصد“ کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حسب حال ہونا ضروری ہے۔گزشتہ ماہ مہمند ایجنسی میں سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے حملے میں 24 فوجیوں کی ہلاکت پر اپنے سخت رد عمل میں پاکستان نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے ان میں نیٹو اور امریکہ کے ساتھ تعلقات سمیت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کی موجودہ شرائط پر نظرِ ثانی بھی شامل ہے۔اس سلسلے میں امریکہ، برطانیہ، افغانستان، بھارت اور چین سمیت ایک درجن سے زائد اہم ملکوں میں پاکستان کے سفراءکا ایک خصوصی اجلاس بھی اسلام آباد میں منعقد کیا گیا ۔صحافیوں سے اپنی گفتگو میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ اجلاس کا مقصد اس میں مدعو کیے گئے سفارت کاروں کی تجاویز کی بنیاد پر پاکستان کی وزارت خارجہ کا ایک متفقہ نقطہ نظر مرتب کرنا ہے۔”ہم نے علاقائی سلامتی کی صورت حال کا جائزہ لیا ہے، پاکستان کے بنیادی مقاصد اور قومی مفادات کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے، اور پھر جو (تعلقات پر) نظر ثانی ہونی ہے اس کو دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کس طرح اور کس حد تک ہونی چاہیئے۔“انھوں نے بتایا کہ وزارت خارجہ کے اجلاس کی حتمی دستاویز پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی رائے لینے کے بعد اسے قومی سلامتی سے متعلق پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا جسے نیٹو اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں سفارشات تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔پاکستانی فوج کے سینیئر عہدے داروں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے بھی شرکاءکو نیٹو حملے کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال اور قومی و علاقائی سلامتی کے امور پر تفصیلی بریفنگ دی جس میں دہرایا گیا کہ نیٹو کا حملہ ”دانستہ“ طور پر کی گئی کارروائی تھی۔پاکستانی سفارت کاروں کے اس غیر معمولی اجلاس میں وزیر خارجہ نے کہا کہ ”پالیسیاں بالآخر سیاست دان بناتے ہیں لیکن اداروں کا نقطہ نظر ان میں آنا چاہیئے اور آنا ضروری ہوتا ہے۔“پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم امور خصوصاً کشمیر اور افغانستان سے متعلق حکمت عملی میں تبدیلیاں فوج کی رضا مندی کے بغیر نامکمن تصور کی جاتی ہیں اور پارلیمان میں دو تہائی اکثریت والی حکومتوں کو بھی اس روایت کو بدلنے کی کوششوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔مہمند ایجنسی میں نیٹو حملے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید تناو کا شکار ہو گئے ہیں اور مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دونوں جانب سے سخت بیان بازی ان کو شدید مشکلات سے دوچار کر سکتی ہے۔نیٹو کے فضائی حملے کے بعد افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کو پاکستان کے راستے رسد کی ترسیل منقطع کرنے کے علاوہ حکومت نے صوبہ بلوچستان میں شمسی ایئر بیس کو بھی امریکہ سے خالی کروا لیا ہے۔مزید برآں سرحدی علاقوں میں تعینات پاکستانی فوجیوں کو افغانستان کی جانب سے مستقبل میں کسی نیٹو حملے کا بھرپور جواب دینے کے احکامات جاری کرتے ہوئے سرحد پر اطلاعات کے مطابق فضائی دفاعی نظام بھی فعال کیا جا چکا ہے۔امریکہ افغان جنگ میں پاکستان کے کلیدی کردار کا اعتراف کرتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کو جلد از جلد معمول پر لانے کی اہمت پر زور دے رہا ہے۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ نیٹو کا حملہ ”غیر ارادی“ تھا اور اس کی تحقیقات مکمل ہونے تک اس پر باضابطہ معذرت کے پاکستانی مطالبات قبل از وقت ہیں۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے امریکا نے پاکستان کے قبائلی میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف کا ڈرون حملے روک دیئے ہیں۔ایک امریکی جریدہ کا کہناہے کہ امریکی حکام کو خدشہ ہے اس وقت ڈرون حملے دونوں ملکوں کے پہلے سے کشیدہ تعلقات کومزید خراب کردیں گے۔ایک امریکی اہلکار نے امریکی اخبار کو بتا یا کہ خدشہ یہ ہے کہ ڈرون کا ایک اور حملہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن کی جانب لے جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ ہم پاکستان کو کس حد تک دباو میں لاسکتے ہیں اور وہ کس حد تک دباوبرداشت کرنے پر آمادہ ہے۔ایک اور اہلکار نے واضح کیا کہ ڈرون حملے روک دیئے گئے ہیں تاہم وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ اگرہدف کو نشانہ بنانے کا موقع ملا تو حملہ کیا جاسکتا ہے۔بلوچستان میں شمسی ایئربیس کو خالی کرنے کا امریکی فیصلہ پاکستان کے لیے ایک بڑی سیاسی جیت قرار دی جا رہی ہے لیکن اعلٰی حکومتی عہدے داروں نے اعتراف کیا ہے اس پیش رفت کے قبائلی علاقوں میں امریکہ کے ڈرون حملوں کی متنازع مہم متاثر ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔پاکستان نے 26 نومبر کو اپنی سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے مہلک حملے پراحتجاج کرتے ہوئے افغانستان میں غیر ملکی افواج کی سپلائی لائن کاٹنے اور امریکہ کو 15 روز میں شمسی ایئربیس خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا تھا۔امریکی اہلکاروں نے کوئٹہ سے 320 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع اس ہوائی اڈے سے اپنا انخلا مکمل کر لیا جس کے بعد شمسی ایئربیس پاکستانی فوج نے اپنے کنٹرول میں لے لی۔لیکن وزیر داخلہ رحمٰن ملک کہتے ہیں کہ امریکہ خود یہ بیان دے چکا ہے کہ ڈرون حملوں کے لیے اس نے دوسرے اڈوں کا بندوبست کر رکھا ہے۔گزشتہ اتوار کی شب اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ڈرون طیاروں کی مہم کے بارے میں خیال آرائی قبل از وقت ہو گی کیونکہ امریکہ کے پاس افغانستان میں بھی اڈے موجود ہیں جبکہ ان کے کنٹرول کا نظام امریکی ریاست ایریزونا میں قائم ہے۔”ظاہر ہے ان کے مخلتف ایئر بیسز ہیں۔ آپ نے (امریکہ کا) یہ بیان بھی دیکھا کہ اگر ہمیں (امریکہ کو) کچھ کرنا ہو گا تو ہمارے پاس اڈے ہیں۔ ہم سب کا بنیادی مطالبہ تھا کہ شمسی ایئر بیس کسی غیر ملکی طاقت کے پاس نہیں ہونا چاہیئے تھا، وہ پورا ہو چکا ہے۔ جہاں تک یہ پیش گوئی کرنا کہ اس کے بعد شاید ڈرون حملے بند ہو جائیں گے اس پر میں کہنے سے قاصر ہوں کیوں کہ یہ فیصلہ کسی اور (امریکہ) کو کرنا ہے اور وہ پہلے بھی ہماری کون سی بات سنتے رہے ہیں۔“پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف ڈرون سے مبینہ امریکی میزائل حملوں میں حالیہ برسوں میں بہت تیزی آئی ہے۔ لیکن مہمند ایجنسی میں پاکستانی فوجی چوکیوں پر نیٹو کے حملے کے بعد سے یہ سلسلہ بظاہر رک چکا ہے۔آخری ڈرون حملہ 17 نومبر کو شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں کیا گیا تھا جس میں اطلاعات کے مطابق چھ مشتبہ جنگجو ہلاک ہوئے تھے اور تب سے آج تک پاکستانی قبائلی علاقوں میں امریکی میزائل حملہ نہیں کیا گیا ہے۔2004ءمیں شروع ہونے والی ڈرون حملوں کی اس مہم میں پہلی مرتبہ اتنا طویل وقفہ آیا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ڈرون کہلانے والے بغیر پائلٹ کے طیاروں سے میزائل حملوں میں افغان سرحد سے جڑے پاکستانی قبائلی علاقوں میں القاعدہ، افغان طالبان اور ان کے مقامی حامیوں کے کئی اہم کمانڈروں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔لندن میں قائم غیر سرکاری تنظیم ’بیورو آف انوسٹی گیٹیو جرنلزم‘ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی قبائلی پٹی پر امریکی ڈرون حملوں کی تعداد 300 سے تجاوز کر چکی ہے۔لیکن ان کارروائیوں میں بے گناہ شہریوں بالخصوص عورتوں اور بچوں کی ہلاکت کی اطلاعات نے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کو بھی بھڑکایا ہے۔تاہم نیٹو کے حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستانی فوجی اور سیاسی رہنماوں نے عندیہ دیا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی نوعیت کے طیارے کو مارگرانے کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔وزیر داخلہ رحمن ملک کہتے ہیں کہ مئی میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی آپریشن کے بعد پارلیمان کی مشترکہ قراداد میں بھی مستقبل میں کسی بھی فضائی کارروائی کا جواب دینے کی منظوری دی گئی تھی۔”تو ڈرون آئے یا کوئی اورچیز آئے، جب یہ فیصلہ ہوا ہے کہ ہم نے جواب دینا ہے تو انشااللہ جواب دیا جائے گا۔ ہماری مسلح افواج، حکومت اور اس کے جتنے ادارے ہیں ان کے پاس ان معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہے۔اے پی ایس