وفاقی دارالحکومت کا طرز حکمرانی۔چودھری احسن پر یمی




سماجی تحفظ کی تنظیموں کا بڑی حد تک پھیلانا ناگزیر ہے تاکہ متعلقہ لوگوں کو ان میں شامل کیا جاسکے اور بلا امتیاز کے ان کا ایسے لوگوں پر اطلاق کیا جاسکے۔حکومت اس امر کو باعث اطمینان بنائے کہ متعلقہ لوگوں کو معقول تعلیم،صحت و صفائی سے متعلق خدمات فراہم کی جارہی ہیں یا نہیں وہ وسائل فراہم کرے گی جن کی مدد سے وہ ایسی خدمات تشکیل دے سکے اور اپنی ذمہ داری و کنٹرول کے تحت فراہم کر سکے تاکہ وہ اعلی ترین معیارات کی جسمانی و ذہنی صحت سے لطف اندوز ہوسکیں۔نیز ایسے اقدامات بھی ناگزیر ہیں جن سے متعلقہ لوگوں کو حصول علم کے مواقع تمام سطحوں پر کم از کم ملک کے باقی لوگوں کی برابری کی سطح پر فراہم کئے جاسکیں۔متعلقہ لوگوں کیلئے تعلیمی پروگرام اور خدمات کو ترقی دی جائے اور ان ہی کے تعاون سے ان کی خصوصی ضروریات پوری کرنے کیلئے انہیں عملی طور پر شروع کیا جائے ان میں ان کی تاریخ ان کے علم اور ٹیکنالوجی اور اقدا ر کے نظام،مستقبل میں ان کی سماجی،معاشی اور ثقافتی امنگوں اور آرزوں کو شامل کیا جائے۔نیز مجاز اتھارٹی اس بات کو یقینی بنائے کہ ان لوگوں کے اراکین کی تربیت اور تعلیمی پروگراموں کی تشکیل اور ان کے عملی آغاز میں ان کی شرکت لازمی ہو اور یہ بات پیش نظر ہو کہ ان لوگوں کیلئے ان پروگراموں کو موزوں طریقہ سے شروع کر نے کی ذمہ داری ان تک منتقل کی جاسکے۔وفاقی درالحکومت اسلام آباد میں سب سے متحرک غیر سرکاری تنظیم سنٹر برائے سوک ایجوکیشن کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے جو وہ ملکی،علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تمام انسانی حقوق کے فروغ اور انسان دوست سرگرمیوں کیلئے ادا کر رہی ہے نیز پاکستان کے عوام ،سنٹر برائے سوک ایجوکیشن کے ظفر اللہ خان کے اس کردار کو بھی سراہتے ہیں جو وہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے تحفظ اور فروغ کے معاملات میں تربیت اور تحقیق کے حوالے سے ادا کر رہے ہیں۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ معیار طے کرنے کی پہلی ذمہ داری ریاست کی ہے جو غیر سرکاری تنظیموں کے اس عمل میں شریک ہونے کو بنظر تحسین دیکھے۔سنٹر برائے سوک ایجوکیشن مسلسل مکالمہ کی اہمیت اورسرکار اور شہریوں کے درمیان تعاون پر زور دیتی ہے اس مناسبت سے حسب روایت گزشتہ دنوںوفاقی دارالحکومت کے طرز حکمرانی کے موضوع پر ہونے والی گول مےز کانفرنس کے شرکاءنے متفقہ طورپر اس بات کی ضرورت پر زور دےا ہے کہ اسلام آباد کو منتخب مقامی حکومت اورانتظامی ڈھانچوں مےں مطابقت پےدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔تا کہ تےزی سے بڑھتی آبادی کی بنےادی ضرورےات پوری کی جا سکےں۔ کانفرنس کا انعقاد سنٹر برائے سوک اےجوکےشن اور فورم آف فےڈرےشنزنے کےا جس مےں اسلام آباد کےپٹل ٹےرٹری اےڈمنسٹرےشن، کےپٹل ڈوےلپمنٹ اتھارٹی، کےپٹل اےڈمنسٹرےشن اور ڈوےلپمنٹ ڈوےژن، فےڈرل ڈائرےکٹورےٹ آف اےجوکےشن کے اعلیٰ عہدےداروں کے علاوہ پرائےوےٹ سکولز نےٹ ورک، طلباءاور شہرےوں نے شرکت کی۔سنٹر برائے سوک اےجوکےشن کے اےگزےکٹو ڈائرےکٹر ظفراللہ خان نے وفاقی دارالحکومت کے طرز حکمرانی کے حوالے سے اپنی گفتگو مےں کہا کہ اسلام آباد مےں کےپٹل ٹےرٹری اےڈمنسٹرےشن ہے، کےپٹل اےڈمنسٹرےشن اور ڈوےلپمنٹ ڈوےژن ہے، کےپٹل ڈوےلپمنٹ اتھارٹی ہے لےکن اےسا معلوم ہوتا ہے جےسے ےہ تمام ادارے آپس مےں حالت جنگ مےں ہےں۔انہوں نے کہاکہ اسلام آباد کی ہائی کورٹ ہے، ڈسٹرکٹ کورٹس ہےں اور دوسرے ترقےاتی کاموں کے لئے بھی ادارے ہےں مگر منتخب مقامی حکومت نہےں ہےں۔ انہوں نے ےہ سوال اٹھاےا کہ آخر اسلام آبادمےں مقامی حکومت کے حوالے سے آئےن آرٹےکل 140-A کا اطلاق کون کرے گا۔ ماحولےاتی معےارات اور ترقےاتی پراجےکٹس کی شرح بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زےادہ تر ترقےاتی پراجےکٹ ماحولےاتی تحفظ کو مد نظر نہےں رکھتے ۔وفاقی سےکرٹری کےپٹل اےڈمنسٹرےشن اےنڈ ڈوےلپمنٹ ڈوےژن امتےاز عنائت الہی شروع سے شہرےوں کے موقف کہ ےہاں پر منتخب مقامی حکومتوں کی ضرورت ہے سے متفق نظر نہےں آتے تھے مگر بعد ازاں انہوں نے کہا کہ مےں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ترقےاتی کاموں مےں مقامی آبادی کی شراکت کے لئے باقاعدہ اداروں کا ہونا ضروری ہے۔ تا ہم انہوں نے ےہ بھی کہا کہ اسلام آباد کی کسی بڑی تبدےلی کی ضرورت نہےں ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اےک عالمی معےار کا شہر ہے۔اسلام آباد کے ماسٹر پلان مےں بنےادی خامےوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فےصل سخی بٹ نے کہا کہ اےک موئثر پبلک - پرائےوےٹ پارٹنر شپ کے بغےر اس شہر کو چلانا تقرےباََ نا ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ طرز حکمرانی اس شہر کا اےک اہم مسئلہ ہے کےونکہ ےہ شہر اتنی زےادہ آبادی کے لئے نہےں بناےا گےا تھا۔ نکاسی آب مےں کافی مسائل ہےں کےونکہ گزشتہ چند برسوں مےں اس شہر کی آبادی مےں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس کے تناظر مےں ماسٹر پلان مےں تبدےلےاں لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزےد کہا کہ لےنڈ مافےا نے صورتحال اور بھی خراب کر دی ہے۔ اےک اور اہم اےشو جو زےر بحث آےا وہ غےر قانونی مدرسوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے حوالے سے تھا۔ پرائےوےٹ سکولز نےٹ ورک کے ڈاکٹر افضل بابر نے کہا کہ مفت تعلےم کی مد مےں اکٹھی کی جانے والی عطےات اور فنڈز کا آڈٹ بھی ضروری ہے۔انہوں نے اسلام آباد میں تعلیمی انحطاط پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں اس وقت چار نظام تعلیم چل رہے ہیں ۔اس میں ایک ملین یعنی دس لاکھ جو پانچ تا دس سال پر محیط ہے۔اس میں بڑے تین جبکہ ایک فیڈرل ڈائریکٹو ریٹ آف ایجو کیشن کنٹرول کرتا ہے۔دوسرا نجی سکولز جنہیں مشرف دور 2006 میں ایک آرڈیننس کے تحت ایک ریگولیٹر اتھارٹی کام کرتی ہے تیسرا بڑا مدارس مساجد کے پاس ہے۔انہوں نے کہا کہ حالیہ ایک سروسے کے مطابق اسلام آباد کے پانچ سو مدارس میں تیس ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں انہوں نے کہا کہ ایک اور ایریا سول سوسائٹی کی این جی اوز اور ملٹی نیشنل جنہیں بلوچستان جیسا ماحول مل جاتا ہے اور آئی سی ٹی میں ہی ڈونرز کیلئے PC1 بنا لیتے ہیں۔جنہیں غیر رسمی سکول کہا جاتا ہے۔چار مختلف طبقے اسلام آباد کے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں ان کی مزید ڈویژن کی بات کریں تو بڑی ناانصافی ہے ان چار طبقات کے ہوتے بھی ایک لاکھ پچاس ہزار بچے اس نظام تعلیم میں شامل نہیں۔انہوں نے کہا کہ سترہ تا بیس لاکھ کی آبادی کے شہر میں یکساں نظام تعلیم اور یکساں نصاب بارے سٹیک ہولڈر کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں۔اتنے ادارے ہونے کے باوجود اسلام آباد کے ڈیڑھ لاکھ بچوں کا تعلیم حاصل نہ کرنا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔اس کے علاوہ ڈائرےکٹر ٹرےننگ آف فےڈرل ڈائرےکٹورےٹ آف اےجوکےشن کے پروفےسر وقار اشرف ، اےڈےشنل کمشنر اسلام آباد ڈاکٹر اختشام انور، ڈائرےکٹر جنرل سول مےنجمنٹ راول خان ، ڈاکٹر فوزےہ سعےد اور فےاض باقر نے خےالات کا اظہار کےا۔اے پی ایس