محاذآرائی ا ب سنگین سطح پر۔چودھری احسن پر یمی



صدر آصف علی زرداری کی دوبئی سے وطن واپسی پر اخبار نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ ان کی یہ واپسی ان کے حامیوں کی اس تشویش کے تناظر میں ہوئی ہے۔ کہ فوج ملک کے انتظامی امور میں اپنا کردار بڑھانا چاہتی ہے۔اور اخبار کے خیال میں فوج کے دباو میں سپریم کورٹ نے یہ معلوم کرنے کے لئے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے ۔ کہ اکتوبر میں منظر عام پر آنے والے اس بغیر دستخط کے میمورنڈم کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا ۔ جس میں اوبامہ انتظامیہ سے فوج کا اثرو نفوذ کم کرنے اور مئی میں اوسامہ بن لادن کی امریکی حملے میں ہلاکت کے پس منظر میں امکانی فوجی انقلاب کو روکنے کے لئے مدد مانگی گئی تھی۔ اخبار کہتا ہے کہ تین سال قبل مسٹر زرداری کے برسراقتدار آنے کے بعد اس مقدّمے کی وجہ سے سولین حکومت اور فوج کے درمیان سب سے زیادہ انتہا درجے کا تناو پیدا ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اخبار کا خیال ہے کہ امریکہ کی ان کوششوں میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ جو وہ بن لادن کی ہلاکت اور پچھلے ماہ کے فضائی حملے کی وجہ سے پاک امریکی باہمی تعلّقات میں پیدا شدہ بحران کو سلجھانے کے لئئے کر رہا ہے۔ افغان سرحد پر اس فضائی حملے میں پاکستان کے 26 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس بحران کی وجہ سے ملک کے امور میں پاکستانی فوج کے ہاتھ مضبوط ہو گئے ہیں۔ اور جیسا کہ سیاسی تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ فوجی اور سویلین قیادت کا ایک دوسرے سے ٹکراو پیدا ہو گیا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ اس سیاسی ڈرامے میں ملک سے مسٹر زرداری کی غیرموجودگی نے اضافہ کر دیا۔ جو طبی علاج کے لئے 6 دسمبر کو دوبئی چلے گئے تھے۔ اور ان کے رفیق اب کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے خلاف الزامات کو چیلنج کر نے لئے واپس کراچی پہنچ گئے ہیں۔ ان کی واپسی پر بعض سیاسی تجزیہ کاروں نے بقول اخبار یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ سویلین عہدہ داروں نے شائد اس بات پر سمجھوتہ کر لیا ہو ۔ کہ خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسی کے علاوہ قومی امور پر فوج کا وسیع تر اثر ہونا چاہئے۔ چا ہے وہ در پردہ ہی کیوں نہ ہو۔ اخبار نے پاکستانی اور مغربی سفارت کاروں کے حوالے سے بتایا ہے۔ کہ اب فوجی انقلا ب کا امکان نہیں ہے۔باوجودیہ کہ بدعنواں اور نا اہل سول انتظامیہ پر مایوسی ہے۔فوجی جرنیلوں کا ایک ایسے وقت میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی طرف میلان نہیں ہے۔ جب معیشت کا برا حال ہے۔ توانائی کی سنگین کمی ہے۔ اور انتہا پسندی زوروں پر ہے۔ اور جنرل کیانی کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد وزیر اعظم گیلانی نے فوج کے ساتھ اختلافات کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا۔ لیکن اس کے باوجود اخبار نے بعض تجزیہ کاروں اور عہدہ داروں کے حوالے سے بتا یا ہے ۔ کہ آنے والے دنوں میں فوج اور سویلین حکومت کے مابین اختلافات بڑھ جانے کا امکان ہے۔اخبار نے ایک سرکاری عہد ہدار کے حوالے سے۔ جسے اس تنازع پر اعلانیہ بات کرنے کا اختیار نہیں بتا یا ہے کہ فوج اور اور سویلیں حکومت کے موقّف ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اور دونوں بیک وقت صحیح یا غلط نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ محاذآرائی ا ب سنگین سطح پر پہنچ چکی ہے ۔ اخبار کہتا ہے کہ فوج پہلے ہی حسین حقّانی کو نکلوانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ جنہوں نے 9 نومبر کو سفارت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اخبار کہتا ہے کہ بعض پاکستانی اور مغربی عہدہ داروں نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ اگر مسٹر زرداری پاکستان واپس آئے تو وہ محض بے نظیر بھٹّو ی وفات کی چوتھی برسی پر حاضر ہونے کی غرض سے ہوگا۔ جس کے بعد وہ بحا لی صحت کے لئے لندن یا دوبئی جائیں گے۔ اخبار کہتا ہے کہ نہ تو مسٹر زرداری اور نا ہی ان کے معاونین نے کہاہے کہ ان کا قیام کتنے عرصے کا ہوگا۔ البتہ سندھ کی وزیر اطلاعات شازیہ مری نے بتایا ہے ۔ کہ صدر زرداری تندرست ہیں ۔ لیکن ڈاکٹروں کے مشوروں کی روشنی ہی میں ان کی اگلے چند روز کی مصروفیات طے کی جائیں گی۔صدر آصف علی زرداری نے دبئی سے واپسی کے بعد معمول کی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ واپسی کے پہلے دن کراچی میں انھوں نے صوبہ سندھ کے گورنر عشرت العباد، وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اور سینیٹ کے چیئرمین فاروق ایچ نائک سے ملاقاتیں کیں۔یہ ملاقاتیں صدر زرداری کی اپنی ذاتی رہائش گاہ بلاول ہاوس میں ہوئیں، جسے صدارتی کیمپ آفس کا درجہ بھی حاصل ہے۔سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے مناظر میں صدر مملکت بظاہر پر سکون دیکھائی دیے۔ادھر صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ ترکی کے صدر عبداللہ گل نے بھی پہلے دن دوپہر اپنے پاکستانی ہم منصب سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے ان کی خیریت دریافت کی۔صدر زرداری عارضہ قلب کی علامات ظاہر ہونے کے بعد 6 دسمبر کی شب علاج کی غرض سے اچانک دبئی روانہ ہو گئے تھے، جہاں ان کے طبی معائنوں اور جائزوں کے نتائج کو معالجین نے نارمل قرار دیا تھا۔ان کی بیرون ملکی روانگی کے بعد ہر قسم کی قیاس آرائیوں کا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا، جس میں ان کے مستعفی ہونے کے امکانات بھی شامل تھے۔تاہم صدر زرداری کی وطن واپسی پر حکمران پیپلز پارٹی کے نمائندوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اب قیاس آرائیوں کا یہ سلسلہ بند ہو جانا چاہیئے۔واپسی کے پہلے دن پیر کی علی الصبح دبئی سے صدر آصف علی زرداری کی واپسی کے بعد کراچی شہر کے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن جانے کا امکان بہت بڑھ گیا ۔مبصرین کہتے ہیں کہ صدر آصف علی زردری آنے والے دنوں میں سیاسی گھتیاں سلجھانے میں مصروف رہیں گے۔ اسی عرصے میں مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان لوگوں کی حمایت سمیٹنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے حلقوں کے مطابق ڈاکٹروں نے صدر زرداری کو آرام کا مشورہ دیا ہے مگر انہیں کئی معاملات نمٹانے ہیں جو ان کی واپسی تک کے لیے موخر کر دیے گئے تھے۔صدر کی جانب سے تا حال میمو گیٹ کیس میں جواب دائر نہیں کیا گیا۔ امکان ہے کہ ستائیس دسمبر کو بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر وہ وہ اپنا موقف پیش کریں گے۔سندھ میں بلدیاتی نظام پر پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان کسی فارمولے پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ اس حوالے سے بھی صوبائی قیادت کی نگاہیں صدر کے کسی فیصلے کی منتظر ہیں اور ایم کیو ایم کے وفد کی رواں ہفتے میں صدر سے ملاقات کے امکان ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ایم کیو ایم کی صوبائی حکومت کی واپسی کے بعد سندھ میں وزارتوں کی تقسیم پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق میں اختلافات موجود ہیں۔ مسلم لیگ ق کے وزراءسے ماحولیات، نوجوانوں کے امور اور دیگر کچھ وزارتیں واپس لیکر ایم کیو ایم کے وزرا کو دی گئیں تھیں، جس پر مسلم لیگ ق کی صوبائی قیادت نے اپنے تحفظات سے مرکزی قیادت کو آگاہ کردی تھا۔ ان ڈوریوں کو بھی صدر زرداری نے سلجھانا ہے۔مسلم لیگ نے کے سربراہ میاں نواز شریف بھی گزشتہ پیر کو کراچی پہنچے تھے اپنے تین روزہ قیام کے دوران انھوں نے تاجروں، وکلا، سول سوسائٹی کے نمائندوں سے ملاقاتیں کی ہیں یہ ملاقاتیں ہوٹلوں اور نجی رہائش گاہوں میں رکھی گئیں مگر کوئی عوامی اجتماع منعقد نہیں کیا گیا ۔اس سے پہلے وہ صدر زرداری کی دبئی میں موجودگی کے وقت لاڑکانہ میں جلسہ کرچکے ہیں۔ میاں نواز شریف نے صدر زرداری کی صحتیابی کے لیے نیک تمناو ¿ں کا اظہار کیا تھا۔ کراچی میں موجودگی کے دوران وہ ان کی مزاج پرسی کو جائیں گے یہ ابھی واضح نہیں ہے۔بعض تجزیہ نگار میاں نواز شریف کی کراچی میں سرگرمیوں کو تحریک انصاف کے جلسہ کے تناظر میں بھی دیکھتے ہیں۔ مصبرین کا کہنا ہے کہ وہ تین روز میڈیا میں رہ کر شہر میں اپنی اور پارٹی کی موجودگی کا ثبوت دینا چاہتے ہیں۔عمران خان پچیس دسمبر کو کراچی میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے مزار کے قریب جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔ اس حوالے سے شہر کی بڑی شاہراہوں پر بل بورڈ اور بینر آویزاں کیے گئے ہیں، جبکہ موبائل ٹیلیفون پر بھی عمران کی آواز میں پیغامات بھیجے جا رہے ہیں۔میاں نواز شریف اور عمران خان اس وقت تک سندھ کی کسی بڑی شخصیت کو اپنی جماعت میں لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ وہ ایوان کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ ملک میں کبھی کوئی مارشل لا لگے گا اور نہ کوئی غیر جمہوری عمل ہوگا اور نا کوئی نگران یا ٹیکنو کریٹ حکومت ہوگی۔یہ بات انہوں نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کہی۔وزیراعظم نے اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کی جانب سے جمہوریت کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے
کے بیانات کو سراہا اور اپوزیشن کو مشورہ دیا کہ ’جو کچھ ہونا نہیں تو اس کے لیے ہمیں ضرور سوچنا چاہیے کہ اس قسم کا موقع فراہم نا کریں جس سے خدا نا خواسطہ اس ملک میں جمہوریت پٹڑی سے اتر جائے۔‘وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں اگر کوئی نظام ہوگا تو وہ پارلیمانی نظام ہوگا۔ ان کے بقول جمہوریت کے لیے کارکنوں نے جان کی قربانیاں دی ہیں اور سیاسی رہنماوں نے بھی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب جمہوریت نہیں ہوتی تو تمام جماعتیں جمہوریت کی بحالی کی بات کرتی ہیں لیکن جب ہوتی ہے اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔قبل ازیں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اس اسمبلی کا کیا کریں جو کمزور ہوگئی ہے؟ کیا یہ ملٹری سٹیٹ ہے۔۔ کیا نظام فوج کی مرضی پر ہے۔۔آرمی چیف ملاقات کے لیے آئیں گے تو معاملہ ٹھیک ہوگا۔۔ کیا حکومت اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ وزیراعظم کو آرمی چیف سے ملاقات کرنی پڑی؟۔انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کہتے ہیں کہ میمو حقیقت ہے، منصور اعجاز کے بارے میں آئی ایس آئی چیف کہتے ہیں کہ جو ثبوت ملے ہیں وہ کافی ہیں۔ لیکن وزیراعظم جب میمو کو ‘نان ایشو‘ کہتے ہیں تو اس پر انہیں اعتراض ہے۔ جس پر ایوان میں بعض اراکین نے نعرے لگائے کہ ‘جو امریکہ کا یار ہے وہ غدار ہے’۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ میمو کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایسے میں چند ریٹائرڈ جرنیلوں کے بیان پر وزیراعظم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں؟۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو طاقت آرمی چیف کی ملاقات، آئی ایس آئی اور امریکی جنرل کے بیان سے نہیں ملے گی، لیکن اس ایوان سے ملے گی۔ ’ہم پارلیمان اور عوام کو لکھ کر دیتے ہیں کہ اگر کوئی غیر جمہوری قوت نظام کے خلاف آئے گی تو ہم ان کے خلاف کھڑے ہوں گے۔اے پی ایس