دوہزار گیارہ بھی صحافیوں کیلئے قاتل سال رہا۔چودھری احسن پر یمی








اے پی ایس نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 2011ءدنیا بھر میں صحافیوں کے لیے مہلک ترین ثابت ہوا جس میں مجموعی طور پر 106 صحافی ہلاک ہوئے، جب کہ 2010ءمیں یہ تعداد 105 تھی۔مرنے والوں میں وہ 20 صحافی بھی شامل ہیں جو اس سال کے اوائل میں عرب ملکوں میں شروع ہونے والی عوامی بغاوت کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔جینیوا میں قائم ’ پی ای سی کی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 100 سے زائد صحافیوں پر حملے کرکے انھیں ڈرایا دھمکایا گیا، گرفتار کیا گیا اور انھیں زخمی کیا گیا۔ جن ملکوں میں یہ واقعات پیش آئے ان میں مصر، لیبیا، شام، تیونس اور یمن شامل ہیں۔تنظیم کا کہنا ہے کہ پاکستان اور میکسیکو گزشتہ سال صحافت کے لیے خطرناک ترین ممالک ثابت ہوئے۔پی ای سی کے مطابق 2011ءمیں میکسیکو میں 12 صحافی ہلاک ہوئے جو ملک کے شمال میں فوج اور منشیات فروشوں کے گروہوں کے درمیان لڑائی کا شکار ہوئے۔ جب کہ پاکستان اس لحاظ سے دوسرے نمبر پر رہا جہاں 11 صحافی مارے گئے جن کی اکثریت افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض ادا کرتے ہوئے ہلاک ہوئی۔اس کے بعد عراق، لیبیا اور فلپائن کا نمبر رہا۔ لیبیا میں کرنل معمر قذافی کے خلاف کامیاب بغاوت کے دوران سال کے اوائل میں سات صحافی ہلاک ہوئے۔پی ای سی کا کہنا ہے کہ دو تہائی صحافیوں کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا، بالخصوص لاطینی امریکہ میں جہاں آزادی صحافت کو خطرہ رہا۔ جبکہ دیگر کی ہلاکت حادثاتی طور پر مظاہروں، لڑائی، خودکش یا پھر بارودی سرنگوں کے دھماکوں میں ہوئی۔تنظیم کے اعلٰی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ”دنیا بھر میں آدھ درجن صحافیوں کی ہلاکت کے محرکات تاحال واضح نہیں ہیں“۔دریں اثناءنیویارک میں قائم صحافیوں کے حقوق کی علم بردار بین الاقوامی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ یا سی پی جے نے جاری کی گئی اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال دنیا بھر میں کم از کم 43 صحافیوں کو براہ راست ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے باعث ہلاک کر دیا گیا، جب کہ 35 دیگر صحافیوں کی ہلاکت کی تحقیقات تاحال جاری ہیں۔سی پی جے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2011ءمیں سات صحافیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان مسلسل دوسرے برس بھی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے لیے مہلک ترین ملک ثابت ہوا ہے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ رواں سال صحافیوں کو باقاعدہ ہدف بنا کر قتل کرنے کی شرح میں کمی ہوئی لیکن پاکستان میں ہلاک ہونے والے سات میں سے پانچ صحافی اس ہی انداز میں مارے گئے، اور متعلقہ ادارے کسی ایک بھی واقعے میں ملوث عناصر کو تاحال بے نقاب نہیں کر سکے ہیں۔اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی پی جے کی تحقیق کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بالعموم صحافیوں کے قاتل سزا سے بچ نکلتے ہیں۔پاکستان کی صحافی برادری اپنے ساتھیوں کے قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کی کارکرگی کو ہدف تنقید بناتی آئی ہے۔البتہ حکومت کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو درپیش دوران کار خطرات میں کمی کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن ان کے تحفظ کی ذمہ داری بنیادی طور پر ان کے اپنے اداروں پر عائد ہوتی ہے۔وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک سمیت حکومت کے دیگر اعلیٰ عہدے دار صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی غیر جانبدارانہ اور فوری تحقیقات کے دعوے تو کرتے آئے ہیں لیکن پچھلے حکمرانوں کی طرح پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت بھی بار بار مطالبات کے باوجود شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی حیات اللہ کے قتل کی اس تحقیقاتی رپورٹ کو منظر عام پر لانے سے گریزاں ہیں جو پشاور ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں دسمبر 2006 میں مرتب کی گئی تھی۔مبصرین کے خیال میں صحافیوں کی ہلاکت میں اضافے کی بڑی وجوہات میں پہلے خبر کے حصول کی کوشش، شورش زدہ علاقوں میں پیشہ وارانہ فرائض انجام دینا اور متنازع امور پر کھل کر رپورٹنگ شامل ہے۔صحافیوں کے حقوق کی ایک تنظیم نے کہاہے کہ اس وقت جیلوں میں قید صحافیوں کی تعداد گذشتہ 15 سالوں کے دوران سب سے زیادہ ہے جب کہ زیادہ تر صحافیوں کو پابند سلاسل رکھنے والے ممالک میں ایران، اری ٹیریا اور چین سب سے آگے ہیں۔تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ ‘ کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال یکم دسمبر کو دنیا بھر میں 179 قلم کار، ایڈیٹر، اور فوٹوجرنلسٹ جیلوں میں بندتھے، جب کہ گذشتہ سال اسی تاریخ کو دنیا بھر میں زیر حراست صحافیوں کی تعداد صرف 34 تھی۔امریکہ میں قائم تنظیم کا کہناہے کہ ایران میں 42 صحافی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور ایران مسلسل دوسرے سال صحافیوں کو قید رکھنے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر ہے۔اس فہرست میں دوسرے نمبر پر اری ٹیریا ہے جہاں جیلوں میں پڑے صحافیوں کی تعداد 28 ہے ، جب کہ 24 صحافیوں کے ساتھ چین تیسرے اور 12 کے ہندسے کے ساتھ برما چوتھے نمبر پر ہے۔ اس کے بعد ویت نام ہے جہاں صحافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کی تعداد 9 ہے۔صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کی تنظیم سی پی جے کا کہناہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں قید صحافیوں کی تعداد میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 50 فی صد اضافہ ہوا ہے۔تنظیم کا کہناہے کہ اس تعداد میں اضافہ شام میں پکڑ دھکڑ کی سرکاری کارروائیوں کے نتیجے میں ہوا ہے جہاں قیدی صحافیوں کی تعداد 8 ہے۔تنظیم کا کہناہے کہ زیادہ تر صحافیوں کو سینسر کے قوانین کی خلاف ورزی کے تحت ریاست دشمنی کے الزامات میں پکڑا گیا گیاہے۔سی پی جے کا کہناہے کہ اس تعداد میں وہ صحافی شامل نہیں ہیں جنہیں جرائم پیشہ گروپوں یا عسکریت پسندوں نے یرغمال بنا رکھاہے۔آزادیِ صحافت کی علمبردار ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم نے پاکستان کوصحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا ہے جہاں گزشتہ سال کم ازکم آٹھ صحافی ہلاک ہو ئے۔ 2010ءمیں دنیا بھر میں مجموعی طور پر 42 صحافی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ہلاک ہوئے اور پاکستان ان میں سرفہرست تھا۔تنظیم کے مطابق پاکستان میںصحافیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب ملک میں شدت پسند عناصر کی طرف خودکش حملوں اور تشدد کے دیگر واقعات میں تیزی آئی ۔ گزشتہ سال بھی افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں مقامی انتظامیہ اور طالبان مخالف گروہوں کے جرگے پر یک بعد دیگرے کیے گئے دو خودکش حملوں میں دو صحافی ہلاک ہو گئے تھے جب کہ اس سے قبل بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں یوم القدس کے سلسلے میں نکالے جانے والے جلوس میں بھی صحافی خودکش بم حملے کا نشانہ بنے۔گزشتہ سال کام سے متعلق ہلاکتوں کی بڑی وجہ ’قتل‘ رہی لیکن تقریباً 40 فیصد صحافی یا پر تشدد جھڑپوں کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے یا ان کی ہلاکت احتجاجی مظاہروں جیسی خطرناک صورتحال کے دوران ہوئی۔صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم رپورٹرز وِد آوٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ رواں سال پاکستان میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد 12 ہے۔اس سلسلے میںایک واقعہ ملک کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے شہر خضدار میں پیش آیا جہاں موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے مقامی صحافی محمد خان ساسولی کو ان کے گھر کے قریب قتل کر دیا۔ ان کے سر اور سینے پر چار گولیاں لگیں اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔محمد خان ساسولی ”رائل ٹی وی“ اور ”آئی این پی“ نیوز ایجنسی کے لیے کام کرتے تھے اور وہ مقامی پریس کلب کے صدر بھی تھے۔بلوچستان کئی دہائیوں سے علیحدگی پسند باغیوں کی جانب سے شروع کی گئی پرتشدد تحریک کی لپیٹ میں ہے اور حالیہ برسوں میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں تیزی آگئی ہے۔سی پی جے کے سربراہ جول سائمن (Joel Simon) کے مطابق گذشتہ برسوں کی نسبت 2010ءمیں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن یہ اب بھی ناقابل قبول حد تک زیادہ ہے اور یہ صحافیوں کو درپیش خطرات کی نشان دہی کرتی ہے۔ رواں سال ہلاک ہونے والے صحافیوں کی اکثریت سیاست، بدعنوانی، سماجی امور اور جنگ جیسے موضوعات پر کام کررہی تھی۔سال دوہزار نو میں دنیا بھر میں 71 صحافی ہلاک ہوئے تھے جب کہ 2008ءمیں یہ تعداد 41 تھی۔تنظیم کی جانب سے کیے گئے تجزیوں سے معلوم ہوا ہے کہ صحافیوں کے قتل کے لگ بھگ 90 فیصد واقعات میں ملوث افراد کا سراغ نہیں ملتا جب کہ یہ امر قابل غور ہے کہ متعدد صحافی اپنے قتل سے کئی ہفتوں پہلے ان کو ملنے والی دھمکیوں کی اطلاع متعلقہ حکام کو فراہم کر دیتے ہیں۔اس بارے میں رپورٹرز وِد آوٹ باڈرز کا کہنا ہے کہ 2002ءمیں کراچی میں امریکی صحافی ڈینیئل پَرل کی ہلاکت کے بعد صحافیوں کے قتل میں ملوث کسی مشتبہ شخص کے خلاف عدالتی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔حالیہ برسوں میں دہشت گردی کی لہر اور اس کے باعث صحافیوں کی مشکلات میں اضافے کے پیش نظر ملک میں مختلف تنظیمیں حکومت سے مطالبہ کرتی آئی ہیں کہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں موثر اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔اے پی ایس