عوام گونگے بہرے نہیں۔چودھری احسن پر یمی




قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ حکومت کو یقین دلاتے ہیں کہ ملک میں کسی غیر جمہوری اقدام کی حمایت نہیں کریں گے، اگر حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور گھر بھیجنے کیلئے غیر جمہوری اقدام کی حمایت کرنی ہوتی تو تین سال قبل کرتے، جب صدر زرداری ہم سے اور اسٹیبلشمنٹ سے وعدہ خلافی کر کے خود صدارتی امیدوار بن گئے تھے۔ حکومت دو تین ضمنی انتخابات کے نتائج سے خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو آنے والے الیکشن میں مقبولیت کا پتہ چل جانا ہے، یہاں ایک شخص خوبصورت ٹائی پہن کر ایوان میں نت نئے بیان دیتا ہے اور عوام کو گونگا بہرہ سمجھتا ہے عوام گونگے بہرے نہیں ہیں۔ جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ منتخب حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے سازشیں ہو رہی ہیں لیکن میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ہم حکومت میں رہیں یا اپوزیشن میں ہم عوام کے حقوق کے لئے لڑیں گے،ہم نوکری پیشہ ہیں نہ ہی نوکری کرنے آئے ہیں کہ تنخواہ بند ہو جائے گی ہم عوام کی خدمت کرتے رہیں گے،ملٹری سمیت تمام ادارے وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں ،کوئی خودکوقانون سے بالاترنہ سمجھے ،فوجیوں کی تنخواہیں دوگنی کیں،فوج خود کو ریاست کے اندرریاست نہ سمجھے،ایک غلامی سے نجات حاصل کرلی اگر ہم نے پھرغلامی ہی کرنی ہے تواس پارلیمنٹ کاکیا فائدہ ، حکومت سے پوچھاجاتا ہے غیرملکیوں کوویزے کیسے جاری کئے،ہم پوچھتے ہیں اسامہ کسی ویزے پرآیا اور 6 سال سے کیسے رہ رہاتھا ،قوم فیصلہ کرے وہ جمہوریت چاہتی یاآمریت، انہوں نے ان خیالات کا اظہارانہوں نے گزشتہ جمعرات کوپی این سی اے میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے یوم ولادت کے موقع پر تصاویری نمائش کی تقریب سے خطاب اورقومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثارکے نکتہ اعتراض کاجواب دیتے ہوئے کیا، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ فوج سمیت ریاست کے تمام ادارے وزیراعظم اور پارلیمنٹ کے تابع ہیں کوئی ادارہ یہ نہ سمجھے کہ وہ ریاست کے اندر ریاست ہے،انہیں قومی خزانہ سے تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں،قائداعظم نے آزاد ملک مانگا اگر ہم اسے آزاد نہیں رکھ سکتے اور عوام کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تو ہمیں حکومت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے،کوئی فوج عوام کی حمایت کے بغیر نہیں لڑ سکتی نہ کوئی جنگ عوام کی حمایت کے بغیر جیتی جا سکتی ہے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے پوری قوم کو آرمی ایکشن کی حمایت کے لئے اکٹھا کیا۔ انہوں نے کہاکہ میں پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین دورانیہ رکھنے والا وزیراعظم ہوں۔ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا دورانیہ 43 ماہ تھا میری حکومت کا دورانیہ 45 ماہ ہو گیا۔مجھے دکھ ہوا کہ ایک دن پہلے قائداعظم کے بارے میں یہ کہا گیا کہ انہوں نے بھی پارٹیاں تبدیل کیں،میرے والد کو بھی نااہل قرار دیا گیا۔ اب پھر وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کرپٹ ہیں ، وزیراعظم نے حاضرین سے سوال کیا کہ آپ بتائیں کہ کہاں سے لوگ درآمد کریں گے۔ ہم نہیں ہوں گے تو کوئی اور آئے گا ہو گا تو پاکستانی ہی۔ ریاست کے اندر ریاست نہیں چلے گی کوئی ادارہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ آزاد ہیں، قبل ازیں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار کی تقریرکا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے متذکرہ بالا باتیں ہی دہرائیں۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم کو سازشوں کا علم تھا تو پہلے کیوں نہیں بولے ، سازش یہ ہے کہ حکومت نے عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے، جب کوئی کیس عدالت میں آتا ہے تو جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا ڈراما کیا جاتا ہے، حکومت سپریم کورٹ کو بلیک میل کرنے کیلئے ڈرامے بازی کررہی ہے ، آصف زرداری کی زیر صدارت غیر جانبدار الیکشن ممکن نہیں۔جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک پر برا وقت لانے والوں کے جانے کا وقت آ گیا، انقلاب کیلئے لانگ مارچ سے بھی دریغ نہیں کریں گے ، پاکستان پر کوئی آنچ نہیں آنے دینگے، کچھ لوگ بچوں کو ورغلانے کیلئے میدان میں نکلے ہیں ،مہنگائی اوربیروزگاری نے عوام کی کمرتوڑدی،لوگوں کے گھروں کے چولہے بجھ گئے ،ملک کی حالت دیکھ کردل خون کے آنسو روتاہے ایٹمی ملک کی تذلیل کی جا رہی ہے، کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے۔ اس ملک کا موجودہ حکومت نے جو حشر کیا ہے وہ ناقابل برداشت ہے 18 کروڑ عوام کا ملک ہے جس میں نہ گیس، نہ بجلی ہے عوام گیس اور بجلی کیلئے روتے ہیں فیکٹریاں نہیں چلتیں، گھروں میں روشنی نہیں ہے، مہنگائی، بیروز گاری نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اقتصادی ترقی رک گئی ہے دو وقت کی روٹی کھانے سے عوام قاصر ہیں لیکن حکومت کو کوئی پرواہ نہیں۔ سارا پیسہ حکومت اس کے وزیر اور مشیر بنا رہے ہیں عوام کے خون پسینے کی کمائی جیبوں میں ڈال رہے ہیں۔جبکہ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ ملک کا بالادست ترین ادارہ ہے ‘جمہوریت اور جمہوری اداروں کے خلاف کی جانے والی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے، کسی غیر جمہوری قوت کوشب خون مارنے دیں گے نہ کسی کی ڈکٹیشن قبول کی جائے گی‘محکوم بننے کی بجائے عوام میں جانے کو ترجیح دیں گے‘ سپریم کورٹ میں میمو گیٹ پر صدر کی طرف کوئی بیان جمع نہیں کرایا جائے گا ‘ وفاق کا بیان ہی صدارتی بیان تصور ہو گا۔ ذرائع کے مطابق موجودہ سیاسی صورتحال اور حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدہ ترین صورتحال میں صدر اور وزیراعظم کی اس ملاقات کو بہت اہمیت حاصل ہے اور آئندہ کئی اہم سیاسی فیصلے سامنے آسکتے ہیں جن کے نتیجے میں ملک میں بہت بڑی تبدیلیاں بھی رونما ہو سکتی ہیں۔ذرائع کے مطابق صدر اور وزیراعظم میں ملاقات کے دوران اہم وفاقی وزراءاور پیپلز پارٹی کے بعض سینئر رہنما بھی شریک ہوئے اور اس دوران حکومت کے خلاف مبینہ سازشوں کی ذمہ دار بعض شخصیات کے خلاف فوری کارروائی سمیت کئی اہم فیصلوں پر غور کیا گیا ۔ صدر اور وزیر اعظم نے کہا کہ پارلیمنٹ ملک کا بالادست ادارہ ہے اور تمام ادارے پارلیمنٹ کے ماتحت ہیں ‘ پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ وزیر اعظم نے صدر کو میمو گیٹ معاملے کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی او رکہا کہ حکومت آئین اور قانون کے مطابق تمام فیصلے کرے گی،ذرائع کے مطابق ملاقات میں تمام صورتحال پراتحادیوں کو اعتما دمیں لینے اور اتفاق رائے سے چلنے کا فیصلہ کیا گیا۔ماہرآئین و قانون نے کہا ہے کہ وزیر اعظم سپریم کورٹ کو چیلنج کررہے ہیں،یہ ہے ریاست کے اندر ریاست،آرمی چیف نے پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ میں جواب داخل کرایا،فوج عدالت عظمیٰ کے احکامات کی تعمیل کررہی ہے جبکہ حکومت اسکی اتھارٹی چیلنج کررہی ہے،وزیر اعظم بتائیں کس نے ان کا کون سا حکم نہیں مانا۔ اس کی جو بنیادی بات ذہن میں رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس میموگیٹ میں فوج کے آرمی چیف نے پہلی دفعہ پاکستانی تاریخ میں جواب دیا ہے سپریم کورٹ میں۔ اس کے بعد دوسرا سپریم کورٹ کا آرڈر آیا۔ اس آرڈر میں یہ تھا کہ آپ حلفیہ بیان جمع کروائیں۔ اسی کی بھی تعمیل ہوگی۔ اور حلفیہ بیان فائل کرنے کی اہمیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اسٹیٹمنٹ ہوتی ہے Under Oath۔ باہر کے ممالک میں ہوتا ہے اگر اسٹیٹمنٹ انڈر اوتھ غلط ہوتو Purgeryکی کرمنل پراسیکیوشن بھی ہوسکتی ہے۔ اب آرمی چیف نے یہ دو بہت اہم اقدامات کئے ہیں جو انھوں نے پہلی دفعہ پاکستان کی تاریخ میں کیے ہیں۔ تو ان کی طرف سے تو مکمل تعمیل ہے پاکستان کے آئین کے ماتحت۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی تعمیل کرے گی یا نہیں کیوں کہ اس وقت جو بیانات آرہے ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی اتھارٹی چیلنج کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی دائرہ اختیار کوچیلنج کررہے ہیں۔ اگر اس وقت ریاست کے اندر ریاست ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ وزیر اعظم صاحب کی ریاست کے اندر ریاست ہے، انھوں نے کوئی ریاست بنائی ہوئی ہے ریاست کے اندر۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ ہم کورٹس کو Rule of lawکے تحت Accountableنہیں ہیں تو یہی تو Definitionہوتی ہے ریاست کے اندر ریاست کی۔ اسٹیٹ ود ان اسٹیٹ اس ادارے کو کہتے ہیں جوسمجھتا ہے کہ ہم قانون سے بالاتر ہیں۔ ہم پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ جس کو چاہیں ہم obeyکریں جس کو چاہیں ہم نہیں کریں لیکن یہاں تو بالکل الٹ چل رہا ہے معاملہ۔ ابھی موقع ہے وزیر اعظم صاحب کو کہ جو آرڈر پاس ہوئے ہیں اس کی تعمیل کریں یہ جو فریڈ م آف اسپیچ ہے آرٹیکل 19کے تحت ، یہ بہت ہی اہم اوربنیادی حق ہے۔ میڈیا کا بھی ہے ۔ پرائم منسٹر
آف پاکستان کا بھی ہے اور صدر پاکستان کا بھی، تو اگر توہین عدالت اگر کسی کے خلاف ہونا چاہیے، تب ہی ہونا چاہیے کہ جب وہ کسی سپریم کورٹ کے حکم کی عدم تعمیل کرے ۔ جہاں تک وزیر اعظم کی یہ شکایت ہے کہ ان کے ماتحت آرمڈ فورسز ان کے احکام کی تعمیل نہیں کرتے، اس کی آئینی پوزیشن یہ ہے کہ آرمی چیف، نیول چیف ،ایئرفورس چیف، ان سب کی اپائنٹمنٹ صدر صاحب کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہیں، الاو ¿نسز صدر فکس کرتے ہیں آئین کے تحت۔ آئین میں لکھا ہوا ہے کہ جہاں تک ساری آرمڈ فورسز ہیں وہ فیڈرل گورنمنٹ کے تحت آپریٹ کریں گی۔ اور جو بھی Lawful ordersفیڈرل گورنمنٹ پاس کرے گی، آرمڈ فورسز کا آئینی فرض ہے کہ وہ اس پر عمل کریں۔ اب انھوں نے اپائنٹ کیا آرمی چیف جو اس وقت ہیں ان کو توسیع بھی انھوں نے ہی دی ہے۔ اب اگر یہ شکایت کررہے ہیں کہ ان کے کوئی آرڈرز ہیں جن کی تعمیل نہیں ہورہی تو ان کا فرض ہے آئین کے تحت کہ اس کی وضاحت کریں کہ انھوں نے کون سا Lawful orderپاس کیا تھا اور اس کی یہ بھی وضاحت کریں کہ کس نے اس کی تعمیل نہیں کی ہے اور کیوں کی ہے۔ اگر اس قسم کی یہ شکایت کرنا چاہتے ہیں قوم کے سامنے تو ان کا آئینی فرض ہے کہ اس کی وضاحت بھی کریں کہ جی یہ میں نے Constitutionally valid lawful orderپاس کیا تھا، اس کی تعمیل نہیں ہورہی۔ جبکہ ایک برطانوی اخبار نے بھی لکھا ہے کہ فوج صدر آصف علی زرداری سے بیزار اور صدارت سے ان کی رخصتی چاہتی ہے لیکن کسی انقلاب کے ذریعے نہیں۔ جمعرات کو برطانوی خبررساں ایجنسی رائٹرز نے فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ فوج اب کسی فوجی انقلاب کو دہرائے بغیر قانونی اور آئینی طریقے سے تبدیلی کی خواہاں ہے۔ اقتدار پر قبضے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اب جو کچھ بھی ہوگا وہ سپریم کورٹ کے ذریعہ ہوگا۔ پاکستان کی 64 سالہ تاریخ متعدد فوجی انقلابات سے عبارت رہی ہے، میمو گیٹ اسکینڈل کے معاملے میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت میں کشیدگی بڑھتی جارہی ہے،گذشتہ 2 مئی کو ایبٹ آباد میں القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کمانڈو آپریشن کے ذریعے فوج پر حکومت کے خلاف انقلاب لانے کی سازش کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ صدر زرداری سے کون بیزار نہیں؟ یہ اپوزیشن یا سڑک پر چلتا عام آدمی ہی نہیں بلکہ حکومت کے اندر بھی لوگ آصف زرداری سے بیزار ہیں۔ مذکورہ ذریعہ نے کہا تاہم صدر کو ہٹانے کا مناسب طریقہ ہونا چاہئے، فوج نے کسی بھی اقدام کی منصوبہ بندی نہیں کی ہے، اگر کوئی کوشش بھی کی گئی تو یہ حکومت اور اپوزیشن ہی نہیں بلکہ عوام کی اکثریت کے نزدیک بھی غیرمقبول کوشش ہوگی۔ آرمی چیف کا منصب سنبھالنے کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کو پاکستانی سیاست سے دور رکھنے کا عہد کیا تھا۔ سن 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان جہاں تین فوجی انقلابات آئے، اب مزید ایسا کوئی انقلاب فوج کے بارے میں عوامی تاثر کو مزید خراب کردے گا جسے 2/5 کے ایبٹ آباد آپریشن کے بعد شدید تنقید کا سامنا ہے، جسے عمومی طور پر پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی بھی تصور کیا جاتا ہے لیکن اقتدار میں مختار کل یا حکم فوج ہی رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق صدر زرداری پر سبکدوش ہونے کیلئے دباو ¿ ڈالنے کے کئی طریقے ہیں۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب ان کا میمو اسکینڈل سے تعلق ثابت ہوجاتا ہو۔ جس میں کسی ممکنہ فوجی انقلاب کے خدشے کے پیش نظر اس کے تدارک کیلئے پینٹاگون سے مدد مانگی گئی۔ ماضی میں فوج نے پاکستانی سیاسی رہنماو ¿ں کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور ان کے خلاف عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہوتے رہے۔ تجزیہ کاروں کی نظر میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے استعفے نے سول حکومت کو مزید کمزور کردیا جسے کئی چیلنجوں کی صورت میں کرپشن اور نااہلیت کے الزامات کا پہلے ہی سے سامنا ہے۔ ان چیلنجوں میں کمزور اقتصادیات اور طالبان کی سرکشی بھی شامل ہے۔ صدر زرداری رواں ہفتے دبئی میں زیر علاج رہنے کے بعد وطن واپس پہنچے جس سے یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ وہ میمو گیٹ کے معاملے میں فوج کی جانب
سے دباو کے تحت صدارت سے مستعفی ہوجائیں گے۔ گو کہ ان کی صدارتی حیثیت زیادہ تر علامتی ہے، تاہم وہ حکمراں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ ان کی جبری رخصتی سول قیادت کیلئے توہین کا باعث بن سکتی ہے۔ جس سے ملک ایک نئے بحران کا شکار ہوجائے گا۔ ایک ذریعہ کی یہ رائے ہے کہ حکومت اتنی غلطیاں کرچکی ہے کہ اس کے خلاف کسی براہ راست اقدام کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگر اپنی قبر خود کھود رہی ہو تو ہمیں بیلچے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے، 26 نومبر کو مہمند ایجنسی سے نیٹو فضائی حملے کے بعد فوج نے نہ صرف اپنا آپ منوایا ہے بلکہ میمو گیٹ اسکینڈل نے اسے سیاسی گولہ بارود بھی فراہم کردیا ہے۔ سپریم کورٹ میں داخل اپنے بیان میں جنرل کیانی نے میمو گیٹ کو سنجیدہ معاملہ قرار دیتے ہوئے اس کی مکمل تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا۔ میمو گیٹ کے معاملے میں حکومت یا اس سے باہر جو کوئی بھی ملوث ہو، اسے سزا ضرور ملنی چاہئے، لیکن اس حوالے سے فوج کا کوئی سروکار نہیں ہے، ایک اور ذریعہ نے کہا کہ فوج نے اگر کچھ کیا تو اس کے قومی اور بین الاقوامی مضمرات ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا اس کا امکان نہیں ہے، اب جو کچھ بھی ہوگا، وہ سپریم کورٹ کے ذریعہ ہوگا، زرداری کی حکمراں جماعت کے رہنماوں نے فوج کے ساتھ اختلافات کی تردید کرتے ہوئے کسی انقلاب کے خدشات کو مسترد کردیا لیکن یہ اندیشہ ضرور ظاہر کیا کہ ایک بڑھتی ہوئی جارح سپریم کورٹ کے بعض جج صاحبان زرداری کو پسند نہیں کرتے اور ان کے خلاف جاسکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رہنما نے کہا کہ انہیں فوج کی فکر نہیں اور وہ فی الحال نظام کو پٹری سے بھی نہیں اتاریں گے، فکر اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ کیا کرتی ہے، ایسا لگتا ہے وہ چیزوں کو بڑی ہنرمندی سے استعمال کرنے کے موڈ میں ہیں۔ میمو گیٹ پر حکومتی تشویش وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اس تبصرے سے نمایاں ہوجاتی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ”میں آج یہ واضح کردوں کہ منتخب حکومت کو رخصت کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں“۔ یہ تبصرہ انہوں نے نیشنل آرٹ گیلری میں اپنے خطاب کے دوران کیا۔اے پی ایس