کون بچائے گا پاکستان؟چودھری احسن پر یمی




عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ میمو گیٹ پر پاکستانی آرمی چیف کا سپریم کورٹ میں حلفیہ بیان جمع کرانا یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کے غدار اس ملک کے اندر موجود ہیں شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم گیلانی کو پاک فوج کے خلاف پارلیمنٹ میں باتیں کرنا زیب نہیں دیتی جو خود بھی کرپٹ اور ان کا سسرال بھی کرپٹ ہے جبکہ شیخ رشید کا تحریک انصاف کے کراچی کے جلسے پر کہنا تھا کہ ایک کامیاب جلسہ تھا لیکن عمران خان اور ایم کیو ایم کی اندرون خانہ ہم آہنگی تھی۔جبکہ دیگر مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف سے زرداری اور نواز شریف سے لوگوں کی جان چھوٹ جائے گی لیکن ہر دور میں موقع پرست سیاست دانوں کے نرغے میں عوام پھر آجائیں گے اگر چہ عمران خان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ جو بھی پی ٹی آئی میں آئے گا وہ ہمارے پروگرام کے مطابق چلے گا اور پی ٹی آئی نے کارکردگی دکھائی تو سب افوائیں دم توڑ دیں گی اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو عمران خان خود ہی سیاست چھوڑ دیں گے جبکہ پاکستان تحریک انصاف‘ کے سربراہ عمران خان نے گزشتہ اتوار کو کراچی میں ایک بہت بڑے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ ملک میں عدل و انصاف کے نظام کی بالادستی کو یقینی بنائیں گے۔اپنی تقریر کے آغاز میں انھوں نے انکشاف کیا کہ حکمران پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی نے بھی ان کی جماعت میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔حالیہ مہینوں میں سیاسی، تشدد اور نسلی فسادات کا شکار پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اس طرح کے سیاسی جلسے اور جلوسوں کا انعقاد ایک بڑا چیلنج سمجھا جارہا تھا لیکن عمران خان کا کہنا تھا کہ اکتوبر میں لاہور میں تحریک انصاف کے جلسے کو عوام کا سونامی سمجھنا ان کی غلطی تھی کیونکہ اتوار کو کراچی کا جلسہ حقیقی معنوں میں ایک بڑا سونامی ثابت ہوا ہے۔انھوں نے کہا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ہر کام اور تقرریاں میرٹ پر کریں گے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ ”جتنی مرضی عمران کی چمچہ گیری کر لو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ... ہم ملک سے 90 دن کے اندر بدعنوانی کا خاتمہ کریں گے۔“عمران خان نے کہا کہ آنے والے دنوں میں ان کی جماعت کے سینئر رہنماوں پر مشتمل ٹیم ملک کے لیے تعلیمی، اقتصادی، مزدوروں، پولیس، انتظامی اور دیگر پالیسیوں پر مبنی دستاویزات پیش کریں گے۔”ایک دن آئے گا جب تحریک انصاف کی حکومت آئے گی اور عمران خان کی گاڑی بھی روک لی جائے گی کہ وہ تیز گاڑی چلا رہا تھا۔“تحریک انصاف کے سربراہ کی تقریر کے دوران ”وزیر اعظم پاکستان، عمران خان“ کے نعرے لگتے رہے جبکہ وقفے وقفے سے قومی اور خصوصی طور پر تیار کیے گئے نغمے بھی بجائے جاتے رہے۔ قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں منعقد کیے جانے والے جلسے میں لوگوں کی غیر معمولی بڑی تعداد نے شرکت کی اور عینی شاہدین نے بتایا کہ جلسہ گاہ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔مجمے کی تعداد کے بارے میں کوئی حتمی اعداد و شمار سامنے نہیں آئے لیکن تحریک انصاف کے رہنماوں نے جلسے کے آغاز سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ جلسہ گاہ میں اڑھائی لاکھ افراد کی گنجائش ہے۔ پاکستان کے تمام نجی ٹی وی چینلز اس جلسے کی لمحہ بہ لمحہ کارروائی براہ راست نشر کرتے رہے۔عمران خان کی جماعت کا روایتی گڑھ پنجاب مانا جاتا ہے لیکن کراچی میں جلسے میں لوگوں کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے قومی سطح پر ایک بڑی قوت بن کر ابھرنے کے تاثر کو تقویت ملی ہے اور آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی سمیت تمام بڑی جماعتوں کے لیے وہ ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔عمران خان نے اس سیاسی جماعت کی بنیاد 15 سال قبل رکھی تھی لیکن حالیہ مہینوں میں ان کے عوامی جلسوں میں لوگوں نے غیر معمولی طور پر بڑی تعداد میں حصہ لیا ہے جس کے بعد ملک کی سیاست کے بڑے کردار سمجھے جانے والے کئی سیاست دانوں نے بھی تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ان میں مسلم لیگ (ن) کے جاوید ہاشمی، پیپلز پارٹی کے مخدوم شاہ محمود قریشی، اور موجودہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کئی نامی گرامی اراکین شامل ہیں۔اکتوبر میں مینار پاکستان کے مقام پر عمران خان کی سیاسی جماعت کے غیر معمولی طور پر بڑے عوامی جلسے کے انعقاد کے بعد اس وقت ملک کے سیاسی حلقوں اور ذرائع ابلاغ میں تحریک انصاف کے چرچے ہیں۔اس سیاسی جماعت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ملک کی دو بڑی جماعتوں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے بقول ناقدین کے پاکستانی عوام کی بیزاری کا اظہار ہوتا ہے۔اس موقع پرسابق وزیر خارجہ اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنماءشاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ آج کراچی جاگ اٹھا ہے۔آج ہم مزار قائد کے پہلوں میں بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح سے وعدہ کرتے ہیں کہ یہ جلسہ آپکے ملک کو بچانے آیا ہے،آج پاکستان کی تاریخ نے ایک نئے باب کا اضافہ کردیا ہے انھوں نے اپنے انتہائی جذباتی خطاب میں کہا کہ تاریخ بدل رہی ہے،آج عوام کی آنکھ میں چمک ہے،چہرے مسکرارہے ہیں،آج یہ قافلہ ملک کی حفاظت کے لیے نکلا ہے۔انھوں نے کہا کہ کراچی میں ہر خطے کے لوگ آباد ہیں۔کراچی کی معاشی حیثیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا،اگر کراچی رواں دواں نہیں ہوگا تو پاکستان میں خوشحالی نہیں آسکتی ہے۔پاکستان کو اپنی اندرونی کمزوریوں سے خطر ہ نہیں ہے۔آج کچھ لوگوں نے اپنے بینک بیلنس تو بنالیے لیکن پاکستان کا خزانہ خالی ہے،پی آئی اے، ریلوے،اسٹیل ملز،واپڈا سمیت ہر ادارہ تنزلی کا شکار ہے، پاکستان کی تباہی کا سبب کرپشن ہے۔پہلی بار پوری قوم جمہوریت اور جمہوری نظام پر متفق ہے۔لہذا بھولے بھالے وزیراعظم صاحب کوئی بھی جمہوریت کے خلاف سازش نہیں کرسکتا ،صرف آپکی نااہلی اور کرپشن آپکے خلاف سازش کرسکتاہے۔انھوں نے کہا کہ لوگوں اگر اعدل اور انصاف چاہیے تو پھر تحریک انصاف کو لانا ہوگا۔جمہوریت کو استحکام صرف ایک آزاد اور خودمختار عدلیہ ہی دے سکتی ہے۔موجودہ عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو دفن کردیا ہے،اب پاکستان کی جمہوریت پر کوئی مائی کا لعل شب خون نہیں مارسکتا۔اگر کسی نے ایسا کیا تو ہم سینہ سپر ہوجائیں گے۔آج آزاد اور خودمختار میڈیا پر بھی اتفاق ہوا ہے۔اس قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر ملک کو ایٹمی قوت بنایا ہے کیا پھر قوم کبھی کسی کو اس ملک کی خودمختار ی اور ایٹمی قوت کا سودا کرنے دیگی۔انھوں نے کہا کہ کوئی غیر ذمہ دارانہ بات نہیں کی تھی،سوچ سمجھ کر کہاتھا،پاکستان کا ایٹمی پروگرام پاکستان کی اشد ضرورت ہے،وہ لوگ جو ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں انکی نظر میں ایٹمی پروگرام کھٹکتا ہے،انھوں نے اس موقع پر انتہائی جذباتی انداز میں شرکاءجلسہ سے کہا کہ میری بات توجہ سے سنیے ،پاکستان کے ایٹمی قوت کو کوئی خطرہ نہیں ہمیں ایسے ہاتھوں سے ان ہتھیاروں کو محفوظ رکھنا ہے جو اپنے مفادات کے لیے اسکا سودا کرسکتے ہیں، لہذا ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جنکی پاکستان کے ساتھ وفاداری ہر قسم کے شک و شبے سے بالاتر ہو۔ہم نے جینوا میں ملکی ایٹمی پروگرام کا تحفظ کیا،جس کے بعد میرا پہلا نظریاتی اختلاف نیوکلیئر پروگرام پر اسی مسئلے پر صدر زرداری سے ہوا۔انھوں نے کہا کہ نومبر 2008میں بھارت سے نیوکلیئر حملے میں پہل نہ کرنے کا معاہدہ کرنے کے حوالے سے بیانات جاری کیے گئے، جسکی میں نے کھل کر مخالفت کی۔اس پر قومی سلامتی کے ادارے بھی حیران رہ گئے تھے۔جس کے بعد نیشنل کمانڈ اتھارٹی کی سربراہی صدر سے وزیراعظم کو منتقل کی گئی،اسی لیے میں نے سابقہ بیا ن دیا تھا،ہم پڑوسیوں سمیت امریکا سے بھی دوستی چاہتے ہیں لیکن غلامی نہیں چاہتے۔اس موقع پرجاوید ہاشمی نے کہا کہ ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں لوٹنے والے اور لٹنے والے سے انصاف کیا جائے اس کی ابتدا میں نے روایات کو توڑتے ہو ئے کر دی ہے جبکہ اس کی تکمیل یہ نوجوان کریں گے جو اپنا کل سنوارنے کے لئے نکلے ہیں ۔اس شہر میں آج بھی25لاکھ بنگالی بستے ہیں ،کراچی سے دارالحکومت کو منتقل کر کے پاکستان کی تقسیم کی بنیاد رکھ دی گئی اگر یہ دارلحکومت منتقل نہ کیا جاتا تو آج بنگا ل بھی ہمارے ہی ساتھ ہوتا اورزور بازو ہو تا۔بد قسمتی سے اس شہر کو امن کا شہر نہیں رہنے دیا گیا کراچی شہر در حقیقت پاکستان ہے یا پاکستان اسی شہر سے ہے۔پاکستان کی جو تصویر اس شہر میں ملتی ہے وہ پاکستان کے کسی شہر میں نظر نہیں آتی جہاں یہاں بنگالی،پنجابی،پٹھان،بلوچ ،اردوبولنے والے بستے ہیں ۔انہوں نے جذباتی انداز میں کہا کہ میں زیادہ ظلم بر داشت نہیں کر سکتا،میں نے کہاعمران خان تم اکیلے نہیں ہو،میں آرہاہوں،مسلم لیگ کو چھوڑتے وقت میں بھی رویا اور وہ بھی روئے لیکن پاکستان کی خاطراپنی 40سال کی خدمت عوام کے سپردکرتاہوں۔جبکہ پاکستان کی منظم ترین سمجھی جانے والی مذہبی پارٹی، جماعت اسلامی، نے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت پر قومی مفادات کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔لاہور میںگزشتہ اتوار کو ہزاروں افراد کے مجمے سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سربراہ منور حسن نے کہا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا پاکستانی فوج کے حوالے سے حالیہ بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ تھا۔”ہم محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف سازشیں غیروں کے ایجنٹ بن کر اپنے ہی ملک میں ایوانوں میں بیٹھے لوگ کر رہے ہیں۔“منور حسن کے بقول قومی اسمبلی میں کی گئی وزیر اعظم کی تقریر اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ امریکی قیادت کے نام متنازع میمو یا خط ا ±ن ہی کی ایما پر بھیجا گیا۔جماعت اسلامی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے پر اپنا فیصلہ سنائے اور جامع تحقیقات کرکے اس میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ” بد عنوان لوگ اقتدار میں ہیں“ اور ملک کی دولت محض چند سیاسی خاندانوں میں گردش کر رہی ہے۔ جبکہ وزیر اعظم گیلانی نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ قومی اسمبلی میں ان کی دھواں دار تقریر کا مقصد فوج کی تضحیک کرنا نہیں تھا بلکہ وہ یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ تمام ریاستی اداروں کو آئین کے تحت اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا ہوگا اور وہ پارلیمان کو جواب دہ ہیں۔پاکستانی وزیر اعظم نے میمو اسکینڈل کی تحقیقات کی ذمہ داری پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو سپرد کر رکھی ہے لیکن اس کے ساتھ وہ اس معاملے کو غیر اہم بھی قرار دے چکے ہیں۔جبکہ صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ عوام دھمکیوں اور طاقت کے زور پر سیاسی تبدیلیوں کو قبول نا کرنے کے عزم پر ڈٹے رہیں۔قائد اعظم محمد علی جناح کے 135 ویں یوم ولادت پر اپنے پیغام میں صدرِ مملکت نے کہا کہ عوام بابائے قوم کے جمہوری اصولوں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف عمل عناصر کو شکست دیں۔”قائد کا اس بات پر یقین تھا کہ کوئی بھی (سیاسی) تبدیلی ووٹ کے ذریعے آنی چاہیئے اور انھوں نے گولی کے ذریعے تبدیلی کو مسترد کیا۔“صدر زرداری کے بقول بدقسمتی سے ماضی میں آمرانہ حکومتوں کے ادوار میں عوام کی فلاح کو پس پشت ڈالا جاتا رہا، جب کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے سبب عدم تحفظ کا مسئلہ ہر چیز پر حاوی ہو گیا۔صدر زرداری نے بانی پاکستان کے یوم پیدائش کے موقع پر یہ ذومعنی بیان ایک ایسے وقت دیا ہے جب اپوزیشن جماعتیں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کی ناقص کارکردگی، بدعنوانی کے الزامات اور میمو اسکینڈل کو وجہ بنا کر اسے اقتدار سے ہٹانے کے مطالبات کر رہی ہیں۔پاکستان میں سیاسی کشیدگی میں گزشتہ ہفتے اس وقت غیر معمولی اضافہ ہو گیا تھا جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں کھل کر اِن خدشات کا اظہار کیا کہ فوج جمہوری حکومت کی نافرمانی کرکے اسے ہٹانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ان کے بیان کے اگلے روز فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قابض ہونے کی قیاس آرائیوں کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے انھیں سختی سے مسترد کر دیا، اور کہا کہ یہ افواہیں حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔وزیر اعظم گیلانی نے گزشتہ اتوار کو کراچی میں مزار قائد کے احاطے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس تاثر کی نفی کی کہ حکومت کسی ریاستی ادارے کا احترام نہیں کرتی۔ ان کا اشارہ بظاہر فوج کی طرف تھا کیوں کہ سیاسی مخالفین پارلیمان میں وزیر اعظم کے بیان کو فوج کی توہین کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔پاکستانی وزیر اعظم نے صدر اور منتخب حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے آئین میں درج طریقہ کار کا حوالہ بھی دیا۔”اس آئین کے مطابق چلیں تو کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے، اگر آئین سے انحراف کریں گے تو پھر نظام کمزور ہوگا، پھر تیسری قوتوں کو موقع ملتا ہے۔“وزیر اعظم نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں کوئی بھی حلقہ اس حق میں نہیں کہ جمہوری نظام پٹڑی سے اترے۔اس سے قبل وفاقی کابینہ کے 100 ویں اجلاس میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ان کی حکومت 2012ءمیں اپنی تمام تر توجہ عوامی مسائل کے حل پر مرکوز کرے گی۔انھوں نے کہا کہ بجلی اور گیس کا بحران، اہم قومی اداروں بشمول پی آئی اے، ریلوے اور اسٹیل ملز کو درپیش مالی مشکلات اور بلوچستان کی صورت حال کو ملک کے سنگین ترین مسائل قرار دیا۔”میں نے وزیر خزانہ کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے اور فوری طور پر 2012ءمیں ان چیزوں پر توجہ دی جائے گی۔“وزیر اعظم گیلانی نے 2012ءکو بلوچ عوام سے منسوب کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ میں موجود بلوچ اراکین کی مشاورت سے صوبے کے عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔”جو بلوچستان کی احساس محرومیاں ہیں، جو ان کی پسماندگی ہے، جو ان کے خدشات اور وسوسے ہیں ان کو دور کرنے کے لیے یہ سال ہم ان کے لیے لگائیں گے تاکہ بلوچستان میں ہمارے بھائی، بہنیں اور بچے اس وقت جس اذیت سے گزر رہیں ہیں انہیں ریلیف ملے۔جبکہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی کابینہ کی رکن اور وزیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا استعفٰی مسترد کرتے ہوئے ان کے تحفظات دور کرنے کا یقین دلایا ہے۔فردوس عاشق اعوان نے وزیراعظم اور جماعت کی جانب سے نظرانداز کیے جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے گزشتہ اتوار کو کراچی میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران استعفٰی پیش کر دیا تھا۔ مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان آبدیدہ ہوگئی تھیں اور ان کی آواز بھرّا گئی تھی۔اس موقع پر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ وزارت سے مستعفی ہو رہی ہیں لیکن وہ ہر طرح سے حکومت کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھیں گی۔انہوں نے وزیراعظم کو مخاطب کر کے کہا کہ ’میں آپ کی اجازت سے یہاں اپنا استعفٰی دینا چاہتی ہوں۔ بطور پارٹی لیڈر میری ہر طرح کی حمایت آپ کے ساتھ ہے لیکن مجھے اس سے زیادہ ڈی گریڈیشن نہیں کروانی‘۔انہوں نے کہا کہ انہیں ایسی نشست نہیں چاہیے جہاں بطور وزیر انہیں وزیراعظم اور کابینہ قبول ہی نہ کرے اور جماعت ان کے اقدامات کی توثیق ہی نہ کرے۔فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ مجھے بطور وزیر قبول نہیں کرتے اور نہ ہی جماعت کرتی ہے تو مجھے ایسی کوئی نشست نہیں چاہیے جہاں مجھے جماعت یا وزیراعظم کا اعتماد حاصل نہ ہو‘۔کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیراعظم نے فردوس عاشق اعوان سے ملاقات کی اور ان کے تحفظات دور کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے کام جاری رکھنے کو کہا۔اجلاس کے بعد وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان مزارِ قائد پر حاضری دینے گئے جہاں فردوس عاشق اعوان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’میں لولی لنگڑی وزیر نہیں بننا چاہتی اور بیساکھیوں کی مدد سے وزارت چلانا نہیں چاہتی‘۔ان کا کہنا تھا کہ ایک مکمل اختیارات والا وزیر ہی آج کل کے حالات میں صحیح طور پر کام کر سکتا ہے اور انہیں اس جگہ بیٹھنا ہے جہاں وہ کارکردگی دکھا سکیں اور اس کے لیے انہیں ایک آزادانہ ماحول میں فری ہینڈ دیا جائے۔فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ ’ایک وقت میں وزارتِ اطلاعات کا ایک ہی وزیر ہونا چاہیے، چار چار نہیں‘۔وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ ’میں نے وزیراعظم سے کہا کہ کام کے راستے میں رکاوٹیں آ رہی ہیں تو میں استعفٰی دے دیتی ہوں مگر وزیراعظم نے استعفے کو مسترد کرتے ہوئے میرے تحفظات کو دور کرنے کا وعدہ کیا ہے‘۔خیال رہے کہ فردوس عاشق اعوان کو رواں سال فروری میں حلف اٹھانے والی نئی کابینہ میں قمر زمان کائرہ کی جگہ وزیرِ اطلاعات بنایا گیا تھا۔گزشتہ کابینہ میں ان کے پاس بہبودِ آبادی کی وزارت تھی۔وہ موجودہ حکومت کی تیسری وزیر اطلاعات تھیں۔ اس حکومت کی پہلی وزیر اطلاعات شیری رحمان تھیں، جن سے استعفیٰ لیا گیا، اس کے بعد یہ منصب قمر زمان کائرہ کے حوالے کیا گیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد یہ وزرات فردوس عاش اعوان کے حصے میں آئی۔فردوس عاشق اعوان دو ہزار دو کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئی تھیں اور سنہ دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں میں سیالکوٹ سے سابق سپیکر چودھری امیر حسین کو شکست دے کر رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہونے والی فردوس عاشق اعوان ان چند خواتین رکنِ اسمبلی میں سے ہیں جو باقاعدہ انتخاب لڑ کر اسمبلی تک پہنچی ہیں۔وزیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اپنا استعفیٰ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا لیکن وزیراعظم نے فردوس عاشق اعوان کا استعفیٰ قبول نہ کیا ۔گورنر ہاوس کراچی میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وزیر اعظم اور صدر پاکستان کی قیادت میں آگے بڑھنا ہے اور بڑھتے رہیں گے لیکن وہ خود کو وزارت کے لئے اہل نہیں سمجھتیں۔ انہوں نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ ان کی اجازت سے استعفیٰ دے رہی ہیں۔ کابینہ اجلاس کے بعد فردوس عاشق اعوان کی وزیراعظم سے ملاقات ہوئی جس میں وزیراعظم نے فردوس عاشق اعوان کو ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دھائی کرائی۔ قبل ازیںوزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر حال میں جمہوریت کی بقا اور ملکی سا لمیت کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ،وفاقی کابینہ کا اجلاس گورنر ہاو ¾س میں وزیرا عظم یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں ہوا۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جومعاملہ جس ادارے کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اسی میں اس پر غورکیا جاتا ہے۔ حکومت ہر فیصلہ جمہوری انداز میں کرتی ہے کابینہ کے 100 اجلاس کرنے والی یہ پہلی حکومت ہے،کابینہ کمیٹی میں بھی فیصلے اتفاق رائے سے کئے گئے ، وزیر اعظم نے کہا کہ کابینہ کے 80 فیصد فیصلوں پر عمل درآمد ہوچکا ہے ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو مکمل آزادی ہے ، عدلیہ آزاد ہے اور آزادنہ فیصلے کررہی ہے ،اور اس کے فیصلوں کو قبول کیا جارہا ہے موجودہ حکومت نے پارلیمنٹ کو بالادست رکھا اور اس کے فیصلوں کو اہمیت دی، ہم پارلیمنٹ کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، اس کا اندازہ اجلاسوں میں میری شرکت سے لگایا جاسکتا ہے ، وسیع تر قومی مفاد میں ان سے بھی مشاورت کی گئی جن کی قومی اسمبلی میں نمائندگی نہیں ہے۔ دو دفعہ آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی صدر نے دو دفعہ پارلیمنٹ سے خطاب کیا جو اس سے پہلے نہیں ہوا۔،ہم چاہتے ہیں بلوچستان کو ان کا حصہ ملنا چاہیے ، وزیرا عظم نے کہا کہ آئین کی بحالی اٹھارہویں ترمیم حکومت کی کامیابی ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ ہم جلد از جلد کشمیریوں کی خواہش کے مطابق حل کرنا چاہتے ہیں ، ہم ہر حال میں جمہوریت کی بقا اور ملکی سلامتی کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ اے پی ایس