پاک امریکا سیکورٹی شراکت داری کا خاتمہ۔چودھری احسن پر یمی




وزیر دفاع چودھری احمد مختار نے کہا ہے کہ نیٹو کنٹینرز کی وجہ سے ہماری سڑکیں خراب ہوئی، نیٹوسپلائی مفت میں بحال نہیں کی جائیگی۔گزشتہ دنوں گڑھی خدابخش صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نیٹو سے کرایہ لے کر سڑکوں کی مرمت کرینگے۔ ہم امریکا سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں ، اگر امریکاہمارا اتحادی ہے تو ہمارے مفادات کا خیال رکھے۔ انہو ں نے مزید کہا کہ ضرورت پڑی توامریکاکے جانے کے بعد بھی دہشتگردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔جبکہ پاک امریکی تعلقات کا جو نیا باب شروع ہوا ہے اس پر نیو یارک ٹائمز میں ایک تفصیلی مضمون چھپا ہے۔ جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کو اس حقیقت کا سامنا ہے۔ کہ پاکستان کے ساتھ اس کی سیکیورٹی کی جو شراکت داری تھی اب وہ ختم ہو گئی ہے۔ اور امریکی عہدہ دار انسداد دہشت گردی میں ایک محدود قسم کا تعاون برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور انہیں اعتراف ہے ۔ کہ اس کی وجہ سے ان کے لئے انتہا پسندوں کے خلاف حملے کرنے اور سامان رسد افغانستان پہنچانے میں پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔اخبار نے امریکی اور پاکستانی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے۔ کہ امریکہ ا ب اس پر مجبور ہو جائے گا۔ کہ ڈرون طیاروں سے کئے جانے والے حملوں میں تخفیف کی جائے اور زمیں پر جاسوسوں اور فوجیوں کی تعداد کم کر دی جائے۔ افغانستان میں اتحادی فوجوں کے لئے جو سامان رسد جا تا ہے۔ اس پر بھی امریکہ کا خرچ بڑھ جائے گا۔اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کے لئے خصوصی امریکی ایلچی آنجہانی رچرڈ ہول بر ±وک نے اقتصادی ، صحت اور قانون کی بالا دستی جیسے شعبوں میں جس دور رس سٹرٹیجک شراکت داری کی داغ بیل ڈالی تھی۔ وہ سب کچھ ختم کر دیا گیا ہے۔ اور اس کی جگہ نہائت اہم ترجیحات میں غالباً با لکل محدود قسم کا تعاون بر قرار رہے گا۔16 نومبر کے بعد سے سی آئی اے کے ڈرون حملے با لکل بند ہیں اور امریکی سفارت کار بنیادی طور پر ان ریڈ لائینز کے انتظار میں ہیں جو بقول وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے نئے پاک امریکی تعلقات کا تعیّن کرنے کے لئے متعیّن کی جا رہی ہیں تاکہ پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ اور علاقائی سالمیت کا تحفّظ کیا جا سکے۔اخبار کہتاہے کہ امریکہ کے خلاف بڑھتے ہوئے جذبات کا اندازہ لاہور اور پشاور میں ہزاروں لوگوں کے مظاہروں کے دوران ہوا ہے جب کہ کراچی میں ایک لاکھ لوگوں کا جلسہ عمران خان کی حمایت میں منعقد ہوا ہے۔ یہ کرکٹر سیاست دان ڈرون حملوں اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے خلاف ہے۔ بلکہ بعض پاکستانی سیاست دان کھلم کھلا دھمکی دے رہے ہیں ۔ کہ اب اگر کوئی ڈرون پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کی خلا ف ورزی کرتا ہوا پایاگیا۔ تو اسے گرا لیا جائے گا ۔اخبار کے بقول سیکیورٹی کے نئے دائرہءکار کے مطابق افغانستان میں نیٹو فوجوں کے لئے رسد لے جانے والے ہزاروں ٹرکوں سے اب زیادہ فیس وصول کی جائے گی۔ اور یہ رقم کروڑوں ڈالر تک جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور پاکستان کے فوجی افسر وں کا اندازہ ہے کہ امریکہ کی سیکیورٹی امداد میں بھاری کمی آئے گی۔ اس میں ایک ارب ڈالر کی وہ فوجی امداد اور سامان شامل ہے ۔جو مئی میں امریکی حملے میں اوسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے منسوخ ہے۔اخبار کہتا ہے۔ کہ اس نے تقریباً دو درجن امریکی ، مغربی ، اور پاکستانی عہدہدارو ں سے رابطہ قائم کیا ۔ اور ان میں سے کسی کو اس بگڑتی ہوئی صورت حال میں کسی امید افزاءبہتری کی صورت نظر نہیں آتی۔ اخبار نے اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اگلے ماہ سے پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا دو سال کے لئے ممبر بن جائے گا۔ اور ان عہدہ دار وں کا کہنا ہے۔ کہ اتنا زیادہ داو ¿ پر لگا ہواہے۔ کہ تعلقات مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں۔نیو یارک ٹائمز کہتا ے کہ محکمہ خارجہ نے ایک سرکردہ سفارت کار کو اس سلسلے میں پاکستان بھیجا تھا جس نے واپس آکر بہت سے پاکستانیوں کا یہ تاثّر پیش کیا ہے۔ کہ اس وقت تک پیش قدمی ممکن نہیں ،جب تک صدر اوبامہ پچھلے ماہ کے فضائی حملے کے لئے باقاعدہ معافی نہیں مانگتے لیکن ان کے معاونین کا کہنا ہے، کہ ایسا ہوگا نہیں۔ایک اعلی جبکہ امریکی عہدیدار نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان سرحد کے ساتھ اپنی تمام تنصیبات اور اہم مقامات کے نقشے امریکہ کو فراہم کرے تاکہ مستقبل میں مہمند حملے جیسے واقعات سے بچا جا سکے، جس میں 24 پاکستانی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل میٹس نے کہا ہے کہ اس واقعہ کا اصل سبق یہ ہے کہ دونوں فریقین کو سرحدوں پر اپنے رابطے بہتر کرنا ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ اسکے لیے انکے مطابق دونوں فریقین کو بنیادی سطح پر اعتماد بڑھانا ہوگا۔جنرل میٹس نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ سرحد کے ساتھ تمام تنصیبات اور عمارتوں کے نقشے فراہم کرے اور ایک مشترکہ ڈیٹا بیس کے ذریعے انکی اپ ڈیٹ بھی فراہم کرے۔نومبر 26 کو مہمند ایجنسی میں ہونے والے نیٹو کے حملے نے پاکستان اورامریکہ کے تعلقات کو اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچادیا ہے۔پچھلے ہفتے امریکی ملٹری نے اس واقعہ کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے پاکستان اور امریکہ کے درمیان ناقص رابطوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔نیٹو حملے میں اپنے 24 فوجیوں کی ہلاکت پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان نے نیٹو افواج کے لیے رسد کی ترسیل پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جب کہ بلوچستان میں قائم شمسی ایئر بیس کو بھی امریکہ سے خالی کروا لیا گیا ہے۔پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پارلیمان امریکہ اور نیٹو کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کر رہی ہے اور یہ عمل مکمل ہونے کے بعد ہی اتحادی افواج کے لیے رسد کی بندش کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔جبکہ امریکی فوج کی مرکزی کمان سینٹ کام نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بارے میں اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان فوج کے سرحدی رابطہ افسران کے ساتھ اس آپریشن کی معلومات کا تبادلہ اس لیے نہیں کیا گیا کیونکہ ڈر تھا کہ یہ معلومات افشاءکر دی جائیں گی۔امریکی سینٹرل کمانڈ نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ مہمند ایجنسی میں پاک افغان سرحد پر ہونے والے اس حملے میں چوبیس پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔سینٹ کام نے کہا ہے کہ رابطہ کاری کے طریق کار میں رکاوٹیں، پاکستانی فوج کی طرف سے فائرنگ اور اس کا تسلسل، اور دوطرفہ عدم اعتماد صورتحال بگڑنے کی وجوہات تھیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی پیادہ فوجی افغان صوبے کنہڑ میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے پہنچے تھے جب ان پر سرحد پار سے فائرنگ کی گئی۔ اس پر انہوں نے اپنے دفاع کے لیے فضائی مدد مانگی اور یوں دونوں جانب سے جھڑپیں شروع ہوئیں۔سینٹ کام کی رپورٹ کے مطابق چھبیس نومبر کو امریکی فوج کے سرحدی علاقے میں آپریشن کی معلومات سرکاری طور پر اتحادی فوج کے سرحدی رابطہ دفتر کو فراہم نہیں کی گئی تھیں۔رپورٹ کے مطابق اس آپریشن سے کئی روز قبل مشرقی سرحدی ریجنل کمانڈ کی جانب سے آئساف اور سرحدی رابطہ دفتر کو آپریشن کے بارے میں اطلاع بھیجی گئی تھی۔’اس اطلاع کے جواب میں آئساف نے ریجنل کمانڈ کو ای میل میں پوچھا کہ کون سی معلومات پاکستانی فوج کے رابطہ افسران سے شیئر کی جا سکتی ہے۔یہ ای میل آئساف نے اس لیے بھیجی کیونکہ سولہ اگست دو ہزار گیارہ کو ریجنل کمانڈ کی جانب سے ایک ای میل بھیجی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کسی قسم کی بھی معلومات کا تبادلہ ریجنل کمانڈ کے ڈپٹی کمانڈنگ جنرل کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جائے گا‘۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اس ای میل کا کوئی جواب نہیں دیا گیا جس کے باعث پاکستانی فوج کے ساتھ معلومات کا تبادلہ نہیں کیا جا سکا‘۔رپورٹ کے مطابق مشترکہ سپیشل آپریشنز ٹاسک فورس نے پاکستان فوج کے ساتھ معلومات شیئر کرنے کے لیے ڈوزیئر بنایا لیکن یہ معلومات اس صورتحال میں تھی اگر امریکی ہیلی کاپٹر آپریشن کے دوران پاکستان حدود میں داخل ہو جائیں۔ لیکن یہ معلومات اتحادی فوج کے سرحدی رابطہ دفتر کو اس واقعے کے بعد موصول ہوئیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے ’سولہ اگست کی ای میل اور پاکستانی فوج کے ساتھ محدود معلومات کے تبادلے کا فیصلہ اس لیے لیا گیا کیونکہ امریکی فوج میں مانا جا رہا تھا کہ آپریشن کے بارے میں معلومات افشاءکردی جاتی ہیں۔ بلکہ پانچ اکتوبر کو اسی قسم کے آپریشن کی معلومات بھی سامنے آ گئی تھیں اور امریکی فوجی پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا تھا‘۔رپورٹ میں امریکی سینٹرل کمانڈ نے پاکستان سے کہا ہے کہ سرحد پر موجود پاکستانی چوکیوں اور دیگر تنصیبات کے نقشے کا تبادلہ کرے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات سے بچا جا سکے۔امریکی فوج کے سربراہ جنرل جیمز میٹس نے رپورٹ میں کہا ہے کہ اس واقعے سے سبق حاصل ہوا ہے کہ سرحدی رابطہ کاری کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور سرحد کی دونوں جانب اعتماد کو بہتر بنایا جائے۔جبکہ پاکستان میں سیاسی حکومتوں اور فوج کے طاقتور ادارے کے کشیدہ تعلقات ماضی میں اکثر منتخب حکومتوں کی فوجی بغاوتوں کے ذریعے برطرفی اور ملک میں طویل آمرانہ دورِ اقتدار کی وجہ بنے ہیں۔لیکن موجودہ عالمی تناظر اور خاص طور پر پاکستان میں حالیہ برسوں میں آزاد عدلیہ، متحرک سول سوسائٹی اور آزاد میڈیا نے صورت حال کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ ان ہی بدلے ہوئے حالات کے پیش نظر پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان حالیہ دنوں میں غیر معمولی کشیدگی کے باوجود فریقین نے فوجی بغاوت کے امکانات کو رد کیا ہے اور دونوں نے باہمی اختلافات کا حل ڈھونڈنے کا کام بظاہرعدالت عظمٰی پر چھوڑ رکھا ہے۔اس مرتبہ فوج اور سول انتظامیہ میں تنازع کی وجہ اعلیٰ امریکی حکام کو ارسال کیا گیا وہ مبینہ میمو یا مراسلہ ہے جس میں امریکہ سے فوجی قیادت کی برطرفی کے سلسلے میں مدد مانگی گئی تھی۔ سپریم کورٹ میں ان دنوں کئی ایسی آئینی درخواستیں زیر غور ہیں جن میں میمو اسکینڈل کی تحقیقات کرا کے اس میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔حکومت اور فوج کی قیادت کو ان درخواستوں میں فریق بنایا گیا ہے۔ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا کی طرف سے عدالت عظمٰی میں داخل کرائے گئے بیان حلفی میں دونوں نے میمو کو ایک حقیقت قرار دے کر اس کی تحقیقات پر اصرار کیا ہے۔ لیکن گزشتہ پیر کو وفاق کی طرف سے فوجی قیادت کے بیان حلفی کے جواب میں داخل کردہ جواب اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ فریقین میں سے کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر راضی نہیں۔وفاق کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں جواب سیکرٹری داخلہ نے جمع کرایا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستانی نژاد امریکی شہری منصور اعجاز کے میمو کے حوالے سے انکشافات جھوٹ کا پلندہ ہیں اور اس خفیہ مراسلہ کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہے جو فوج کے حوصلے کو پست نہیں کر سکتا۔وفاق نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ آرمی چیف نے اپنے بیان حلفی میں اعتراف کیا ہے کہ ا ±نھیں منصور اعجاز کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی کی ملاقات کے بارے میں تمام واقعات کا علم 24 اکتوبر کو ہوا تھا لیکن ا ±نھوں نے فوری طور پر وزیراعظم کو ان تفصیلات سے مطلع نہ کرنے کی وجہ نہیں بتائی ہے جبکہ ایسا کرنا ان پر لازم تھا۔ وفاق نے اپنے جواب میں وزیراعظم کو تاخیر سے یہ تفصیلات پہنچانے کے بارے میں سوال بھی اٹھایا ہے۔اس سے قبل فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے بیان حلفی میں کہا تھا کہ میمو ایشو پر کی جانے والی قیاس آرائیوں کی روشنی میں انھوں نے 13 نومبر کو وزیر اعظم گیلانی سے ملاقات کر کے انھیں تجویز کیا تھا کہ میمو سے متعلق سامنے آنے والی تفصیلات انتہائی حساس نوعیت کی ہیں اس لیے وقت ضائع کیے بغیر فوری طور پراس پر کوئی واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں واشنگٹن میں سفیر حسین حقانی کو پاکستان واپس بلایا جائے کیونکہ وہ ملک کی قیادت کو اس معاملے پر بہتر طور پر آگاہ کرسکتے ہیں۔وفاق کی طرف سے جمع کرائے گے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملکی دفاع کے لیے فوج نے بے مثال قربانیاں دی ہیں اور اس سلسلے میں شہریوں نے بھی جانیں قربان کی ہیں۔دونوں اداروں میں کشیدگی گزشتہ اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب وزیراعظم گیلانی نے بالواسطہ طور پر فوجی قیادت پر جمہوری حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا الزام لگایا جب کہ اس سے اگلے روز جنرل کیانی نے بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کی قیاس آرائیوں کو مسترد کیا اور کہا کہ ان کا مقصد حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانا ہے۔لیکن فوج کے سربراہ نے اپنے بیان میں کہا کہ قومی سلامتی کے اوپر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ان کا اشارہ بظاہر عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے اپنے بیان حلفی کی طرف تھا جس میں انھوں نے متنازع میمو کو قومی سلامتی پر حملہ کرنے کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات پر اصرار کیا ہے۔چیف جبکہ جسٹس افتخارچودھری نے میمواسکینڈل کیس کی سماعت میں ریمارکس دیئے ہیں کہ پاکستانی قوم ایک زندہ قوم ہے ، میمو میں لکھی گئی چیزوں کو برداشت نہیں کرتی، وفاق ، میموکو محض کاغذ کا ٹکڑا کہتاہے تو پھر وزیراعظم ہاوس میں اتنا اہم اجلاس کیوں ہوا،حقانی سے استفعی کیوں لیاگیا اور وزیراعظم نے تحقیقات کا حکم کیوں دیا؟ چیف جسٹس کی سربراہی میں نورکنی لارجر بنچ نے میمواسکینڈل کیس کی سماعت کی، اٹارنی جنرل نے وفاق کی طرف سے جوابات پیش کرتے ہوئے کہاکہ میموایشو پر وزیراعظم ہاوس میں 22 نومبر کو اجلاس ہوا اسی میں حسین حقانی نے استفعی دے دیا، یہ اگلے روز منظور کرکے نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا، حقانی نے اس سے پہلے بھی اپنے مستعفی ہونے کی تجویز دے دی تھی، اٹارنی جنرل نے کہاکہ وزیراعظم نے 22 نومبر کے اجلاس میں میمو کی تحقیقات کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب وفاق کاکہناہے کہ میمو محض کاغذ کا ٹکڑا ہے، پھر اس ٹکڑے پر صدر، وزیراعظم ، آرمی چیف کا اجلاس ہوتا ہے، پھر وزیراعظم تحقیقات کا بھی کہتے ہیں، حقانی سے استعفیٰ آخر کس لئے لیا گیا، اس کیس میں الزام لگانے والا اور اس الزام میں آنے والا، دونوں تحقیقات چاہتے ہیں، منصور اعجاز آج بھی موقف پر قائم ہے، اس نے جواب میں بلیک بیری کی 31 تصاویر بھی دی ہیں، پوری قوم متحد ہے کہ ملکی سلامتی، آزادی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ جبکہ وزیرِاعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ ان کی حکومت بری فوج اور فوجی خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آئی' کے سربراہان کو برطرف کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔وزیرِاعظم گیلانی نے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کی کارکردگی سے مطمئن ہے۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کو ہٹانے کی باتیں کرنے والے احمق ہیں،عسکری قیادت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ فوج اور حکومت کے درمیان بات چیت بند ہونے کا تاثر غلط ہے،میں رہوں نہ رہوں حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے گی، تاہم اس سے خطرہ نہیں ، ضدی بچہ نہیں ہوں کہ وزیراعظم بن کر بیٹھا رہوں مجھے ہٹانے کیلئے آئینی راستہ اختیار کیاجائے ، صدر زرداری عمران خان سے زیادہ جوان ہیں، ریاست کے اندر ریاست کی بات سیکرٹری دفاع کے ان کے سپریم کورٹ میں جواب کے حوالے سے کی، وزیر دفاع اس معاملے پر تحقیقات کر رہے ہیں۔ میمو اسیکنڈل پر عدالت کا فیصلہ قبول ہو گا، وزیراعظم ہاو ¿س میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ حکومتی منت پر جنرل اشفاق پرویز کیانی اور لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا توسیع لینے پر رضا مند ہوئے۔ عسکری قیادت کو ہٹانے کا تاثر غلط ہے ۔انہوں نے کہاکہ کسی کو انتخابات کی جلدی نہیں ہے۔امریکہ کی جانب سے جب بھی نیٹو حملے کے بارے میں فوج کو تحقیقاتی رپورٹ سپرد کی جائے گی تو ظاہر ہے جنرل اشفاق پرویز کیانی اسے لیکر میرے پاس آئیں گے۔ انہوں نے کہاکہ جمہوریت کے حق میں نواز شریف کا بیان حوصلہ افزا ہے انقلابی یہ بھی بتائیں کہ ان میں کوئی نیا بندہ بھی ہے وہ کس بنیاد پر اور کس کے بل بوتے پر انقلاب لانا چاہتے ہیں ۔ اپوزیشن سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے،غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے واضح کیاکہ عسکری قیادت میں سے کسی کو نہیں ہٹایا جارہا، جنگ کے دوران کسی جنرل کو نہیں ہٹایا جاتا۔ یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان بات چیت کے دروازے بند ہیں۔ نواز شریف سے جمہوری نظام کی بقاءکیلئے پہلے بھی مدد مانگی آئندہ بھی مانگ سکتے ہیں۔انقلابیوں سمیت کسی کو انتخابات کی جلدی نہیں‘ تحریک انصاف میں مسترد کئے ہوئے لوگ شامل ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ میمو ایشو کے بعد حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ حسین حقانی نے میرے مانگنے سے پہلے ہی استعفیٰ دیدیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو خطرہ نہیں سیاسی صورتحال انڈر کنٹرول ہے ملک میں کوئی بھی سیاسی بحران نہیں ہے میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں یا حکومت 5 سال پورے کرے گی بلکہ ہمیشہ کہا کہ پارلیمنٹ مدت پوری کرے گی۔اے پی ایس