متنازع میمو:سول و عسکری قیادت میں تناو۔چودھری احسن پر یمی




چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر اسمبلیاں اپنا کام احسن طریقے سے کر رہی ہوتیں تو میمو جیسے معاملات کو سپریم کورٹ میں نہ لایا جاتا۔گزشتہ بدھ کو سپریم کورٹ میں متنازع میمو سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ جس طرح کرائے کے بجلی گھروں، ریلوے اور دیگر اداروں سے متعلق معاملات سپریم کورٹ میں لائے گئے اسی طرح اس میمو سے متعلق بھی حقائق کو چھپانے نہیں دیا جائے گا۔ سماعت کے موقع پر امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے ان درخواستوں کے ناقابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی عسکری قیادت اور حکومت میں تناو پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے متنازع میمو کے اصل حقائق سامنے نہیں آ سکتے ہیں۔عاصمہ جہانگیر نے مزید کہا کہ ان کے موکل کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس میمو سے متعلق تحقیقات کے لیے قومی سلامتی سے متعلق پارلیمان کی کمیٹی ہی اصل فورم ہے اور اس میمو سے متعلق تحقیقاتی کمیٹی پر عدم اعتماد دراصل پارلیمان پر عدم اعتماد ہے۔بینچ میں موجود جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اس متنازع میمو کی پارلیمان سے تحقیقات کے لیے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے خط لکھا جو خود اس پارلیمان کو کم تر کرنے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم بھی پارلیمان کو ڈکٹیشن نہیں دے سکتے۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ان کا موکل اس پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہے اور وہاں سے ان کے موکل کی داد رسی نہیں ہوتی تو پھر سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات سے وہ حقائق سامنے نہیں آ سکتے جو پارلیمان کی تحقیقاتی کمیٹی سے سامنے آ سکتے ہیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں حقائق کو چھپانے نہیں دیا جائے گا۔چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اس میمو کے وجود کے بارے میں کہا ہے اور تمام متعلقہ افراد اس کی تحقیقات چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وفاق نے بھی اپنے بیان حلفی میں اس میمو کی تردید نہیں کی جبکہ صدر نے اس میمو سے متعلق ابھی تک جواب داخل نہیں کروایا۔عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ میمو ایک سیاسی معاملہ ہے اور کسی بھی معاملے کے سیاسی اور غیر سیاسی ہونے میں بڑا باریک فرق ہے اس لیے اس کی سماعت سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب کوئی معاملہ ملکی سلامتی سے متعلق ہو تو وہ کیسے سیاسی ہو سکتا ہے۔حسین حقانی کی وکیل کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالت درخواست گزاروں کے موقف سے پہلے ہی متاثر نظر آتی ہے اور ایسی صورت میں انہیں اپنی درخواست میں تعصب کا الزام بھی لگانا پڑے گا۔عاصمہ جہانگیر نے اس موقع پر کہا کہ عدالت وفاق اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کو میمو سے متعلق سرگرمیاں بتانے کا حکم دے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل نے عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں غیر ملکی اخبار اور غیر ملکی صحافی کو تو فریق بنایا ہے لیکن اس تنازع کے مرکزی کردار منصور اعجاز کو فریق نہیں بنایا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ عدالت اس معاملے کی چھان بین کرے کہ احمد شجاع پاشا نے امریکی شہری منصور اعجاز سے کب کہاں اور کیوں ملاقات کی۔سپریم کورٹ نے عاصمہ جہانگیر سے کہا کہ وہ انتیس دسمبر تک اپنے دلائل مکمل کر لیں جبکہ اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق کا کہنا تھا کہ وہ وفاق کی طرف سے مزید دلائل دینا چاہتے ہیں۔واضح رہے کہ مذکورہ سماعت سے ایک روز قبل سپریم کورٹ میں متنازع میمو کے مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے کہا تھا کہ وفاق کے نزدیک میمو صرف ایک کاغذ کا بے وقعت ٹکڑا ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔گزشتہ منگل کو سماعت کے موقع پر انہوں نے عدالت سے دوبارہ درخواست کی وہ اس سلسلے میں دائر درخواستیں مسترد کر دے۔جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ انہوں نے متنازعہ میمو سکینڈل کے سلسلے میں کسی ذاتی سیاست یا فائدے کی خاطر نہیں بلکہ ملک و قوم کے مفاد میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکٹھایا ہے۔میاں نوازشریف نے گزشتہ بدھ کو پشاور میں مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا کی صوبائی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔میا ں نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ ایک نئے پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کا آغاز کر رہے ہیں اور اس میں پشتون ان کا ساتھ دیں۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پشتونوں کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے، قبائلی علاقے تباہ ہوئے ہیں، پینتیس ہزار لوگ ہلاک اور ساٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے پشتونوں کو ان کے اس صبر و ہمت پر سلام پیش کیا۔مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکمرانوں نے ملکی پالیسوں کو تبدیل کرنے کی بجائے مشرف کی پالیسوں کو جاری رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک کی خودمختاری بری طرح پامال ہو رہی ہے۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اپنے ہی ملک سے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’حکمرانوں کی جانب سے ڈرون حملوں کی مزمت بھی کی جاتی ہے لیکن حکومت صوبہ بلوچستان سے اڑنے والے ڈرون طیاروں کو روک نہیں سکتی۔‘نواز شریف نے مزید کہا کہ مہران بیس پر ہونے والے حملے کے بارے میں تاحال کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں انہوں نے پوچھا کہ ’یہ حملہ کس طرح ہوگیا اور کون لوگ اس میں ملوث تھے؟‘ انہوں نے کہا کہ اس حملے کے باعث ملک کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اس واقعہ کی انکوائری کی بات کی لیکن ابھی تک کوئی انکوائری نہیں ہوئی اور اسی طرح سانحہِ مشرقی پاکستان کی انکوائری بھی سردخانہ میں پڑی ہے جبکہ بے نظیر بھٹو کے قتل اور کارگل کے ایشو کی انکوائری رپورٹ بھی قوم کے سامنے نہیں لائی گئی۔‘دریں اثناءمسلم لیگ صوبائی کونسل کے اجلاس میں سابق وزیراعلی پیر صابر شاہ اور رحمت سلام خٹک کو بلامقابلہ مسلم لیگ خیبر پختون کے صدر اور جنرل سیکرٹری منتخب کرلیا گیا ہے۔جبکہ امریکی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز اسلام آباد میں تعینات امریکی افسر نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی رپورٹ پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو پیش کی تھی۔یہ بات امریکی وزارتِ دفاع کے ترجمان کیپٹن جان کربی نے پریس کانفرنس میں بتائی۔پینٹاگون کے ترجمان نے کہا کہ یہ رپورٹ جنرل کیانی کو اتوار کے روز اس لیے دی گئی تاکہ ان کو اس رپورٹ کے بارے میں علم ہو جب یہ رپورٹ منظرِ عام پر لائی جائے۔واضح رہے کہ امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے یہ رپورٹ گزشتہ پیر کے روز ریلیز کی تھی۔جان کربی نے کہا ’ہم چاہتے تھے کہ جنرل کیانی اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہ ہوں۔اخبار’واشنگٹن پوسٹ‘ کےمطابق دہشت گردی کےخلاف اوباما انتظامیہ کے کارناموں میں سب سے زیادہ نما یاں القاعدہ کی صفوں کی صفوں کا صفایا کرنا ہے۔اخبار کہتا ہے کہ تین سال کی مختصر مدّت میں اس نے ڈرون طیاروں کو استعما ل کرنے کے لئے ایک وسیع جال بچھا لیا ہے جس کی مدد سے مشتبہ دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے اور غنیم پر چوری چھپے نظر رکھی جاتی ہے۔ِاس مقصد سے، درجنوں خفیہ تنصیبات قائم کی گئی ہیں جن میں مشرقی امریکی ساحل پر دو مرکز شامل ہیں۔ اس کے جنوب مغربی علاقے میں ایسے مرکز ہیں جنہیں عملی طور پر ائیر فورس کے کاک پٹ کہا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دو برّ اعظموں کے کم از کم چھ ملکوں میں خفیہ اڈّے قائم ہیں۔’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ صدر اوباما سے پہلے کسی صدر نے قومی سلامتی کے مقاصد کی پیروی میں اتنے وسیع پیمانے پر افراد کو ہلاک کرنے کے لئے خفیہ طریقوں کا سہارا نہیں لیا۔ڈرون طیاروں کےاستعمال میں اتنی تیزی آئی ہے کہ اِس کے نتیجے میں سی آئی اے اور فوج کے درمیان حد ِفاصل کا وجود مٹتا جا رہا ہے۔ ان خفیہ کاروائیوں کو حسب ضرورت زیادہ سے زیاد ہ بروئے کار لایا جارہا ہے، اور ہتھیاروں اور عملے کو اس طرح یک جا کیاجارہا ہے تاکہ وہائٹ ہاوس ان الگ الگ قانونی اداروں سے رابطےمیں رہے جنہیں اِس طرح ہلاک کرنے کی اجازت دینے کا اختیار ہے۔یمن کی مثال دیتے ہوئے اخبار کہتا ہے کہ وہاں سی آئی اے اور فوج کی سپیشل اوپریشنز کمان نے ایک ہی د ±شمن کو ایک ہی قسم کے طیاروں سے نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں اس سال ہلاک ہونے والوں میں تین امریکی شہری بھی تھے جن میں سے دو پر القاعدہ کے کارکن ہونے کا شبہ تھا۔صدر اوباما کی پہلی میعاد کا ابھی ایک سال باقی ہے اور ان کی انتظامیہ ناقابل تردید دعوے کر سکتی ہے۔ اوساما بن لادن کو ٹھکانے لگا دیا گیا ہے، القاعدہ نیٹ ورک اب شکست کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور اس کے علاقائی اتّحادیوں کے ارکان اب آسمان کے تارے گن رہے ہیں۔اخبار کہتا ہے کہ جب2009 ءمیں صدر اوباما نے حلف اٹھایا تھا تو اس وقت ڈرون طیاروں کا استعمال صرف ایک ملک یعنی پاکستان میں ہوتا تھااور جہاں پانچ سال کے دوران 44 ڈرون حملوں میں لگ بھگ 400 افراد ہلاک کئے گئے تھے۔اس کے بعد سے ان حملوں کی تعداد اب 240 تک پہنچ گئی اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد محتاط اندازوں کے مطابق چو گنی ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اس سال ڈرون حملوں میں کمی آئی ہے جس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ سی آئی اے وقتاً فوقتاً بحران کی صورت میں انہیں بند کر دیتی ہے۔ پھر پچھلے ماہ ایک غیر ارادی نیٹو فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے یہ حملے بند ہیں ۔ امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ القاعدہ کےاہم ٹھکانوں پر ڈرون حملوں کی تعداد کم ہو کر صرف دو رہ گئی ہے۔ سابق وزیر خارجہ اور تحریکِ انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کے حق میں ہے اور پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کے لیے امریکہ سے مزاکرات کرنا ہوں گے۔انہوں نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم پر مسلط کی گئی تھی اور یہ جنگ ہمیں مجبوراً لڑنا پڑ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغرب کی جانب سے تیار کی جانے والی موجودہ حکمت عملی عمران خان کی سوچ کے قریب ہے۔انہوں نے کہا کہ جب نیٹو فورسز افغانستان میں داخل ہوئیں تو وہاں سے بڑی تعداد میں جنگجو پاکستان میں داخل ہوگئے جنہوں نے ہماری حکومت کی رِٹ کو چیلنج کیا جس کی وجہ سے ہمیں کارروائی کرنی پڑی۔انہوں نے کہا کہ اب عالمی سطح جو حکمتِ عملی بن رہی ہے وہ عمران خان کی سوچ کے قریب ہے کیونکہ ان کا پہلے دن سے یہی کہنا تھا کہ جنگ اس مسئلے کا حل نہیں اور وہ سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔امریکہ اور پاکستان کے درمیان جاری موجودہ کشیدگی کے بارے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارا مقصدکیا ہے۔’پاکستان کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو تا کہ پاکستان بھی پرسکون رہ سکے افغانستان میں امن کے لیے مزاکرات کرنا ہوں گے اور مزاکرات کے لیے امریکہ کو بھی شامل کرنا ہوگا اور امریکہ کو ہماری حساسیت کا خیال بھی رکھنا ہوگا اس لیے سب سے ضروری ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے لیے نئے اصول و ضوابط وضع کیے جائیں۔‘سیاسی میدان میں ہونے والی ہلچل اور خاص کر مخدوم جاوید ہاشمی کے تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہمارا کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے صرف ہم نے ایک دوسرے کے خلاف انتخاب لڑا ہے اور اب صورتِ حال بدل چکی ہے۔’وہ (جاوید ہاشمی) اور میں ملتان ہی کے دو مختلف حلقوں سے منتخب ہوچکے ہیں لہٰذا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔‘یاد رہے کہ شاہ محمود قریشی نے انیس سو پچاسی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مخدوم جاوید ہاشمی کےخلاف ملتان سے انتخابات لڑئے ہیں۔انہوں کے کہا کہ ان کی جماعت انتخابات کے لیے تیار ہے اور انتخابات جتنی جلدی ہوں اتنا ہی اچھا ہے۔ایک سوال پر کے ان کی جماعت نے انتخابات کا ابھی تک مطالبہ نہیں کیا ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی تو پارلیمان میں کوئی نشست نہیں ہے اس لیے انہوں نے نون لیگ سے کہا تھا کہ اگر وہ انتخابات کروانا چاہتے ہیں تو اسمبلیوں سے استعفٰی دے دیں تاکہ حکومت انتخابات کے لیے مجبور ہوجائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے موجودہ اسمبلیاں ویسے بھی اپنی افادیت کھو چکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی کے جلسے کے بعد اب ان کی پہلی ترجیح اندرونِ سندھ تحریکِ انصاف کو منظم کرنا ہے اور
اس کے لیے سندھ کے دیگر کئی شہروں میں جلسے بھی کریں گے۔پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ سے تحریکِ انصاف کی قربتوں اور مبینہ اتحاد کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف پاکستان کے شہری ہیں اور ان پرسیاست میں حصہ لینے پر کوئی قانونی قدغن نہیں ہے مگر ان کی جماعت نے ابھی تک کسی جماعت سے اتحاد کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا اور اس کا فیصلہ وقت آنے پر ہوگا۔اے پی ایس