حکومت،آئین اور قانون۔چودھری احسن پر یمی



سابق چیف جسٹس پاکستان سعید الزماں صدیقی نے پاکستان میں انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والی غیر ملکی تنظیم کی جانب سے پاکستانی ریاستی اداروں خصوصاً اعلیٰ عدلیہ کی سا لمیت پر حملے پر شدید تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ کسی کو بھی ریاستی اداروں کی سا لمیت اور حرمت پر حملے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے میمو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر متنازع بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس (ر) سعیدالزماں صدیقی نے کہا کہ اس تنظیم کے جاری کردہ پریس ریلیز میں جو جملے استعمال کئے گئے ہیں وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت ہے اور کسی بھی تنظیم یا ادارے کو اس سطح پر تبصرے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے کہا سپریم کورٹ کو ایسے گھناو ¿نے حملے اور خصوصاً امریکی امداد سے چلنے والے ادارے کے بیان کا فوری نوٹس لینا چاہئے۔ واضح رہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ عمومی تاثر ہے کہ عدلیہ سول حکومت کے خلاف امتیاز برت رہی ہے۔ بیان میں عدلیہ اور فوج پر شدید حملے کئے گئے ہیں۔ د ریں اثناءایچ آر ڈبلیو، (جس نے بیان جاری کیا ہے) کے پاکستان میں ڈائریکٹر علی دایان حسن نے کہا کہ گزشتہ چند روز کے دوران ان کی صدر آصف زرداری یا ان کے کسی ساتھی سے ملاقات نہیں ہوئی ہے ان کا کہنا تھا کہ پریس ریلیز جاری کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے کسی نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا میری تنظیم نے پاکستان میں انسانی حقوق، جمہوریت اور آئین کے درپیش خطرات کے پیش نظر یہ بیان جاری کیا ہے۔ غیرجانبدار اور معروضی ہونے کا تاثر رکھنے والی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ جمعہ کو پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کیخلاف انتہائی قابل اعتراض اور جانبدارانہ پوزیشن اختیار کی اور میمو گیٹ کے معاملے میں خود بھی متنازع طور پر کود پڑی۔ ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان ڈائریکٹر علی دایان حسن نے اپنے بیان میں میمو گیٹ کیس پر عدالتی کمیشن تشکیل دیئے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہا کہ میمو گیٹ میں تمام فریقین کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ایک قانونی تنازع کو پارلیمانی اور صدارتی اختیارات کو گھٹانے اور سول حکمرانی کو اکھاڑ پھینکنے کا ذریعہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اس انتہائی متنازع بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام ریاستی اداروں کو اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے قانونی سول حکمرانی کی مدد کیلئے کام کرنا چاہئے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدلیہ کو کسی بھی فریق کی جانب سے امتیازی سلوک کے تاثر کو ختم کرنے کیلئے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ جبکہ قومی سلامتی اب صرف اور صرف فوج کی ذمہ داری نہیں رہی اور نہ ہی اس کی دیکھ بھال چند مخصوص افراد کا بلا شرکت غیر فریضہ ہے۔ قومی سلامتی کو مو ¿ثر طریقہ سے یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دفاعی حکمت عملی سے متعلق ایک ایسا ڈھانچہ وضع کیا جائے جو ملک کی دفاعی قوت کے تمام عناصر پر مشتمل ہو۔ان خیالات کا اظہار چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں نے گزشتہ جمعہ کو اسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی تیرہویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کی تقسیم اسناد کی تقریب کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔جبکہ سپریم کورٹ نے میمو اسکینڈل سے متعلق آئینی درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکن عدالتی کمیشن قائم کر دیا ہے۔عدالت عظمٰی نے سنائے گئے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار اپنا یہ موقف ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ میمو سے متعلق معاملات کی تحقیقات عوامی اہمیت کی حامل ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت کے نو رکنی بنچ نے درخواست گزاروں کی استدعا پر اس مراسلے کا نقطہ آغاز، اس کی صداقت اور اسے تحریر کرکے قومی سلامتی کے لیے سابق امریکی مشیر جیمز جونز کے توسط سے ایڈمرل مائیک ملن کو پہنچانے کے مقصد کی تحقیقات کا حکم بھی جاری کیا۔یہ تحقیقات تین رکنی عدالتی کمیشن کرے گا جس کے سربراہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فیض عیسیٰ ہوں گے جبکہ دیگر اراکین میں سندھ ہائی کورٹ اور اسلام اباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان شامل ہیں۔کمیشن کو موجودہ قوانین کے تحت اندرون ملک اور پاکستان سے باہر مراسلے سے متعلق شواہد اکٹھے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اوروہ تمام فریقین کو اپنا بھرپور موقف پیش کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ عدالت عظمیٰ نے تین رکنی عدالتی کمیشن کو اپنا کام چار ہفتوں میں مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔عدالت عظمی نے سابق سفیر حسین حقانی پر پاکستان سے باہر جانے کی پابندی بھی برقرار رکھی ہے۔اس مقدمے میں حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر تھیں، جنھوں نے عدالت کے فیصلے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کی۔”میں سمجھتی ہوں کہ عدلیہ کے لیے آج تاریخ کا ایک سب سے تاریک دن ہے … جس نے قومی سلامتی کو بنیادی حقوق پر فوقیت دی ہے۔“ان کے بقول عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے پاکستان میں سیاسی حکومت کے مقابلے میں فوج کی برتری ثابت کی ہے۔ ”آج میں سمجھتی ہوں کہ سویلین اتھارٹی، عسکری اتھارٹی کے نیچے آ گئی ہے۔“سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ میمو کیس میں منصور اعجاز کی طرف سے داخل کردہ جواب کے ساتھ بہت سی دستاویزات بھی نتھی کی گئیں جن میں سابق سفیر حسین حقانی کے ساتھ بلیک بیری کے ذریعے ا ±ن کے پیغامات کے تبادلے شامل ہیں اور جو اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ دونوں اشخاص 9 سے 12 مئی کے دوران مسلسل رابطے میں تھے۔فیصلے میں عدالت نے کہا کہ درحقیقت نا صرف اس عرصے میں دونوں کے درمیان 85 بلیک بیری پیغامات، ٹیلی فون رابطے اور ای میل پیغامات کا تبادلہ کیا گیا بلکہ منصور اعجاز کا دعویٰ ہے کہ 28 اکتوبر اور یکم نومبر کو بھی انھوں نے حسین حقانی کے ساتھ رابطہ کیا۔”اس بنا پر انصاف کا تقاضا ہے کہ ان رابطوں کی صداقت جاننے کے لیے اٹارنی جنرل وزارت خارجہ کے توسط سے کینیڈا میں مقیم ریسرچ اِن موشن نامی کمپنی سے ان پیغامات کی تصدیق حاصل کریں کیونکہ تمام تفصیلات اسی کمپنی کے پاس ہوتی ہیں۔“حکومت پاکستان نے مئی میں امریکی قیادت کو بھیجے گئے میمو کو ’کاغذ کا ٹکڑا‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے آئینی درخواستوں کو مسترد کرنے کی استدعا کی تھی۔آئینی درخواستوں میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا کو بھی فریق بنایا گیا ہے، اور ان فوجی قائدین نے عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے جوابات میں کہا ہے کہ میمو ایک حقیقت ہے جس کی تحقیقات ہونی چاہیئں۔مبینہ طور پر صدر آصف علی زرداری کی ایما اور اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کی ہدایت پر لکھے گئے میمو میں پاکستانی فوج کی طرف سے ممکنہ بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے عسکری قیادت کی برطرفی میں امریکہ سے مدد طلب کی گئی تھی۔میمو اسکینڈل پر وفاق اور ملک کی عسکری قیادت کے متضاد موقف کی وجہ سے سیاسی حکومت اور فوج کے طاقتور ادارے کے درمیان بظاہر کشیدگی پائی جا رہی ہے۔جبکہ میمو اسکینڈل کے مرکزی کردار امریکی تاجر منصور اعجاز نے سپریم کورٹ کی جانب سے میمو اسکینڈل کی تحقیقات کے لئے تین چیف جسٹس پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا خیرمقدم کیا ہے اور میڈیا و دیگر لوگوں کو انتباہ کیا ہے کہ ان کی کردار کشی کی مہم بند کردی جائے جو وہ گزشتہ کچھ عرصے سے کررہے ہیں۔ ایک بیان میں منصور اعجاز کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس بات کا بھرپور اظہار ہے کہ میں نے جو سچ بولا اور آپ کے ملک کو سینئر لیڈروں کو پہنچایا وہ حقیقی ہے اورجامع تحقیقات کا متقاضی تھا۔ منصور اعجاز نے بتایا کہ انہوں نے اپنے و کلاءکو ایک پاکستانی اخبار پر ہتک عزت کا مقدمہ کرنے کی ہدایت کردی ہے تاہم انہوں نے اخبار کا نام نہیں بتایا۔ انہوں نے اپنے اس وعدے کا اعادہ کیا کہ وہ کسی بھی اعلیٰ سطح، آزاد اور قابل بھروسہ تحقیقات میں تعاون کریں گے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی اعلان کردہ تحقیقاتی کمیٹی سے مکمل اور شفاف تعاون کایقین دلایا منصور اعجاز نے بتایا کہ ان کے وکلاءکی ٹیم نے میری ذات، میرے کاروبار اور میرے اہل خانہ کے متعلق نازیبا اور زہرآلود زبان استعمال کئے جانے اور مسلسل ملنے والی دھمکیوں کا نوٹس لیا ہے میں نے اب تک اپنے خلاف اس نازیبا مہم کو نظرانداز کیا کیونکہ جو سچ، جو حقائق، جو شہادتیں میرے پاس ہیں وہ پاکستانی پریس کے رویہ سے تبدیل نہیں ہوسکتے۔ حسین حقانی کے قانونی مشیر اور پاکستان کے بعض سیاسی عناصر ان حقائق کے خلاف بول سکتے ہیں مگر سچ اور حقائق کو چھپانے کی کوششیں ناکام ہوگئیں میں اب مزید اپنے خلاف حملے برداشت نہیں کروں گا اور اپنے وکلاءکو ایک ادارے کے خلاف قانو نی کارروائی کرنے کی پہلے ہی ہدایت کردی ہے اور آئندہ اپنی ذات کے خلاف کسی بھی رائے، تجزیہ اور نازیبا گفتگو پر کسی بھی شخصیت، نیوز ادارے چاہے وہ ٹی وی چینل ہو یا اخبار یا ادارتی عملہ کو قانونی نوٹس جاری کیا جائے۔سابق وفاقی وزیر قانون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر بابر اعوان نے میمو گیٹ اسکینڈل سے متعلق آئینی درخواستوں کے قابل سماعت قرار دیئے جانے اور جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظرثانی کی گنجائش موجود ہے۔ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اس پر نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا،میمو ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا اس جیسے سو خط بھی ہوں تو تب بھی ملک کی سلامتی اور سالمیت کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ پیپلز پارٹی کے نائب صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد لاہور پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کا خط سے کوئی تعلق نہیں ملک میں جمہوریت کو مکمل آزادی حاصل نہیں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جا رہا بلکہ وہ رینگ رہی ہے عوام کے مسائل حل کرنے نہیں دیئے جا رہے نان ایشو اٹھائے جا رہے ہیں حکومت کے بہت سے عوامی فلاح کے منصوبوں کو مکمل نہیں کرنے دیا جا رہا ہے عوام کا پرسان حال کوئی نہیں ہے سب جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں درخواست کس کی فرمائش پر دائر کی گئی۔ جبکہ پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے میمو اسکینڈل کی تحقیقات کے سلسلے میں سابق سفیر حسین حقانی، خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا اور اس معاملہ کے مرکزی کردار منصور اعجاز کو طلب کیا ہے۔سینیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تینوں افراد کو 10 جنوری تک بلایا جائے گا۔رضا ربانی نے بتایا کہ پاکستانی نژاد امریکی شہری منصور اعجاز کی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت یقینی بنانے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر پارلیمانی کمیٹی امریکی قیادت کو بھیجے گئے متنازع میمو یا خط کے معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔حسین حقانی اور خود حکومت مبینہ طور پر صدر آصف علی زرداری کی ایما پر لکھے گئے خط سے لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں، لیکن ملک کی عسکری قیادت کے بقول میمو ایک حقیقیت ہے اور اس کی تحقیقات ضروری ہیں۔حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف سمیت کئی افراد نے اس معاملے کی تحقیقات کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں۔جبکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کی موجودگی سے متعلق وزیر اعظم کا بیان عالمی سطح پر فوج کیخلاف چارج شیٹ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ جو پاکستان کے گلے پڑ سکتا ہے ، وزیراعظم اس حوالے سے وضاحت کریں ریکارڈ پر یہ بات لائیں اور اپنا بیان واپس لینے سمیت قومی اسمبلی کی کارروائی سے حذف کیا جائے ، نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجلی، گیس بحران پر متعلقہ وزراءاپنی کوتاہی تسلیم کرتے ہوئے مستعفی ہو جائیں، حکومت گیس بحران پر ڈرافٹ تیار کر کے پیر کو ایوان میں بحث کرائے۔ مفرور وزیرپٹرولیم ڈاکٹر عاصم کو ایوان کے سامنے پیش کیا جائے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ عوام کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں اور ہمیں چاہئے کہ ہم اس اسمبلی کو بامقصد بناکر آگے کی طرف لے کر بڑھیں۔ ہمارے کسی رکن کی جانب سے سی این جی بند کرنے کی تجویز قطعاً پارٹی کا موقف نہیں ہے۔ عام صارفین کو 10.10 ہزار کے بلز بھجوائے جارہے ہیں۔ کیا کسی کا احتساب ہو گا کوئی پارلیمنٹ کو جواب دہ ہو گا۔ پارلیمنٹ کو احتساب کرنے دیں ۔ اسمبلی کا آخری سال ہے کچھ تو تقدس رہنے دیں ۔منتخب پارلیمنٹ کو بے مقصد بے معنی بنانے کی وجہ سے پرویز مشرف حکومت سے تعلق رکھنے والوں کو متحرک ہونے کا موقع ملا ۔جاوید ہاشمی کو مناسب عہدہ نہ دینے پر ہم پر تنقید کی جاتی ہے ،وزارتیں نااہل لوگوں کو دی جارہی ہیں، ہم اسپیکر اور ڈپٹی کا احترام کرتے ہیں۔ گزشتہ روز جاوید ہاشمی کے خطاب کے حوالے سے بات حکومتی ارکان کیلئے کی تھی، ہمیں بھی مخدوم جاوید ہاشمی کی طرح شاہ محمود کی تقریر سننے کی خواہش تھی لیکن انہیں کوشش کے باوجود موقع نہیں دیا گیا۔جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ صدر زرداری اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان تعلقات بہت اچھے ہیں، حکومت مستحکم ہے، اقتدار کیلئے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ پرانا حربہ ہے تمام جماعتیں متفق ہیں کہ حکومت کو 5 سال پورے کرنے چاہئیں، جلد انتخابات کا کوئی امکان نہیں،راتوں رات بننے والی پارٹیاں جلد ختم ہو جاتی ہیں، ملکی پالیسیاں بنانا فرد واحد کا کام نہیں، حکومت آئین و قانون کے مطابق کام کر رہی ہے، سرائیکی صوبہ پیپلزپارٹی ہی بنائیگی، بھٹو کے فلسفے پر چلنے والوں کو فصلی بٹیروں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، پی پی کارکنوں کو ترقیاتی منصوبوں میں 5 فیصد کوٹہ ملے گا۔ وہ گزشتہ روز ملتان میں صحافیوں سے بات چیت میں وزیراعظم نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت سرائیکی عوام کے حقوق کی جنگ قومی اور صوبائی اسمبلی میں لڑے گی۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ناانصافیاں ختم کرنے کی کوشش کی گئیں، جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ عوام کو ان کے حقوق نہ ملیں وہ حکومت کی ٹانگ کھینچنے کی کوشش کررہے ہیں ہم انکی سازشیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے جو لوگ عوام کے حقوق کے خلاف سازش کریں گے کروڑوں عوام اسے مسترد کردیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کے بارے میں قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی سفارشات تیار کر رہی ہے۔ یہ سفارشات پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں گی اور پارلیمنٹ میں اتفاق رائے حاصل کرنے کے بعد اس بارے میں پالیسی وضع کی جائے گی۔ آئندہ تمام پالیسیاں پارلیمنٹ بنائے گی، فرد واحد کے فیصلے نہیں ہوں گے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتر پیش رفت ہو رہی ہے، ہم افغان مسئلہ کا بھی پائیدار حل چاہتے ہیں کیونکہ مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہو گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے ہم اتفاق رائے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اس حق کیلئے صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں علم بلند کیا جائے گا۔اے پی ایس