حکمرانوں کی غریب عوام سے کھلواڑ پر قائد حزب اختلاف سے گفتگو۔چودھری احسن پر یمی



مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن عروج پر ہے،غربت نے عوام کو مار ڈالا ہے،بجلی نہیں، گیس نہ ہونے سے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے،آج پی آئی اے اور ریلوے بند ہیں،غیر ملکی طاقتیں پاکستان کا مذاق اڑاتی ہیں، آج ہماری حکومت ہوتی تو گیس بند نہ ہوتی، بجلی کا مسئلہ حل ہوچکا ہوتا۔گزشتہ ہفتہ کوگوجرانوالہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے نوازشریف کا کہنا تھا ملک کو بنے چونسٹھ سال ہوگئے لیکن آج بھی پاکستان اسی طرح محرومیوں کا شکار ہے، آج دو وقت کی روٹی نہیں ، پینے کا صاف پانی نہیں،ہم حکومت کو سمجھاتے رہے، کہا صحیح لائن پر آو،پاکستانی بھکاری نہیں خود مختار قوم ہے۔انہوں نے کہا کہ حکمران عوام کی غربت سے کھیلتے رہے، اپنی جیبیں بھرتے رہے، بجلی گیس کے ریٹ بڑھے تو چین سے نہیں بیٹھوں گا، جس قوم نے اربوں ڈالر ٹھکرادیئے وہ کبھی بھیک نہیں مانگ سکتی،پاکستان میں کرپشن عروج پر ہے۔انہوں نے کہا کہ جو ایبٹ آباد میں ہوا وہ قوم کے لئے ناقابل برداشت ہے، ہم پاکستان کی موجودہ صورتحال کو برداشت نہیں کرینگے۔جبکہ قائد حزب اختلاف ورکن قومی اسمبلی پی ایم ایل نون کے مرکزی رہنماءچودھری نثارعلی خان نے گزشتہ ہفتہ کو پی یم ایل نون کے زیر اہتمام ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے اس سے قبل فیصل آباد کے جلسہ میں اثاثہ جات کے حوالے سے کہا تھا کہ ہمارا مقابلہ میڈیا کے ذریعے نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے ذریعے کریں لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔اس موقع پر چودھری نثارعلی خان نے عمران خان کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کراچی میں کہتا ہے کہ میں میچ فکسنگ نہیں کرتا اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ کراچی میں عمران خان نے ایم کیو ایم کے خلاف دو لفظ تک نہیں بولے یہ میچ فکسنگ نہیں تو کیا ہے۔انہوں نے عمران خان بارے مزید کہا کہ عمران خان ملک سے باہر جاتا ہے تو کہتا ہے کہ میں لبرل ہوں ملک کے اندر آتا ہے تو کہتا ہے کہ میں قدامت پسند ہوں۔عمران خان خود مختاری کی بات کرتا ہے لیکن کندھوں پر مشرف کے حواریوں کو بٹھایا ہوا ہے۔ایک طرف امریکہ کے خلاف بات کرتا ہے لیکن دوسری طرف امریکی سفیر سے جھک جھک کر ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان سٹیڈیم نہیں بھر سکتے وہ ہمارا مقابلہ کیا کریں گے۔انقلاب کا نعرہ لگانے والے دوسروں کے کندھوں پر نہیں چڑھتے انہوں نے عوام کو خبردار کیا کہ وہ مشرف کے بہروپیوں سے دھوکہ مت کھائیں انہوں نے کہا کہ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ موٹر وے،گوادر پورٹ،بڑے شہروں میں تعمیر ائیر پورٹ نواز شریف دور میں مکمل کئے گئے جبکہ ملک میں بدترین چونگیوں کے نظام اور سندھ میں ڈاکو راج کا خاتمہ بھی نواز شریف دور میں ہوا۔ چودھری نثارعلی خان نے کہا کہ نواز شریف اور ہم سب کا کردار عوام کے سامنے ہے۔ہم پاکستان کے عوام کی تاریخ بدلیں گے۔ وطن عزیز کو درپیش چیلنجز جن میں دہشت گردی کے علاوہ بیرونی خطرات کی جس صورتحال کا سامنا ہے وہ اندرونی بد نظمی، بد عنوانی، اور من مانے فیصلوں کے ساتھ مل کر ہر روز سنگین تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی سے وابستگی کے دعووں کے باوجود اس کے فیصلوں کو پس پشت ڈالنے کی مثالیں قائم کی جا رہی ہیں۔ عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد میں لیت و لعل کے ذریعے آئین اور قانون کی حکمرانی کے تصور کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ پٹرول، گیس اور بجلی کے بحران کو ایسے مقام پر پہنچادیا گیا ہے کہ صنعت کار مایوس ہو کر دوسرے ملکوں کا رخ کررہے ہیں، کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے، بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور مہنگائی غریب عوام کے لئے ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔ مسائل کا پہاڑ ہر روز بلند تر ہوتا جا رہا ہے اور حکمرانوں کے طرز عمل سے بالکل انداہ نہیں ہوتا کہ انہیں عوام کے مسائل و مشکلات کا احساس ہے۔ملک و قوم کو درپیش مسائل کی مناسبت سے گزشتہ دنوں قائد حزب اختلاف و رکن قومی اسمبلی چودھری نثار علی خان مرکزی رہنماءپی ایم ایل نون کے ساتھ ایسوسی ایٹڈ پریس سروس،اے پی ایس نیوز ایجنسی نے پارلیمنٹ میں ان کے چیمبر میں ایک نشست کا اہتمام کیا۔اس موقع پر ملکی معاشی عدم استحکام اور عوام کو آئے روزدرپیش مشکلات کے حوالہ سے مختلف سوالات زیر بحث آئے۔اس موقع پر جو تفصیلی گفتگو ہوئی وہ قارئین قارئین کی نذر ہیں۔ قائد حزب اختلاف و رکن قومی اسمبلی چودھری نثار علی خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ موجودہ حکومت کے پچھلے پونے چار برسوں میں گورننس کے فقدان کے باعث معیشت مسلسل ہچکولے کھاتی رہی ہے جبکہ قانون کی عملداری عملاً ختم ہونے کے باوجود ہر قسم کے جرائم میں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث تاجروں سمیت عوامی حلقوں کی طرف سے یوٹیلٹی بل اور ٹیکس نہ دینے کی باتیں تک سامنے آچکی ہیں۔ نظم حکومت کی خرابی کے باعث کبھی مڈٹرم الیکشن کی تجاویز سامنے آتی ہیں اور کبھی ایوان کے اندر سے تبدیلی کی باتیں کی جاتی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی بات جمہوری روایات اور طریقوں کے منافی نہیں۔ منتخب حکومت کا مدت پوری کرنا یقیناً احسن بات ہے کیونکہ اس طرح حکمرانوں کو اپنے افکار و نظریات کے مطابق کام کرنے اور متعین روڈ میپ کے ذریعے ملکی ترقی، خوشحالی کے لئے کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن جب عوام کی مشکلات میں اضافے کا سلسلہ جاری ہو اور اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہ آرہی ہو تو ایسی تجاویز کا برا نہیں منایا جانا چاہئے جن کا مقصد حالات میں بہتری لانا ہو۔ قائد حزب اختلاف و رکن قومی اسمبلی چودھری نثار علی خان نے مزید کہا کہ میاں نواز شریف کی طرف سے جلد الیکشن کرانے کے مشورے کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وسط مدتی الیکشن یا قبل از وقت انتخابات کا انعقاد کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ جمہوری روایات کا حصہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک اس وقت جس نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اس میں سیاستدانوں کے درمیان افہام و تفہیم کی ضرورت حد درجہ بڑھ چکی ہے۔ غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت کا موقع نہ دینے کے اعلانات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہونے کے باوجود اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ وطن عزیز میں جب بھی سیاستداں باہمی افہام و تفہیم میں ناکام ہوئے ہیں تو فیصلہ غیر سیاسی قوتوں نے کیا ہے۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ سیاست داں خود ہی مل بیٹھ کر ملک و قوم کے بہتر مفاد میں جلد فیصلے کریں اور اتفاق رائے سے انتخابی شیڈول بنائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دنوںسپریم کورٹ کے دیئے گئے یہ ریمارکس سیاسی قوتوں کے لئے چشم کشا ہونے چاہئیں کہ الیکشن کے عمل میں شفافیت نہ ہو تو نظام بھی پٹری سے اتر سکتا ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ جمہوری ممالک انتخابی عمل کی شفافیت کو اپنے نظام کی ایک ناگزیر ضرورت سمجھتے ہوئے ایسے تمام ممکنہ طریقے اختیار کرتے ہیں جن کے ذریعے انتخابات کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انعقاد کو یقینی بنایا جا سکے۔ جمہوری معاشرے اس معاملے میں معمولی کوتاہی بھی برداشت کرنے کے روادار نہیں۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ شفاف انتخابات ہی جمہوریت کو یقینی بناتے، اس کا اعتبار قائم کرتے اور حکمرانوں میں یہ احساس پیدا کرتے ہیں کہ ان کے دوبارہ انتخاب کا انحصار جعلی ووٹوں اور نامناسب انتخابی ہتھکنڈوں کی بجائے عوام کے بے لاگ اعتماد پر ہے۔ اس احساس کی غیر موجودگی اختیارات کے غلط استعمال، کرپشن اور من مانے فیصلوں کا ذریعہ بن کر عوام کو مجبور کرتی ہے کہ وہ حکمرانوں کی واپسی کے لئے دن گن گن کر تکلیف کا وقت گزاریں۔ قائد حزب اختلاف و رکن قومی اسمبلی چودھری نثار علی خان نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف جب جلد انتخابات کی ضرورت کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی دلیل بھی یہی ہوتی ہے کہ اقتدار کی مدت پوری کرنے کے چکر میں حالات زیادہ خراب ہو جائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں جاری سیاسی سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کئی پارٹیاں انتخابی عمل شروع کر چکی ہیں۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور نادرا کو 23 فروری 2012ءتک انتخابی فہرستیں ہر صورت میں مکمل کرنے کا جو حکم دیا ہے، اس کی روشنی میں بھی عام انتخابات کے انتظامات کی تکمیل کے لئے اہم بات یہ ہے کہ ان کا انعقاد شفاف ہو اور ان کے نتیجے میں اقتدار کی منتقلی پر امن طور پر اور خوش اسلوبی سے عمل میں آ جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر ایک جامع حکمت عملی مرتب کریں۔ قائد حزب اختلاف و رکن قومی اسمبلی چودھری نثار علی خان نے مزید کہا کہ اسی طرح شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن کی موجودگی ضروری ہے۔ اسی طرح 18 ویں
آئینی ترمیم کے تحت انتخابی فہرستوں میں ووٹروں کی تصویروں کی شمولیت یقینی بنانے سمیت کئی معاملات ایسے ہیں جن پر سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر ایک مشترکہ حکمت عملی وضع کرنی چاہئے تاکہ باہمی اختلافات اور افراتفری کے باعث انتخابی عمل سیاسی قوتوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے امکانات ختم ہو سکیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر موجودہ حکومت نے آئین سے انحراف کیا تو نظام کمزور ہوگااورتیسری قوت کوفائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے حکومتی دعوی کہ کابینہ کے 80فیصد فیصلوں پرعملدرآمد کردیا ہے۔اس کے جواب میں کہا کہ زمین پر اس دعوے کے ثبوت کم ہی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ کسی ایک حلقے یا طبقے کی حد تک یہ بات کسی حد تک درست ہو مگر ملک گیر سطح پر مسائل و مشکلات کے خاتمہ کے حوالے سے گلی کوچوں میں عام آدمی سے پوچھا جائے تو اس کا جواب اثبات میں نہیں ہوگا بلکہ بعض لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت نے انتخابات سے قبل عوام سے جو وعدے کئے تھے ان میں سے ایک فیصد پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ کیونکہ عملی طور پر لوگوں کو مایوسی کے سوا زمین پر کچھ نظر نہیں آتا۔حکومت اس حوالے سے جو دعوے کررہی ہے وہ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب آدمی سے دووقت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔ آٹے دال گوشت سبزی سمیت تمام بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم سے اس بارے میں پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں پوری دنیا میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ دوسرے ملکوں میں عوام کی قوت خرید پاکستان کے مقابلے میں کتنی بہتر ہے۔ ملک بھر کے عوام کے گھروں میں چولہے ٹھنڈے ہو نے پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ شہریوں کی برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہے اور مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ملک کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں گیس ضرورت کے مطابق ملتی ہو۔قدرتی وسائل کے وفاقی وزیر کی توجہ اس جانب دلائی جائے تو وہ بلاتکلف جواب دیتے ہیں کہ ملک میں گیس ہے ہی نہیں تو ہم کہاں سے دیں حالانکہ گیس کی سپلائی یقینی بنانا حکومت ہی کا کام ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر آنے والے وقت کے لئے پیشگی منصوبہ بندی کرکے گیس کے نئے ذخائر تلاش کئے جاتے اور انہیں بروئے کار لایا جاتا تو اس بحران سے بچا جا سکتا تھا۔پھر تھر میں ملنے والے کوئلے سے بھی گیس بنانے کی رفتارتیز کی جا سکتی تھی جس سے اس کی قلت پر کسی حد تک قابو پا لیا جاتا۔ ایران اور وسطی ایشیا کے ممالک کب سے پاکستان کو گیس فراہم کرنے کے لئے تیاربیٹھے ہیں مگر ہم تیار نہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ایران گیس کی پائپ لائن پاکستان کی سرحد تک پہنچا چکا ہے لیکن پاکستان کی جانب سے اس سستی گیس کی خریداری کے لئے باہمی اتفاق رائے کے باوجود فائلیں درازوں میں بندپڑی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آج توانائی کا بحران ہوتا نہ منافع بخش قومی ادارے تباہی سے دوچار ہوتے۔ سرکاری محکموں میں کرپشن ایک ناسور کی طرح سرایت کرچکی ہے اور عام آدمی چھوٹا موٹا کام بھی رشوت یا سفارش کے بغیر نہیں کراسکتا ۔بے روزگاری بڑھ رہی ہے،میرٹ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں،سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے، کسادبازاری نے ملک کے معاشی مستقبل کے بارے میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کردی ہے۔غربت کے مارے لوگ خودکشیاں کررہے ہیں،بدامنی نے لوگوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے،دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکا ۔ان ابتر حالات میں بھی حکومت اور اعلیٰ مناصب پر فائز لوگ عوام کی مشکلات دور کرنے سے زیادہ اپنے اقتدار اور نوکریوں کے تحفظ میں لگے ہوئے ہیں۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مخصوص حالات میں دنیا کے اکثر ملکوں میں مقررہ آئینی مدت سے قبل بھی انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کے نتیجے میں وقت سے پہلے الیکشن ہوجائیں تو اس میں کوئی ہرج نہیں۔ حکومت اور انتظامیہ کو معروضی حالات پر نظررکھ کر ملک میں بے یقینی اور کشیدگی کی فضا کو پروان چڑھنے سے روکنا چاہئے۔ اپنی تمام تر توجہ ملکی مسائل کے حل پر مبذول کرنی چاہئے اور عوام میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ بہتر بنانے کے لئے موثر عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ملک اور قوم کی بھلائی اسی میں ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ملکی معیشت کو اس وقت کئی اندرونی و بیرونی بحرانوں کا سامنا ہے لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو اس کی ایک بڑی وجہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ بھی ہے جس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں ملک کے اقتصادی و معاشی معاملات بری طرح نظر انداز ہورہے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریلوے، قومی ایئر لائن، بجلی پیدا کرنے والے اداروں اور اسٹیل مل جیسے بڑے بڑے ادارے مکمل طور پر بیٹھ چکے ہیں اور انہیں کسی نہ کسی طرح بحال رکھنے کیلئے ہر سال اربوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت ملک میں نئی سرمایہ کاری بالکل نہیں ہورہی اور اس کی بڑی وجہ بھی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور بے یقینی ہے۔ اس وقت ہمیں ملکی ضروریات کے مطابق بجلی پیدا کرنے اور توانائی کے وسائل حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے ہاں حکومت کا زیادہ وقت اور توانائیاں اپنے اقتدار کو بچانے اور اپنی مدت پوری کرنے پر صرف ہورہی ہیں اور ملکی معیشت بری طرح نظر انداز ہورہی ہے جس کے نتیجے میں عوام کے مسائل میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ حکومتی سطح پر اس طرح کی غیر سنجیدہ منصوبہ بندی کی وجہ سے اس وقت فیصل آباد سمیت پنجاب کے اکثر صنعتی شہر بند پڑے ہیں اور وہاں مسلسل ہڑتالیں اور احتجاج ہورہا ہے۔ صنعت کار سڑکوں پر آگئے ہیں۔
گھروں تک میں گیس کی فراہمی مشکل ہورہی ہے اور صنعتوں کو ہفتے میں پانچ پانچ دن گیس کی فراہمی معطل کی جارہی ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی سی این جی اسٹیشن بند ہونے لگے ہیں۔ بجلی پیدا کرنے کیلئے بھی گیس کی عدم فراہمی رکاوٹ ہے اور اس کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ مزید بڑھ رہی ہے۔ منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث تعلیم اور صحت کے شعبے اورزیادہ نظر انداز ہورہے ہیں۔ان حالات کا تقاضا ہے کہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے فوری اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کی جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ اوگرا نے نئے سال کے آغاز سے سی این جی کے نرخوں میں46فی صد اضافے کی تجویز دے دی ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومت نے قدرتی گیس کے صارفین پر100/ارب روپے سے زیادہ کے ٹیکس لگانے کی تیاری کرلی ہے۔ ایسی حکومت عوام کے مسائل سے باخبر ہونے کے باوجود غریب عوام کے دکھ درد کو محسوس کرنے کی عادی نہیں بلکہ اس کا مقصد صرف اور صرف حکومت میں رہنا اور اپنے عرصہ اقتدار کو طول دینا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی اس وقت تک جو کچھ بھی کارکردگی ہے اس سے اور ارباب اقتدار کے بیانات سے بھی اس بات کا صاف تاثر ملتا ہے کہ حکومت کی اصل توجہ عوام کو اچھی حکمرانی دینے کے بجائے اپنے اقتدار کی مدت میں اضافہ کرنا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اچھی کارکردگی پیش کرنے سے ابتدا ہی سے قاصر ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی کارکردگی مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گیس کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے صنعت کار صنعتیں بند کرنے پر مجبور ہورہے ہیں جس سے ملک میں مہنگائی کے علاوہ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں اور اقدامات سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کرنے پر توجہ نظر نہیں آتی۔معیشت کے حوالے سے یہ تاثر بالکل واضح ہوکر سامنے آرہا ہے کہ حکومت پیداواری شعبے میں کوئی قدم اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔ پنجاب کی حد تک تو اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ وفاقی حکومت اس حوالے سے عوام کی مشکلات کم کرنے کے لئے اس لئے کچھ نہیں کررہی کہ شاید اس کا کریڈٹ صوبے کی حکومت کو مل سکتا ہے لیکن اس طرح نااہلی اور کارکردگی کا اثر دوسرے صوبوں پر بھی پڑ رہا ہے، جہاں حکمران جماعت کی اپنی حکومت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یوں ایک طرح سے حکومتی نااہلی اور سیاسی جانبداری سے پورا ملک ہی مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ تعمیر و ترقی کا کوئی کام نہیں ہو رہا۔ عوام حکومت کی ناکارکردگی اور نااہلی کو پوری شدت کے ساتھ محسوس کررہے ہیں اور انتخابات میں اس کا نتیجہ بھی سامنے آ سکتا ہے۔ حکمراں اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ ۔حکومت کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے، سیاسی مخالفین سے الجھنے کے بجائے عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینی چاہئے اور سیاسی شہادت وغیرہ کی کوشش کرنے کے بجائے اپنی کارکردگی کے بل پر انتخابات میں جانا چاہئے۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں مزید کہا کہ حکمرانوں کا طرز عمل ان کے ان دعووں کی نفی کرتا ہے کہ وہ بیرونی دباوکو قبول نہیں کریں گے انہیں اس دباو کو مسترد کرتے ہوئے وسیع تر قومی اور ملکی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ توانائی کا بحران قومی معیشت کا دیوالیہ نکال دے گا اور امریکہ سمیت کوئی ملک ہماری مدد کے لئے آگے نہیں بڑھے گا۔انہوں نے اس حوالے مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گیس کے بحران نے ایک طرف گھریلو صارفین، اور ملکی صنعتوں کے لئے مشکلات پیدا کی ہیں تو دوسری طرف حکومت گیس و بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے ذریعے عوام سے زندہ رہنے کا حوصلہ چھیننے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے آخر میں اپنی گفتگو سمیٹتے ہو ئے کہا کہ بے روزگار افراد کی تعداد میں اضافہ اور غربت و افلاس کا بڑھتا ہوا گراف ملک کے لئے سنگین مسائل پیدا کرے گا۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور رہی سہی صنعتیں بھی بندش کا شکار ہوجائیں گی۔ یہ صورتحال حکومت کی ناکامی ، عوامی مسائل میں اس کی عدم دلچسپی اور ناقص منصوبہ بندی کو ظاہر کرتی ہے جس نے حکمرانوں پر عوام کے رہے سہے اعتماد کوبھی متزلزل کرکے رکھ دیا ہے۔ اے پی ایس