سیاسی انتشار ۔چودھری احسن پر یمی




ملک میں بیرونی طاقتوں کا پھیلایا حالیہ سیاسی انتشار بارے مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں مارشل لاءلگنے کا امکان نہیں، آمریت اس ملک کو تباہی کے سوا کچھ نہیں دے گی، ملک کی بقا کیلئے جمہوریت کا قائم رہنا ضروری ہے،پارلیمنٹ کو اس کا جائز مقام نہیں دیا گیا،ملک کی تقدیر کے فیصلے پارلیمنٹ میں ہی ہونے چاہئیں۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ کو وہ مقام نہیں دیا گیا جو اس کا حق ہے مگر ملک کی تقدیر کے فیصلے کہیں اور نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں ہی ہونے چاہئیں۔حکمرانوں کی پہلی ترجیح اپنے کو اور پاکستان کو غیروں کی غلامی سے نجات دلا کر ملک میں آزاد خارجہ پالیسی کا قیام ہونا چاہیے۔جبکہ وفاقی وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ میمومعاملے پرسپریم کورٹ میں جواب داخل کرانے کے لیے صدر اپنی لیگل ٹیم سے مشاورت کریں گے،اور لیگل ٹیم اور صدر کے نقط نظر کے مطابق جو بہترہوگا، اس سے سب کو آگاہ کیا جائے گا،وفاقی وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ صدر کی واپسی سے مخالفین کے عزائم دم توڑ گئے۔ قیاس آرائیاں کرنے والوں کو معافی مانگنی چاہیے، وفاقی وزیراطلاعات نے کہا کہ صدر کی قیادت میں حکومت ہرچیلنج سے نمٹنے کیلئے پرعزم ہے۔صدر پاکستان آصف علی زرداری گزشتہ اتوار کی رات کے گئے کراچی پہنچ گئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی انکی واپسی کے حوالے سے مختلف حلقوں میں موجودافواہیں اور قیاس آرائیاں دم توڑ گئی ہیں ان کے ہمراہ ان کی صاحبزادی آصفہ بھی وطن پہنچی ہیں ، صدر کے طیارے نے قریباً ایک بج کر 10 منٹ پر پی اے ایف مسرور پر لینڈ کیا جس کے بعد انہیں صدارتی کیمپ آفس اور کراچی میں صدر کی رہائش بلاول ہاو ¿س ، کلفٹن لے جایا گیا۔ اس موقع پر مسرور بیس سے بلاول ہاو ¿س تک سخت سیکورٹی انتظامات کئے گئے تھے، جبکہ بلاول ہاو ¿س کے اطراف بھی سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات تھی، صدر کی بلاول ہاو ¿س آمد سے قبل سندھ کے وزیر داخلہ منظور حسین وسان وہاں پہنچے اور سیکورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اسے حتمی شکل دی۔ صدر مملکت 27 دسمبر تک کراچی میں قیام کریں گے ، جس کے بعد وہ اسلام آباد جائیں گے ۔ واضح رہے کہ صدر مملکت علاج کی غرض سے 6دسمبر کو دبئی گئے تھے۔ صدر کا خصوصی طیارہ پاک زیروون پاکستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے گیارہ بجے دبئی اےئر پورٹ سے روانہ ہوا، دبئی اےئر پورٹ پر صدر ہشاش بشاش نظر آرہے تھے ان کے چہرے پر بیماری کے اثرات نظر نہیں آر ہے تھے ،ان کی اچانک دبئی روانگی سے پاکستان میں جاری میموگیٹ اسکینڈل کے تناظر میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔میموگیٹ اسکینڈل کے تناظر میںوزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی کہا ہے کہ مارشل لاءیا نگراں حکومت کا سوچا بھی نہیں جاسکتا، آرمی چیف سے ملاقات مثبت رہی ، جمہوریت کا مستقبل محفوظ ہے، جنرل جیمز جونز کے بیان کے بعد اب میمو اسکینڈل کی کوئی حیثیت نہیں رہی، میمو سازش سینیٹ الیکشن سے فرار کی کوشش ہے، اس سازش میں کون شریک ہے بہت جلد قوم کے سامنے آجائیگا۔ تمام ادارے آئینی حدودمیں رہیں گے تو ٹکراو ¿ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، حکومت درست سمت میں سفر کررہی ہے، جمہوریت کو کچھ ہوا تو صرف پیپلزپارٹی کو نہیں بلکہ تمام جمہوری قوتوں کو نقصان ہوگا اس لیے جمہوریت کو سپورٹ کیا جائے۔ وہ گزشتہ روز یہاں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عاصمہ جہانگیر کی صاحبزادی کی شادی کی تقریب کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے، صحافیوں کے مختلف سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا میمو اسکینڈل ایک نان ایشو ہے اور جب اسے ایشو بنائیں گے تو یہ ایک سازش بن جاتی ہے، قوم کو اس سے نکلنا چاہئے، سینیٹ کے الیکشن مارچ میں ہوں گے یہ سازش سینیٹ انتخابات سے فرار کا حصہ ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس سازش کے پیچھے کوئی فرد ہے یا ادارہ؟ تو وزیراعظم نے کہا بہت جلد یہ سب قوم کے سامنے آ جائیگا۔ وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ کیا ”مائنس صدر زرداری“ موجودہ نظام چلنے کی گنجائش ہے؟ تو وزیراعظم نے کہا بہت عرصے سے یہ باتیں چل رہی ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔
جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے پیپلزپارٹی پر زور دیا ہے کہ وہ صدر آصف علی زرداری سے متعلق میڈیکل بورڈ تشکیل دے کیونکہ صدر کی ذہنی و جسمانی کیفیت اس اہم منصب کی ذمہ داریاں مزید نبھانے کی اہل نہیں ، میمو گیٹ اسکینڈل سراسر غداری ہے، کرپٹ اور نااہل حکومت سے نجات کی تحریک شروع کردی،جماعت اسلامی جیسی منظم قوت ہی حکمرانوں کو ایوان اقتدار سے نکال سکتی ہے ، پیپلز پارٹی 18 کروڑ عوام اور ملک کو بچوں کے حوالے نہ کرے،حکومت اوراس کے اتحادیوں نے گزشتہ چار سال میں عوام کے دکھوں اور مسائل میں اضافہ اور تمام قومی ادارے تباہ کر دیئے ہیں، قوم کرپشن، غربت اور مہنگائی و بے روز گاری کا خاتمہ چاہتی ہے تو ہمارا ساتھ دے،غلط افغان پالیسی کی وجہ سے جو لوگ مخالف ہوئے ہیں ان سے مذاکرات کئے جائیں وہ پشاور میں جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے زیر اہتمام ایک بڑے جلسہ سے خطاب کر رہے تھے۔ سید منور حسن نے کہا کہ امریکا پاکستان کو غیر اسلامی اور غیر ایٹمی اور غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے ۔ دنیا کے اندر سب سے زیادہ ریاستی دہشت گردی امریکا نے کی ہے۔ سید منور حسن نے اعلان کیا کہ کرپٹ اور نااہل حکومت سے نجات کی تحریک شروع کردی ہے۔ انہوں نے فوج‘ حکومت اور ایجنسیوں کو مشورہ دیا کہ دہشت گردوں کے جوگردہ شمالی اتحاد اور بھارت کی شہ پر پاکستان میں کارروائیاں کررہے ہیں ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ البتہ اپنے لوگوں کے ساتھ مذاکرات اور جرگے کئے جائیں اور انہیں دشمن کی طرف نہ دھکیلا جائے۔پی پی حکومت نے تمام ادارے تباہ کردئیے ہیں اور ملک کو کنگال اور بے تحاشا قرضوں میں جکڑ دیا ہے۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج یہ عظیم اجتماع دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کو پیغام ہے کہ پاکستان بھی انقلاب کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ یہاں ظلم کا بازار گرم ہے اور امریکا کھل کھیل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امریکی دباو ¿ کو مسترد کرتے ہیں۔ اگر نیٹو سپلائی بحال کی گئی تو پورے جی ٹی روڈ پر احتجاج کیا جائے گا۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر سراج الحق نے کہا کہ اے این پی کو آئندہ الیکشن سے کوئی نہیں بچا سکتا وہ امریکن نیشنل پارٹی بن چکی ہے۔جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایڈیشنل سیکرٹری احسن اقبال نے کہا ہے کہ نتیجہ خیز جمہوری تبدیلی کے لئے اسمبلیوں سے مستعفی ہو سکتے ہیں۔ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے سابق وزیراعظم کا راستہ روکنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) لوٹ کھسوٹ میں برابر حصہ دار ہیں۔ سیاسی تارا مسیح وہ مشیر ہیں جن کی وجہ سے حکومت کو یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔آئندہ انتخابات میں اس پورے ٹولے کا مقابلہ کیا جائیگا۔ قومی ایجنڈے پر متفق جماعتوں سے انتخابی ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ حکومتی نمائندے مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) میمو اسکینڈل کے حوالے سے نان ایشو کو ایشو بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر یہ نان ایشو ہے تو حکمرانوں کی سانسیں کیوں پھول رہی ہیں اور وہ بہکی بہکی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟حکومت ملوث نہیں ہے تو بے پروا اور بے خوف ہو کر معاملات کیوں نہیں چلا رہی ہے؟ احسن اقبال نے واضح کیا کہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کو اپوزیشن، فوج، عدلیہ، سول سوسائٹی کو کسی سے خطرہ نہیں ہے اور نہ ہی ان میں سے کوئی جمہوری نظام کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ سازشیں کرنے والے خود حکومتی مشیر ہیں۔ احسن اقبال نے مطالبہ کیا کہ حکومت اپنی نا کامی کا اعتراف کرتے ہوئے مستعفی ہو۔ جبکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر کو ہٹانے کا واحد آئینی راستہ آرٹیکل 47کے تحت پارلیمینٹ میں مواخذے کی تحریک ہے اور موجودہ حالات میں صدر کے خلاف یہ تحریک پیش کرنا بھی ناممکن ہے۔ چھوٹے صوبوں کے تمام سینیٹرز صدر کے ساتھ ہیں، خرابی صحت کو بنیاد بنایا گیا تو بھی پارلیمنٹ سے رجوع کرنا ہوگا۔ صدر کو عہدے سے ہٹانے کے لئے مواخذے کی تحریک کے لئے قومی اسمبلی کی سادہ اکثریت کے دستخطوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اس وقت اپوزیشن کے پاس نہیں، اگر ایسا ممکن ہو تا تو گیلانی وزیر اعظم نہ ہوتے۔ پھر اس تحریک کی کامیابی کے لئے پارلیمینٹ کے دونوں ایوان میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے جبکہ صورتحال یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کے تقریباً تمام سینیٹرز صدر آصف زرداری کے ساتھ کھڑے ہیں ۔خرابی
صحت کی بنیاد پر عہدے سے علیحدگی کے حوالے سے چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ خرابی صحت کو بنیاد بنا کر بھی پارلیمینٹ سے ہی رجوع کرنا پڑیگا اور مواخذہ ہی راستہ ہے ۔ صدر کو صرف پارلیمینٹ ہٹا سکتی ہے۔وزیر اعظم نے عدلیہ کے احترام اور اس کے فیصلوں پر عمل درآمد کی بھی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ اسی طرح وفاقی وزیر قانون سے منسوب ایک اخباری بیان میں بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کی بات کی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ کہنا بھی ضروری سمجھاگیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ حکومت کے خلاف ہوگا عدلیہ اور مقننہ یعنی پارلیمنٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرانا اور اس طرح ان کی عزت و توقیر کا اہتمام کرنا انتظامیہ ہی کے ذمے ہوتا ہے۔ وطن عزیز میں مذکورہ حوالے سے صورتحال کبھی بھی اطمینان بخش نہیں رہی ۔ ہمارے ہاں عدلیہ اور مقننہ کے فیصلوں کوسیاسی ایجنڈے کی بھینٹ چڑھانے کی روایت آج تک ختم نہیں کی جاسکی ۔ حالانکہ اسے جتنا جلدختم کیا جاسکے اتنا ہی ملک و قوم کے حق میں مفید ہوگا۔ اے پی ایس