ایوان صدر کا گھیراو ،قیاس آرائیاں۔چودھری احسن پر یمی




مبصرین کا خیال ہے کہ ایوان صدر پر کئی اطراف سے دباو بڑھ رہا ہے اور اب کی بار ماضی کی نسبت صورتحال نہایت پیچیدہ ہے۔جس میں متنازعہ میمو کے معاملے کی میاں نواز شریف کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت، پارلیمان کو متنازعہ میمو کی تحقیقات کرنے میں مشکلات، ذوالفقار مرزا کا متحدہ کے خلاف کارروائی پر پارٹی قیادت سے اختلافات اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے جوہری پروگرام کے کی وجہ سے غیر محفوظ ہونے کے الزامات بھی شامل ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کی خرابیِ صحت کی بنا پر اچانک دبئی روانگی کے بعد گزشتہ بدھ کو حکمران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے تفصیلی ملاقات کی ۔بلاول بھٹو زرداری نے اس ملاقات میں سندھی ٹوپی پہن رکھی تھی اور عام طور پر وہ سندھی ٹوپی پہننے سے گریز کرتے ہیں۔یہ بات بھی اہم ہے کہ جب ان کے والد خرابی صحت کی وجہ سے دبئی میں طبی معائنہ کرا رہے ہیں ایسے میں بلاول بھٹو پاکستان میں سیاسی امور نمٹا رہے ہیں۔وزیر اعظم کہتے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری ابھی مکمل صحتیابی تک دبئی میں ڈاکٹروں کی زیر نگرانی رہیں گے۔ وزیر اعظم ہاوس کا کہنا ہے کہ ابھی اس بات کا تعین ہونا باقی ہے کہ صدر کی طبیعت دوائی کھانے سے بگڑی یا پہلے سے جو انہیں عارضہ قلب لاحق ہے اس کی وجہ سے خراب ہوئی۔صدر آصف علی زرداری کی طبی معائنے کے لیے اچانک دبئی روانگی کے بعد بعض مقامی ذرائع ابلاغ میں قیاس آرائیوں کا سیلاب کھل گیا ۔سب سے پہلے امریکی جریدہ فارن پالیسی کی خبر کو بنیاد بنا کرکچھ مقامی ٹی وی چینلز نے صدر کے مستعفی ہونے اور ان کے واپس وطن نہ لوٹنے کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں شروع کردیں۔لیکن صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے ایسی تمام قیاس آرائیوں کو مسترد کیا اور ان کا کہنا تھا کہ صدر استعفیٰ دیں گے اور نہ ہی بیرون ملک زیادہ قیام کریں گے۔ان کے بقول صدر مملکت جلد صحتیابی کے بعد واپس وطن آئیں گے اور ہر قسم کے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ادھر صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور پیٹرولیم کے وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم نے مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر کو دبئی کے ہسپتال کے ‘آئی سی یو’ وارڈ میں رکھا گیا ہے۔البتہ ان کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ تاکہ وہ عیادت کرنے والوں سے دور رہیں اور آئندہ چار پانچ روز میں صدر آصف علی زرداری واپس پاکستان پہنچ جائیں گے۔پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ صدرِ پاکستان طبی معائنے کے لیے دبئی گئے ہیں اور انہوں نے صدر کی سرگرمیوں کے بارے میں بعض ذرائع ابلاع کی جانب سے پھیلائی جانے والی افواہوں کو غلط قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدرِ پاکستان پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت اپنے بچوں سے ملنے اور طبی معائنے کے لیے دبئی گئے ۔صدرِ پاکستان عارضہ قلب کی وجہ سے اپنے ذاتی معالج کے مشورے کے بعد گزشتہ منگل کی شام دبئی روانہ ہوئے۔ صدر کے ہمراہ ان کا محدود ذاتی عملہ بھی ان کے ساتھ ہے۔صدر زرداری کے ذاتی معالج کرنل سلمان کے مطابق تجویز کردہ طبی ٹیسٹ معمول کے مطابق ہیں اور یہ قلب اور شریانوں سے تعلق رکھنے والی کیفیت کے بارے میں ہیں جن کی تشخیص اس سے قبل ہوئی تھی۔صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ میڈیا پر آنے والی اطلاعات کے برعکس صدر زرداری علاج یا طبی معائنے کے لیے کسی ہسپتال نہیں گئے بلکہ انھوں نے منگل کی شام پہلے چیئرمین سینٹ فاروق حمید نائک، بعد میں وزیرِاعظم سید یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ صدر آصف علی زرداری کے خلاف مختلف ذرائع سے میڈیا میں مسلسل خبریں نشر یا شائع ہوتی رہیں کہ صدر آصف علی زرداری مستعفی ہونے والے ہیں اور شاید واپس وطن نہیں آئیں گے۔لیکن صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے ان خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے ’قیاس آرائی، خیالی اور غیر درست‘ قرار دیا ہے۔سب سے پہلے امریکی جریدے فارن پالیسی نے دعویٰ کیا کہ" صدر آصف علی زرداری میمو گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے شدید دباو میں ہیں اورطبی بنیادوں پر صدارت کے عہدے سے سبک دوش ہوسکتے ہیں۔ صدرآصف علی زرداری دل میں تکلیف کی شکایت پر منگل کی شب اچانک دبئی گئے تھے ،جہاں انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا اور ان کے تمام ٹیسٹ لیے گئے ،جن کی رپورٹ آج صبح ملے گی۔ جریدے کے مطابق ایک سابق امریکی عہدے دار کا کہنا ہے کہ پچھلے دنوں صدر اوباما نے جب صدر زرداری سے فون پر بات کی تو وہ لاتعلق سے لگے اور ان کی گفت گو بے ربط تھی۔ صدر زرداری میمو گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے خود پر شدید دباو محسوس کررہے ہیں۔ امریکی حکومت میں یہ سوچ بڑھتی جارہی ہے کہ صدر زرداری نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ سابق امریکی عہدے دار کا کہنا ہے کہ ان کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے اور اب یہ صرف کچھ وقت کی بات ہے۔ امریکی حکومت کے بعض حکام کو آگاہ کیا گیا ہے کہ صدر زرداری کو پیر کے روز دل کا معمولی دورہ پڑا ہے اور وہ دبئی چلے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آج ان کی انجیو پلاسٹی متوقع ہے اور وہ طبی بنیادوں پر صدارت سے مستعفی ہوسکتے ہیں۔ جریدے کے مطابق ایک پاکستانی ذریعے کا کہنا ہے کہ صدر زرداری کو پیر کے روز بتایا گیا کہ پارلے منٹ کے مشترکہ اجلاس سے ان کے مجوزہ خطاب میں اپوزیشن کا کوئی رکن اور مسلح افواج کے سربراہان احتجاجاً شرکت نہیں کریں گے۔ اسی ذریعے کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیرون ملک ایک درجن سے زائد پاکستانی سفیروں کی تبدیلی بھی اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ آصف زرداری صدر کے عہدے سے سبک دوش ہورہے ہیں"۔صدر کو اتوار کے روز سینے میں اچانک درد محسوس ہوا اور ڈاکٹروں نے اسے ایک سنجیدہ معاملہ قرار دے کر انھیں علاج کے لیے فوری طور پر لندن یا دبئی جانے کا مشورہ دیا۔تاہم ذرائع کے مطابق مختلف طبی مسائل کا شکار آصف علی زرداری نے حسب معمول اس مرتبہ بھی اپنی بیماری کو معمولی مسئلہ قرار دے کر ڈاکٹروں کے مشورے کو نظر انداز کردیا۔لیکن جب انھوں نے اپنے تمام قریبی رفقا کی بات ماننے سے انکار کر دیا تو بیرون ملک مقیم ان کے بچوں کو وطن واپس بلایا گیا تاکہ وہ اپنے والد کو علاج کے لیے بیرون جانے پر آمادہ کر سکیں جس میں انھیں کامیابی بھی ہوئی۔ایوان صدر کے ذرائع نے بتایا ہے کہ صدر زرداری کو دبئی روانہ کرنے کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے اور حکمران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو وطن میں رک گئے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ان کی ملاقات کی تصدیق کی گئی اور اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ اپنے بچوں کے اصرار پر صدر زرداری علاج کے لیے دبئی جانے پر آمادہ ہوئے۔صدر زرداری کو چھ سال قبل بھی دل کا دورہ پڑا تھا جس کے بعد سے وہ باقاعدگی سے علاج کے لیے ادویات لے رہے ہیں۔ متضاد بیانات کے بعد ملک میں یہ قیاس آرائیاں زور پکڑنا شروع ہو گئیں کہ صدر زرداری مستعفی ہو رہے ہیں جس کی وجہ امریکی قیادت کو لکھا گیا ان سے منسوب میمو یا خط ہے جس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ نے ایک تفتیشی کمیشن قائم کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ ذرائع نے ان اطلاعات کو بھی مسترد کیا ہے کہ دبئی راونگی کے لیے صدر کو ایمبولینس میں جہاز تک لے جایا گیا بلکہ اس کے برعکس مسٹر زرداری ائرپورٹ جانے کے لیے خود چل کر گاڑی میں بیٹھے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی صدر کی حالت تشویش سے باہر ہے اور وہ چند روز تک دبئی اسپتال میں زیر علاج رہیں گے۔’میمو گیٹ‘ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد 56 سالہ صدر زرداری اور ان کی حکومت سیاسی مخالفین کی طرف سے مسلسل دباو ¿ میں ہے جو مبینہ مکتوب لکھنے کا جرم ثابت ہونے پر صدر اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی پر غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس سلسلے میں اپوزیشن رہنما نواز شریف کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں دائر ایک آئینی درخواست بھی زیر سماعت ہے۔گزشتہ ہفتے ایوان صدر کے ترجمان نے اعلان کیا تھا کہ عاشورہ کے بعد صدر زرداری پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے جس میں وہ میمو گیٹ اسکینڈل اور پاکستانی فوجی چوکیوں پر نیٹو کے مہلک حملے پر اپنا موقف پیش کریں گے۔ ان کا یہ خطاب اب ملتوی کردیا گیا ہے۔ان کی حکمران پیپلز پارٹی پر اس وقت بدعنوانی، ناقص انداز حکمرانی اور اقربا پروری کے الزمات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں جبکہ عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عملدرآمد میں حیل وحجت پر بھی ناقدین کی طرف سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی مقبولیت کے
بارے میں کیے گئے گیلپ پاکستان کے حالیہ سروے میں 71 فیصد افراد نے موجودہ حکومت کے خاتمے کو ترجیح دی تھی۔پی پی پی کی مخلوط حکومت کے فوج کے ساتھ تعلقات میں تناو کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں جبکہ اس وقت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بھی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔اے پی ایس