امریکی صدر اوبامہ کے دستخط: پاکستانی امداد منجمند۔چودھری احسن پر یمی




امریکی صدر براک اوباما نے اس نئے دفاعی بِل پر دستخط کر دیے ہیں جس کی ایک شق کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امداد میں سے ستّر کروڑ ڈالر کی رقم روک لی جائے گی۔چھ سو باسٹھ ارب ڈالر کا ’ڈیفینس آتھرائزیشن بل‘ امریکی ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ سے پہلے ہی منظور ہو چکا ہے تاہم امریکی صدر نے اس پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا تھا۔صدر اوباما کا خیال تھا کہ کانگریس کے منظور کردہ اِس بِل کے ذریعے، دہشتگروں کے خلاف، انتظامیہ کے اختیارات محدود ہو جائیں گے۔بِل کی ایک شِق کو کمزور کر دیا گیا ہے جس کے تحت، القاعدہ کے مشتبہ اراکین کے خلاف کارروائی کا اختیار صرف فوجی عدالت کو تھا۔بِل پر دستخط کرنے کے ساتھ ساتھ صدر اوباما نے ایک بیان بھی جاری کیا جس میں انہوں نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ انہوں نے صرف اس لیے دستخط کیے، تاکہ امریکی فوج کے جنگی آپریشن متاثر نہ ہوں۔اسی بِل کے تحت، پاکستان کے لیے، ستر کروڑ ڈالر کی امداد، اب اس چیز سے مشروط ہو چکی ہے کہ پاکستان، آئی ای ڈی، یا دیسی ساختہ بموں سے نمٹنے کی حکمتِ عملی کا اعلان کرے۔امریکی ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے اراکین پر مشتمل مذاکراتی پینل نے گزشتہ ماہ اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ پاکستان کو دی جانے والی ستّر کروڑ ڈالر کی امداد روک دی جائے۔ یہ اتفاقِ رائے اس پینل کے اجلاس میں ہوا تھا جو امریکہ کے چھ سو باسٹھ ارب ڈالر کے دفاعی بجٹ پر بحث کر رہا تھا۔اس اتفاقِ رائے کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان کو دی جانے والی ستّر کروڑ ڈالر کی امداد روکی نہیں گئی بلکہ اسے امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے دیسی دھماکہ خیز مواد کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ حکمتِ عملی کی تیاری سے مشروط کیا گیا ہے۔محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ بل قانون بن گیا تو ہم حکومتِ پاکستان کے ساتھ مل کر اس کی شرائط پوری کرنے کے معاملے پر کام کریں گے‘۔پاکستان کو دی جانے والی امداد پر قدغن لگانے کا مقصد اس پر دباو بڑھانا ہے کہ وہ اپنے ملک میں دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد کی پیداوار کو روکے جو افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہے۔رائٹرز کے مطابق دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوجیوں کو نشانہ بنانے کے لیے شدت پسندوں کا موثر ہتھیار ہے۔ خیال ہے کہ زیادہ تر دیسی ساختہ بموں کو بنانے کے لیے امونیم نائٹریٹ یعنی عام کھاد کا استعمال کیا جاتا ہے ۔امریکی دفاعی بِل کے تحت امریکہ، ان مالیاتی اداروں کے خلاف بھی نئی پابندیاں متعارف کرائے گا جن کے، ایران کے مرکزی بینک کے ساتھ کاروباری تعلقات ہیں۔پابندیوں سے قبل ایسے اداروں کو دو سے چھ ماہ تک کی مہلت دی جائے گی۔ خدشات ہیں کہ امریکہ کی ایران پر نئی پابندیوں کے نتیجے میں، عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔جبکہ پاکستان نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے طالبان کو دشمن قرار نہ دیے جانے کی اطلاعات اگر درست ہیں تو اس پر اطمینان کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ مفاہمت کے ذریعے ہی افغانستان میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے کہا کہ ’پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ جب تک حقیقی معنوں میں افغانستان میں مفاہمت کا عمل شروع نہیں کیا جاتا اس وقت تک وہاں امن نہیں آ سکتا ہے۔‘خیال رہے کہ ہفتہ کو افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے امریکی حکومت کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان امریکہ کے دشمن نہیں ہیں۔پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ امریکہ کی جانب سے طالبان کے ساتھ مفاہمت کے عمل کی توقع بھی تھی اور اگر اب اگر طالبان کے ساتھ مفاہمت کی بات درست ہے تو اس پر اطمینان کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ اس کے ذریعے ہی افغانستان میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔‘اس مفاہمی عمل میں پاکستان کو اعتماد میں لینے کے بارے میں ایک سوال پر دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’ پاکستان کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ اس سارے عمل کی افغانستان نے خود ہی سربراہی کرتے ہوئے اسے آگے بڑھانا ہے اور سارے عمل کے دوران پاکستان کے کردار کا فیصلہ بھی افغانستان نے ہی کرنا ہے۔ ‘انھوں نے مزید کہا کہ ’ابھی ساری صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اگر افغانستان نے مناسب سمجھا یا جو بھی ہمارا کردار ہوا اسے ہم ادا کریں گے کیونکہ جیسے جیسے سال دو ہزار چودہ (افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کا انخلاء) کا وقت قریب آ رہا ہے تو افغانستان میں سیاسی عمل کو شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ افغانستان میں امن و استحکام خود پاکستان کے مفاد میں ہے‘۔قطر میں طالبان کا دفتر کھولے جانے کی اطلاعات پر عبدالباسط نے کہا کہ میڈیا کی اطلاعات سے تو یہ معلوم ہوا ہے کہ شاید اس بارے میں افغان حکومت کو بھی بعد میں معلوم ہوا ہے اور ابھی افغان حکومت نے بھی اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرنا ہے، لیکن اگر اس طرح کی کوئی پیش رفت ہوئی ہے تو افغانستان میں مفاہمتی عمل میں مددگار ثابت ہو گی۔’جہاں تک اس ضمن میں پاکستان کا تعلق ہے تو ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ مفاہمت کا عمل تیز اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان سے افغان مہاجرین کی ایک احسن، باعزت طریقے سے واپسی کا بندوبست کیا جائے، کیونکہ یہ بھی ایک بنیادی مسئلہ ہے اور اس پر سب کو توجہ دینی چاہیے۔‘پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا’جس نہج پر ہم کھڑ ے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی مثبت نتائج نکلیں گے، چونکہ اگر دونوں ممالک یعنی پاکستان اور امریکہ کے درمیان کوئی ایسا لائحہ عمل تیار ہوتا ہے جو باہمی اعتماد اور احترام کی بنیاد پر ہو تو اس سے مثبت نتائج نکلیں گے اور پاکستان کی کم از کم یہی کوشش ہے۔‘امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ ایران کا افغانستان کے حوالے سے ایک خاص کردار ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ایک دیرپا امن و استحکام آئے تو اس کے لیے اس سارے عمل میں ایران کی شمولیت ضروری ہو گا۔جبکہ پاکستان نے گزشتہ اتوار سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں آئندہ دو سال کے لیے غیر مستقل نشست سنبھال لی ہے۔اس موقع پر اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سفیر عبداللہ حسین ہارون کا کہنا ہے کہ پاکستان بطور رکن عالمی مسائل کے حل میں تعمیری کردار ادا کرے گا۔پاکستان نے گزشتہ اتوار سے آذربائیجان، گوئٹے مالا، مراکش اور ٹوگو کے ہمراہ سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے کام شروع کردیا ہے۔پاکستان اکتوبر دو ہزار گیارہ میں ایک سو ترانوے میں سے ایک سو انتیس ممالک کی حمایت سے سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہوا تھا۔یہ ساتواں موقع ہے کہ پاکستان سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بنا ہے جبکہ یہ تیسرا ایسا موقع بھی ہے کہ وہ ایک ایسے وقت میں سلامتی کونسل کا رکن ہے جب اس کا علاقائی حریف بھارت بھی اس فورم پر موجود ہے۔بھارت گزشتہ سال سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بنا تھا اور اس کی رکنیت دسمبر دو ہزار بارہ میں ختم ہوگی۔پاکستانی مندوب عبداللہ ہارون کا کہنا ہے کہ پاکستان کی رکنیت کے دوران سلامتی کونسل میں جو بھی عالمی معاملات زیرِ بحث آئیں گے، پاکستان ان کے حل کے لیے تعمیری کردار ادا کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سب کو ساتھ لے کر چلنے اور اقوامِ متحدہ کے منشور میں دیے گئے اصولوں کی ترویج کے لیے پرعزم ہے۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے کل پندرہ ارکان ہیں جن میں سے پانچ امریکہ، روس، چین، فرانس اور برطانیہ مستقل ارکان ہیں جبکہ بقیہ دس ارکان کا انتخاب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کرتی ہے۔ غیر مستقل ارکان دو سال کے لیے ادارے کے رکن منتخب ہوتے ہیں اور ان کا تعلق دنیا کے پانچ مختلف خطوں سے ہوتا ہے۔پاکستان سلامتی کونسل میں ایشیائی نشست پر لبنان کی جگہ لے گا جس کا دو سالہ دورِ رکنیت اکتیس دسمنر دو ہزار گیارہ کو ختم ہوا ہے۔اے پی ایس