صوبائی خود مختاری کی خلاف ورزی۔چودھری احسن پر یمی




گزشتہ جمعہ کو قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ دو دن سے اسمبلی میں جو بوسیدہ باتیں ہورہی ہیں حقیقت یہ ہے کہ حکمران اخلاقی اور سیاسی طور پر دیوالیہ ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں گیس بجلی لوڈشیڈنگ ،مہنگائی،قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ،قومی سلامتی کے امور کے حوالے سے مسائل ایک شخص جماعت علی شاہ ہمارے دشمنوں کے آگے بک گیا اور ملک سے فرار ہوگیا۔حکومت اور اس کے حواری کراچی کے باشعور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ایم ایل ن نئے صوبوں کی مخالف نہیں لیکن آئینی اور قانونی راستے کے ذریعے ۔انہوں نے واضح کیا کہ لسانی بنیادوں پر نئے صوبوں کی تجویز کے نتائج تباہ کن ہونگے۔انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی شعبدہ باز نئے صوبوں کے نام پر ملک و قوم کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے حربے استعمال کر رہے ہیں۔اس سے قبل ایم کیو ایم کے فارق ستار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ جو بھی نئے صوبوں کی مخالفت کرے گا وہ آئندہ الیکشن ہار جائے گا۔جبکہ قومی اسمبلی میں حکومت کی اتحادی جماعتوں میں اختلاف رائے کی وجہ سے سرائیکی صوبہ بنانے کی قرارداد منظور نہیں ہو سکی۔اسمبلی کے سیشن میں طے پایا ہے کہ سرائیکی، ہزارہ اور فاٹا کے صوبوں کے قیام کے بارے میں آئندہ سیشن کے پہلے روز آئینی ترامیم پیش کی جائیں گی۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبے اتفاق رائے سے بننے چاہیں اور اس کے لیے آئین میں ترمیم کے لیے مطلوبہ حمایت حاصل کرنی چاہیے۔ ان کے بقول سرائیکی صوبہ بنانے پر قومی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت انہیں حاصل ہوچکی ہے اس لیے دیگر صوبوں کا معاملہ اس کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔لیکن متحدہ قومی موومنٹ نے ان کی رائے نہیں مانی اور وہ قومی اسمبلی سے جنوبی پنجاب، ہزارہ اور فاٹا صوبوں کے قیام کی اپنی قرارداد منظور کرانے پر بضد رہی اور نتیجے میں کوئی قرارداد منظور نہ ہو سکی۔ نئے صوبے بنانے پر ہی بحث ہوتی رہی اور اس دوران اراکین میں سخت گرما گرمی بھی ہوئی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما حیدر عباس رضوی نے قائم مقام سپیکر فیصل کریم کنڈی کو مخاطب کرکے کہا کہ آج کے ایجنڈے پر بھی ان کی قرارداد نہیں لائی گئی اور پتہ نہیں کہ ان کے منہ پر قفل کیوں لگا ہے اور اس کی چابی کس کے پاس ہے؟مسلم لیگ (ق) کے سردار بہادر خان سیہڑ نے بھی ایم کیو ایم کی تائید کی اور کہا کہ یہ اہم معاملہ ہے اس پر حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ان کی جماعت کے رضا حیات ہراج نے بھی کھل کر سرائیکی صوبے کی حمایت کی اور مسلم لیگ (ن) پر تنقید کی۔رضا حیات ہراج نے کہا ‘ہماری تہذیب و تمدن، تاریخ اور زبان پنجابیوں سے نہیں ملتی۔۔۔ یہ اوئے ابا کہنے والی قوم ہے ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔۔۔گندم سرائیکی پیدا کرتے ہیں لیکن پنجاب والے دو روپے میں روٹی لیتے ہیں اور سرائیکی دس روپے میں۔۔۔سرائیکی صوبہ ضرور بنے گا۔‘مسلم لیگ (ن) کے حنیف عباسی اس پر جذباتی ہوگئے اور بغیر اجازت کے اونچی آواز میں رضا ہراج کو غدار قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے پاکستان کے خلاف بات کی ہے۔اس دوران پیپلز پارٹی کے رکن ندیم افضل چن اٹھے اور انہوں نے کہا کہ ہر حکومت کا حصہ رہنے والے، فوجی آمروں کے وزیر رہنے والے یہ جاگیردار اور سرمایہ دار مزے بھی لوٹتے ہیں اور پنجاب کو گالی ان جیسے لوگوں کی وجہ سے ملتی ہے۔ جس پر مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے بھرپور ڈیسک بجائے۔ انہوں نے فوج پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اصل طاقت تو ان کے پاس ہے۔اس دوران ایم کیو ایم والے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر ’صوبے بناو صوبے بناو‘ اور ’ووٹنگ کراو ۔ صوبے بناو‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ڈیسک بجاتے رہے۔ فاروق ستار نے کہا کہ وہ جنوبی پنجاب، ہزارہ اور فاٹا کو علیحدہ صوبے بنانے کے حق میں ہیں اور اس پر ووٹنگ کرائیں جو بھی اس کی مخالفت کرتا ہے وہ سامنے آجائے گا۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ حکومت نے سرائیکی صوبے کے لیے کافی عرصے سے مہم شروع کر رکھی ہے اور آج اس پر اتفاق ہے اور حکومت کو مطلوبہ حمایت مل چکی ہے۔ ’پہلے اس بارے میں قرارداد منظور کر لیں بعد میں دیگر صوبوں پر جب اتفاق ہو تو وہ قرارداد لائیں‘۔انہوں نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ سرائیکی صوبے پر اتفاق رائے ختم ہوجائے اور تاریخ پھر ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ انہوں نے ایم کیو ایم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سارے معاملے کو بگاڑنے میں استعمال ہو رہے ہوں۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ ان کے درمیاں طے پایا ہے کہ آئندہ سیشن کے پہلے روز ہی دو آئینی ترامیم کے بل لائے جائیں اور ان کی منظوری حاصل کی جائے گی۔خورشید شاہ کی اس بات پر عوامی نیشنل پارٹی کے پرویز خان نے سخت اعتراض کیا اور کہا کہ وہ کسی آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے جو صوبائی اسمبلی سے اپنے صوبے کی حدود میں ردو بدل کا اختیار چھینے۔خورشید شاہ نے وضاحت کی کہ حکومت ہر کام آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کرے گی اور صوبائی خود مختاری متاثر نہیں ہوگی۔حکمراں اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ نے جنوبی پنجاب اور ہزارہ صوبوں کی تشکیل کے لیے قومی اسمبلی میں ترمیمی بل جمع کروا دیا ہے۔ایم کیو ایم کے سینیئر رہنماءاور وفاقی وزیر فاروق ستار، حیدر عباس رضوی اور دیگر اراکین نے قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب اور ہزارہ صوبے بنانے کے لیے ترمیمی بل پیش کیا جس پر پچیس اراکین کے دستخط ہیں۔ ایم کیو ایم کے اراکینِ قومی اسمبلی کی طرف سے جمع کیے گئے ترمیمی بل میں آئین کی شق ایک اور دو سو انتالیس میں ترمیم کی تجاویز دی گئی ہیں جس کے مطابق صوبہِ خیبر پختونخواہ کے علاقے ہزارہ کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے جبکہ جنوبی پنجاب میں ایک یا دو صوبے بنائے جائیں۔فاروق ستار نے بل جمع کروانے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ جنوبی پنجاب میں ایک یا دو صوبے بنانے کے لیے ریفرنڈم کروایا جائے اور خیبر پختونخواہ کے علاقے ہزارہ کو بھی الگ صوبہ بنایا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ الطاف حسین نے جنوبی پنجاب اور ہزارہ کے لوگوں سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا اور ایم کیو ایم نے نئے صوبے بنانے کے لیے راہ ہموار کر دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب اور ہزارہ کے لوگوں میں احساسِ محرومی اور پسماندگی ہے اور انہیں تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں نظرانداز کیا جا رہا ہے اور انہیں صوبائی حکومتوں کی طرف سے کوئی سہولیات مہیا نہیں کی جا رہیں۔جنوبی پنجاب کا حوالہ دیتے ہوئے فاروق ستار نے کہا، ’جس علاقے میں سب سے زیادہ کپاس کی کاشت ہوتی ہو اور کپاس ہی ہماری مجموعی قومی پیداوار میں سب سے بڑی فصل ہو اور اسی علاقے کا زرعی ترقی میں سب سے بڑا حصہ ہو اور وہی علاقہ پاکستان کا پسماندہ ترین علاقہ ہو، تو وہاں کے عوام اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے وسائل ہیں لیکن ہمیں دیے نہیں جا رہے‘۔انہوں نے بتایا کہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کو ان کے وسائل دینے اور انہیں ان کے اختیارات دینے کے لیے ایم کیو ایم نے پہل کی ہے اور الگ صوبہ بنانے کے لیے ترمیمی بل پیش کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہزارہ کے لوگوں میں بھی بہت احساسِ محرومی ہے اور انہیں ان کے وسائل سے جائز حصہ نہیں ملتا، جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ اپنے لیے الگ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اب ایم کیو ایم نے ان کی آواز میں آواز ملائی ہے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں نئے صوبوں کے قیام کے لیے ایم کیو ایم کی مجوزہ قرارداد پر ایوان میں اراکین کے مابین شدید تلخ کلامی ہوئی۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے ایم کیو ایم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ محض سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے ہزارہ اور سرائیکی صوبوں کے قیام کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال کر رہی ہے۔ایوان سے خطاب میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ان کی جماعت نئے صوبوں کے قیام کے حق میں ہے لیکن اس کے لیے اتفاق رائے ناگزیر ہے۔ انھوں نے اپنی اتحادی جماعت ایم کیوایم کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی پنجاب میں سرائیکی صوبے کے قیام کے لیے صوبائی اسمبلی میں کئی قراردادیں بھی پیش کی گئیں لیکن جب ان پر توجہ نا دی گئی تو قومی اسمبلی سے رجوع کیا گیا۔”اسے (سرائیکی صوبے کو) ہم نے اپنی منشور کمیٹی سے منظور کرایا، اس کی حمایت کے لیے ہم نے تمام فورم استعمال کیے۔ ہم نے صوبائی اسمبلیوں کو بھی استعمال کیا لیکن جب تمام جگہوں سے ہمیں رسپانس نہیں ملا تو اس لیے ہم آپ کے پاس آئے۔“ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ نئے صوبے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ صوبائی اسمبلی اس کے حق میں دو تہائی اکثریت سے قرارداد منظور کرے اور اس کے بعد اس معاملے کو قومی اسمبلی میں لایا جائے۔ان کی اس موقف کی تائید کرتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی نے ”میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ صوبائی خود مختاری کے بالکل خلاف بات ہے۔ اگر کسی صوبے کو تقسیم ہونا ہے یا کسی صوبے کی جغرافیائی حدود کو تبدیل ہونا ہے تو بنیادی طور پر یہ اس صوبے کا حق اور اس صوبے کی اسمبلی کا حق ہے۔ یہ کہنا کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر ہم صوبوں کا بٹوارا کریں گے، یہ بات مناسب نہیں ہے۔ یہ فیڈرل ازم کے خلاف ہے یہ صوبائی خود مختاری کے خلاف ہے۔“جبکہ اپوزیشن مسلم لیگ (ن) کے رہنماوں بشمول نواز شریف کا کہنا ہے کہ وہ انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کے حق میں ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے ایک قومی کمیشن بنانے کی تجویز بھی دے رکھی ہے۔ جبکہ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جمہوریت کے فروغ کے لیے موجودہ حکومت کا اپنی آئینی مدت پوری کرنا ضروری ہے لیکن ضرورت پڑنے پر قبل از وقت انتخابات بھی کرائے جا سکتے ہیں۔پاکستان کی پارلیمان، جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے دیے ہوئے مینڈیٹ کے تحت مدت پوری کی جائے، لیکن اگر حکومت ضروری سمجھتی ہے یا عوامی مطالبہ ہوتا ہے تو اس سے پہلے بھی انتخابات کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔مبصرین کے خیال میں سینیٹ کے انتخابات قبل از وقت کرانے کا مقصد ایوان بالا میں حکمران جماعت کی پوزیشن مستحکم کرنا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ نواز شریف اور آصف علی زرداری ایک بار پھر مذاکرات کی ٹیبل پر اکٹھے بیٹھ رہے ہیں لیکن حکومت ،پی ایم ایل ن کو لولی پاپ دے کر مارچ میں سینٹ کا الیکشن اور بعدازاں اگلا بجٹ پیش کر کےعدلیہ بحالی کی طرح ایک بار پھر ہاتھ کر جائے گی۔اس بارے مبصرین نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ مومن صرف ایک بار ڈسا جاتا ہے بار بار نہیں۔اے پی ایس