طالبان،امریکا اور سینٹ الیکشن۔چودھری احسن پر یمی




صدر آصف علی زرداری نے اس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کا فوج یا عدلیہ سے کوئی تصادم چل رہا ہے۔ یہ بات انھوں نے طویل عرصے بعد ایک پاکستانی نجی ٹی وی چینل دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی ہے۔اس سے قبل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ہمراہ اپنی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب میں صدر زرداری کا کہنا تھا کہ ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور ان کی جماعت پیپلز پارٹی ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اجلاس میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے اور انھیں نقصان پہنچانے کی کسی بھی ممکنہ کوشش کو ناکام بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ صدر زرداری نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ وہ عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں اور ان وعدوں کی تکمیل اور عوام کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے تمام ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔صدر زرداری نے اجلا س کے شرکاءکو بتایا کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ انتخابات کے معاملات پر اتحادی جماعتوں سے مشاورتی عمل شروع کر دیا ہے اور حکومت نے قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر نے کہا کہ ان کی جماعت کی قیادت ملک کو درپیش چیلنجوں سے پوری طرح آگاہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں جمہوریت کی مضبوطی اور موجودہ چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور رہنماو ¿ں سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔صدر زرداری نے اپنی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ سے کہا ہے کہ عوام سے رابطوں کے لیے ڈویژن کی سطح پر ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد کریں۔جبکہ سینٹ کے انتخابات بارے ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صوبائی اسمبلیوں سے ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں سب سے بڑا فائدہ پیپلز پارٹی اور سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ق کو پہنچے گا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹروں کی تعداد ستائیس سے بڑھ کر سینتالیس کے لگ بھگ ہو سکتی ہے جبکہ مسلم لیگ ق کے موجودہ اکیس سینیٹروں کی تعداد کم ہو کر صرف دو رہ جانے کا امکان ہے۔تین سیاسی جماعتوں، جماعت اسلامی، جمہوری وطن پارٹی اور پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کا سینیٹ سے مکمل صفایا یقینی ہے جبکہ پیپلز پارٹی شیر پاو اور فنکشنل مسلم لیگ کی مکمل فراغت کا بھی قوّی امکان ہے۔الیکشن کمشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ’سینیٹ کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر ’ہارس ٹریڈنگ‘ ہو سکتی ہے۔ حکمران جماعت پیپلز پارٹی مرکز اور سندھ میں اندرونی خلفشار کا شکار ہے اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی اتنی سبقت نہ لے سکے جو اسمبلیوں کے موجودہ اعداد و شمار سے سامنے آ رہی ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ق کے اندر ہونے والی توڑ پھوڑ بھی رکاوٹ بنے گی اور پنجاب سے ایک نشست کے حصول کے لیے انہیں پیپلز پارٹی کا تعاون درکار ہو گا۔‘سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی کل ایک سو نشستوں پر اس وقت پیپلز پارٹی کے ستائیس، مسلم لیگ ق کے اکیس، جے یو آئی ف کے دس، مسلم لیگ ن کےسات، ایم کیو ایم کے چھ، اے این پی کے چھ، جماعت اسلامی کے تین، بی این پی عوامی کے تین نیشنل پارٹی کے دو سینیٹرجبکہ فنکشنل مسلم لیگ، پیپلز پارٹی شیر پاو، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی، اور جمہوری وطن پارٹی کا ایک ایک سینیٹر موجود ہے۔ اس کے علاوہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے سے آٹھ اور بلوچستان کے تین سینیٹر آزاد ارکان کی حیثیت سے موجود ہیں۔اٹھارہویں آئینی ترمیم کی رو سے سینیٹ میں اقلیتوں کے لیے بھی کل چار نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ اس طرح چاروں صوبوں سے ایک ایک اقلیتی رکن کا بھی منتخب کیا جائے گا۔دو ہزار بارہ میں سینیٹ کے نصف یعنی پچاس اور چار اقلیتی ارکان کو شامل کر کے چون نشستوں پر انتخاب ہو گا، یعنی ہر صوبے سے جنرل نشستوں پر سات، خواتین اور ٹیکنو کریٹ کی نشستوں پر دو دو اور ایک اقلیتی رکن کا انتخاب کیا جائے گا۔جبکہ امریکہ کے لیے پاکستان کی نامزد سفیر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کر کے تعلقات کو بہتری کی طرف لانا ان کی ترجحیات میں شامل ہے۔توقع ہے کہ آئندہ ہفتے وہ واشنگٹن میںاپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالیں گی۔شیری رحمن نے کہا کہ ان کے لیے ملک کا مفاد مقدم رہے گا اور وہ اسی تناظر میں امریکہ سے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گی۔”مسئلہ اس وجہ سے بھی آ رہا ہے کہ پچھلی حکومتوں میں کچھ غیراعلانیہ طور پر معاہدے ہوئے ہیں، غلط فہمیوں کو دور کرنا بہت ضروری ہے اور غلط فہمیوں کا ایک جال ہے جو دور کرنا ہو گا۔“شیری رحمٰن نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں دونوں ممالک کی اپنی اپنی ترجیحات اور حدود ہیں جن کا احترام ضروری ہے۔ ”سرخ لکیریں ہماری بھی ہیں ان کی بھی ہیں تو کوشیش یہ ہے کہ سرخ لکیروں کا تناو نہ ہو اور جتنا ہم آپس کی فلاح و بہبود میں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعلقات میں بہتری لا سکتے ہیں وہ ضرور لائیں خاص کر کے اقتصادی تعلقات میں اور ٹریڈ میں۔“26 نومبر کو قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں دو سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاک امریکہ تعلقات نا صرف کشیدہ ہو گئے بلکہ پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے اس واقعہ کے بعد تعلقات جمود کا شکار ہیں۔ پاکستانی پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی امریکہ اور نیٹو کے ساتھ مستقبل میں تعاون کی شرائط سے متعلق سفارشات کو حتمی شکل دے رہی ہیں۔پارلیمانی کمیٹی ان سفارشات کو منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کرے گی اور پاکستان کا کہنا ہے کہ نظرثانی کے اس عمل کے بعد ہی امریکہ اور نیٹو سے تعلقات کا تعین کیا جائے گا۔رواں ہفتے اسلام آباد میں ایک تقریب کے بعد امریکی سفیر کیمرون منٹر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ان کا ملک دوطرفہ تعلقات پر نظرِ ثانی کے پاکستانی فیصلے کا احترام کرتا ہے۔کیمرون منٹر نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ نظر ثانی کے اس عمل کے بعد امریکہ پاکستان کے ساتھ دیانت داری کی بنیاد پر مفصل مذاکراتی عمل شروع کر سکے گا جس میں دونوں ملکوں کے مفادات کو واضح طور پر پیش نظر رکھا جائے گا۔ جبکہ افغانستان کیلئے بالآخرامن مذاکرات شروع ہورہے ہیں اور امید ہے کہ جنگ کی خونریزیوں کا خاتمہ ہوگا ۔دس سال قبل امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج کے حملے کے بعد، پہلی بار طالبان نے یہ انکشاف کیا ہے کہ وہ امریکی عہدے داروں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں جن میں خلیجی ریاست قطر میں سیاسی امور کا ایک آفس کھولنے پرابتدائی سمجھوتہ ہو چکا ہے۔ طالبان نے امریکہ سے اپنے ان ساتھیوں کی رہائی کے لیے کہا ہے جو گوانتانامو بے ، کیوبا میں قید ہیں ۔افغان صدر حامد کرزئی نے قطرمیں طالبان کا آفس کھولنے کے منصوبے اورطالبان کے ساتھ مذاکرات کی امریکی کوششوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں یہ پیش رفت افغانستان میں جنگ کو ختم کرنے اوربے گناہ لوگوں کی ہلاکتوں کو روک سکے گی۔ان خبروں پر پاکستان کا ردعمل محتاط ہے۔ جبکہ اس بارے وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے اس موقف کو دہرایا ہے کہ ان کا ملک افغانستان کی قیادت میں کی جانے والی ایسی ہر کوشش کی حمایت کرے گا جس کا مقصد جنگ سے تباہ حال اس ملک میں سیاسی مصالحت کی راہ ہموار کرتا ہو ۔”اس علاقے میں استحکام پاکستان کے بنیادی مفادات کا حصہ ہے۔ علاقے میں استحکام نہ ہونے سے، پاکستان ایک طویل عرصے سے مصائب برداشت کرتا رہا ہے۔ لہٰذا، افغانستان میں مصالحت اورقومی استحکام کی ہر کوشش کا براہِ راست پاکستان پر مثبت اثر پڑے گا اور ظاہر ہے کہ ہم ایسی ہر کوشش کی حمایت کریں گے ۔“کابل میں مقیم غیر جانبدار افغان تجزیہ کارکہتے ہیں کہ طالبان کے آفس کھولنے کے اعلان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لینا قبل از وقت ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر کرزئی کی طرف سے اس اقدام کی کھلے عام حمایت کی وجوہات موجود ہیں۔”انھوں نے قطرمیں طالبان کا آفس کھولنے کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ چاہیں گے کہ کوئی ایسا پتہ ہوجس پرطالبان سے رابطہ کیا جاسکے، اوراس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ چاہیں گے کہ طالبان سے رابطے کے لیے پاکستان کی خصوصی اجارہ داری کا تاثر ختم یا کمزور ہو جائے افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر، رستم شاہ
مہمند جیسے مبصرین کا اصرار ہے کہ اسلام آباد کی شرکت کے بغیر، افغانستان میں امن کا جو بھی سمجھوتہ ہو گا، اس پر عمل در آمد مشکل ہو گا۔”کیونکہ پاکستان میں اب بھی بہت سے افغان پناہ گزیں موجود ہیں، اوربہت سے طالبان رہنما پاکستان میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کی پوزیشن بہت اہم ہوگی اور یقین ہے کہ کسی نہ کسی مرحلے پر پاکستان کو اس عمل میں شامل کرنا پڑے گا۔“امریکی عہدے داروں نے طالبان کے ساتھ اپنے مبینہ رابطوں پربراہ راست تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے، لیکن انھوں نے یہ عندیہ دیا ہے کہ اس سے تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں مدد ملے گی۔ تا ہم، اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر کیمرون منٹر نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ پاکستان کو تصفیے کے عمل سے باہررکھا جارہا ہے۔" دونوں ملک، پاکستان اور امریکہ، پر امن، کامیاب اورخوشحال افغانستان کے حصول کے عزم پر قائم ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہم نے مِل جل کر کام کرنے کا عزم کررکھا ہے۔ ہم نہ صرف آپس میں، بلکہ علاقے کے دوسرے شراکت داروں کے ساتھ تعاون کے عزم پر قائم ہیں تا کہ افغانستان کے بارے میں جو بھی سمجھوتہ ہو، وہ علاقے میں سب کے لیے اطمینان بخش ہو۔“ مفرور کمانڈر گلبدین حکمت یار کے افغان باغی گروپ، حزب اسلامی، کے نمائندے بھی اس ہفتے صدر کرزئی، افغانستان میں نیٹوافواج کے کمانڈر، جنرل جان ایلن، اورکابل میں امریکی سفیر رائن کروکرسے ملنے کے لیے کابل گئے۔حکمت یار کے پاکستان میں مقیم داماد، ڈاکڑغیرت باحیرنے کابل جانے والے تین رکنی وفد کی قیادت کی۔جبکہ ڈاکٹر باحیر نے امریکیوں کے ساتھ اپنے مذاکرات کو بے لاگ، مفصل، ابہام سے پاک اور مفید قرار دیا۔”ان کے خیال میں امریکیوں کا رویہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ عملی اورحقیقت پسندانہ تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر امریکی 2014 کے آخر تک افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہیں، اوراگریہ موقف حتمی ہے تو(افغانستان کے) بقیہ مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔“امریکہ نے 2014 کے آخرتک
اپنی تمام لڑاکا فوجیں افغانستان سے واپس بلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن بیشتر مبصرین کا خیال ہے کہ اس کے بعد بھی افغانستان کو مضبوط اورطویل المدتی بین الاقوامی حمایت درکارہوگی کیونکہ دوسری صورت میں طالبان سمیت مختلف افغان دھڑوں کے درمیان پائے جانے والے شدید اختلافات ملک کو ایک بار پھراسی قسم کی خانہ جنگی سے دوچار کرسکتے ہیں جس کا تجربہ افغانستان کو1990 کی دہائی میں سویت افواج کے انخلا کے بعد ہوا تھا۔اے پی ایس