آئین کی بالا دستی اور کرپشن کی سرپرستی۔چودھری احسن پر یمی




سپریم کورٹ کے فیصلے کومبصرین و ملک بھر کے عوام نے سراہتے ہوئے کہا ہے مذکورہ فیصلہ آنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کی سب سے بڑی محافظ خود سپریم کورٹ ہے۔جبکہ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو چھ اہم آپشن دے دیے ہیں۔اب حکومت کوئی حل نکالتی ہے یا خود اپنے پاوں پر کلہاڑی مارتی ہے۔اس بارے سب کی رائے یہی ہے کہ کسی بھی حد سے زیادہ گزرنے کی نوبت نہیں آنی چاہیے کہ کسی بھی فیصلہ پر عملدرآمد کیلئے سپریم کورٹ کو فوج کو طلب کرنا پڑے۔بہتر ہے کہ تمام معاملات کو باہمی افہام تفہیم اور سیاسی تدبر سے حل کیا جائے۔مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی سطح پر خطرات ہیں، اداروں میں تصادم نہیں چاہتے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، فیصلے میں آپشن موجود ہیں، چوہدری شجاعت نے سیاستدانوں کو فوری طور پر قومی مذاکرات کی بھی پیش کش کی ہے صورتحال سنجیدگی، ٹھنڈے دل و دماغ اور معاملہ فہمی کا تقاضا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اداروں اور سیاستدانوں کی موجودہ قیادت دیرینہ مسائل کا حل ایک ہفتے میں نکال سکتی ہے، چوہدری شجاعت نے سیاستدانوں کے درمیان فوری طور پر قومی مذاکرات کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی سطح پر خطرات ہیں، وہ اداروں میں تصادم نہیں چاہتے۔ چوہدری شجاعت نے کہا کہ اداروں کا تصادم ملک کے لئے خطرناک ہوگا۔ ہم اس وقت ملک کے ساتھ ہیں اور ملک کا دفاع ضروری ہے۔ سپریم کورٹ فیصلے پر جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، فیصلے میں آپشن موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سیاست سے زیادہ اہم مملکت ہے یہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں، اداروں اور قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو موجودہ غیر یقینی صورتحال سے باہر نکالیں اور مایوسی کے بجائے قوم کو امید دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے قومی یکجہتی کیلئے اپنا کردار ادا نہ کیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ چوہدری شجاعت نے کہا کہ یہ کھلی حقیقت ہے موجودہ حالات میں عدلیہ، فوج اور حکومت سمیت تمام ادارے انتہائی اقدام کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ آئین کسی ایسے اقدام کی اجازت نہیں دیتا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے این آر او کیس کے فیصلے کے تناظر میں حکومت کی اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس ایوان صدر اسلام آباد میںمنعقد ہوا۔جس میں صدر آصف علی زرداری ، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی،چوہدری شجاعت حسین،ڈاکٹرفاروق ستار،اسفندیارولی،بابر غوری ،افراسیاب خٹک، منیر اورکزئی،میر اسرار اللہ زہری سمیت پیپلزپارٹی ، اے این پی ، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کے دیگر رہنماءبھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس کی صدارت مشترکہ طور پر صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی نے کی۔ اجلاس سے قبل صدر اور وزیراعظم کے درمیان علیحدگی میں ملاقات ہوئی۔ صدر اور وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں کے سربراہاں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اجلاس میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے جانے والے فیصلے کے تمام پہلوو ¿ں کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی ترتیب دی گئی اور بارہ جنوری کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے کہا ہے کہ حکومت مکمل طور پر بند گلی میں داخل ہو چکی ہے، اب عدلیہ کے فیصلے ماننا پڑیں گے یا حکمرانوں کو بے آبرو ہو کر گھر جانا پڑے گا۔ چوہدری نثار نے کہا کہ ایسا لگتا ہے گیلانی حکومت کے گزشتہ چار سال کے کرتوت ان کے گلے پڑنے والے ہیں، بابر اعوان اور رحمان ملک نے حکومت کو بند گلی میں پہنچادیا ہے۔ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ موجودہ مشکل حالات حکمرانوں کی نا اہلی اور ناقص کارکردگی کے باعث ہیں اب یہ حکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ بے آبرو ہو کر نکلیں یا عدلیہ کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کر کے اپنی کچھ عزت بچائیں۔ جبکہ پاکستان کی عدالت عظمٰی نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو متنبہ کیا ہے کہ این آر او کے تحت صدر مملکت سمیت دیگر ہزاروں افراد کے خلاف ختم کیے گئے بدعنوانی کے مقدمات کو بحال نہ کیا گیا توعدالت ا ±نھیں ا ±ن کے عہدے سے برطرف بھی کر سکتی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے قومی مصالحتی آرڈینینس (این آر او) کو کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے پر قابل ذکرعملدرآمد نہ ہونے پر مایوسی کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جان بوجھ کر عدالت کی حکم عدولی کرنے پر وزیراعظم نے ملک کے دستور کی بجائے اپنی سیاسی جماعت سے وفاداری کی ہے۔عدالت عظمٰی کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کی بالادستی قائم کرنے اور اس سے وفاداری کے اپنے حلف سے وزیراعظم کا بظاہر انحراف ان کے ”ایماندار“ اور ”امین“ ہونے کو مشکوک بناتا ہے اور ایسا شخص دستور کے تحت پارلیمان کا رکن نہیں رہ سکتا۔”کچھ ایسا ہی حلف متعلقہ سیاسی جماعت کے شریک چیئر مین نے صدر پاکستان کا منصب سنبھالتے وقت اٹھایا تھا۔۔۔اور ان کو بھی اپنے حلف سے بظاہر انحراف پر ایسے ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے“۔سپریم کورٹ نے این آراو کے خلاف دسمبر2009ءمیں سنائے گئے اپنے فیصلے میں اس متنازع قانون کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کر کے اس سے مستفید ہونے والے ہزاروں افراد بشمول صدرزرداری کے خلاف اندرون ملک اور پاکستان سے باہر قائم کیے گئے بدعنوانی کے مقدمات بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔لیکن سپریم کورٹ نے جاری کیے گئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی مخلوط حکومت نے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں اور نہ ہی عدالت کے حکم پر سوئیٹزر لینڈ میں آصف علی زرداری کے خلاف ختم کیے گئے مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھا ہے۔این آر او پر عمل درآمد میں تاخیر کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس کی وضاحت کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی رکھی تھی جس کے بعد یہ فیصلہ سنایا گیا۔وزیر اعظم گیلانی کی مخلوط حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان کے آئین کے تحت صدر مملکت کو کسی بھی طرح کی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے پیپلز پارٹی کی غیر مقبول مخلوط پر سیاسی دباو ¿ میں اضافے کا امکان ہے۔عدالت عظمٰی کے فیصلے پر فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ این آراو سے صرف پیپلز پارٹی نہیں بلکہ ایم کیو ایم سمیت ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی مستفید ہوئیں۔ ا ±نھوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کو پہلی مرتبہ جب سابق صدر پرویز مشرف نے این آر او کا مسودہ بھیجا تھا تو مقتول رہنما نے اسے مسترد کردیا لیکن اس وقت امریکی وزیر خارجہ کونڈالیز رائس کی مداخلت پر طرفین رضا مند ہو گئے۔”اس وقت کی (امریکی) وزیر خارجہ کونڈلیزا رائس نے فون کیا کہ آپ کو ہر صورت بات کرنی چاہیئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں الیکشن ہوں جس میں ساری فورسز اس میں حصہ لیں۔ دوبارہ بات چیت ہوئی کہ اس این آراو میں پیپلز پارٹی کا کوئی رول نہیں تھا۔“پیپلز پارٹی قائدین کا الزام ہے کہ سپریم کورٹ نے صدر زرداری کی حکومت کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنا رکھی ہے جس کا مقصد فوج کے ساتھ مل کر آئینی طریقے سے حکومت کو برطرف کرنا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت نے بھی بظاہر ایک جارحانہ رویہ اپنا لیا ہے جس کا صدر زرداری نے رواں ہفتے ایک ٹی وی انٹرویو میں کھل کر اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ این آراو ماضی بن چکا ہے اور ان کی حکومت سوئٹزرلینڈ میں مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط نہیں لکھے گی۔آئینی اور قانونی ماہرین نے صدر زرادری کے اس بیان کو توہین عدالت قرار دیا ہے تاہم ان کے خیال میں اس بارے میں کوئی حتمی رائے صر ف سپریم کورٹ ہی قائم کر سکتی ہے۔عدالت عظمٰی نے اٹارنی جنرل کو 16 جنوری کو دوبارہ پیش ہونے کا حکم سناتے ہوئے این آر او کے خلاف فیصلے پر عمل درآمد کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا ہے اور انھیں اس کے لیے لارجر بنچ بنانے کی تجویز بھی دی ہے۔ سپریم کورٹ نے این آر او عملدرآمد کیس میں فیصلہ دیا ہے کہ بادی النظر میں وزیراعظم نے آئین کی بجائے سیاسی جماعت سے وفاداری کی ، عدالت نے صدر اور وزیراعظم پر آئین سے انحراف کے ممکنہ الزام کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کو6 آپشنز دیے ہیں ، معاملہ حتمی فیصلے کیلیے لارجر بنچ کو بھیجتے ہوئے 16 جنوری تک مہلت بھی دے دی گئی ہے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے این آر او عملدرآمد کیس پر12 صفحات پر مشتمل اپنا متفقہ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ صدر زرداری نے جیو نیوز کو انٹرویو میں واضح کہاکہ ان کی جماعت نے عدالتی فیصلے کے ایک حصے پر عمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ نیب اور حکومت دونوں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد میں سنجیدہ نہیں ،جو اقدام تجویز کرنے جارہے ہیں وہ کافی ناخوش گوار ہوں گے لیکن اس سے آئینی توازن قائم ہوگا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں وزیراعظم کو بادی النظر میں غیر دیانت دار آدمی کہتے ہوئے اٹارنی جنرل کو6 آپشنز حکومت تک پہنچانے کے لیے دیئے۔ آپشن 1: حلف کی وفاداری اور عدالتی احکامات کی پیروی نہ کرنے پر صدر، وزیراعظم اور وفاقی وزیرقانون کے خلاف آئینی خلاف ورزی کا مرتکب ہونے کی کارروائی کی جائے۔آپشن 2: وزیراعظم،وفاقی وزیرقانون، سیکریٹری قانون کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔آپشن 3: عدالتی حکم پر عمل کرانے کیلئے آرٹیکل 187 کے تحت عدالتی کمیشن قائم کردیا جائے۔آپشن 4: صدر کے لیے کسی نے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ نہیں مانگا ، کوئی ان آپشنز سے متاثر ہوتا ہے تو عدالت اسے سننے کے لیے موقع دے رہی ہے۔ آپشن 5: چیئرمین نیب کو نیب آرڈیننس کے تحت ہٹانے کی کارروائی کی جائے۔آپشن 6: عدالت تحمل کا مظاہرہ کرے اور آئینی دیباچہ کے مطابق عوام کو فیصلہ کرنے دیاجائے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہاکہ آئندہ سماعت پر بتائیں کہ ان 6 آپشنز میں کیا استعمال کیا جائے تاکہ یہ شکایت نہ ہو کہ انہیں سنا نہیں گیا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ عدنان خواجہ، احمد ریاض شیخ اور ملک قیوم کیخلاف نیب کی رپورٹس غیر تسلی بخش ہیں،سزایافتہ افراد کو ترقی ملنے میں ڈھال فراہم کی گئی۔سوئس کیسز سے متعلق سیکریٹری قانون بھی عدالت نہیں آئے اور نہ عدم حاضری پر کوئی اطلاع دی۔فیصلے میں کہاگیا ہے کہ ملک کی اعلی ٰترین عدالت میں شطرنج کا کھیل یا چھپن چھپائی نہیں ہونی چاہیے، اگر حکومت قانون توڑے تو عام شہری بھی ایسا کرے گا ، آئین پر عمل نہ ہو تو عدلیہ نے کارروائی کرنے کا حلف اٹھا رکھا ہے ۔ عدالت نے معاملہ 16 جنوری کو لارجر بینچ میں سماعت کے لییفکس کرنے کی خاطر بھیج دیا ہے اور چیئرمین نیب، اٹارنی جنرل اور سیکریٹری قانون کو ذاتی طور پر طلب کیاہے۔سپریم کورٹ نے قومی مصالحتی آرڈیننس یا این آر او کے بارے میں اپنے فیصلے پر اب تک من و عن عمل درآمد نا ہونے پر متعلقہ حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ 10 جنوری کو عدالت میں پیش ہو کر اس بارے میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کریں۔جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سماعت کے دوران اٹارنی جنرل پر واضح کیا کہ این آر او کو کالعدم قرار دیئے جانے کے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے حکومت کو آخری مہلت دی جا رہی ہے اور اگر اب بھی کارروائی نہ کی گئی تو مجاز حکام چاہے کتنے ہی با اختیار کیوں نا ہوں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔عدالت نے اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق سے استفسار کیا کہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف بیرون ملک قائم بدعنوانی کے مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط کیوں نہیں لکھا گیا تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کیوں کہ حکومت نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کر رکھی تھی اس لیے خط لکھنے کا معاملہ موخر کیا گیا۔جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ نظر ثانی کی درخواست کا فیصلہ آئے بھی کئی دن ہو گئے ہیں اس لیے خط نا لکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے سیکرٹری قانون کو حکم دیا کہ آئندہ سماعت کے موقع پر سوئس حکام کو خط لکھنے کے بارے میں اقدامات سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین، پراسیکیوٹر جنرل اور سیکرٹری قانون کو بھی حکم دیا کہ وہ 10 جنوری کو عدالت میں پیش ہو کر این آر او کے تحت ختم کیے گئے مقدمات کو دوبارہ کھولنے کے حوالے سے اب تک کے اقدمات سے عدالت کو آگاہ کریں۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے لارجر بینچ نے 16 دسمبر 2009ءکو این آر او کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس قانون سے مستفید ہونے والے آٹھ ہزار سے زائد افراد بشمول صدر آصف علی زرداری کے خلاف ختم کیے گئے مقدمات کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔وفاق نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں نظرثانی کی درخواست دائر کر دی تھی لیکن دسمبر 2011ءمیں عدالت نے حکومت کی اپیل خارج کرتے ہوئے اپنا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں صدر زرداری کے خلاف قائم بدعنوانی کے مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ سوئس حکام کو خط لکھیں۔حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت صدر زرداری کو کسی بھی طرح کی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے اس لیے ان کے خلاف مقدمات نہیں کھولے جا سکتے ہیں۔لیکن 14 دسمبر 2011ءکو عدالت عظمیٰ نے صدر زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور صوبائی گورنروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ وہ این آر او کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر اب تک عمل درآمد نا ہونے کی وضاحت کریں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی ، این آر او پر سپریم کورٹ کے 10جنوری کے فیصلے سے مزید مشکلات میں گھر گئی ہے۔ فیصلے کی رو سے اسے سب سے پہلے اسی مسئلے سے نمٹنا ہوگا کہ وہ 16جنوری کو عدالت عظمیٰ میں کس انداز سے پیش ہو کہ جس سے اس کی مشکلات بھی کم ہوں اور اسے سانس لینے کا موقع بھی مل سکے۔چونکہ عدالت حکومت سے صدر زرداری کے خلاف سوئس مقدمات کھولنے کیلئے اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق فیصلہ جاننا چاہتی ہے عدالت گزشتہ سماعت پرہی یہ کہہ چکی ہے کہ احکامات پر عمل نہ کیا گیا تو چاہے جتنی بڑی اتھارٹی ہو ایکشن لیا جائے گا۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رکھنا ہوگی کہ دو روز قبل صدر زرداری نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں واضح طور پر کہا تھا کہ سوئس مقدمات کھولنا بے نظیر بھٹو کی قبر کے ٹرائل کے مترادف ہوگا جو پیپلزپارٹی کبھی نہیں چاہتی۔پیپلز پارٹی کو سر دست این آر او ہی مشکلات کا باعث نہیں بلکہ میمو اسکینڈل پر سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دیئے گئے کمیشن کی کارروائی جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے ، گتھی سلجھنے کے بجائے الجھتی جا رہی ہے۔ کیس کے مرکزی کردار منصور اعجاز سولہ جنوری کو پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ ان کے وکیل نے استدعاکی ہے کہ انہیں فوج کی سیکورٹی دی جائے اور ان کے خلاف پاکستان میں کوئی مقدمہ بھی قائم نہ کیا جائے جس پر کمیشن نے دو مطالبات مان لیے تاہم پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما بابر اعوان نے میڈیا کو بتایا کہ آئین کے تحت عدالت، فوج کو کسی شخص کی سیکورٹی کا حکم نہیں دے سکتی۔ کسی بھی شخص کی سیکورٹی کی ذمہ داری حکومت کی ہے ، اگر پاکستانی حدود میں کوئی شخص پاکستان کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے توحکومت اس کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ادھر میمو اسکینڈل پر وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے چینی ذرائع ابلاغ کو انٹرویو میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے بیان کو غیر آئینی قرار دے کر اپنی جماعت کے لئے مزید مشکلات بڑھا لی ہیں۔ ان کا تو موقف یہ ہے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر کسی سرکاری عہدیدارکا سرکاری فعل ، غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، لیکن وزیراعظم کے اس بیان نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ بعض قانونی ماہرین وزیراعظم کے بیان کی مخالفت کر رہے ہیں تو کچھ حمایت بھی کر رہے ہیں۔مبصرین کے مطابق آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے وطن واپسی بھی پی پی کے لئے ایک بڑا امتحان بن سکتی ہے کیونکہ ایک جانب تو اسے مشرف کی حامی لابی حکومت کو ان کے خلاف کسی اقدام سے بعض رکھنے کی کوشش کرے گی تو دوسری جانب مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔اے پی ایس