سارے ہنگامے کے پیچھے میمو۔چودھری احسن پر یمی



قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے کہا ہے کہ آصف زرداری نہ جانے قوم سے کس بات کا بدلہ لے رہے ہیں، پیپلزپارٹی کے دور میں عوام کو مایوسیوں اور پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں ملا، کسی کو اچھا لگے یا نہ، نئے انتخابات کا راستہ نہیں روکا جا سکتا. چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری نے پاکستان کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے. پاکستان کا قبلہ درست کرنے کے لئے عوام اپنا کردار ادا کریں۔جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عوام موجودہ حکومت سے جلد نجات چاہتے ہیں، چار سالوں میں عوام کے دکھوں میں اضافہ اور ملکی وسائل کو لوٹا گیا حکمران جمہوریت کا ڈھنڈورا بہت پیٹتے ہیں لیکن ان کا رویہ غیر جمہوری ہے، قومی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کی کیفیت ہے جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو مذاق بنا دیا گیاہے۔ موجودہ حکومت کے رہتے ہوئے فیڈریشن کو خطرہ ہے، وقت آگیا ہے کہ ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں. جبکہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے گزشتہ ہفتے کی شام کو اسلام آباد میں صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی اور صدر آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران ملک کی موجودہ سیکورٹی کی صورت حال پر بات چیت کی گئی۔صدارتی ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات فوج کے سربراہ کی خواہش پر ہوئی۔پاکستان کے نجی ٹی وی چینل کے مطابق ملاقات ایک گھنٹے تک جاری رہی جس میں سکیورٹی کی صورت حال کے ساتھ ساتھ متنازعہ میمو پر بات چیت ہوئی۔ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ فوج کے سربراہ نے صدرسے کہا کہ انھیں چین کے اخبار میں شائع ہونے والے وزیر اعظم کے اس بیان پر تحفظات ہیں جو انھوں نے فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان کی طرف سے سپریم کورٹ میں میمو کے تنازعے پر جمع کرائے جانے کے بارے میں دیا تھا۔چینل نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے صدر زرداری سے درخواست کی کہ وہ وزیر اعظم گیلانی کو ہدایت کریں کہ وہ اپنا یہ بیان واپس لیں۔یہ ملاقات ایک ایسے مرحلے پر ہوئی جب متنازعہ میمو کے معاملے پر فوجی اور سول قیادت کے درمیان تناو کی سی صورت پائی جاتی ہے۔جبکہ عسکری اور سیاسی قیادت پر مشتمل کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے ہفتہ کو ہونے والے اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حکومت، پارلیمان اور سب سے بڑھ کر پاکستانی عوام اپنے ملک کی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور پاکستانی قوم اس بات پر متفق ہے کہ ملک کی سرزمین پرکسی قسم کی دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کی خودمختاری اور جغرافیائی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اور ہر اس سوچ کو مسترد کیا جائے گا جس سے ملکی خودمختاری، وقار اور قومی غیرت پر حرف آئے۔وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ ملک اور خطے میں امن واستحکام کے لیے کی جانے والی کاوشوں میں پاکستان کا کردار کسی سے کم نہیں۔انھوں نے کہا کہ 26 نومبر کو مہمند ایجنسی میں سرحدی چوکیوں پر نیٹو افواج کے حملے کے بعد کابینہ کی دفاعی کمیٹی نے ایک واضح موقف اپنایا تھا جس کی توثیق کابینہ نے بھی کی۔وزیر اعظم نے کہا کہ پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو پاک امریکہ تعلقات پر نظر ثانی کر کے مستقل میں دوطرفہ تعاون کے تعین کے لیے سفارشات مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور کمیٹی کی تیار کردہ رپورٹ پر پارلیمنٹ میں غور کیا جائے گا۔وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ تعاون کی شرائط کے جائزے پر ابھی غور کیا جا رہا ہے اور انھوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ اس بارے میں فیصلہ عوامی امنگوں کے مطابق قومی مفادات کے پیش نظر کیا جائے گا جس سے خطے میں امن کو فروغ حاصل ہوگا۔ دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں 26 نومبر کے واقعے کی امریکی حکام کی تحقیقاتی رپورٹ پر بھی غور کیا گیا۔کابینہ کی دفاعی کمیٹی ’ڈی سی سی‘ کے اجلاس سے قبل فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی ہے جس میں سلامتی کی موجودہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان پائی جانے والی حالیہ کشیدگی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب وزیراعظم گیلانی اور فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان ملاقات ہوئی۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک چینی اخبار کو اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت میمو اسکینڈل مقدمے میں فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان نے اپنے بیانات حلفی حکومت کی منظوری کے بغیر ہی داخل کیے تھے جو ”غیر آئینی اور غیرقانونی“ اقدام تھا۔ جس پر رواں ہفتے فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ فوجی قیادت پر آئین کی خلاف ورزی کے الزام کے انتہائی سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ لیکن کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ قومی یکجہتی وقت کا اہم تقاضا ہے اور جمہوریت قومی اتفاق رائے بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ تمام سرکاری اداروں کو ملکی مفاد میں اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی۔جبکہ پاکستا ن کی سیاسی صورت حال پر ’واشگٹن پوسٹ‘ میں ایک طویل تجزیاتی مراسلہ چھپا ہے جِس کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے دبئی کا جو ایک روزہ دورہ کیا ہے،تجزیہ کاروں کے مطابق اس کا مقصد اپنے بارے میں افواہوں کی طرف لاپرواہی کا مظاہرہ کر نا تھا۔اِس سے پہلے، سول حکومت اورفوج کے درمیان وزیر اعظم گیلانی کی طرف سے سکریٹری دفاع کی برطرفی کے بعد کی محاذ آرائی کے تناظر میں فوجی انقلاب کی افواہیں پھیلنی شروع ہوئی تھیں۔ یہ سکریٹری فوج کا ریٹائرڈ جنرل تھااور فوج نے ایک بیان میں وزیر اعظم کو انتباہ کیا تھا کہ انہوں نے فوج پرحال ہی میں جو نقطہ چینی کی تھی اس کے نتائج ضرر رساں ہونگے۔اخبارکہتا ہے کہ اس سارے ہنگامے کے پیچھے وہ میمو ہے جسے ایک پاکستانی امریکی تاجر منصور اعجاز نے امریکی محکمہءدفاع کو پہنچایا تھا اورجس میں امریکہ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ پاکستان میں فوجی انقلاب کوروکنے اور فوج پر سویلین کنٹرول قائم کرنے میں مدد فراہم کرے۔اخبار کو یقین ہے کہ یہ میمو حکومت پاکستان کی اعلیٰ ترین سطح کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ اگرچہ اِس پر حکومت کی جانب سے قطعی لا علمی کا اظہار کیا گیا ہے۔اخبار کہتا ہے کہ ان ڈرامائی واقعات کے باوجود، عام طور پر یہ باور کیا جاتا ہے کہ فوج کا انقلاب برپا کرنے کی طرف میلان نہیں ہے اور نا ہی پاکستان کے جاندار ذرائع ابلاغ اس کے حق میں ہیں ۔ بلکہ، فو ج کی ترجیح یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس کا فیصلہ کرے اور اس میں اگر عدالت کو آئینی تقاضوں کوپورا کرنے کےلئے فوج کی امداد کی ضرورت ہوتو فوج اس کے لئے تیا ر ہے۔اخبار نے واشنگٹن میں سینئر عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ فوجی انقلاب کا کوئی امکان نہیں ہے اور اس سے فریقوں میں سے کسی کے بھی مفادات کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ۔ لیکن، انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ اب انہیں پاکستان میں تیزی کے ساتھ بدلنے والے واقعات کے بارے میں آگہی نہیں ہے۔اِن عہدہ داوں نے ان کا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر یہ بھی کہا کہ مداخلت کرنے کی کسی بھی کوشش کا الٹا اثر پڑے گا،جس کی وجہ پاک امریکی تعلقات میں رواں کشیدگی بتائی گئی۔اخبار کہتا ہے کہ اصل ٹکراو پیر کے روز ہوگا،جب حکومتِ پاکستان، صدر زرداری اور دوسرے اہل کاروں کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے کے بارے میں اپنے موقّف کی وضاحت کرے گی۔ ان مقدمات کو دوبارہ نہ کھولنے کی بناءپرعدالت وزیراعظم کوبد دیانت قرار دے چکی ہے۔اخبار کہتا ہے کہ اس صورت حال سے نمٹنے کےلئے عدالت کو چھ متبادل دستیاب ہیں۔ ان میں مسٹر گیلانی کی برطرفی، توہین عدالت کے الزامات پر کاروائی کرنا ، اور ووٹروں سے اس کا فیصلہ کرانا شامل ہے۔حکومت اور فوج کے مابین یہ اختلافات امریکہ اورپاکستان کے تعلقات میں بگاڑ کے پسِ منظر میں پیدا ہوئے ہیں، جس کی وجہ ایک پاکستانی سرحدی چوکی پر نیٹوبمباری سے 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت ہے۔اِس پسِ منظر میں، اخبار کہتا ہے واشنگٹن میں وزیرخارجہ ہلری کلنٹن کی پاکستان کی نئی سفیر شیری رحمان کے ساتھ ملاقات سے معمولی سی پیش رفت ہوئی ہے، جس کے بعد مسز کلنٹن نے کہا کہ امریکہ ، پاکستان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے اور انہیں مفید مطلب بنانے کی پالیسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہے۔جبکہ اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت صدر پاکستان کو اپنے خلاف فوجداری مقدمات میں استثنیٰ حاصل ہے اور انہیں یہ استثنیٰ عدالت سے مانگنے
کی ضرورت نہیں۔ عدلیہ کو خود اس بات کا نوٹس لینا چاہیئے کہ ملک کے منتخب صدر پر الزامات ہیں اور انہیں عدالت سے استثنیٰ مانگنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماءنے کہا کہ آئین کے تحت صدر کے خلاف نہ تو کوئی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے اور نہ کسی کارروائی کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔سوئس عدالتوں کو خط لکھنے کے معاملے پر اعتزاز احسن نے کہا کہ اس بارے میں ان کا موقف اپنی جماعت پیپلز پارٹی کے موقف سے برعکس ہے۔ ان کے بقول ویانا کنونشن کے تحت بھی صدر آصف علی زرداری کو استثنیٰ حاصل ہے اس لیے ان کے خلاف سوئس عدالتوں کو خط لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں کو خط نہیں لکھا جائے گا۔ممتاز قانون دان اعتزاز احسن نے اس بات کی تردید کی کہ حکومت نے ان کے ذریعے اعلی عدلیہ سے کوئی رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی جماعت پیپلز پارٹی کے ایماءپر مسلم لیگ نون کے ساتھ پس پردہ رابطوں کی اطلاعات کو بھی غلط قرار دیا اور کہا کہ یہ اطلاعات درست نہیںہیں کہ مسلم لیگ نون کے رہنما اسحاق ڈار اور ان کے درمیان کوئی ’بیک ٹریک ڈپلومیسی‘ چل رہی ہے۔ایک سوال پر اعتزاز احسن نے بتایا کہ وہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور انہوں نے اس مقصد کے لیے اپنی جماعت پیپلز پارٹی کو ٹکٹ کے لیے درخواست دے دی ہے۔وکلاءتنظیموں کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلہ اور سپریم کورٹ بار کے صدر ہونے کے ناطے اعتزاز احسن نے دو ہزار آٹھ میں ہونے والے انتخابات میں جمع کرائے گئے اپنے کاغذاتِ نامزدگی واپس لے لیے تھے اور وکلاءدباو کی وجہ سے ضمنی انتخابات میں بھی حصہ نہیں لیا تھا۔اعتزاز احسن پہلے بھی بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں سینیٹ میں قائدِ حزب مخالف رہ چکے ہیں اور سنہ انیس سو ترانوے میں ہونے والے عام انتخابات میں لاہور سے شکست کے بعد وہ سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ جبکہ سپریم کورٹ نے ’این آر او‘ کے خلاف دسمبر 2009ء میں اپنے ایک فیصلے میں اس متنازع قانون کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے منسوخ کرکے اس سے مستفید ہونےو الے صدر زرداری سمیت آٹھ ہزار افراد کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔گزشتہ ہفتے ’این آر او‘ سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کرنے والے عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے حکومت کی طرف عدلیہ کے فیصلے پر پوری طرح عمل درآمد نا ہونے پر یہ معاملہ اس درخواست کے ساتھ چیف جسٹس کو بھجوا دیا تھا کہ اس کیس کی سماعت کے لیے ایک لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں چیف جسٹس نے ایک لارجر بینچ قائم کردیا ہے جو 16 جنوری کو اس معاملے کی سماعت کررہا ہے۔حکومت یہ اعلان کرچکی ہے کہ وہ اٹارنی جنرل کی وساطت سے اپنا موقف پیش کرے گی۔اے پی ایس