آئین و قانون کے سامنے سرتسلیم خم۔چودھری احسن پر یمی




حکمران اتحاد کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی 19جنوری کو اتحادی رہنماوں اور وفاقی وزراء کے ہمراہ سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔ گزشتہ روز صدر زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت حکمران اتحاد کا اجلاس ہوا جس میں اتحادیوں نے یقین دہانی کرائی کہ تاریخ کو بدلیں گے اور سول حکمرانی کو یقینی بنایا جائیگا۔ جبکہ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں، سرنڈر نہیں کریں گے۔ صدر زرداری نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ سپریم کورٹ میں ضرور پیش ہوں۔ اجلاس سے خطاب میں صدر مملکت نے کہا کہ فوج اور عدلیہ سے معاملات ٹھیک ہیں فوج سے تعلقات بہتر ہورہے ہیں‘ عدلیہ سے ٹکراو نہیں کریں گے۔ ایسے حالات پہلے دیکھ چکے اب بھی دیکھ لیں گے۔ صدر زرداری نے کہا کہ جمہوریت کو کسی صورت پٹری سے اترنے نہیں دیں گے۔ عدلیہ کے فیصلوں پر قانون اور آئین کے مطابق عمل کریں گے، حکومت کے ہر اچھے اور برے کام کا میں بھی ذمہ دار ہوں‘ پاکستان کی ترقی اور استحکام جمہوریت سے ہی وابستہ ہے ہم نے ہمیشہ جمہوریت کے لئے قربانیاں دی ہیں آئندہ بھی دیں گے۔ صدرمملکت نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین ایک سیاسی ذہن رکھنے والی شخصیت ہیں ان کے مشوروں کو ہمیشہ بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ملک کی تمام سیاسی قیادت بڑی اہم ہے انہوں نے کہاکہ پارلیمانی پارٹی کی طرف سے وزیراعظم کے 19 جنوری کو سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے فیصلے کی مکمل تائید اورحمایت کرتا ہوں۔ ہم نے پہلے بھی عدالتوں کا سامنا کیا ہے آئندہ بھی کریں گے۔ عدلیہ کے فیصلوں پر قانون اور آئین کے مطابق عمل کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ فوج اور عدلیہ کے ساتھ معاملات ٹھیک ہیں ٹکراو ¿ کی پالیسی نہیں اپنائیں گے ملک کے سیاسی حالات جلد بہتر ہوجائیں گے۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت سے متعلق اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم سات رکنی لارجر بینچ نے گزشتہ پیر کو جب قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی ’این آر او‘ کے خلاف فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کے مقدمے کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل انوار الحق نے بتایا کہ وزیر اعظم گیلانی یا دیگر متعلقہ عہدے داروں نے انھیں سوئس حکام کو خط لکھنے سے متعلق کوئی ہدایات نہیں دی ہیں۔اس پر بینچ میں شامل جج صاحبان نے علیحدگی میں مشاورت کے بعد اپنا مختصر حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ”موجودہ حالات میں ابتدائی اقدام کے طور پر (وزیر اعظم کو) اظہار وجوہ نوٹس جاری کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔“عدالت نے وزیراعظم گیلانی کو جمعرات کو عدالت کے روبرو پیش ہو کر اپنا موقف بیان کرنے کی ہدایت کی۔سپریم کورٹ کی جانب سے اظہار وجوہ نوٹس کے اجرا کے چند گھنٹوں بعد قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ وہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف بیان کریں گے۔”ہم نے ہمیشہ عدالت کا احترام کیا ہے، عدالت نے مجھ کو بلایا ہے اور انشااللہ میں عدلیہ کا احترام کرتے ہوئے 19 تاریخ کو جاو ¿ں گا۔“
لیکن انھوں نے اس موقع پر حزب اختلاف اور دیگر حلقوں کی جانب سے پیپلز پارٹی پر این آر او کے حوالے سے کی جانے والی تنقید پر تحفظات کا اظہار کیا۔”این آر او ہم نے تو نہیں بنایا اور یہ غلطی ہم نے نہیں کی، مگر جنھوں نے این آر او بنایا وہ باہر اور باقی اندرتو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر انصاف ہونا ہے تو یہ ہونا چاہیئے کہ این آر او کے خالق کون تھے یہ ایوان جاننا چاہتا ہے، جو سزائیں عوامی نمائندوں کے لیے ہیں تو وہ ان کے لیے بھی ہونی چاہیئں۔“سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں متعارف کرائے گئے متنازع این آر او کو سپریم کورٹ نے دسمبر 2009ءمیں کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کے تحت ہزاروں افراد کے خلاف ختم کیے گئے مبینہ بدعنوانی کے مقدمات کو دوبارہ کھولنے کا حکم جاری کیا تھا۔عدالتی فیصلے میں حکومت کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ سوئٹزرلینڈ میں ان مقدمات کو بھی دوبارہ کھلوانے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھے جن میں سے بعض کا تعلق پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے بھی ہے۔لیکن وزیراعظم گیلانی کی حکومت سوئس حکام کو خط لکھنے سے انکاری ہے کیوں کہ اس کا موقف ہے کہ مسٹر زرداری اس وقت ملک کے صدر ہیں اور انھیں کسی بھی قسم کی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1997ءمیں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو بھی سپریم کورٹ نے توہین عدالت کی پاداش میں طلب کیا تھا اور وہ اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے سامنے پیش بھی ہوئے تھے۔مزید برآں پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکمران اتحادی میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے سیاسی قیادت اور جمہویت کے حق میں گزشتہ ہفتے پیش کی گئی قرارداد پیپلز پارٹی کی تجویز کردہ ترمیم کے بعد اکثریت رائے سے منظور کر لی گئی۔لیکن اس موقع پر مسلم لیگ (ن) سمیت حزب مخالف کی دیگر جماعتوں نے ایوان سے احتجاجاً واک آوٹ کیا۔پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے حکومتی قرار داد کو ہدف تنقید بنایا۔”قرارداد کا مقصد صرف اور صرف ایک تھا کہ وہ چند مخصوص شخصیات کو آئین اور قانون سے بچائے۔“تاہم وزیر اعظم گیلانی نے ایوان میں کی گئی اپنی تقریر میں کہا کہ قرارداد کا مقصد پارلیمنٹ سمیت تمام ریاستی اداروں کو مزید مضبوط بنانا ہے۔ادھر پیر کو عدالتی کارروائی کے دوران احتساب کے قومی ادارے ’نیب‘ کے چیئرمین فصیح بخاری نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق عدنان خواجہ، احمد ریاض شیخ اور اسماعیل قریشی سمیت متعدد افراد کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔عدالت کے کہنے پر فیصح بخاری کے وکیل نے کہا کہ وہ نیب کی طرف سے اب تک کے عملی اقدامات کے بارے میں تحریری رپورٹ آئندہ سماعت کے موقع پر عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کر دیں گے۔گزشتہ پیر کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے این آر او عملدرآمد کیس میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور میمو کیس کے مرکزی کردار منصور اعجاز کی پاکستان آمد کے معاملے نے پاکستانی سیاست میں نئی گہماگہمی پیدا کر دی ہے ۔سیاسی تجزیہ نگار اور مبصرین کے نزدیک اگلے دوہفتے مستقبل کی سیاست کانیارخ متعین کرنے میں بھی بہت اہم کردار اداکرسکتے ہیں۔ان دو ہفتوں میں گزشتہ منگل 17 جنوری کو میمو اسکینڈل میں مرکز نگاہ حسین حقانی کی درخواست کی سپریم کورٹ کا گیارہ رکنی لارجر بینچ سماعت کرے گا۔اسی روز شام کو سینیٹ اجلاس بھی ہو گا ۔بدھ 18 جنوری کوسپریم کورٹ نواز شریف فیملی کے نیب میں دائرمقدمات کی بھی سماعت کرے گی جس کے لئے چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس طارق پرویز پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جا چکا ہے ۔شریف خاندان کے خلاف نیب نے حدیبیہ پیپر ملز، حمزہ اسپنگ ملز اور رمضان شوگر ملز سمیت سات اپیلیں دائر کر رکھی ہیں ۔اسی روز مستعفی سفیر حسین حقانی کی جگہ منصب سنبھالنے والی شیری رحمن بھی امریکی صدر اوبامہ سے ملاقات کریں گی ۔لاہور ہائی کورٹ میں خالد نعیم لودھی کی سیکریٹری دفاع کے عہدے سے برطرفی کے خلاف درخواستوں کی سماعت بھی اسی روزہو گی ۔جمعرات 19جنوری کے لئے این آر او عملدرآمد کیس میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو طلب کیا ہوا ہے ۔ اسی روز جعلی انتخابی فہرستوں سے متعلق درخواستوں پر 23 ارکان پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی سپریم کورٹ میں نوٹس کا جواب دیں گے ۔جمعہ 20جنوری کو سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن آف سندھ نے صوبہ بھر کے خواجہ سراوں کو طلب کر رکھا ہے جس میں خواجہ سراوں کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ ان سے شناختی کارڈ ، ان کی جنس ، مستقل پتہ اور ووٹ کے اندراج کے حوالے سے رائے معلوم کی جائے گی ۔ہفتہ 21جنوری کو راولپنڈی کی عدالت نے آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس میں اشتہاری قرار دینے کے خلاف ان کی اہلیہ کی درخواست پر انتہائی اہم سماعت کر رہی ہے ۔ مبصرین کے مطابق پرویز مشرف کی وطن واپسی کا انحصار اس سماعت کے بعد صورتحال پر منحصر ہو گا ۔اتوار 22جنوری کو لاہور اور راولپنڈی کے بعد مذہبی جماعتیں دفاع کونسل کے پلیٹ فارم پر کراچی میں جمع ہوں گی ۔یاد رہے کہ دفاع کونسل نامی تنظیم حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے باہر آئے ۔ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے پر بھی دفاع کونسل تنظیم کو سخت تحفظات ہیں ۔ اس صورتحال میں مذہبی جماعتوں کا آئندہ کا لائحہ عمل بھی سامنے آنے کا امکان ہے ۔پیر23 جنوری کو قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی نے میمو کیس میں مرکزی کردار منصور اعجاز،مرکز نگاہ حسین حقانی اور ڈی جی آئی ایس آئی کوبیانات جمع کرانے کی ہدایت کر رکھی ہے ۔ کمیٹی نے اٹارنی جنرل سے کہہ رکھا ہے کہ وہ بلیک بیری کمپنی کو حسین حقانی کے موبائل فون کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے خط لکھیں اورکمپنی کا جواب 23جنوری تک کمیٹی کو دیں۔بدھ 25 جنوری کو سپریم کورٹ کی جانب سے میمو اسکینڈل کی تحقیقات کے لئے قائم تین رکنی بینچ نے میمو کے مرکزی کردار منصور اعجاز کو طلب کر رکھا ہے ۔ منصور اعجاز پاکستان آمد پر سیکورٹی تحفظات ظاہر کر رہے ہیں اور یہ مہلت انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے خود طلب کی ہے ۔ یاد رہے کہ حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری منصور اعجاز کو بار بار مہلت دینے پر زیادہ خوش نہیں ہیں ۔جمعرات 26 جنوری کو میمو اسکینڈل پر پارلیمنٹ کی طرف سے قائم پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہو گا اور اس میں بھی منصور اعجاز کو طلب کیا گیا ہے ۔جمعہ 27جنوری سے پیر تیس جنوری کے دوران سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے وطن واپسی کا اعلان کر رکھا ہے ۔ دوسری جانب حکومت ان کی گرفتاری کے لئے تمام تیاریوں کو مکمل قرار دے رہی ہے۔متنازع ’میمو‘ اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے امریکی شہری منصور اعجاز، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا اور سابق سفیر حسین حقانی کو 23 جنوری تک اپنے تحریری جوابات داخل کرانے کی ہدایت کی ہے۔یہ فیصلہ 17 رکنی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رضا ربانی کی زیر صدارت پیر کو پارلیمنٹ ہاو ¿س میں ہونے والے کمیٹی کے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں اراکین کا موقف تھا کہ کسی بھی فیصلے پر پہنچنے سے قبل تمام فریقوں کو موقع دیا جائے تاکہ بعد میں کوئی کمیٹی پر انگلی نہ اٹھا سکے ۔ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رضا ربانی نے بتایا کہ میمو کیس میں منصور اعجاز کو 26 جنوری کو کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف بیان کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ کمیٹی تینوں فریقین کے تحریری بیانات کا بغور جائزہ لے گی اور اسی کی روشنی میں ان سے سوال و جواب ہوں گے ۔ ”اٹارنی جنرل کو ہدایت کی گئی ہے کہ بلیک بیری کمپنی ریسرچ ان موشن (آر آئی ایم) کے ساتھ جو خط و کتابت اس حوالے سے کی گئی ہے اس سے متعلق بھی کمیٹی میں جواب جمع کرائیں۔“ادھر بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں قائم تین رکنی عدالتی کمیشن کا اجلاس بھی گزشتہ پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوا، توقع تھی کہ امریکی شہری منصور اعجاز بھی کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے لیکن وہ نہیں آئے۔منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے عدالتی کمیشن کو بتایا کہ ان کے موکل کو دھمکیاں مل رہی ہیں اس لیے وہ پاکستان نہیں آئے ہیں اس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ کمیشن کے صبر کا کا مزید امتحان نا لیا جائے۔امریکی حکام کو لکھے گئے متنازع ’میمو‘ کا انکشاف منصور اعجاز نے اپنے ایک اخباری مضمون کے ذریعے کیا تھا اور گزشتہ سماعت کے موقع پر عدالتی کمیشن نے منصور اعجاز کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا حکم بھی جاری کر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پولیس کے علاوہ پاکستانی فوج کا ایک دستہ بھی ان کو سکیورٹی فراہم کرے گا۔ عدالتی تحقیقاتی کمیشن کا اجلاس 24 جنوری کو ہو گا۔عدالتی کمیشن کی کارروائی کے بعد منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے صحافیوں سے گفتگو میں اصرار کیا کہ ان کے موکل پاکستان ضرورت آئیں گے۔ ”منصور اعجاز کا یہ تہیہ ہے کہ وہ پاکستان میں آئے اور یہاں سچ کا سچ اور جھوٹ کا جھوٹ واضح ہو جائے گا۔ عدالت کو بتایا دیا گیا ہے کہ ان (منصور اعجاز) کی آمد کا شیڈول نہیں دیا جائے گا۔“متنازع ’میمو‘ کے مبینہ مرکزی کردار سابق سفیر حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے کہا کہ منصور اعجاز کے وکیل نے کمیشن کو بتایا کہ وہ 16 جنوری کو اسلام آباد پہنچیں گے لیکن ان کے نا آنے سے کمیشن کی تحقیقات میں تاخیر ہو رہی ہے۔سپریم کورٹ نے 30 دسمبر 2011ءکو میمو اسکینڈل سے متعلق آئینی درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے اس معاملے کی چھان بین کے لیے عدالتی کمیشن کا اعلان کیا تھا جس کو اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے لیے چار ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے۔ سابق سفیر حسین حقانی نے میمو اسکینڈل سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی ایک درخواست بھی دائر کر رکھی ہے جس کی سماعت 17 جنوری کو سپریم کورٹ کا گیارہ رکنی بینچ کرے گا۔صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور حکومت کے دیگر نمائندے میمو کو محض کاغذ کا ایک ” بے وقعت ٹکڑا“ اور اسے جمہوری نظام کے خلاف سازش کا حصہ قرار دیتے ہیں۔لیکن فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہان نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنے بیانات حلفی میں میمو کو ایک حقیقیت قرار دے کر اس کی تحقیقات پر زور دیا ہے۔ حکومت اور فوج کے درمیان میمو پر یہ اختلاف رائے ریاست کے دونوں اداروں کے درمیان حالیہ کشیدگی کی بڑی وجہ بنا۔اے پی ایس