قانون کی حکمرانی۔چودھری احسن پر یمی



وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے توہین عدالت کے کیس میں سپریم کورٹ کے روبرو ذاتی طور پر پیش ہونے کوماہرین قانون نے خوش آئند قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وزیر اعظم کے پیش ہونے سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ حکومت اداروں کا احترام کرتی ہے اور اس پیشی سے ملک میں اداروں کے درمیان ٹکراوکا تاثر بھی ختم ہوگیا ، بعض ماہرین نے کہا کہ وزیر اعظم کی پیشی کے باوجود حکومت کو خط لکھنا ہی پڑے گا۔ملک میں ٹینشن کم ہوگی، اداروں میں ٹکراو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم کی پیشی کے حوالہ سے قانونی ماہرین نے مختلف ردعمل کا اظہار کیاکہ وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہو کر اچھی روایت قائم کی ہے اور یہ ثابت ہوگیا ہے کہ کوئی بھی شخصیت قانون اور آئین سے بالا تر نہیں ہے۔ وزیر اعظم کا عدالت کے سامنے خود پیش ہونا احسن اقدام ہے لیکن اس کے باوجود سوئس حکومت کو خط لکھنے کے حوالے سے عدالتی حکم پر عملدرآمد کرنا پڑیگا۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو خط لکھنے کا حکم دیا تھا اور عدالتی حکم پر عملدرآمد حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں عدالتوں کا احترام کرنا چاہئے اور یہ احترام تب ہی ممکن ہے جب عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سپریم کورٹ میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ آئینِ پاکستان کے تحت صدرِ پاکستان کو استثنٰی حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ سوئس حکام کو خط نہیں لکھا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت عدالتی فیصلوں کا احترام کرتی ہے لیکن پاکستان کا آئین بالادست ہے۔وزیراعظم اپنے وکیل اعتزاز احسن کے ہمراہ توہینِ عدالت پر اظہارِ وجوہ کے نوٹس کی سماعت کے لیے جب عدالت پہنچے۔ ان کی آمد سے قبل وفاقی وزراءاور اہم شخصیات کی آمد کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں میں سے اے این پی اور مسلم لیگ ق کے رہنما کمرہ عدالت میں موجود تھے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کا کوئی رہنما نظر نہیں آیا۔وزیراعظم نے عدالت میں پیش ہو کر جج صاحبان کو بتایا کہ انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ وہ عدلیہ کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ صدر کے خلاف اندرون اور بیرونِ ملک کیسز نہیں کھولے جاسکتے۔ ان کے بقول آئین کے تحت صدر کو استثنٰی حاصل ہے اور ہم آئین کے مطابق کام کر رہے ہیں کیونکہ آئین ہی بالادست ہے۔وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ ’میرے یہاں آنے کا مقصد بھی یہ ہی تھا کہ آئین اور آئین کی بالادستی کو مقدم رکھا جائے۔ میں قانون اور آئین کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں۔ اس لیے میں اور میرے رفقاءیہاں موجود ہیں‘۔انہوں نے عدالت سے کہا کہ اگر صدر کو عدالت میں بھیجیں گے تو دنیا میں غلط تاثر جائے گا اور صدر دو تہائی اکثریت سے منتخب ہوئے تھے۔عدالت نے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگر ملک کا چیف ایگزیکٹو عدالت میں پیش ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ قانون کا احترام کرتے ہیں اور ان کے جذبہ سراہے جانے کے لائق ہے۔وزیراعظم کا بیان مکمل ہونے کے بعد ان کے وکیل اعتزاز احسن نے وزیراعظم کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا۔ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد کرانے کے لیے توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کرنا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہے اس وقت وزیراعظم کے خلاف فوجداری کارروائی ہو رہی ہے جس میں وزیراعظم کو آئین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔بینچ میں شامل جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ این آر او یعنی قومی مفاہمتی آرڈیننس سے متعلق عدالت نے دو سال پہلے فیصلہ دیا تھا اور اگر وزیر اعظم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں تو پھر ا ±نہیں سوئس حکام کو خط لکھ دینا چاہیے تھا جس پر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ سوئس حکام کو خط لکھنے یا نہ لکھنے سے متعلق سیکرٹری قانون ہی جواب دے سکتے ہیں۔اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ وہ عدالت میں سیکرٹری قانون کے وکیل کی حثیت سے پیش نہیں ہوئے اور وہ وزیر اعظم کو جو توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس ملا ہے ا ±س کی پیروی کے لیے آئے ہیں۔عدالت نے کہا کہ جب وزیراعظم یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ عدالت کا احترام کرتے ہیں تو این آر او پر عملدرآمد کیوں نہیں کرتے جس پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کے خلاف خط اس وقت لکھا جائے گا جب وہ صدر نہیں رہیں گے۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم خط بھی لکھیں گے اور عدالتی فیصلے پر عملدرآمد بھی کریں گے لیکن یہ وقت آنے پر ہوگا۔سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس ناصر الملک نے وزیراعظم کے وکیل سے استفسار کیا کہ صدر کا استثنٰی ثابت ہونے کے امکانات زیادہ ہیں لیکن اگر آپ صدر کے معاملے میں استثنٰی لینے میں ناکام رہے تو پھر کیا ہوگا جس پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ان کے استاد نے کہا تھا کہ کوئی فقرہ اگر سے شروع ہوتا ہو تو اس کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا۔اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت جن ججز نے حلف اٹھایا تھا اور سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے مقدمے میں جواب دینے کے لیے ان ججز کو وقت دینے میں سخاوت کا مظاہرہ کیا تھا اسی طرح کا مظاہرہ وزیراعظم کے معاملے میں بھی کیا جائے۔انہوں نے موقف اختیار کیا کہ انہیں اس مقدمہ کا تمام ریکارڈ نہیں ملا ہے جس پر جسٹس ناصرالملک کا کہنا تھا چونکہ مقدمہ کا تمام ریکارڈ موجود ہے اس لیے انہیں فکرمند نہیں ہونا چاہیے تاہم اعتزاز احسن نے عدالت سے کہا کہ انہیں مطالعہ کرنے کے لیے اس مقدمہ کا ریکارڈ چاہیے۔اس پر عدالت نے مقدمے کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کرتے ہوئے وزیراعظم کو اس مقدمے میں حاضری سے مستثنٰی قرار دے دیا۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ یکم فروری کو ہونے والی سماعت میں صدر کے استثنٰی سے متعلق آئین کے آرٹیکل 248 -2 پر بات ہو گی۔وزیر اعظم کے وکیل اعتزاز احسن سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے احاطے میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرنے کے لیے آئے تو وکلاءکے ایک گروپ نے شدید نعرے بازی کی۔ انہوں نے اعتزاز احسن کا نام لیے بغیر یہ نعرے بھی لگائے کہ ’زرداری اور گیلانی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘۔ان نعروں کے جواب میں حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی نعرے بازی کی تاہم وہاں پر موجود پارٹی کے رہنماوں نے انہیں خاموش رہنے کی ہدایت کی۔وکلاءکا ایک گروپ چیف جسٹس کو مخاطب کرکے جب یہ نعرہ لگا رہا تھا کہ ’چیف تیرے جانثار بےشمار بےشمار‘ جس پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ’چیف جسٹس میرے بھی تو چیف جسٹس ہیں‘۔سماعت کے موقع پر صبح سے ہی سپریم کورٹ کو جانے والے تمام راستوں کو عام ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا اور سکیورٹی سخت تھی۔ وکلاءاور میڈیا کے نمائندے پیدل سفر کر کے سپریم کورٹ پہنچے۔جبکہ مسلم لیگ ن کے صدر نوازشریف نے کہا ہے کہ ملک کا پیسہ لوٹا گیا، اب استثنیٰ کے پیچھے نہیں چھپنا چاہیے، اعتزاز احسن نے اپنے ماضی کے بیان سے ہٹ کر موقف اختیار کیا۔ یہ بات نوازشریف نے وزیراعظم کیخلاف ہونیوالی توہین عدالت کارروائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہی۔ نواز شریف نے کہا کہ صدر زرداری کو استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں یہ الگ معاملہ ہے پہلے یہ تو معلوم ہونا چاہئے کہ سوئس بینک میں پڑے 60 ملین کس کے ہیں؟۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے سوئس ریکارڈ چھپانے کیلئے صندوق بھر کر گاڑیوں میں لوڈ کرکے سوئٹزر لینڈ سے منتقل کئے جس کی ٹی وی چینلز پر فلمیں چلیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ان بکسوں میں وہی ڈالر تھے یا ریکارڈ جسے راتوں رات سوئٹزر لینڈ سے منتقل کیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ جیسے ہی سپریم کورٹ نے خط لکھنے کا حکم دیا تھا حکومت کو فوری طور پر خط لکھ دینا چاہئے تھا، عدالت نے بار بار خط لکھنے کو کہا لیکن خط لکھنا تو درکنار حکومت مسلسل حکم عدولی کرتی رہی اور مختلف حیلوں بہانوں سے عدلیہ کے احکامات کو ادھر ادھر کیا جاتا رہا۔ جبکہ وفاقی وزراء اور پی پی کے اتحادی رہنماو ¿ں کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کیلئے قربانیاں دیں، تمام فیصلوں پر عمل کیا جائیگا، جو لوگ کہتے ہیں حکومت عدلیہ کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتی اب انکی آنکھیں کھل جانی چاہئیں، وزیراعظم کا سپریم کورٹ آنا توہین عدالت کی نفی کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر وزیراعظم کے ہمراہ آنیوالے وفاقی وزراءوفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان، وزیرداخلہ رحمن ملک، اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی ، مسلم
لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین ، پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور دیگر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ آج عدلیہ کے وقار کو آگے بڑھاتے ہوئے اور اس کا احترام کرتے ہوئے وزیراعظم عدالت میں پیش ہوئے اور یہ ثابت کردیا کہ پیپلز پارٹی نے عدلیہ کے وقار کو ہمیشہ مقدم رکھا ہے اور اس مقدس ادارے کے احترام اور وقار کو کبھی آنچ نہ آنے دیں گے۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ہم عدالتوں میں مقدمے لڑتے ہیں، عدالتوں سے نہیں لڑتے۔ اسفند یار ولی نے کہا کہ روایت ہے ہم نے اتحادیوں کو کبھی نہیں چھوڑا، وزیراعظم کا توہین عدالت نوٹس کے بعد عدالت میں پیش ہونا توہین عدالت کی نفی کرتا ہے۔وفاقی وزیر قانون مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ہم عدالت کے تقدس کا احترام کرتے ہوئے سپریم کورٹ آئے ہیں، اداروں کی توہین کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اچھی روایت ہے ہم ادارے کے تقدس کو تسلیم کرتے ہوئے یہاں آئے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ اعتزازاحسن کیلئے سپریم کورٹ کے تاریخی کمرہ نمبر4 میں برا دن تھا اور انہوں نے پاکستان کے اندر اور باہر ہر جگہ منفی توجہ حاصل کی۔ بطور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے وکیل کی آرٹیکل 248 کے تحت صدارتی استثنیٰ پر بحث سے بچنے کیلئے تمام کوششیں بری طرح ناکام ہوگئیں۔ بنچ کی طرف سے بار بار سوالات پوچھنے پر توہین عدالت کی کارروائی صدر زرداری کے آئینی استثنیٰ میں بدل گئی آیا کہ صدر زرداری کو اس حد تک استثنیٰ حاصل ہے کہ ان کیخلاف غیرملکی حکام کو کیس کھولنے کیلئے خط نہیں لکھا جاسکتا۔ بحث کے دوران جب صدر کیخلاف غیرملکی حکام کو خط لکھنے پر سوال پوچھا گیا تو ان میں اعتماد کی کمی نظر آئی۔ بدھ تک مسلسل ان کا نقطہ نظر تھا کہ آئینی اور قانونی طورپر خط لکھنا ہوگا۔ لیکن گزشتہ روز انہوں نے یوٹرن لے لیا اور مکمل طورپر الٹ دلیل دیتے ہوئے کہا کہ صدارتی استثنیٰ کی وجہ سے ان کیخلاف خط نہیں لکھا جاسکتا۔ تاہم وہ اپنی سوچ بنچ کو بیچ نہ سکے۔ ان کی وضع قطع سے لگ رہا تھا کہ وہ جو دلیل دے رہے ہیں وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ وزیراعظم کی یہ دلیل کہ صدارتی استثنیٰ کی وجہ سے انہوں نے خط نہیں لکھا وزیراعظم کا یہ بیان اعتزاز کی سیدھی پرواز میں رکاوٹ بن گیا۔ وزیراعظم کے بعد اعتزاز احسن ممبر پر آئے اور اپنے دلائل شروع کردیئے۔ اعتزاز نے عدالت کو بتایا کہ وہ این آر او کیس کے آغاز یعنی دسمبر 2009ءسے بات چیت کریں گے اور وضاحت کریں گے کہ ان کے موکل نے عدالت کے احکامات کی کبھی بھی خلاف ورزی نہیں کی۔ میرے موکل کا یہ موقف ہے کہ صدر کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے اس لئے انہوں نے خط نہیں لکھا، جس پر جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ اس کا مطلب ہے معاملہ یہ ہے کہ خط لکھنے کے سلسلے میں آرٹیکل 248 کے تحت صدر کو استثنیٰ ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے دلائل دیں ہم میرٹ پر فیصلہ کریں گے۔ اس پر اعتزاز نے کہا یہ کیس استثنیٰ کا نہیں ہے، یہ میرے موکل کو توہین عدالت کا نوٹس ہے اور میں یہاں اس لئے آیا ہوںتاکہ ثابت کرسکوں کہ میرے موکل نے توہین عدالت نہیں کی ہے۔ بنچ کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ وزیراعظم نے تو کہا ہے کہ انہوں نے صدارتی استثنیٰ کی وجہ سے خط نہیں لکھا، تو آئیں پہلے اس مسئلے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اعتزاز نے عجیب سی دلیل دیتے ہوئے کہا کہ وہ استثنیٰ کے معاملے پر دلائل نہیں دے رہے بلکہ ان کے موکل کے خیال میں استثنیٰ ٹھیک ہے۔ بنچ نے کہا ٹھیک ہے دلائل دیں تاکہ ہم استثنیٰ کا فیصلہ کرسکیں۔ انہوں نے کئی بار استثنیٰ کے معاملے سے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن وہ استثنیٰ کے مسئلے سے نکل نہ پائے۔ ایک مقام پر جسٹس عثمانی نے کہا کہ آرٹیکل 248 دوسرے ممالک میں لاگو نہیں ہوتا کے درمیان تعلق سمجھ نہیں لگا۔ آخرکار اعتزاز نے استثنیٰ پر دلائل دینا شروع کردیئے اور ایسی معیاری مثال دی جو کئی سالوں تک یاد رکھی جائے گی۔ انہوں نے کہا آرٹیکل 248 میں ذکر ہے ”کسی بھی عدالت میں“ اور یہ کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ ”پاکستان میں“ جس سے پتہ چلتا ہے کہ آرٹیکل 248 (2) پاکستان میں کسی عدالت تک محدود نہیں ہے پس اگر حکومت میں سے کوئی کسی بھی ملک کی عدالت کو خط لکھے گا کہ صدر کے خلاف فوجداری کیس کھولے جائیں تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔ آرٹیکل (2)248 کے مطابق آفس کے دوران صدر یا گورنر کے خلاف فوجداری کارروائی نہ تو بنائی جا سکتی ہے نہ جاری رکھی جا سکتی ہے۔ اعتزاز نے وکلاءوالے مخصوص کرتب دکھانے کی کوشش کی اور وہ یہ بھول گئے کہ یہ آرٹیکل پاکستان کے آئین میں موجود ہے جو کہ پاکستان کے علاقوں میں ہی لاگو ہوتا ہے اور یہاں”کسی بھی عدالت“ سے مراد ”پاکستان کی کسی عدالت میں “ ہے۔ اب اعتزاز میں اعتماد کم ہو گیا یہی وہ اعتزاز ہے جو عدالتی کارروائی میں سمت کی وضاحت کیا کرتا تھا وہ اپنی ہی مثال کے خلاف دلیل دے رہے تھے۔ اعتزاز نے بنچ کے سات ارکان کو بار بار بتایا کہ حکومت میں سے کوئی بھی استثنیٰ کی شق کی وجہ سے صدر کے خلاف کیس کھولنے کیلئے خط نہیں لکھ سکتا۔ اعتزاز نے ظاہراً خط لکھنے پر اپنا موقف تبدیل کر لیا جبکہ ایک روز قبل تک وہ کہتے رہے کہ خط لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگرسپریم کورٹ کے اصرار پر خط لکھا بھی گیا تو وہ ملک صدر کے خلاف کیس دوبارہ نہیں کھولے گا۔ لیکن گزشتہ روز اعتراز احسن نے کھلے عام رائے دی کہ آئینی طور پر خط کسی بھی صورت میں نہیں لکھا جا سکتا۔اعتزاز کی دوسری بڑی کوشش تھی کم از کم ایک ماہ کا وقت مل جائے کیونکہ یہ بہت اہم کیس ہے اور انہوں نے کئی دستاویزات پڑھنی ہے ، لیکن کورٹ روم میں کئی ایک لوگوں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے اس سے حکومت کو سینیٹ انتخابات کرانے کے لئے کافی وقت مل جائے کیا اعتزاز واقعی یہ چاہتے تھے کہ ایسا ہو جائے ؟ وہ عدالت میں سیاسی کھیل کھیل رہے تھے کیونکہ انہوں نے خود سینیٹ کے ٹکٹ کے لئے درخواست دے رکھی تھی؟یا ہو سکتا ہے کہ پی پی حکومت کے تحت سینیٹ انتخابات کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔اعتزاز نے ایک اور متنازع شخص پر بات کرکے عدالت کو حیران کر دیا،انہوں نے نیب چیئرمین ایڈمرل فصیح بخاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ دیانتدار شخص ہیں ، یہ بھی عجیب دلیل تھی جیسا کہ یہی عدالت 10جنوری کو فصیح بخاری کو عدالت کی توہین کرنے والا کہہ چکی تھی کیونکہ انہوں نے عدالت کو للکارا تھا اور اس دیانتدار شخص نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی۔اعتزاز ایسے شخص کی کیوں تعریف کر رہے تھے اس سے ایک بڑا سوال پیدا ہوتا ہے ۔ ان کی پریشانیاں عدالت کے اندر ختم نہ ہوئیں اعتزاز نے عدالت سے باہر بھی اسی قسمت کا سامنا کیا،جب وہ عدالت سے باہر نکلے تو کئی وکلاءان کے گرد جمع ہو گئے اور ان کے خلاف نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ قانونی ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ این آر او کس طرح سے استثنیٰ فراہم کرسکتا ہے۔ کیا صدر آصف علی زرداری کو این آر او کیس میں آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت ایسی صورت میں استثنیٰ دیا جاسکتا ہے، جبکہ وہ اسی این آر او کی وجہ سے سربراہ مملکت بنے۔ ایسے وقت جب سپریم کورٹ اس معاملے کو ہمیشہ کیلئے طے کردینا چاہتی ہے، مذکورہ سوالات قانونی ماہرین کو پریشان کئے دے رہے ہیں۔ اسلام آباد میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ این آر او درخواستوں کے ابتدائی مراحل ہی میں صدارتی استثنیٰ کا دعویٰ کیا جانا چاہئے تھا، جبکہ اس وقت عدالت عظمیٰ اس پر نظرثانی کا فیصلہ بھی کرچکی ہے لہذا این آر او کیسز میں صدر کے استثنیٰ کا عدالت پہلے ہی انکار کرچکی ہے کیونکہ اس حوالے سے کسی نے دعویٰ بھی نہیں کیا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے توہین عدالت کیس میں اپنے دفاع کے دوران صدر کو آئین کے تحت حاصل استثنیٰ کی بات کی، یہی وجہ ہے کہ وہ سوئزر لینڈ کو صدر کیخلاف کرپشن کے مقدمات کھولنے کیلئے نہیں لکھ سکتے۔ وزیراعظم کے وکیل اعتراز احسن نے کہا کہ معاملہ سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کا نہیں بلکہ نہ لکھنے پر توہین عدالت کا معاملہ ہے، تاہم وہ کیس کے دوران اپنے دلائل میں صدر کو حاصل استثنیٰ پر بھی بات کریں گے۔ سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ اگر این آر او نہ ہوتا تو آصف علی زرداری کبھی صدر منتخب نہ ہوتے اسی لئے حکومت ان کیلئے استثنیٰ طلب کررہی ہے۔ انہوں نے کہا اگر صدر زرداری کیخلاف مقدمات ثابت نہیں ہوئے تب بھی ان پر الزامات اور جس انداز میں مقدمات چلائے گئے ان کیخلاف نااہلی کیلئے قابل اعتماد مواد موجود ہے۔ سپریم کورٹ کے وکیل اظہر صدیق نے استثنیٰ کے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا یہ بات فہم و ادراک سے بالاتر ہے کہ اعتزاز احسن استثنیٰ کے ایشو پر کیسے دلائل دے سکیں گے کیونکہ سپریم کورٹ اس معاملے میں نظرثانی پٹیشن بھی نمٹا چکی ہے یہ بند باب اور ماضی کا قصہ ہیں۔سپریم کورٹ میں وزیراعظم کی پیشی کے موقع پر صدر، وزیراعظم کیخلاف اور
چیف جسٹس کے حق میں وکلاءنے شدید نعرے لگائے جس کی وجہ سے بیرسٹر اعتزاز احسن میڈیا سے بات مکمل نہ کرسکے اور چیف جسٹس میرے بھی چیف ہیں‘ کہتے ہوئے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔ ادھر اعتزاز احسن کو سپریم کورٹ کے اندر داخل ہونے سے روکنے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی۔ اعتزاز احسن کی میڈیا سے بات کے بعد عدالت میں داخلے کے موقع پر حکومت کے حامی اور مخالف وکلاءمیں کمرہ عدالت کے دروازے پر ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی، مخالف وکلاءکی جانب سے اعتزاز احسن کو دروازے پر روکے جانے پر ان کے حمایتی وکلاءدھکم پیل کر کے انہیں اندر لے جانے میں کامیاب ہو گئے، نعرے لگانے والے وکلاءمیں اسلام آباد بار کونسل اور اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اشرف گجر کی قیادت میں وکلاءکا ایک گروپ اور راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار کے وکلاءبھی شامل تھے۔ اے پی ایس