پاکستان میںتین طرفہ رسّہ کشی۔چودھری احسن پر یمی



حکومت پاکستان کی تین شاخوں کی باہمی آویزش پر نیو یارک ٹائمز کے صفحہءاوّل پر ایک تفصیلی جائزہ چھپا ہے، جس کے مطابق فوجی جنرلوں، ججوں اور سیاست دانوں کے درمیان یہ تین طرفہ رسّہ کشی ایسے وقت جاری ہے جب پاکستان کے حالات بڑھتی ہوئی افراتفری کا شکار ہیں ۔ طالبان باغی شمال مغرب میں دندناتے پھر رہے ہیں ۔ ملکی معیشت مشکلات کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے اور تعلیم ، صحت اور دوسرے سماجی شعبوں کے لئے اشد ضروری اصلاحات کو بیشتر نظر انداز کیا گیا ہے۔ پاکستان کے اداروں کے درمیان اس قسم کی رسّہ کشی کے ہوتے ہوئے سیاست یا خارجہ پالیسی کو کیونکر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا مستقبل درخشاں ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کی استعداد ان لامتناہی جھگڑوں میں رائیگاں ہو رہی ہے ۔ کہ اقتدار کا سرچشمہ کہاں ہے۔اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کے نقطہءنگاہ سے اس تعطّل کی وجہ سے نومبر میں ہونے والے اس نیٹو فضائی حملے سے توجّہ ہٹ گئی ہے جس میں 26 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے ۔ اور جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات مزید بگڑ گئے تھے اور اس کی وجہ سے توجّہ پاکستان میں امریکہ کی اس اہم ترجیح سے ہٹ گئی ہے۔ یعنی ایسے میں جب افغانستان ، سے 2014 میں امریکی فوجوں کی بھاری تعداد میں واپسی کا وقت قریب ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان کے ساتھ وہ تعاون بڑھانا ۔ جس کی مدد سے افغان طالبان کے ساتھ معاہدہءامن کے لئے مذاکرات کر نا ہے ۔جبکہ امریکی محکمہ دفاع اور محکمہ خارجہ اس موقف پر قائم ہیں کہ گزشتہ برس 26 نومبر کو ایک پاکستانی سرحدی چوکی پر حملہ, جس میں 24 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے، امریکی اور انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس یا آئی سیف افواج نے اپنے دفاع میں کیا تھا۔محکمہ دفاع کے ترجمان نیوی کپتان جان کربی کے مطابق امریکہ اپنی تفتیشی رپورٹ کی ”سو فیصد“ حمایت کرتا ہے۔ جبکہ محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے بھی اس رپورٹ کی حمایت کی ہے۔امریکی ائر فورس کے بریگیڈئیر جنرل سٹیفن اے کلارک نے سلالہ چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے کے محرکات کے بارے میں تفتیش کر کے ایک رپورٹ دسمبر کی 22 تاریخ کو پیش کی تھی جو امریکہ کی طرف سے پاکستانی فوج کو بھی بھیجی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ حملہ امریکی اور پاکستانی افواج کے درمیان روابط اور ہم آہنگی کی کمی کی وجہ سے ہوا۔ البتہ گزشتہ پیر کو پاکستانی فوج نے اس رپورٹ کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حملے کی جزوی ذمّہ داری پاکستانی افواج پر لگانا ”ناجائز اور ناقابل قبول ہے۔”پاکستانی فوج کے مطابق اس آپریشن کے دوران امریکی اور آئی سیف افواج نے نہ صرف پاکستان سے کیے گئے سمجھوتوں کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ پاکستان کی سرحد کے اندر ایک چوکی پر حملہ کر کے اقوام متحدہ کے اس مینڈیٹ کی بھی خلاف ورزی کی ہے جو آئی سیف افواج کو صرف افغانستان میں کاروائیاں کرنے کی اجازت دیتا ہے۔گزشتہ برس 26 نومبر کے اس حملے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں شدید کشیدگی آ گئی تھی۔ پاکستان نے اپنے ملک سے گزرکر افغانستان جانے والی نیٹو کی سپلائی لائن روک دی تھی جو ابھی تک بحال نہیں ہوئی۔اس کے علاوہ پاکستانی حکومت امریکہ سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کر رہی ہے۔ پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے اس سلسلے میں اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کو پیش کی تھیں اور کابینہ میں منظوری کے بعد اب ان سفارشات پر پالیمان کے دونوں ایوانوں میں بحث ہونا باقی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق وہ پاکستان کی طرف سے اس عمل کے مکمل ہونے کے منتظر ہیں تاکہ انہیں مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان سے تعلقات کو آگے بڑھایا جائے۔جبکہ اخبار کرسچن سائنس مانیٹر نے ایران کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سختی کے ساتھ مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے ، کہ جو لوگ ایرانی حکومت پر وار کرنے اور وہاں کی حکومت بدلنے کی وکالت کرتے ہیں۔ وہ دراصل امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں ایک نئی فوجی تباہی میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ایران میں یرغمال ہو جانے والے دو امریکیوں بر ±وس لینگن ، اور جان لِمبرٹ کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ 9 سال قبل عراق کے بارے میں اسی قسم کی مبالغہ آرائیوں ، خوف و ہراس پھیلانے ، اور غلط بیانیوں کی مدد سے عوام کو دھوکہ دیا گیا تھا اور امریکہ کو ایسی راہ پر ڈال دیا گیا تھا، جو عقل سلیم کے بالکل منافی تھی۔ اور یہ سب ک ±چھ دوبارہ ہو سکتا ہے ۔ اور اب کی بار جو کچھ ہوگا۔ اس کے مقابلے میں عراق ، بچوں کا کھیل لگنے لگے گا۔ ان سابق یرغمالیوں نے صدر اوباما کو مشورہ دیا ہے کہ جنگ کرنے کی حمایت میں جو شوروغوغا برپا ہے، اسے انہیں یکسر نظر انداز کرنا چاہئے ۔اخبار نے ایران کے خلا ف جنگ نہ کرنے کی 5 وجوہات گنوائی ہیں ۔اوّل یہ کہ ایران خود اپنے لئے خطرہ ہے اور شام کے بشارالاسد کی حمائت کرنے کے بعد اس کا اس خطے میں کوئی دوست نہیں۔َ دوم، ایران کے حکمرانوں کی اولیں ترجیح ہر قیمت پر اپنا بچاو کرناہے۔ سوم، ایرانی حکومت کی آبنائے ہرمز بند کرنے کی دہمکی محض ایک گیدڑ بھبکی ہے۔ چہارم، معلوم نہیں کہ ایرانی جوہری بم بنا بھی رہے ہیں یا نہیں اور پھر بم بنا کر وہ کیا حاصل کریں گے۔ اس کی مدد سے نہ تو تہران میں حکومت دشمن احتجاجی مظاہرین کو دبایا جاسکتا ہے اور نا ہی وہ ایرانی بلوچستان، کردستان،اور دوسرے علاقوں کےعلیٰحدگی پسندوں کو دبانے میں کسی کام آئے گا۔ اور پنج، امریکی صدور کا یہ موقّف رہا ہے کہ انہیں جوہری اسلحے سے لیس پاکستان ، ہندوستان اور شمالی کوریا ناقابل قبول ہیں، دیوار برلن بھی ناقابل قبول تھی۔ لیکن ان تمام امور میں امریکیوں نے اپنی زیرکی کا ثبوت دیا اور اپنی ہی لفّاظی کے اسیر نہیں ہوئے۔میمو اسکینڈل کے مرکزی کردار منصور اعجاز نے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت پر انھیں ”پھانسنے“ کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان آ کر اس معاملے کی تحقیقات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے سپریم کورٹ کے احاطے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے موکل کی رضا مندی سے لکھا گیا ایک بیان پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا ہے کہ منصور اعجاز کے اپنی جان و مال کے تحفظ سے متعلق خدشات کو دور کرنے کے لیے حکومت اور پولیس کی طرف سے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ہے۔”بظاہر یہ منصور اعجاز کو غیر معینہ مدت تک پاکستان میں روکنے کا جامع منصوبہ لگتا ہے۔“اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ ان حالات کے تناظر میں ان کے موکل نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کے تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیشن سے درخواست کریں گے کہ ان کا بیان لندن یا سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں ریکارڈ کیا جائے۔منصور اعجاز نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائض عیسیٰ کی سربراہی میں قائم تین رکنی تحقیقاتی کمیشن کے گزشتہ منگل کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں پیش ہونے کا اعلان کر رکھا تھا۔اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ منصور اعجاز پاکستانی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے سامنے بھی پیش نہیں ہوں گے کیوں کہ اس کو کسی غیر ملکی شخص کو طلب کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔البتہ ان کے بقول پارلیمانی کمیٹی منصور اعجاز سے وقت لے کر لندن یا زیورخ میں ان کی گواہی ریکارڈ کر سکتی ہے۔ اکرم شیخ نے عدالتی کمیشن کو باقاعدہ درخواست پیش کی کہ چونکہ ان کے موکل پاکستان نہیں آ سکتے اس لیا ان کا بیان بیرون ملک ریکارڈ کیا جائے۔اس پیش رفت کے بعد امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے بھی کمیشن سے درخواست کی ہے کہ منصور اعجاز کا اپنا بیان ریکارڈ کرانے کا حق منسوخ کیا جائے کیوں کہ وہ اس سلسلے میں پہلے ہی موقعے ضائع کر چکے ہیں۔ادھر میمو اسکینڈل کی تحقیقات میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے اکرم شیخ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے کمیشن کے احکامات کے تحت منصور اعجاز کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کے مکمل انتظامات کر لیے گئے ہیں اور اس میں فوج کی شمولیت بھی شامل ہے۔”میں نے ان (اکرم شیخ) کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ آئین، قانون اور قوائد و ضوابط کی روشنی میں جس قسم کے بھی ہمارے پاس وسائل دستیاب ہیں ان (منصور اعجاز) کی سکیورٹی کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔“اے پی ایس