امریکی صدربراک اوباما کا اسٹیٹ آف دِی یونین سے خطاب۔چودھری احسن پر یمی



امریکی صدربراک اوباما نے کہا ہے کہ پچھلے ایک سال میں امریکہ کو خارجہ پالیسی میں کئی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اپنے ’اسٹیٹ آف دِی یونین‘ خطاب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان سے لے کر یمن تک القاعدہ کے کمانڈر راہِ فرار اختیار کیے ہوئے ہیں اور اِس بات سے باخبر ہیں کہ وہ امریکہ کی پہنچ سے بچ نہیں سکتے۔انھوں نے کہا کہ،’القاعدہ کے زیادہ تر اہم کارکن شکست کھا چکے ہیں۔ طالبان کی کارروائیاں کم کرنے میں کامیابی ہوئی ہے اور افغانستان سے کچھ فوجی واپس آنا شروع ہوگئے ہیں‘۔صدر نے عراق کی جنگ ختم ہونے کا ذکر کیا اوراسامہ بن لادن کی ہلاکت کا اور عرب دنیا میں اٹھنے والی تحریکوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ، ’ ایران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے اس پر ڈالا جانے والا عالمی دباو اب اپنا اثر دکھا رہا ہے‘۔انھوں نے کہا کہ امریکہ میں قیادت کی تبدیلی کا اثر پوری دنیا میں ہو رہا ہے، اور یہ کہ، امریکہ پھر سے ایک بااثر ملک بن رہا ہے۔اگر کوئی آپ کو اِس کے برعکس بتاتا ہے، اگر کوئی کہتا ہے کہ امریکہ زوال پذیر ہے اور دنیا میں اِس کا اثر و رسوخ کم ہورہا ہے، تو یقیناً وہ اصل حقیقت نہیں جانتا۔صدر براک اوباما نے اسٹیٹ آف دی یونین سے سالانہ خطاب میں کہا ہے کہ امریکہ نے گزشتہ سال خارجہ پالیسی میں کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں اور انھوں نے خاص طور پر عراق اور افغان جنگ کا ذکر کیا۔انھوں نے کہا کہ القاعدہ کے کمانڈر راہ فرار اختیار کیے ہوئے ہیں جو اس سے باخبر ہیں کہ وہ امریکہ کی پہنچ سے نہیں بچ سکتے۔ امریکی صدر نے افغانستان میں جاری جنگ میں پیش رفت اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا تذکرہ بھی کیا اور کانگریس پر زور دیا کہ عراق جنگ کے خاتمے سے بچنے والی رقم کو قومی قرضوں کی ادائیگی اور انتظامی ڈھانچے کی بحالی پر صرف کیا جائے۔اسٹیٹ آف دی یونین سے اپنے تیسرے سالانہ خطاب میں صدر اوباما نے اقتصادی بحالی کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف امیروں کے لیے نہیں بلکہ تمام لوگوں کے لیے کام کریں گے۔انھوں نے کہا کہ یہ اقتصادیات کا ایک ایسا منصوبہ ہے جو ”قائم رہنے“ کے لیے بنایا گیا ہے۔امریکی صدر نے ریپبلیکن قانون سازوں کو متنبہ کیا کہ اقتصادی حالت کی بہتری کے لیے وہ ہر طرح سے لڑیں گے۔مسٹر اوباما نے ایک گھنٹے سے زائد کے اپنے خطاب میں عالمی سطح پر امریکہ کی رہنما کوششوں بشمول ایران کے جوہری پروگرام کے معاملے سے نمٹنے کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کے اثرورسوخ میں کمی واقع ہوئی ہے تو وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔امریکی صدر نے کہا کہ دنیا بدل رہی ہے لیکن ” عالمی امور میں امریکہ ایک ناگزیر قوم ہے۔“اسٹیٹ آف دی یونین سے خطاب میں صدر اوباما نے کہا کہ انھیں اس میں ”کوئی شک نہیں“ کہ شام کی حکومت کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ ”تبدیلی کی قوتیں اب پلٹی نہیں جاسکتیں“۔ان کا کہنا تھا کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ مشرق وسطیٰ کے عوام خود کریں گے لیکن امریکہ ”تشدد اور دھونس“کی مخالفت اور ”تمام انسانوں کے حقوق اور وقار“ کی حمایت کرے گا۔صدر اوبامہ نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اپنے روایتی سا لانہ خطاب میں ملک کی مجموعی صورت حال اور مستقبل کے بارے میں تجاویز پیش کیں۔ صدر کے ذہن میں دو مقاصد تھے۔ ایک توسنہ 2012 کی انتخابی مہم کے لئے ایک منشور پیش کرنا اور دوسرے ان پالیسیوں کی وضاحت کرنا جن سے قومی معیشت کو فائدہ پہنچے۔صدر نے حکومت کے کردارکے بارے میں ری پبلکن موقّف کو ردّ کرتے ہوئے انٹرنیٹ، ملک کی ریاستوں کو ملانے والی شاہراہوں اورملک کی کاروں کی صنعت کی بحالی کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ یہی مثالیں حکومت کے اخراجات کا جواز ہیں اور یہ کہ عراق اور افغانستان سے فوجیں واپس لانے کے بعد جو بچت ہوگی، حکومت اس میں سے نصف قومی اقتصادی ڈھانچے کی تعمیر پر خرچ کرنا چاہتی ہے۔صدر کی تقریر کا بیشتر حصّہ معیشت پر مرکوز تھا۔ لیکن انہوں نے دوسرے امور میں اپنی پالیسیوں کا بھی دفاع کیا، مثلا عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی، اوردو اہم کارنامے یعنی وال سٹریٹ کو ضابطوں کے تحت لانا اور صارفین کے مالی مفاد کے بچاو کے دفتر کا قیام۔مبصرین کا کہنا ہے کہ کہ اسے امریکی فوجوں کی پیروی کرتے ہوئے اختلافات کو نظر انداز کرنا چاہئے اور اپنی توجّہ زیر تکمیل نصب العین پر مرکوز کرنی چاہئیے ۔صدراوباما نے اپنے خطاب میں جو اقتصادی پروگرام پیش کیا اس میں انہوں نے انتخابات میں اپنے متوقّع ری پبلکن حریف کے مقابل، دونوں پارٹیوں کے درمیان پالیسی کی بڑھتی ہوئی خلیج کو اجاگر کیا اورجن نئی تجاویز کی نوید سنائی ان میں دولتمند امریکیوں کے ٹیکس میں اضافہ کرنا، مکانوں کی خریدو فروخت کے بحران کی تحقیقات کرانا اور قومی پیداواری استعداد کو بڑھانا شامل ہے۔ ان کا یہ خطاب انتخابی مہم کی ایک تقریر تھی اور ان کا روئے سخن جن لوگوں کی طرف تھا ان میں ہِسپینک، عورتیں، وال سٹریٹ کے مخالفین کے گروپ، محنت کش لوگ اور ماحولیات کی حفاظت کے حامی لوگ شامل تھے ۔ صدر اوباما کی متعدد تجاویز کو مفید قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مینیو فیکچرنگ کے شعبے میں ٹیکسوں میں مزید چھوٹ دینا چاہتے ہیں، ملک کے اندر گیس کے جو بے انداز ذخائر ہیں ان کو استعمال میں لانا چاہتے ہیں کمیونٹی کالجوں پر زیادہ توجّہ دینا چاہتے ہیں اور مالدار لوگوں پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانا چاہتے ہیں ۔ یہ اہداف یقیناً حاصل کرنے کے لائق ہیں۔ لیکن یہ بھی خیال ہے کہ صدرنے امریکی خواب کے حصول کی راہ میں ایک روکاوٹ کو نظر انداز کر دیا ہے یعنی قوم کے ذمّے وہ بھار ی قرضہ جس کی ادائیگی کے لئے ہر گھرانے کے ذمّے چار ہزار دوسو ہے۔’واشنگٹن پوسٹ‘ نے مالداروں پرٹیکس بڑھانے کی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاہے کہ صدر نے نہ صرف ارب پتیوںپر بلکہ دس لاکھ ڈالر سالانہ کمانے والوںپر کم از کم 30 فی صد ٹیکس لگانے کی تجویز کی ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ خارجہ پالیسی میں ان کی انتخابی مہم کے دوران دو کارناموں پرمرکوز رہے گی ۔ ایک تو عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی اور دوسرے اوسامہ بن لادن کی ہلاکت ۔صدر نے عہد کیا کہ امریکی دفاعی بجٹ میں 5 کھرب ڈالر کی کٹوتی کرنے کے باوجود امریکہ ایک ایسا ملک بنا رہے گے جس کے بغیر دنیا کا کاروبار نہیں چل سکتا ۔صدر نے خارجہ امور کی وضاحت میں عراق کے ساتھ مستقبل میں امریکہ کے تعلقات پر کچھ نہیں کہا اور اخبار کہتا ہے کہ امریکی فوجوں کے انخلاءکے بعد عراق پھر سے اندرونی خلفشار کی طرف جا رہا ہے۔نیو یارک ٹائمز نے صدر اوباما کے دفاعی بجٹ میں بھاری کٹوتی سے ہونے والی بچت کی رقم عوامی بہبود کے کاموں پر خرچ کرنے کے خیال کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے۔ کہ اس کی مدد سے لاکھوں لوگوں کو روزگار میسّر آئے گا۔مسٹر اوباما بنکوں اور کانگریس پر زور دیتے آئے ہیں کہ قرض لینے کی شرائط نرم کی جائیں اور بنک کاروں کے ان ہتھکنڈوں کی تفتیش کرائی جائے جن کی وجہ سے مالیاتی بحران پیدا ہوا تھا۔ انہوں نے بش دور کی ٹیکسوں کی مراعات ختم کرنے کی بھی وکالت کی۔ ’نیو یارک ٹائمز‘ مسٹر اوباما کی اس تجویز کی بھی حمایت کی کہ مالدار لوگوں کی ٹیکس کی شرح کم ازکم 30 فی صد ہو اور وہ کسی صورت متوسط طبقے کی ٹیکس کی شرح سے کم نہ ہو۔اے پی ایس