جرم اور تفتیش: خرم رسول فراڈ کیس۔چودھری احسن پر یمی



فراڈ کیس میں گرفتار خرم رسول نے سپریم کورٹ کو بتایاہے کہ وہ وزیراعظم کا میڈیا ایڈوائزر رہا ،گزشتہ شب خود گرفتاری دی، چیف جسٹس افتخارچودھری نے ریمارکس میں کہاہے کہ کیس بہت ہائی پروفائل بن گیا ، بہت حساس معاملات اٹھیں گے، کسی دوسرے ادارے کو بھی تفتیش میں شامل کیا جانا چاہیے. چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے خرم رسول کے خلاف پٹرولیم اور ایل پی جی کوٹہ دینے میں کروڑوں روپے کے فراڈ کیس کی سماعت کی، ایف آئی اے نے خرم رسول کو ہتھکڑی لگاکر پیش کیا تو عدالت نے اسکے طریقہ کار پر برہمی کا اظہارکیا ، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ کیا ڈرامہ ہے، یہ باہر گھومتا رہا، یہاں ہتھکڑی لگادی، خرم رسول نے بیان دیاکہ وہ وزیراعظم کا میڈیا کوآرڈینیٹر رہا ، مخالف درخواست گزار کے ساتھ دس گیارہ کروڑ کا مسئلہ رہ گیا ہے، وہ اسے اور اسکے اہلخانہ کو دھمکیاں دے رہے ہیں، انہوں نے وز?راعظم کو بھی غلط طور پر ملوث کیا، عدالت پر اعتماد ہے اس لئے خود کو ایف آئی اے کے حوالے کیا، ایف آئی اے کے وکیل نے کہاکہ خرم رسول کبھی بھی وزیراعظم کا ایڈوائزر نہیں رہا، ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہاکہ خرم رسول کو 6 کروڑ 76 لاکھ روپے کے ایک اور فراڈ کیس میں تعاقب کرکے گرفتار کیا گیا،چیف جسٹس نے کہاکہ خرم رسول کا دفعہ 164 کے تحت بیان لینا چاہیئے تھا،کیس کی سمجھ آہستہ آہستہ آئے گی کہ آخر ہوا کیا ہے، عدالت نے آرڈر میں لکھا کہ عدالت? احکامات کے باوجود خرم رسول کو گرفتار نہ کیا جاسکا،گرفتاری کا کریڈٹ ، ایف آئی اے یا اسکے ڈی جی کو نہیں جاتا، ڈی جی ایف آئی اے کے خلاف عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے کے معاملہ کی سماعت 10 فروری کو ہوگی۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے سابق میڈیاکوآرڈینیٹرخرم رسول نے ایف آئی اے کوگرفتاری دے دی خرم رسول نے میڈیا کو بتایاہے کہ میں پی ٹی وی کامیڈیاکوآرڈینیٹر تھا،یہ سارے معاملات میڈیاکوآرڈینیٹربننے سے پہلے کے ہیں ، میراوزیراعظم کے ساتھ اس کیس کے بعد کوئی رابط نہیں ہوا، ان کاکہناتھا کہ دھمکیوں کے باعث میں اپنی جان بچاتا پھررہاتھا،مجھے اورمیرے بچوں کوقتل کی دھمکیاں دی گئیں ،میرے بچے ایک سال سے اسکول نہیں گئے، جن لوگوں نے مجھ پرالزام لگایاہے ان کاپس منظر بھی دیکھا جائے ،مجھ پرالزام تراشی کرنے والے ہیروئن کے کیس میں پکڑے جاچکے ہیں اوراپنے پارٹنرزپربھی الزامات لگاچکے ہیں ،خرم رسول نے مزیدبتایاہے کہ انہوں نے سیکریٹری کابینہ نرگس سیٹھی سے انصاف دلانے کاکہاتھا ،انہیں سپریم کورٹ پرمکمل اعتمادہے،ان کاکہناتھا کہ میڈیاکوآرڈینیٹر بننے کے بعدمیں نے 35لاکھ کی ادائیگیاں کیں،6،7 کروڑ کی ادائیگیاں باقی تھیں جنہیں بڑھاچڑھاکر پیش کیا گیا،مجھ سے زبردستی چیکوں پردستخط کرائے گئے۔جبکہ اس سے دو روز قبل احتساب عدالت نمبر 3 راولپنڈی کے جج جہانداد خان بانٹھ نے بینک فراڈ ریفرنس میں وزیراعظم گیلانی کے سابق میڈیا کوآرڈی نیٹر میاں خرم رسول کو عدالت پیش نہ ہونے پر3 سال قید کی سزا کا حکم سنا دیا جبکہ شریک ملزمان حسنین حیدر‘ ریحان شیخ ‘ ممتاز ناصر اور طارق بٹ کو جرم ثابت ہونے پر 4‘4 سال قید اور ہر ایک کو 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ ریفرنس کے مرکزی ملزم میاں خرم رسول پر الزام تھا کہ اس نے نجی بینک سے شریک سید حسنین حیدر ‘ریحان شیخ‘ ممتاز ناصر اور طارق بٹ کی مدد سے جعلی کاغذات پر 70 ملین روپے کا قرضہ لیا تھا‘ ملزمان کے خلاف 2009 میں ریفرنس دائر کیا گیا تھا جبکہ 28اپریل کو عدالت نے ملزم کو اشتہاری قرار دیا تھا۔ گزشتہ روز فاضل جج نے بار بار طلب کرنے کے باوجود عدالت حاضر نہ ہونے پر نیب آرڈیننس کی دفعہ 31-A کے تحت اشتہاری ملزم میاں خرم رسول کو 3 سال قید (in absentia) کی سزا کا حکم سنا دیا‘ جبکہ شریک ملزمان کو 4‘4 سال قید5 لاکھ جرمانہ اور عدم ادائیگی پر مزید6ماہ قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔ میاں خرم رسول کے وکیل قوسین مفتی نے بتایا کہ اس کے موکل نے 63 ملین روپے جمع کرا دئیے ہیں جبکہ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل کرینگے۔ میاں خرم رسول کو کسی بھی سرکاری یا عوامی عہدے کیلئے نا اہل قرار دینے کے ساتھ 10سال تک کسی بھی قومی بینک یا مالیاتی ادارے سے قرضہ لینے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ جبکہ وزیراعظم کے سابق میڈیا کوآرڈی نیٹر خرم رسول نے کراچی میں بھی ایک بڑے تجارتی گروپ کے ساتھ10 کروڑ روپے کا فراڈ کیا، ملزم خرم رسول نے مدعی ہوم کرافٹ کے مالک 80 سالہ حاجی عبدالحمید، ان کے بیٹوں اور کمپنی کے دیگر ڈائریکٹرز کو مختلف مدات میں کروڑوں روپے مالیت کے9 چیک دیئے جو تمام کے تمام ڈس آنر ہوگئے۔ ملزم نے گھانا (ساو ¿تھ افریقا) سے بحری جہازوں کا اسکریپ منگوانے کا مذکورہ فرم کے ساتھ2008ءمیں تحریری معاہدہ کیا اس دوران ملزم وزیراعظم کا میڈیا ایڈوائزر اور ان کا قریبی دوست ہونے کا بھی دعویٰ کرتا رہا بلکہ2011ءمیں خرم رسول مدعی فرم کے ایک ڈائریکٹر میاں حمودالرحمن کو دباو ¿ میں لانے اور ان کی جانب سے کسی قانونی کارروائی سے انہیں روکنے کے لئے وزیراعظم ہاو ¿س میں لے گیا۔ حمود الرحمن نے بھی میڈیا کو بتایا ہے کہ ملزم اس دوران اس کی آنکھوں کے سامنے وزیراعظم کے ساتھ وزیراعظم ہاوس کے لان میں ایک گھنٹے تک واک کرتا رہا اور وزیراعظم سے مسلسل سرگوشیاں کرتا رہا جس سے مدعیان کو یہ یقین ہوگیا کہ خرم رسول وزیراعظم کے بہت زیادہ قریب ہے اس لئے اس کے خلاف ایف آئی اے یا کوئی اور ادارہ کارروائی کی جرات نہیں کر سکتا یہی وجہ ہے کہ مدعیان مسلسل کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح ملزم خرم رسول کو اخلاقی طور پر مجبور کیا جائے اور اس کی قسمیں، وعدے اور تحریری معاہدے کے علاوہ واپس ہونے والے مختلف بینکوں کے چیکوں کا حوالہ دے کر احساس دلائیں کہ وہ ان کے پیسے واپس کر دے۔ ملزم خرم رسول اس دوران حاجی عبدالحمید، ان کے بیٹوں اور پارٹنرز کو مسلسل یقین دہانیاں کراتا رہا کہ وہ ان کی رقم واپس کر دے گا اور وہ بددیانت نہیں ہے۔ کراچی چیمبر کے سینئر ممبر حاجی عبدالحمید کی جانب سے چیمبر کے قائم مقام صدر محمد سعید شفیق نے30 مئی2010ءکو وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک اور ایف آئی اے کراچی کے ڈپٹی ڈائریکٹر الطاف کو متعدد خطوط لکھ کر ملزم کی جانب سے ان کے ایک سینئر ممبر کے ساتھ فراڈ کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ملزم کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا مگر ڈیڑھ سال گزر جانے کے باوجود ملزم کے خلاف ایف آئی اے نے کوئی کارروائی نہیں کی اس دوران چیمبر کے بااثر رکن حاجی سراج قاسم تیلی نے بھی وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک سے بالمشافہ ملاقات کر کے انہیں حاجی عبدالحمید کے ساتھ خرم رسول کے فراڈ کی تفصیلات سے آگاہ کیا تو رحمن ملک نے ایف آئی اے کو اپنی سفارش کے ساتھ درخواست بھیج دی مگر اس کے باوجود چند روز قبل ایف آئی اے کے تحقیقاتی انسپکٹر نبیل محمود نے انہیں بلا کر کہا کہ ان کے دعوو ¿ں کے مطابق ملزم کے خلاف کوئی کیس نہیں بنتا اس لئے وہ ایف آئی آر درج نہیں کریں گے۔ انسپکٹر نے الٹا مدعیان کو دھمکیاں دیں اور کہا کہ اگر وہ اس کے خلاف شکایت کرنا چاہیں تو رحمن ملک سمیت کسی کو بھی کر سکتے ہیں، وہ ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔ حاجی عبدالحمید نے انتہائی دکھی لہجے میں بتایا کہ ملزم نے اسکریپ منگوانے کے لئے ان سے بینک اسلامی کھارادر برانچ میں باقاعدہ ساڑھے3 کروڑ کی ایل سی کھلوائی اور اس ایل سی کے توسط سے3 شپمنٹس گھانا سے کراچی بھیجیں پہلی شپمنٹ17 نومبر 2008ءکو، دوسری27 نومبر2008ءاور تیسری شپمنٹ یکم دسمبر2008ءکو کراچی بھیجی مگر دستاویزات کی جعلی نقول تیار کر کے مارسک شپنگ کمپنی کے گوداموں سے مال دوسری پارٹیوں کو بیچ دیا اور اس طرح ملزم ان کے ساتھ مسلسل کئی ماہ تک دھوکے کرتا رہا۔ جب کہ اس دوران خرم رسول گھانا میں قیام پذیر رہا جس کی تصدیق کرنے کے لئے حاجی عبدالحمید نے اپنے پارٹنرز کو گھانا بھیجا جو اس سے مل کر آئے اور اس کا وہاں کاروباری دفتر بھی دیکھا جس کے بعد انہیں ملزم کی باتوں پر یقین آ گیا اور اسی لئے ملزم گھانا سے انہیں مختلف اوقات میں فرمائشیں کر کے رقوم منگواتا رہا جو ویسٹرن یونین ایکسچینج کمپنی کے ذریعے حاجی عبدالحمید بھیجتے رہے جس کے تمام دستاویزی ثبوت میڈیا کو فراہم کئے گئے ہیں۔ اس دوران ملزم خرم رسول اپنے مختلف دوستوں اور کاروباری پارٹنرز کو بھی حاجی عبدالحمید سے رقوم دلواتا رہا۔ 4 کروڑ 94 لاکھ 68 ہزار 65 روپے ملزم نے وصول کئے۔ حاجی عبدالحمید اور ان کی کمپنی کے دیگر ڈائریکٹرز نے خرم رسول، بینک اسلامی اور مارسک پاکستان کے خلاف عدالت عالیہ سندھ میں بھی مقدمہ
دائر کیا ہے جس میں انہوں نے عدالت عالیہ سے ان کی رقم واپس دلانے کی استدعا کی ہے۔اے پی ایس