طالبان سے امریکی مذاکرات۔چودھری احسن پریمی



امریکی حکام اور طالبان کے مذاکرات کاروں کے درمیان عرب ملک قطر میں ملاقاتوں کا آغاز ہوگیا ہے جہاں وہ اعتماد سازی کے ابتدائی مراحل اور قیدیوں کی ممکنہ منتقلی جیسے امور پر بات کررہے ہیں۔یہ بات امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے کئی سابق طالبان اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ طالبان کے چار سے آٹھ نمائندوں نے پاکستان سے ہوتے ہوئے قطر تک سفر کیا ہے جہاں وہ اپنا سیاسی دفتر قائم کریں گے۔اخبار لکھتا ہے کہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان یہ بات عام نہیں کرنا چاہتے کہ وہ افغانستان میں جنگ کے خاتمہ کے لیے مذاکرات سے منسلک ہیں تاہم وہ ان ابتدائی مذاکرات کے پیچھے ضرور ہیں۔امریکی حکام نے ان ملاقاتوں کے بارے میں تردید نہیں کی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان ابتدائی مذاکرات کو پاکستان کی خاموش منظوری بھی حاصل ہے۔افغانستان کی حکومت نے پہلے تو اپنے آپ کو مذاکرات کے اس عمل سے علٰیحدہ رکھے جانے پر برہمی کا اظہار کیا تھا تاہم اب اس نے بھی اصولی طور پر اس عمل کو تسلیم کرلیا ہے لیکن وہ براہِ راست اس میں شامل نہیں ہے۔سابق طالبان اہلکار گزشتہ ہفتہ کو کابل میں انٹرویو کے دوران انتہائی محتاط الفاظ کا استعمال کررہے تھے اور وہ ان مذاکرات کو ’امن مذاکرات‘ کہنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ابتدائی مذاکرات کے رکن اور طالبان دور کے سابق وزیر امربالمعروف و نہی عن المنکر، مولوی قلم الدین نے کہا ’اِس وقت کوئی امن مذاکرات نہیں ہورہے ہیں۔ ہاں ایک معاملہ پر بات ہورہی ہے اور وہ ہے گوانتانامو میں قید طالبان قیدیوں کی رہائی کی اور قطر میں فریقین کے درمیان اسی مسئلہ پر بات ہورہی ہے۔‘ان کے بقول ’ہم بھی چاہتے ہیں کہ یہ بات چیت مستحکم ہو تاکہ اعتماد کا ماحول پیدا ہوسکے جس سے مستقبل میں بھی مذاکرات میں مدد ملے۔ جبکہ امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا ہے کہ اوباما انتظامیہ کے پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی مارک گراسمین نے افغانستان سے متعلق معاملات پر گزشتہ ہفتے اپنے قطر کے دورے کے دوران ’کئی ملاقاتیں‘ کی ہیں۔قطر میں اپنا دفتر قائم کرنے سے متعلق طالبان کے حالیہ بیان نے افغانستان میں چند فریق اور امریکی پالیسی سازوں میں بے چینی پیدا کردی تھی جن کا کہنا تھا کہ شدت پسند مذاکرات کے بہانے جواز تلاش کررہے ہیں جبکہ وہ افغانستان میں اسلامی ریاست کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھ سکتے ہیں۔گزشتہ ہفتے مارک گراسمین نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ حقیقی امن مذاکرات اسی صورت شروع ہوسکتے ہیں جب طالبان عالمی دہشت گردی کو ترک کریں اور مسلح تصادم کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات کی حمایت کریں۔ان کے بقول قطر اور افغانستان کی حکومتوں کو ایک ایسے معاہدے تک پہنچنا ہوگا جس کے تحت طالبان ایک دفتر قائم کر سکیں۔ مارک گراسمین افغانستان کی حکومت کو اس بارے میں مسلسل آگاہ رکھے ہوئے ہیں تاہم افغان حکام کو شکایت ہے کہ انہیں اس عمل سے الگ تھلک رکھا جارہا ہے۔نیویارک ٹائمز نے مولوی قلم الدین اور طالبان دور کے وزیرِتعلیم ارسلا رحمانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے سابق اہلکار اس وقت قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہیں جن میں طالبان کے رہنماءملا عمر کے سابق سیکریٹری سمیت طالبان دورِ حکومت کے سابق اہلکار بھی شامل ہیں۔طالبان کے سابق اہلکاروں کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی منتقلی کے بارے میں قطر میں ہونے والے مذاکرات میں کافی پیش رفت ہوچکی ہے۔ طالبان کے سابق ملٹری کمانڈر سید محمد اکبر آغا نے کہا ’پہلے پانچ طالبان قیدی دو مراحل میں منتقل کیے جائیں گے، پہلے دو اور پھر تین اور باقی بعد میں۔‘طالبان کے سابق اہلکاروں کا کہنا ہے کہ قطر میں جاری اِن ابتدائی مذاکرات میں چند ایسے طالبان کا نام نیٹو کی فہرست سے ہٹائے جانے پر بھی بات چیت ہورہی ہے جن کے لیے نیٹو نے ’قتل کرنے یا گرفتار کرنے‘ کے احکامات جاری کر رکھے ہیں۔گزشتہ ہفتے مارک گراسمین نے قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر کہا تھا کہ امریکہ نے اب تک اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ یہ مسئلہ امریکی قانون کا ہے اور ہمیں اپنے قانون کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا۔‘انہوں نے کہا کہ اوباما انتظامیہ اس معاملے کو کانگریس میں رکھے گی۔ ان کے بقول امریکی قانون کے تحت وزیرِ دفاع کو کانگریس کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ گوانتانامو کے کسی بھی قیدی کی کسی دوسرے ملک منتقلی ضروری تقاضے پورے کرے گی جس میں یہ بھی شامل ہے کہ جس ملک کو یہ قیدی منتقل کیا جائے گا وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ قیدی پر اس کا کنٹرول رہے گا اور وہ امریکہ کے لیے مستقبل میں خطرہ نہیں بنے گا۔پاکستان کا کردارارسلا رحمانی نے طالبان کے نمائندوں کو سفری دستاویز حاصل کرنے اور قطر کے لیے طیارے میں سوار ہونے کی اجازت دینے کے پاکستانی فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا۔ طالبان کے سابق اہلکار ایک عرصے سے یہ موقف اختیار کیے ہوئے تھے کہ پاکستان مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔مولوی قلم الدین نے کہا ’پاکستان نے یقیناً اس (عمل) کی مدد کی ہے اور کررہا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان نے ان ابتدائی مذاکرات کی منظوری نہ دی ہوتی تو اپنے ملک سے قطر کے لیے روانہ ہونے والے طالبان کے نمائندوں کو گرفتار کرلیتا جیسا کہ اس نے طالبان کے سینئیر رہنماءملا برادر کے ساتھ اس وقت کیا تھا جب انہوں نے سنہ دو ہزار دس میں افغانستان کی حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات شروع کیے تھے۔جبکہ اخبار ’وال اسٹریٹ‘ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ طالبا ن جب افغانستان پر حکمرانی کر رہے تھے تو جس وجہ سے پوری دنیا میں ا ±ن پر تنقید ہوتی تھی وہ تھی خواتین پر لگائے جانے والی پابندیاں۔اب جب کہ امریکی حکومت کے طالبان سےامن مذاکرات جاری ہیں تو ایک سوال جو سب کے ذہنوں میں ا ±بھر رہا ہے وہ یہ کہ کیا اِس دفعہ حکومت میں آنے کے بعد طالبان کسی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے؟مضمون نگار کے مطابق امریکی فوج کے افغانستان میں ایک اعلیٰ کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل کرٹس کیراپروتی کا کہنا ہے کہ ا ±نھیں ایسے اشارے مل رہے ہیں جِن سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان اب کی بار اگر حکومت میں آگئے تو وہ خواتین اور معاشرے میں ا ±ن کے مقام کے بارے میں اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں گے۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا بھی کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر تحریک کی سوچ میں پختگی آتی ہے۔ ا ±نھوں نے کہا کہ گذشتہ دورِ حکومت میں طالبان نے کچھ فیصلے جلد باری میں کیے اور اِن کے بارے میں زیادہ سوچ بچار نہیں کی گئی تھی۔تاہم، طالبان مخالفین کا کہنا ہے کہ میانہ روی اختیار کرنے کی باتیں محض دھوکہ ہیں اور طالبان کی حالیہ نسل پہلے سے زیادہ شدت پسند ہے اور خودکش حملے، جِن کا 1990ءکی دہائی میں کوئی وجود نہیں تھا، اب آئے دِن ہورہے ہیں اور اِن میں عام شہری بھی ہلاک ہو رہے ہیں۔افغان حکومت کے ارکان اور مغربی حکام البتہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ تعلیم کے بارے میں ان کے رویے میں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔مزاحمت کے شروع کے سالوں میں طالبان نے ملک بھر میں اسکولوں کو بم حملوں کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے جنوب اور مشرق میں رہنے والے زیادہ تر بچے اور نوجوان تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اِن علاقوں کے رہنے والے پشتون نوجوان ملازمتیں حاصل کرنے میں ناکام رہے اور زیادہ تر نوکریاں ہزارہ اور دوسرے لسانی گروہوں کے نوجونوں کو ملیں، کیونکہ وہ تعلیم یافتہ تھے۔افغانستان کے وزیرِ تعلیم فاروق وردگ کا کہنا ہے کہ ان کے اپنے لوگوں نے جب یہ صورتِ حال طالبان تک پہنچائی تو ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور انھوں نے حملے کرنا بند کردیے۔وزیرِ تعلیم کے مطابق، سیکورٹی کے خدشات کی وجہ سے ان علاقوں میں جو 600اسکول بند کردیے گئے تھے وہ پچھلے تین سالوں میں کھول دیے گئے ہیں۔اخبار نے ایک اور مثال مولوی قلم الدین کی دی ہے جو طالبان کے دور میں’ امر بالمعروف و نھی عن المنکر ‘ کمیٹی کے سربراہ تھے، جس نے لڑکیوں کے تمام اسکول بند کردیے تھے اور مردوں کو داڑھی نہ رکھنے پر گرفتار کیا۔اب وہی مولوی قلم الدین اپنے صوبے لوگر میں اسکولوں کا ایک نیٹ ورک چلا رہے ہیں جِن میں ہزاروں لڑکیوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ تعلیم عورتوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی مردوں کے لیے ہے اور یہ کہ اسلام نے مرد اور عورتوں دونوں پر نماز پڑھنا، روزہ رکھنا اور تعلیم حاصل کرنا فرض کیا ہے۔طالبان کی جانب سے خلیجی ریاست قطر میں اپنا سیاسی دفتر کھولنے سے متعلق خبروں کی تصدیق کے بعد ان قیاس آرائیوں میں شدت
آگئی ہے کہ افغانستان کی جنگ کے سیاسی حل کے لیے فریقین کے مابین ہونے والی گفتگو کس حد تک کامیاب رہے گی۔یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز پر ایک بیان میں طالبان قیادت نے قطر میں اپنا دفتر کھولنے سے متعلق ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کی تصدیق کی تھی۔تاہم تجزیہ کاروں کی اکثریت طالبان کے سیاسی دفتر کی موجودگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مذاکرات سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرنے کے حق میں نہیں ہے۔امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ نہ صرف طالبان کے ساتھ سیاسی دفتر کھولنے کے بارے میں بات چیت کر رہا ہے بلکہ اس کی جانب سے افغان صدر حامد کرزئی کو بھی اس پیش رفت پر قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔امریکہ نے 2014ءتک افغانستان سے اپنی افواج واپس بلانے کا ہدف طے کر رکھا ہے تاہم اس حکمتِ عملی کی بنیاد یہ گمان ہے کہ تب تک افغان افواج اور پولیس داخلی سلامتی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوچکی ہوں گی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ قطر میں طالبان کے دفتر کی موجودگی سے امریکہ کو طالبان قیادت کے ساتھ ایک غیرجانب دار علاقے میں کھل کر مذاکرات کرنے کا موقع میسر آئے گا۔صدر کرزئی نے طالبان کی جانب سے قطر میں دفتر کھولنے کے انتظام پر اتفاق ظاہر کیا ہے تاہم ساتھ ہی ساتھ ان کایہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ دفتر ترکی یا سعودی عرب میں ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔اس بارے میں بھی کئی خدشات پائے جاتے ہیں کہ طالبان قیادت درحقیقت افغان مسئلے کے کسی ایسے سیاسی حل کی تلاش میں سنجیدہ نہیں جس کے ذریعے شراکتِ اقتدار یا سرکاری وزارتوں کی تقسیم کا کوئی فارمولا وضع کیا جاسکے۔طالبان نے مذاکرات پر آمادگی کے اپنے بیان میں پڑوسی ملک پاکستان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جو خود کو افغانستان کے مسئلے کا ایک اہم فریق تصور کرتا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان ابتدا ہی سے امریکہ کا اتحادی رہا ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج حائل رہی ہے۔امریکہ پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی کرنے اور انہیں افغانستان میں سیاسی اور معاشی اثر و رسوخ بڑھانے کی بھارتی کوششوں کے خلاف استعمال کرنے کے الزامات عائد کرتا آیا ہے۔ حالیہ کچھ ماہ کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات مزید ابتر ہوئے ہیں۔'یو ایس آرمی وار کالج' کے پروفیسر لیری گڈسن کا کہنا ہے۔ کہ طالبان کرزئی حکومت کو قانونی جواز سے محروم سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں طالبان کی جانب سے اپنا رابطہ دفتر کھولنے کا فیصلہ محض وقت گزاری ہے تاکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے انخلا تک کچھ مہلت حاصل کی جائے۔افغان طالبان نے قطر میں اپنا ایک دفتر کھولنے اور امکانی امن مذاکرات کا جو اعلان کیاہے۔ اس پر نیو یارک ٹایمز ایک اداریے میں کہتا ہے۔ کہ یہ اس بات کا متقاضی ہے۔ کہ اس پر نہ صرف قریب سے غور کیا جائےَ ۔ بلکہ اس کو شک کی نگاہ سے بھی دیکھا جائے۔اخبار کہتا ہے یہ نہ بھولنا چاہئے کہ یہ جنگجو ¿وں کی وہی تنظیم ہے ۔ جس نے افغانستان پر ازمنہء وسطیٰ کے دور کی ایسی بربریت کے ساتھ حکومت کی۔ جس میں خواتین کو تعلیم اور طبی نگہداشت سے محروم رکھا گیا۔ یہ وہی تنظیم ہے۔جس نے ستمبر 2001 سے پہلے القاعدہ کو پناہ دی تھی۔ اور جو ابھی تک نیٹو فوجیوں کو ہلاک کر رہی ہے ۔ افغان عوام میں دہشت پھیلا رہی ہے اورانہیں ہلاک کر رہی ہے۔ لیکن اگر ایک ایسے سیاسی تصفیے کی موہوم سی بھی امید ہو ، جس کے بعد طالبان کے ظلم و بربریت کا دوبارہ دور دورہ نہ ہو۔ تو اس پر غور ہونا چاہئے۔اخبار کہتا ہے کہ طالبان نے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کی خواہش ظاہر کی ہے لیکن کابل کے ساتھ نہیں۔اس پر اخبار کہتا ہے۔ کہ افغانوں کی شرکت کے بغیر کوئی مذاکرات ہو ہی نہیں سکتے اور اس نے اوبامہ انظامیہ کو مشورہ دیا ہے کہ ایک بین الاقوامی ثالث کا تقرّر کیا جائے۔ تاکہ افغانستان کے امور میں مداخلت کرنے والے ملکوں سمیت وسیع پیمانے پر ملکوں کو مذاکرات کی میز پر جمع کیا جائے۔امریکی انتظامیہ کئی مہینوں سے مذاکرات میں اپنی دلچسپی کا اشارے دیتی آئی ہے ۔اور یہ بات ناقابل فہم ہے۔ کہ طالبان نے جواب دینے کے لئے موجودہ وقت کیوں چ ±نا۔ اس کی وجہ اخبار کے خیال میں یہ ہوسکتی ہے۔ کہ امریکی اور نیٹوفوجی کاروائی کی وجہ سے ان پرسخت دباو ¿ ہے ۔یا پھریہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ طالبان کو یہ امید ہے کہ وہ ان مذاکرات کو اپنی شرایط پر امریکی فوجوں کی جلد واپسی مجبور کرنےکے لئے استعمال کرسکیں گے۔ اخبار نے واشنگٹن پر زور دیاہے کہ اس کے اس اصرار میں سرِِ مو فرق نہیں آنا چاہئے۔ کہ طالبان القاعدہ کے ساتھ مکمّل قطع تعلّق کریں گے ، تشدّد سے توبہ کریں گے۔ اور افغان آئین اور تمام افغانوں کے سیاسی اور انسانی حقوق کا احترام کریں گے ۔اور بہت سی تصفیہ طلب باتوں میں ایک یہ ہے کہ آیا دوسری تنظیمیں خاص طور پر حقّانی گروپ مذاکرات کی میز پر آئیں گے اور آیا ان کے بغیر امن معاہدہ ہو سکے گا۔ اور آیا ا ±ن کے پاکستانی مربّیوں کو سنجیدہ مذاکرات کے لئے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔اخبار کہتا ہے کہ اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر واشنگٹن طالبان کی اس درخواست پر غور کر رہا ہے۔ کہ گوان ٹانمو کے قید خانے سے طالبان قیدیوں کو یا تو افغانستان کی قید میں یا پھر قطر منتقل کیا جائے۔ اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ نے جو عہدکر رکھاہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا بیشتر حصہ 2014 کے آخر تک نکال لیا جائے گا۔ اس کا حصول طالبان کے ساتھ ایک سیاسی معاہدے کی صورت میں زیادہ آسان ہوگا۔ لیکن اس سے یہ بات یقینی ہو جانی چاہئے، کہ افغانستان امریکہ پر مزید حملے کرنے کا اڈّہ نہیں بنے گا۔ اور نہ دوبارہ طالباں ظلم و بربریت کی آماجگاہ بنے گا۔اسی موضوع پر اخبار بالٹی مور سن کہتا ہے ۔کہ طالبان نے قطر میں اپنا دفتر کھولنے کا جو اعلان کیا ہے۔ اسے امن مذاکرات کی طرف پہلے قدم کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔ جس کا مقصد طالبان اور حامد کرزئی کی حکومت کے مابین مصالحت کرانا ہے۔ اور جس کی عرصے سے کوشش جاری تھی۔ مذاکرات کی یہ سنجیدہ پیش کش طالبان کے کسی قسم کی بات چیت نہ کرنے کے سابقہ طرزعمل کے بالکل برعکس ہے۔اخبار نے امریکہ اور اس کے افغان اتحادی کواحتیاط برتنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ ماضی میں امن کی ایسی کوششیں لا حاصل ثابت ہوئی ہیں۔اس میں سب سے المناک ستمبر کا وہ واقعہ ہے جس میں ایک شخص نے اپنے آپ کو ملا عمر کا ایلچی ظاہر کرکے افغان امن کونسل کے سر براہ برہان الدین ربّانی کواپنی پگڑی میں چھپائے ہوئے بم سے قتل کر دیا تھا ۔اخبارنے امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان مذاکرات شروع کرنے کے عوض یہ توقع کرتے ہیں کہ افغان اور نیٹو افواج کی تحویل میں سینکڑوں طالبان قیدیوں کو پہلے رہا کر دیا جائے گا، اگرچہ اس تنظیم نے ابھی تک اپنے مطالبات کی فہرست جاری نہیں کی ہے ۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایسے خطرناک قیدیوں کو چھوڑنے میں مضمر خطروں کو ذہن میں رکھنا پڑے گا۔ جو دوبارہ میدان جنگ میں کود سکتے ہیں۔ طالبان سے یہ وعدہ لینا پڑے گا۔ کہ وہ تشدد سے دست بردار ہو گئے ہیں۔ اور وہ جمہوری عمل میں شریک ہو کر عورتوں کے حقوق اور دوسرے مذہبی اور نسلی حقوق کا احترام کریں گے۔اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کو یہ احتیاط برتنی پڑے گی، کہ طالبان کی یہ تجویز کہیں اپنے قیدی چھڑانے کی کوئی نئی چال تو نہیں ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ طالبان بات چیت ’ایک مثبت قدم ہے‘، جِس کے’ امید افزا نتائج‘ برآمد ہوں گے۔ انھوں نے اِس امید کا اظہار کیا کہ جونہی باضابطہ مذاکرات طے ہوں گے، امریکہ چاہے گا کہ افغانستان اور پاکستان کو بھی بات چیت میں شامل کیا جائے۔ سابق افغان صدارتی امیدوار اورافغان امور کے ماہر، سرور احمد زئی کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکمت عملی میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے۔ ’ وہ اِس بات پر رضامند ہوگئے ہیں کہ قطر میں اپنا دفتر کھولیں اور بات چیت کے لیے اپنے نمائندے بھیجیں‘۔انھوں نے کہا کہ امریکہ طالبان بات چیت میں پیش رفت یقینی ہے، اور یہ کہ اِس کام میں کئی سال نہیں لگیں گے۔ ان کے بقول، سال بھر میں اِس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔یہ معلوم کرنے پر کہ اخباری اطلاعات کے مطابق طالبان امریکہ سے بات چیت پرتوتیار ہیں لیکن افغان حکومت سے نہیں، ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی لڑائی بنیادی طور پر امریکہ سے ہے، اور یہ کہ وہ کئی قسم کی گارنٹی چاہتے ہیں جو انھیں امریکہ ہی دے سکتا ہے۔ ’مثلاً، ان کے تحفظ کی گارنٹی، حکومت میں شمولیت کی گارنٹی اور لیڈرشپ کو سیاسی پارٹی میں تبدیل کرنے کی گارنٹی، جو صرف امریکہ ہی دے سکتا ہے‘۔ان سے پوچھا گیا کہ اگر امریکہ اور طالبان میں کسی طرح کی کوئی مصالحت ہوجاتی ہے، تو کیا کابل میں کوئی وسیع تر حکومت قائم ہو سکتی
ہے، جس پر انھوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ سیاسی تصفیہ کرنے میں وقت لگے گا۔ ان کے بقول، افغانستان کے آئین کو تبدیل کرنا پڑے گا، افغانستان کی مختلف سیاسی جماعتوں اور سماجی گروپوں کو راضی کرنا پڑے گا، اور خطے کے ممالک کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔امریکی افواج کی افغانستان سے مرحلہ وار واپسی سے متعلق سوال پر سرور احمد زئی نے نومبر کے امریکی صدارتی انتخابات کا ذکر کیا اور کہا کہ جوں جوں امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہو رہا ہے، امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان کے ساتھ بھی سیاسی عمل میں پیش رفت ہو، جو، ان کے بقول، امریکہ کے لیے بھی ایک مثبت بات ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ بالآخرامن مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں اورجنگ کی خونریزیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔دس سال قبل امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج کے حملے کے بعد، پہلی بار طالبان نے یہ انکشاف کیا ہے کہ وہ امریکی عہدے داروں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں جن میں خلیجی ریاست قطر میں سیاسی امور کا ایک آفس کھولنے پرابتدائی سمجھوتہ ہو چکا ہے۔ طالبان نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے امریکہ سے اپنے ان ساتھیوں کی رہائی کے لیے کہا ہے جو گوانتانامو بے ، کیوبا میں قید ہیں ۔افغان صدر حامد کرزئی نے قطرمیں طالبان کا آفس کھولنے کے منصوبے اورطالبان کے ساتھ مذاکرات کی امریکی کوششوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں یہ پیش رفت افغانستان میں جنگ کو ختم کرنے اوربے گناہ لوگوں کی ہلاکتوں کو روک سکے گی۔ان خبروں پر ہمسایہ ملک پاکستان کا ردعمل محتاط ہے۔ پاکستانی عہدے داروں نے یہ بتانے سے گریزکیا کہ اسلام آباد قیامِ امن کی اس کوشش میں شریک ہے یا نہیں۔ البتہ وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے گفتگو میں اس موقف کو دہرایا ہے کہ ان کا ملک افغانستان کی قیادت میں کی جانے والی ایسی ہر کوشش کی حمایت کرے گا جس کا مقصد جنگ سے تباہ حال اس ملک میں سیاسی مصالحت کی راہ ہموار کرتا ہو ۔”اس علاقے میں استحکام پاکستان کے بنیادی مفادات کا حصہ ہے۔ علاقے میں استحکام نہ ہونے سے، پاکستان ایک طویل عرصے سے مصائب برداشت کرتا رہا ہے۔ لہٰذا، افغانستان میں مصالحت اورقومی استحکام کی ہر کوشش کا براہِ راست پاکستان پر مثبت اثر پڑے گا اور ظاہر ہے کہ ہم ایسی ہر کوشش کی حمایت کریں گے ۔مبصرین کا اصرار ہے کہ اسلام آباد کی شرکت کے بغیر، افغانستان میں امن کا جو بھی سمجھوتہ ہو گا، اس پر عمل در آمد مشکل ہو گا۔”کیونکہ پاکستان میں اب بھی بہت سے افغان پناہ گزیں موجود ہیں، اوربہت سے طالبان رہنما پاکستان میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کی پوزیشن بہت اہم ہوگی اورمجھے یقین ہے کہ کسی نہ کسی مرحلے پر پاکستان کو اس عمل میں شامل کرنا پڑے گا۔“امریکی عہدے داروں نے طالبان کے ساتھ اپنے مبینہ رابطوں پربراہ راست تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے، لیکن انھوں نے یہ عندیہ دیا ہے کہ اس سے تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں مدد ملے گی۔ تا ہم، اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر کیمرون منٹر نے اس تاثر کی نفی کی تھی کہ پاکستان کو تصفیے کے عمل سے باہررکھا جارہا ہے۔" دونوں ملک، پاکستان اور امریکہ، پر امن، کامیاب اورخوشحال افغانستان کے حصول کے عزم پر قائم ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہم نے مِل جل کر کام کرنے کا عزم کررکھا ہے۔ ہم نہ صرف آپس میں، بلکہ علاقے کے دوسرے شراکت داروں کے ساتھ تعاون کے عزم پر قائم ہیں تا کہ افغانستان کے بارے میں جو بھی سمجھوتہ ہو، وہ علاقے میں سب کے لیے اطمینان بخش ہو۔“ کمانڈر گلبدین حکمت یار کے افغان باغی گروپ، حزب اسلامی، کے نمائندے بھی گزشتہ ماہ صدر کرزئی، افغانستان میں نیٹوافواج کے کمانڈر، جنرل جان ایلن، اورکابل میں امریکی سفیر رائن کروکرسے ملنے کے لیے کابل گئے۔حکمت یار کے پاکستان میں مقیم داماد، ڈاکڑغیرت باحیرنے کابل جانے والے تین رکنی وفد کی قیادت کی۔ اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر غیر ملکی میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے ڈاکٹر باحیر نے امریکیوں کے ساتھ اپنے مذاکرات کو بے لاگ، مفصل، ابہام سے پاک اور مفید قرار دیا۔”میرے خیال میں امریکیوں کا رویہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ عملی اورحقیقت پسندانہ تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر امریکی 2014 کے آخر تک افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہیں، اوراگریہ موقف حتمی ہے تو(افغانستان کے) بقیہ مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔“امریکہ نے 2014 کے آخرتک اپنی تمام لڑاکا فوجیں افغانستان سے واپس بلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن بیشتر مبصرین کا خیال ہے کہ اس کے بعد بھی افغانستان کو مضبوط اورطویل المدتی بین الاقوامی حمایت درکارہوگی کیونکہ دوسری صورت میں طالبان سمیت مختلف افغان دھڑوں کے درمیان پائے جانے والے شدید اختلافات ملک کو ایک بار پھراسی قسم کی خانہ جنگی سے دوچار کرسکتے ہیں جس کا تجربہ افغانستان کو1990 کی دہائی میں سویت افواج کے انخلا کے بعد ہوا تھا۔اے پی ایس